What's new

Urdu & Hindi Poetry

بیس نومبر: شاعر انقلاب و رومان فیض احمد فیض کی آج برسی ہے
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گِلے شِکوے بھی کر لیتے مُناجاتوں کے بعد
اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

فیض احمد فیض​

1637451762994.png
 
.
, آج اس خوبصورت غزل کے خالق کی برسی ہے۔

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کی ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا​


اطہر نفیس کی اس غزل میں جو کیفیت موجود ہے اس کی تفسیر بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کے غزلیات میں کوئی مشکل لفظ
کم ہی آتا ہے۔ جو ترسیل میں دشواری پیدا کرے۔ اس لیے اطہر نفیس کا ہر شعر اپنی کیفیت خود بیان کر دیتا ہے۔
(اس غزل کو گا کر فریدہ خانم نے امر کر دیا)
اطہر نفیس جس دور میں شاعری کر رہے تھے اس زمانے میں کئی ایسے شعرا موجود تھے جو اپنے اسلوب کے لحاظ سے منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان میں فیض احمد فیض، منیر نیازی، حبیب جالب وغیرہ تھے تو ہم عصروں میں ابن انشا،مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی، اقبال ساجد اور عزیز حامدمدنی وغیرہ تھے۔ لیکن اطہر نفیس نے ان کے درمیان سے ایک نئی راہ نکالی۔ ان کے یہاں بہت سادگی ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام اہم گلوکاروں نے ان کی غزلوں کو اپنی آواز دی ہے۔ کیوں کہ یہ اشعار بہت آسانی سے سامعین کے ذہن میں اتر جاتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔
21نومبر سنہ 1980کو صرف 47سال کی عمر میں اطہر نفیس کا کراچی میں انتقال ہو گیا اور وہیں سخی حسن قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی



View attachment 795514
Original First PTV recording
 
.

سو رنگ ہے کس رنگ سے تصویر بناؤں
میرے تو کئی روپ ہیں کس روپ میں آؤں

کیوں آ کے ہر اک شخص مرے زخم کریدے

کیوں میں بھی ہر اک شخص کو حال اپنا سناؤں

کیوں لوگ مصر ہیں کہ سنیں میری کہانی
یہ حق مجھے حاصل ہے سناؤں کہ چھپاؤں


اس بزم میں اپنا تو شناسا نہیں کوئی
کیا کرب ہے تنہائی کا میں کس کو بتاؤں

کچھ اور تو حاصل نہ ہوا خوابوں سے مجھ کو
بس یہ ہے کہ یادوں کے در و بام سجاؤں

بے قیمت و بے مایہ اسی خاک میں یارو
وہ خاک بھی ہوگی جسے آنکھوں سے لگاؤں

کرنوں کی رفاقت کبھی آئے جو میسر
ہمراہ میں ان کے تری دہلیز پہ آؤں

خوابوں کے افق پر ترا چہرہ ہو ہمیشہ
اور میں اسی چہرے سے نئے خواب سجاؤں

رہ جائیں کسی طور میرے خواب سلامت
اس ایک دعا کے لیے اب ہاتھ اٹھاؤں
اطہر نفیس
 
. .
آج ممتاز شاعرہ، ادیبہ اور اردو لغت بورڈ کی سابق مدیر اعلیٰ محترمہ فہمیدہ ریاض کی تیسری برسی ہے۔


1637586326182.png
 
.
November 23, Death anniversary of Jamiluddin Aali

The prominent poet, critic, playwright, essayist, columnist, scholar and retired banker was known to younger generation for his immortal patriotic songs as 'jeevay jeevay Pakistan', 'aye watan kay sajeelay jawano', 'mera pegham Pakistan', 'hum ta ba abad saee-o-taghayyur kay wali hein' and 'itnay baray jeevan sagar main'.

Born on January 20, 1925, to Nawab Sir Amiruddin Ahmed Khan of Loharu, Jamiluddin Aali migrated to Karachi on August 13, 1947, with his wife Tayyaba and six-month-old daughter Humaira, through the last train from Delhi.

He was an assistant at the ministry of commerce at Delhi in British India. He later passed CSS exam and got posted as an income tax officer in Karachi in 1952.

In poetry, he had revived the classical form of doha and adapted it to Urdu, imparting a distinct South Asian Muslim cultural flavour to it while retaining its beauty. He has also written ghazals, poems, lyrical ballads or geets. His long poems reflect a unique discourse on great scientific and philosophical themes, blended with aesthetics.
In prose, Aali is known for his incisive and picturesque travelogues.

His newspaper columns, which he has been writing for a record 50 years, have played a significant role in awakening the people to the need for intellectual pursuits and mature thoughts on contemporary national and international issues.
Aalijee, as he was fondly called, initiated five annual literary awards during his tenure in the PWG, which continued for several years.

