کیا کبھی دریاؤں کی زندگی پر غور کیا؟
1۔ دریا کبھی واپس نہیں بہتے، ہمیشہ آگے ہی آگے۔۔۔ماضی کو بھول کر آپ بھی مستقبل پر فوکس کریں
2۔ دریا اپنا رستہ خود بناتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے آ جائے تو آرام سے اپنا رخ موڑ کر نئی راہوں پر چل پڑتے ہیں
مشکلوں اور رکاوٹوں سے لڑنا، بحث کرنا اور ضد کرنا دراصل وقت ضائع کرنا ہے۔
3۔ آپ گیلے ہوئے بغیر دریا پار نہیں کر سکتے
اسی طرح آپ کو دکھ سکھ کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہوگی۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ۔
4۔ دریاؤں کو دھکا نہیں لگانا پڑتا، یہ خود ہی آگے بڑھتے ہیں۔۔۔
کسی کے سہارے کے بغیر اپنا کام خود کریں
5۔ جہاں سے دریا زیادہ گہرا ہوتا ہے، وہاں خاموشی اور سکوت بھی زیادہ ہوتا ہے۔
علم والے اور گہرے لوگ بھی پرسکون ہوتے ہیں.
6۔ پتھر پھینکنے والوں سے الجھے بغیر دریا بہتے چلے جاتے ہیں۔۔۔
روڑے اٹکانے والوں کی پرواہ کیے بغیر آپ بھی اپنی زندگی رواں دواں رکھیں۔
7۔ *ایک بڑا دریا چھوٹی ندیوں، نالوں اور چشموں کو اپنے ساتھ ملنے سے کبھی منع نہیں کرتا۔۔۔
آپ بھی اپنا ظرف بلند اور نگاہ سربلند کر کے تو دیکھیں
محبت کے شاعر احمد شمیم کو رخصت ہوئے 43 برس بیت گئے۔
ان کا اصل نام غلام محمد زرگر تھا. 30 مارچ 1929 کو سرینگر میں پیدا ہوئے. تحریک آزادی کشمیر میں سرگرم ہونے کی وجہ سے بھارتی جیل بھی کاٹی . ہجرت کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے. ڈائریکٹر کے عہدے پر تھے جب 7 اگست 1982 کو راولپنڈی میں وفات پائی.
احمد شمیم نے افسانے اور ڈرامے بھی لکھے. کشمیری زبان کی شاعری میں بھی وہ بلند مقام رکھتے ہیں. انگریزی میں بھی نظمیں لکھیں. ان کی مطبوعہ کتابوں میں اجنبی موسم میں ابابیل(طویل نظمیں، 1983)،ریت پر سفر کا لمحہ (نظمیں، 1988) ،دگ تہ داغ(کشمیری شاعری، 1989) کبھی ہم خوب صورت تھے( کلیات) ،ہوا نامہ بر ہے(اہلیہ منیرہ کے نام خطوط، 1995) شامل ہیں.
ان کی وفات پر شفقت تنویر مرزا نے لکھا احمد شمیم پرندوں کے پروں پر خوب صورت لفظ لکھنے سے آزاد ہو گیا.
ممتاز مفتی نے کہا احمد شمیم ایک چومکھیا دیا تھا جو بجھ گیا.
مظہر الاسلام نے کہا احمد شمیم تمہارے جانے کے بعد موت کا فلسفہ سمجھ آ گیا.
منو بھائی نے لکھا احمد شمیم کے چہرے پر ہمیشہ خوبصورت مسکراہٹ دیکھنے کو ملی ، یہ مسکراہٹ اس نے موت کی گود میں لیٹے ہوئے بھی قائم رکھی، اور یہ مسکراہٹ اپنے دوستوں کے لئے چھوڑ گیا، جنہیں رنگوں کے جگنو اور تتلیاں آواز دیتی ہیں.
احمد ندیم قاسمی نے کہا احمد شمیم کی نظمیں اردو کے شعری ادب میں آیندہ صدیوں تک زندہ رہنے والے اضافے ہیں.
افتخار عارف نے کہا جدید اردو نظم کا منظر نامہ احمد شمیم کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، کبھی ہم خوبصورت تھے، اس کی ایک اعلی' مثال ھے.
بشکریہ: اسلم ملک صاحب
احمد شمیم l ریت پر سفر کا لمحہ
کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی
خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھہ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھہ
آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امی تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھہ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
زین همرهان سستعناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم دستانم آرزوست
مولانا جلال الدین محمد بلخی
خاور همه مانند غبار سر راهی است
یک ناله خاموش و اثر باخته آهی است
هر ذره این خاک گره خورده نگاهی است
از هند و سمرقند و عراق و همدان خیز
علامه محمد اقبال