What's new

Urdu & Hindi Poetry

1636482162082.png




1636482189359.png
 
.
Allama Iqbal in Bombay 1931.

1636483399842.png


وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گيا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئيل دے تو کہوں
ستارہ کيا مری تقدير کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک ميں ہے خوار و زبوں
حيات کيا ہے ، خيال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے انديشہ ہائے گونا گوں
عجب مزا ہے ، مجھے لذت خودی دے کر
وہ چاہتے ہيں کہ ميں اپنے آپ ميں نہ رہوں
ضمير پاک و نگاہ بلند و مستی شوق
نہ مال و دولت قاروں ، نہ فکر افلاطوں
سبق ملا ہے يہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشريت کی زد ميں ہے گردوں
يہ کائنات ابھی ناتمام ہے شايد
کہ آرہی ہے دما دم صدائے 'کن فيکوں'
علاج آتش رومی کے سوز ميں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگيوں کا فسوں
اسی کے فيض سے ميری نگاہ ہے روشن
اسی کے فيض سے ميرے سبو ميں ہے جيحوں​
 
. . .
1636489291731.png



A page from Allama Dr. Iqbal early note book, Poem "Bilaal", about Hazrat Bilaal e Habshi (Rz), written in May, 1910.

Courtesy : Munib Iqbal


اقبال! کس کے عشق کا يہ فيض عام ہے
رومی فنا ہوا ، حبشی کو دوام ہے
 
. .

ہمارا بھی ایک زمانہ تھا!
پانچویں جماعت تک ھم سلیٹ پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے ، یوں کیلشیم کی کمی کبھی ہوئی ہی نہیں ۔
پاس یا فیل ۔۔ صرف یہی معلوم تھا، کیونکہ فیصد سے ہم لا تعلق تھے۔
ٹیوشن شرمناک بات تھی، نالائق بچے استاد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان سمجھے جاتے۔
کتابوں میں مور کا پنکھ رکھنے سے ھم ذہین، ہوشیار ھو جاینگے، یہ ھمارا اعتقاد بھروسہ تھا۔
بیگ میں کتابیں سلیقہ سے رکھنا سگھڑ پن اور با صلاحیت ہونے کا ثبوت تھا۔
ہر سال نئی جماعت کی کتابوں اور کاپیوں پر کورز چڑھانا ایک سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔
والدین ہمارے تعلیم کے تیئں زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی، سالہا سال ہمارے والدین ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ ہم میں ذہانت جو تھی۔
اسکول میں مار کھاتے ہوئے یا مرغا بنے ہوئے ہمارے درمیاں کبھی انا (ego) بیچ میں آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا۔ انا کیا ہوتی ہے یہی معلوم نہ تھا۔ مار کھانا ہمارے روزمرہ زندگی کی عام سی بات تھی ، مارنے والا اور مار کھانے والا دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہوا کرتی تھی۔
ھم اپنے والدین سے کبھی نہ کھ سکے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے ۔ نہ باپ ھمیں کہتا تھا ۔ کیونکہ I love you کہنا تب رائج نہ تھا اور ہمیں معلوم بھی نہ تھا،
کیونکہ تب محبتیں زبان سے ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ ہوا کرتی تھیں،
رشتوں میں بھی کوئی لگی بندھی نہیں ہوا کرتی تھی، بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
سچائی یہی ھے کہ ھم ( ہماری عمر یا زائد عمر کے سبھی افراد) اپنی قسمت پر ہمیشہ راضی ہی رہے، ہمارا زمانہ خوش بختی کی علامت تھا ،
اسکا موازنہ آج کی زندگی سے کر ہی نہیں سکتے۔​
 
. . . .

شرح غم ہائے بے حساب ہوں میں
لکھنے بیٹھوں تو اک کتاب ہوں میں

میری بربادیوں پہ مت جاؤ
ان نگاہوں کا انتخاب ہوں میں

خواب تھا یا شباب تھا میرا
دو سوالوں کا اک جواب ہوں می

مدرسہ میرا میری ذات میں ہے

خود معلم ہوں خود کتاب ہوں میں

جی رہا ہوں اس آب و تاب کے ساتھ
کیسے آسودۂ شباب ہوں میں

ساقیؔامروہوی
 
. . .
, آج اس خوبصورت غزل کے خالق کی برسی ہے۔

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کی ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا​


اطہر نفیس کی اس غزل میں جو کیفیت موجود ہے اس کی تفسیر بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کے غزلیات میں کوئی مشکل لفظ
کم ہی آتا ہے۔ جو ترسیل میں دشواری پیدا کرے۔ اس لیے اطہر نفیس کا ہر شعر اپنی کیفیت خود بیان کر دیتا ہے۔
(اس غزل کو گا کر فریدہ خانم نے امر کر دیا)
اطہر نفیس جس دور میں شاعری کر رہے تھے اس زمانے میں کئی ایسے شعرا موجود تھے جو اپنے اسلوب کے لحاظ سے منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان میں فیض احمد فیض، منیر نیازی، حبیب جالب وغیرہ تھے تو ہم عصروں میں ابن انشا،مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی، اقبال ساجد اور عزیز حامدمدنی وغیرہ تھے۔ لیکن اطہر نفیس نے ان کے درمیان سے ایک نئی راہ نکالی۔ ان کے یہاں بہت سادگی ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام اہم گلوکاروں نے ان کی غزلوں کو اپنی آواز دی ہے۔ کیوں کہ یہ اشعار بہت آسانی سے سامعین کے ذہن میں اتر جاتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔
21نومبر سنہ 1980کو صرف 47سال کی عمر میں اطہر نفیس کا کراچی میں انتقال ہو گیا اور وہیں سخی حسن قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی



1637448253461.png
 
.

بیس نومبر: آج اردو کی ممتاز مصنفہ، مکالمہ نگار اور ڈراما نویس حسینہ معین کی سالگرہ ہے

حسینہ معین نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بہت سے یادگار ڈرامے لکھے، جیسے، شہزوری، زیر زبر پیش، انکل عرفی، ان کہی، تنہایاں، دھوپ کنارے، دھند، آہٹ، کہر، پڑوسی، آنسو، بندش، آئینہ جیسے مشہور ڈرامے شامل ہیں.....

1637449029435.png
 
.

Latest posts

Back
Top Bottom