He also remained the chairman of the Urdu Dictionary Board for three years.

Under the aegis of the Anjuman, with which he remained associated as honorary secretary for 12 years, and honorary administrator for three years with the Federal Government Urdu College, which evolved into two prestigious institutions.

The Urdu Science College building was raised during Aalijee’s tenure. He was highly instrumental in the growth of the English-Urdu dictionary of Dr Moulvi Abdul Haq. Furthermore, he has also served for the expansion of the Urdu College into a Federal Government Urdu University and remained the deputy chair of its senate for three years.

Early last year, he gave the charge of honorary secretary of Anjuman-i-Taraqqi-i-Urdu to Dr Fatema Hasan after having served it for 62 years. He remained the executive honorary lifetime adviser of the Anjuman.

Jamiluddin Aali was the recipient of three awards from the government of Pakistan: President’s Pride of Performance Gold Medal in 1992; Hilal-i-Imtiaz (Urdu Literature) in 2003, and Kamal-i-Funn Award. He was awarded a DLitt by the University of Karachi in 2004.


May be an image of 1 person and monument
 
.

اج خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی سالگرہ ہے- برصغیر کی سب سے مقبول شاعرہ جس کی حساس اور محبت کے جذبہ سے معمور شاعری نے دنیائے اردو ادب کے نکھار کو چار چاند لگائے- ذیل میں ان کی ایک نطم نذر قارئین ہے:

پورا دکھ اور آدھا چاند
_______ _________________________

پورا دکھ اور آدھا چاند!
ہجر کی شب اور ایسا چاند!
دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہوئی اور نکلا چاند

کس مقتل سے گزرا ہو گا
اتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہاچاند

میری کروٹ پر جاگ اُٹھا
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے منہ کو حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند

اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہو گا چاند
آنسو روکے نو بہائے
دل دریا تن صحرا چاند

اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایہ چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
جانے کسی کو جھانکا چاند

بادل کے ریشم جھولے
بہت سمے تک سویا چاند
رات کے شانے پر سر رکھ کر
دیکھ رہا ہے سپنا چاند

سوکھے پتوں کے جھرمٹ میں
شبنم تھی یا ننھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہو گا
اس کی صورت ہجر کا چاند

صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچا چاند
رات کے شائد ایک بجے ہیں
سوتا ہو گا میرا چاند


1637772202841.png
 
. .
Birth anniversary of legendary poetess Parveen Shakir being observed


1637778129194.png



Web Desk
November 24, 2021


Legendary poetess Parveen Shakir remembered on her 69th birth anniversary being observed across the country on Wednesday.

Parveen Shakir was a legendary female poet who started poetry in her childhood. Parveen Shakir was the first female poetess who expressed emotions and feelings of a young girl in a realistic manner.

Spontaneity in expression was the hallmark of her poetry that mesmerized the youth a lot, especially girls.

Parveen Shakir started writing at a young age, penning both prose and poetry, and contributing columns in Urdu newspapers, and few articles in English newspapers.

She was highly educated with two Master’s degrees, one in English Literature and one in Linguistics. She also held a PhD and another Masters degree in Bank Administration.

Her work was often based on romanticism, exploring the concepts of love, beauty and their contradictions, and heavily integrated the use of metaphors, similes and personifications.

Her famous poetry books include Khushbu, Sad-Barg, Khud’kalaami and Inkar.

In 1976, Parveen Shakir published her first volume of poetry Khushbu (Fragrance) to great acclaim. She was awarded one of the highest honours of Pakistan the Pride of Performance for her outstanding contributions to literature.

She subsequently published other volumes of poetry including Sad-barg (Marsh Marigold) in 1980 Khud Kalami (Soliloquy) and Inkar (Denial) in 1990.

These poetry books are collected in Mah-e-Tamam (Full Moon). She also published a collection of her newspaper columns, titled Gosha-e-Chashm (Corner of the Eye), Kaf-e-Aina (The Mirrors Edge) was released posthumously with works from her diaries and journals.

On December 26, 1994, Shakir’s car collided with a bus while she was on her way to work in Islamabad.

The accident resulted in her death, a great loss to the Urdu poetry world. The road on which the accident took place is named after her.
 
.
میں اپنا عکس کسی اور شے میں دیکھونگا
کہ اءینے میں تو صورت پرانی لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ، بہت خوب
 
.
ابن انشا، قدرت اللہ شہاب، بانو قدسیہ اور اشفاق احمد​



1637967275388.png
 
.

