What's new

Urdu & Hindi Poetry

آج اردو کے نامور شاعر مقرّر اور خطیب آغا شورشؔ کاشمیری کی برسی ہے


شورشؔ کاشمیری کی شاعری بڑی جاندار اور نثر اس سے بھی کاٹ دار تھی ، نظم اور نثر دونوں ولولے، طنطنے کے علاوہ انقلابیّت سے بھرپور ہے۔ مگر ان کی وجہء شہرت ان کی بے مثال خطابت تھی۔برّصغیر نے بڑے بلند پایہ مقرّر اور خطیب پیدا کیے ہیں۔ اردوخطابت کے حرفِ آخر کا نام سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ہے۔ شاہ جی کو اردو زبان کا سب سے بڑا خطیب ما نا جاتا ہے۔ خطابت کے اُسی قافلے کا آخری سالار آغا شورش کاشمیری تھا۔


ھمارے بعد کہاں یہ وفاکے ھنگامے
کوئی کہاں سے ھمارا جواب لائے گا




May be a black-and-white image of 1 person and beard
 
Great Faiz Ahmed Faiz in 40s with Alys Faiz, Nawabzada Mazhar A. Khan and Nadeem Qasmi


1635279506794.png


بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سےپہلے
بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!
 
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ، ہے مٹی کی مجبوری
 

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا​
 


مجھے 10 سال لگے یہ نظم لکھنے میں ــــ انور مسعود

آج بڑی دیر سے تو آیا ہے بشیریا
یہ تیرا گاؤں ہے قریب ہی سکول ہے
ہڈیاں تڑا کے ہی مجھ سے جائے گا
آیا ہے تو دو گھنٹیاں گزار کے
ماسٹر جی، پہلے ایک بات میری سن لو
اکرم نے تو آج اندھیرہی مچائی ہے
ماں کو وہ مارتا ہے اور سخت مارتا ہے
لیکن آج تو اس نے جیسے حد ہی کی ہے
مار مار ماں کو مدھانی توڑ دی ہے
لوگ جمع ہوئے تو وہاں سے بھاگ آیا ہے
کتابیں لے کر اپنی سکول چلا آیا ہے
ماں اس کی ماسٹر جی، گھر میرے آئی تھی
منہ پہ نیل اور سوجا ہوا ہاتھ تھا
آنسو تھے آنکھوں میں اور ہونٹوں پہ لہو تھا
کہنے لگی مجھ سے وہ، بیٹا بشیریا
میرا ایک کام بھی تو کر آج ہیریا
روٹی میرے اکرم کی لے جا مدرسے
آج پھر روٹھ کے گیا ہے وہ مجھ سے
گھی میں پراٹھے آج میں نے پکائے ہیں
اور بڑے شوق سے یہ حلوہ بنایا ہے
پوٹلی بنا کر میرے ہاتھ میں دی نے
بار بار کہتی تھی جلدی جاؤ بیٹا
بیٹا جلدی سے جانا، زیادہ دیر نہ لگانا
اس کی آنتیں سسک رہی ہوں گی
بہت بھوکا آج مدرسے گیا ہے
روٹی اس نے دی تو میں بھاگا چلا آیا ہوں
اکرم نے تو آج اندھیرہی مچائی ہے

انورمسعود





May be an image of 1 person




It is originally in Punjabi, will try to find the original.​
 
Last edited:


آج اُردو کے ممتاز شاعر جون ایلیا کی برسی ہے۔


جون ایلیا کا اصل نام سید جون اصغر تھا اور وہ 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے جبکہ اردو کے نامور دانشور سید محمد تقی اور اردو کے معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔ ممتاز ادیبہ اور معروف کالم نگار زاہدہ حنا اُن کی شریک حیات تھیں۔

اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پذیرائی نصیب ہوئی۔

جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "شاید" اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ "یعنی" ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان "گمان" 2004ء میں شائع ہوا۔ "لیکن" 2006ء، "گویا" 2008ء مختصر مضامین کا مجموعہ ’فرنود‘ 2012ء اس کے علاوہ راموز 2016ء بھی منظر عام پر آچکا ہے.

جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔
جون ایلیا تراجم، تدوین اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی مشغول رہے۔ لیکن ان کے تراجم اور نثری تحریریں آسانی سے دستیاب نہيں۔

جون ایلیا عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا۔ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں.
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کر سکيں۔

جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا ایک اپنے انداز کی ترقی پسند دانشور ہیں اور اب بھی دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔

جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کر دی۔
جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
جون ایلیا کی زندگی کو معاشرے، روایات، معیارات اور عام ڈگر سے کھلی عداوت و بغاوت سے عبارت کیا جاتا ہے۔ یہی بغاوت جون ایلیا کی شاعری کو دیگر شاعروں سے ممتاز و منفرد بناتی ہے۔ فلسفیانہ شک و سوالات، خدا سے تکرار، معاشرے سے عداوت، خود پر ناراض ہو جانا اور ناراض رہنا، عشق و محبت میں ناکامی و یاس کے ساتھ ساتھ غصہ و بیزاری جیسے عناصر نے جون کو اردو شاعری کے ان مکاتب میں شامل کر دیا، جو ان سے قبل چند ہی شعراء کے حصے میں آ پائے۔


اردو زبان پر جون ایلیا کی گرفت اور شاعری میں انتہائی سادہ الفاظ اور لفظوں کی تکرار سے ایک مشکل مضمون کو بیان کر دینا، بھی جون ایلیا کا ایک خاص وصف رہا ہے۔​


1636416086636.png
 

Pakistan Defence Latest Posts

Back
Top Bottom