دیوتا بقلم محی الدین نواب اردو ناولز کی دنیا کا سب سے طویل ناول مانا جاتا ہے۔
دیوتا محی الدین نواب کا تحریر کردہ ناول ہے جو اردو ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ میں 1977ء سے 2010ء تک بلا ناغہ شائع ہوتا رہا اور اردو ادب میں جاری رہنے والا سب سے طویل ترین ہے اس کے کل 56 حصے ہیں۔ یہ ناول فرہاد علی تیمور کی زندگی کے گرد گھومتا ہے جس کے والدین بچپن میں مر جاتے ہیں اور جائداد پر اس کے رشتہ دار قابض ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ فرہاد علی تیمور اپنی جائداد حاصل کرنے کے لیے ٹیلی پیتھی سیکھتا ہے۔
مین کردار ۔ فرہاد علی تیمور ایک ایسے شخص کی کہانی دیوتا میں بیان کی گئی ہے جو ٹیلی پیتھی کا علم اس وقت سیکھتا ہے جب یہ بہت چھوٹا تھا اور ابھی رفتہ رفتہ فرہاد اس علم میں قابلیت حاصل کرتا ہے اور دوستوں کے لیے دوست اور دشمنوں کے لیے عذاب بنتا ہے۔ اسے ایک پاکستانی شخص کے طور پر بتایا گیا ہے جو محب وطن ہے لیکن ملک سے باہر ہی رہتا ہے زیادہ تر وقت باہر گزارتا ہے اصل میں کوءی جگہ اس کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ فرہاد کا کردار آغاز سے ہی قاری پر اپنا کنٹرول جمانا شروع کر دیتا ہے اور جب تک فرہاد علی تیمور اپنی طبی عمر پوری کر کے مر نہیں جاتا کوئی قاری ناول سے نظر نہیں ہٹا پاتا۔
فرہاد علی تیمور کا آخری الوداع الوداع اے دماغوں کو تسخیر کرنے والے
اس بات پر اتنا ہی رونا آیا جتنا کہ علی عمران کا آخری آدمی میں یہ کہنا
اب میں لمبی نیند سونا چاہتا ہوں
اس سیریز کے دیگر کرداروں میں میڈم سونیا , علی اسد اللہ تبریزی ,آمنہ فرہاد, لیلیٰ شیخ ,ثانیہ ,رومانا ,منجلی ,ماریہ ,سباتا,ٹارٹر بلبا
شامل ہیں
یہ سیریز اتنی طویل ہونے کے باوجود کہیں بور نہیں ہونے دیتی یہ ڈائجسٹ کی سب سے زیادہ
پڑھی جانے والی سیریز ہے۔


بشکریہ: گلزار احمد


1638321785596.png
 
. .

آج دنیائے اُردو کے عظیم مزاح نگار ، مصنف، شاعر، معلم، سفارت کار اور بلند پایہ خطیب سید احمد شاہ پطرس بخاری کی برسی ہے۔

انتقال سے ایک دن قبل پھر ان کو انجکشن لگایا گیا۔ انہیں معلوم تھا کہ چلنے پھرنے اور اُٹھنے سے انہیں نقصان ہوگا مگر وہ اُٹھ بیٹھے اور آخر جو ہونا تھا وہ ہوا۔ وہ بےہوش ہوگئے۔ اور انہیں آکسیجن میں رکھ کر گھر پہنچایا گیا۔ ڈاکٹروں نے جو کرسکتے تھے کیا، شام کو انہیں کچھ افاقہ معلوم ہوا۔

ڈاکٹر کو بھی بخاری کی طرح شیکسپئیر سے بڑی محبت تھی۔ اس شام کو ڈاکٹر نے ان سے پوچھا کہ میں رات آپ کے ساتھ بسر کرسکتا ہوا؟ پروفیسر بخاری نے کہا۔ "نہیں۔ نرس موجود ہے آپ زحمت نہ کریں"۔ اور پھر ڈاکٹر نے جاتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔ "خداحافظ، شہزادہ شرمیں!"

صبح ہوتے ساڑھے پانچ بجے نرس نے ڈاکٹر کو اطلاع دی کہ مریض کی حالت تشویشناک ہے۔ سوا چھ بجے وہ اس دنیا سے سدھارچکے تھے۔ انہوں نے موت کا کرب تک محسوس نہ کیا۔ جمعہ کو اقوام متحدہ کی جتنی کمیٹیوں کے جلسے ہوئے سب میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا اور اسمبلی کے اجلاس میں بھی ان کا سوگ منایا گیا۔ پہلی کمیٹی میں جب انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاچکااور آغاشاہی اس کا جواب دینے کے ليے اُٹھےتو ان کی آواز کانپ رہی تھی۔ پرنس علی خاں نے اسمبلی کے بھرے اجلاس میں کہا۔ "ان کے اُٹھ جانے سے اقوام متحدہ کے برآمدے سنسان نظر آئیں گے"۔

اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں جو لوگ ان کے ساتھ کام کرتے تھے وہ ان سے بےپناہ محبت کرتے تھے اب یہ لوگ بہت افسردہ نظر آتے تھے نامہ نگاروں کو جو انہیں ایک مندوب کی حیثیت سے جانتے تھے (اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کے بہترین مندوب تھے اور پاکستان کو عرصے تک ایسا مندوب مشکل سے ملے گا) اب یہ احساس ہوگا کہ ان کے ہلکے پھلکے مزاحیہ جملوں میں کس قیامت کی ذہانت پوشیدہ ہوتی تھی۔

نامہ نگاروں نے انہیں شمالی افریقہ کی آزادی کے ليے نسلی امتیاز ختم کرنے کے ليے بڑے سے بڑے سیاست دانوں سے سوال وجواب کرتے دیکھا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کبھی ان مباحثوں میں زیر نہ ہوئے تھے۔

ہمہ دم مسکراتی اور پرُمذاق شخصیت کے پس پردہ وہ ایک سنجیدہ بخاری بھی تھے۔ وہ مزاح کی نقاب اتار کر ضرورت کے وقت انتہائی سنجیدہ بات کرسکتے تھے اور کرتے تھے لیکن مزاح کی نقاب وہ تحفظ کے طور پر اکثر وبیشتر ڈالے رہتے تھے۔​



1638648968522.png
 
.
ہیپی یوم فیض ڈے

" سنو! تم کل سے نظر نہیں آ رہے... کہاں تھے؟"

"actually
میں ممّا کے ساتھ الحمراء گیا ہوا تھا. وہاں فیسٹیول تھا. وہ ہے نا وہ اردو پوئٹ..... کیا نام ہے اُس کا...
او گاڈ آئی فورگوٹ!
وہ جس کے نام میں ایک ہی ورڈ دو بار آتا ہے"

"فیض احمد فیض"

" exactly
وہی...
فیض احمد فیض...
ممّا کہتی ہیں.
He was a revolutionary poet...
پتہ ہے... بہت ہارڈ ہے... اُس کی لینگویج....
او مائی گاڈ!
اوپر سے گزر جاتی ہے. کچھ پلّے نہیں پڑتا..
فرینکلی اسپیکنگ... ممّا کے بھی پلّے نہیں پڑتا.. مگر وہ اُس کو لائیک کرتی ہیں.
کہتی ہیں سمجھ میں آتا تو اور مزا دیتا.. ممّا ہر سال اس کے فیسٹیول کو آرگنائزد کرنے میں سب سے آگے ہوتی ہیں. ممّا کو ایک ہی شعر اُس کا سمجھ میں آیا ہے.
وہ کیا ہے کہ
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا ...
یو نو دکھ؟
Distress, sorrow, sadness
تو وہ پوئٹ کہتا ہے
اور بھی دکھ ہیں ان دی ورلڈ...
محبت means لو کے سوا،
اینڈ راحتیں... means
comfort, joy, pleasure
اور بھی ہیں...
وہ کیا ورڈ تھا
ہاں یاد آیا.. وصل..
ممّا سے اس کا مطلب پوچھا. ان کو خود کو پتہ نہیں تھا.
شی سیڈ.. وصل
perhaps
ڈیٹ مارنے کو کہتے ہیں.
گاڈ نوز...
یہ جتنا بھی اردو پوئٹس ہیں نا یہ ڈیٹ مارنے کے لئے بے چین رہتے ہیں.
بٹ ان کا beloved ان کو لفٹ نہیں کراتا...
ہاہاہاہا... پُوور گائیز!!
پتہ ہے وہ فیسٹیول میں جو بھی گائی اسٹیج پر آتا. مائک پر ایسی موٹی موٹی باتیں کرتا. نا میری سمجھ میں آتیں... نا ممّا کی... میں تو اپنے موبائل پر گیم کھیلتا رہا اور ممّا اپنے فرینڈز کو موبائل سے ٹویٹس کرتی رہیں .
واٹ اے بورنگ فیسٹیول.
کچھ سنگرز نے بھی بور کیا. ممّا ان کی بور سنگنگ پر بھی یوں شو کر رہی تھیں کہ جیسے انجوائے کر رہی ہیں اور جیسے سب سمجھ میں بھی آ رہا ہے.... آئی تھنک سمجھ میں تو اُن پوور سنگرز کو بھی کچھ نہیں آ رہا ہوگا کہ کیا گا رہے ہیں. ہاہاہاہا ...
ممّا کہتی ہیں فیض جو ہے نا وہ بہت
revolutionary poet
تھا. اگر سمجھ میں آ جاتا تو پاکستان میں
revolution
آجاتا.
یہاں کی misery
یہی ہے کہ جو سمجھ میں آتا ہے وہ revolutionary
نہیں ہوتا.. اور جو
revolutionary
ہوتا ہے وہ سمجھ میں نہیں آتا.
پوور کنٹری!!! "
حنیف سمانا​
 
.

Latest posts

Back
Top Bottom