What's new

Urdu & Hindi Poetry

unnamed.jpg
 
Writer Nasim Hijazi was the chief editor of his newspaper “ Kohistan” in 1965. He wrote many novels based on Islamic history.


May be an image of 1 person and standing
 
آج 7 ستمبر اردو اور پنجابی کے نامور ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانشور، براڈ کاسٹر اور صوفی اشفاق احمد کا یومِ وفات ہے۔
22 اگست 1925ء کو مکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ء سے 1992ء تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے،اجلے پھول، سفر مینا، پھلکاری اور سبحان افسانے کے نام سے شائع ہوئے۔
انہوں نے 41 برس تک ریڈیو کے مشہور ڈرامہ سیریل ’’تلقین شاہ‘‘ کا اسکرپٹ بھی لکھا اور اس میں صداکاری بھی کی۔ اشفاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے متعدد کامیاب ڈرامہ سیریلز تحریر کئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز عطا کیا تھا۔ اردو کی نامور ادیبہ بانو قدسیہ ان کی شریک حیات ہیں۔

7ستمبر 2004ء کو اشفاق احمد لاہور میں وفات پاگئے اور ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔


ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
.


1631034226248.png
 
Courtesy: Rasheed Rana

دیساں دا راجا، میرے بابل دا پیارا، ویر میرا گھوڑی چڑھیا

پنجاب میں تقریبا" ہر شادی پر گائے جانے والے اس گیت کو عام طور پر لوک گیت سمجھا جاتا ہے. حالانکہ یہ فلم "کرتار سنگھ "کیلئے لکھا ہوا گیت ہے جسے ایک ایسے سیدھے سادے شاعر نے لکھا، جس کے دن کا بیشتر حصہ بھینسوں کی دیکھ بھال میں گزرتا تھا۔ وہ خود ان کا دودھ دوہتا تھا.

یہ تھے وارث لدھیانوی ،جن کا اصل نام چودھری محمد اسماعیل تھا،11 اپریل 1928 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔1947 میں ہجرت کرکے لاہور آنا پڑا۔ پہلے عاجز تخلص تھا۔ استاد دامن کے شاگرد ہونے کے بعد وارث لدھیانوی ہوگئے۔ کہتے تھے استاد نے سر پر ہاتھ رکھا تو میں وارث لدھیانوی بنا ورنہ وارث تو بڑے رلتے پھرتے ہیں۔
وارث لدھیانوی نے بے شمار فلموں کے گیت اور مکالمے لکھے۔ مکھڑا، کرتار سنگھہ ، یار بیلی، بابل دا ویہڑا ان کی مشہور فلمیں ہیں۔

وارث لدھیانوی نے 5 ستمبر 1992 کو لاہور میں وفات پائی۔آج ان کی برسی ہے.

وارث کے مزاج میں عجز اور انکسار تھا. چائے پانی پکڑانے میں پہل کی کوشش کرتے. سب کو خود سے زیادہ علم والا سمجھتے. حالانکہ پنجابی گیت لکھنے میں جو کمال انہیں حاصل ہوا وہ بہت کم کو نصیب ہوا ہوگا.

احمد عقیل روبی راوی ہیں، جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ پولیس والے لوگوں کے منہ سونگھتے پھرتے تھے۔ وارث لدھیانوی کا بھی سُونگھا اور اسے پکڑ کر تھانے لے گئے۔ حوالات میں بند کر نے لگے تو وارث لدھیانوی نے تھانیدار سے پوچھا


‘‘پتر، تیرا ویاہ ہویا اے؟’’
تھانیدار نے کہا
’’ہاں ہویا اے، تے ایس تھانے وچ سارے ویاہے ہوئے نیں۔ ’’
’’وارث نے کہا ’’تے فیر ساریاں دے ویاہ تے اک گیت ضرور بھیناں نے گایا ہونا اے
’’تھانیدار نے پوچھا
’’کیہڑا گیت ؟‘‘
’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا
امڑی دے دل دا سہارا
نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘ وارث نے کہا
’’ہاں ایہہ گیت گایا سی، پر تیرا ایس گیت نال کیہ تعلق؟‘‘ تھانیدار نے کہا۔
وارث لدھیانوی نے ہنس کے کہا
’’یار ایہہ گیت میں لکھیا اے تے میرا ناں وارث لدھیانوی اے۔‘‘
تھانیدار نے تانگا منگوایا اور ایک سپاہی کی ڈیوٹی لگائی۔
’’ جا وارث صاحب نوں سلطان پورے چھڈ کے آ۔ کدھرے کوئی ہور پولس والا نہ پھڑ لوے‘‘

وارث لدھیانوی کے کچھ اور مقبول گیت

اک کڑی دی چیز گواچی، بھلکے چیتا آوے گا(شہری بابو)
دلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے (مکھڑا)
ڈورے کھچ کے نہ کجلا پائیے (مکھڑا)
میرا دل چناں کچ دا کھڈونا (مکھڑا)
چھم چھم پیلاں پاواں (یاربیلی)
چن چن دے سامنے آگیا ( پگڑی سنبھال جٹا)
ڈاڈھا بھیڑا عشقے دا روگ (رن مرید)
گوری گوری چاننی دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں نی (کرتار سنگھ)
ربا ایہدے نالوں موت سکھالی، وچھوڑا مکے سجناں دا (پگڑی سنبھال جٹا)
چھپ جاؤ تاریو پادیو ہنیر وے (لنگوٹیا)
وے سب توں سوہنیا، ہائے وے من موہنیا ( رنگیلا)
سانوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنی گڈی والی (چن پتر)
دھیاں دتیاں تے کیوں نہ دتا مال مالکا (بابل دا ویڑھا)
دلاں دیاں میلیاں نیں چن جہیاں صورتاں ( مٹی دیاں مورتاں)
دلا ٹھہر جا یار دا نظارا لین دے (مکھڑا)
پہلی واری اج اوہناں اکھیاں نیں تکیا، ایہو جیہا تکیا کہ ہائے مار سٹیا(ٹھاہ)
آسینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے (ٹھاہ)
جھانجھریا پہنا دو، بندیا وی چمکا دو (شیر خان)
گھنڈ کڈھ کے میں پیلاں پاواں لکاندی پھراں انگ انگ نوں( جنج)
ڈاڈھا بھیڑیا عشقے دا روگ ( رن مرید)
لوکو وے لوکو، ایس منڈے نوں روکو (دو رنگیلے)
اسی کی کی بھیس وٹائے یار تیرے ملنے نوں (ٹھاہ)
پہلی واری اج اوہناں انکھیاں نے تکیا (ٹھاہ)
نی چنبے دئیے بند کلئیے، تینوں جہڑے ویلے رب نے بنایا (پہلا وار)

دعاؤں کا طالب، رشید رانا


1631040506369.png
 
ادا جعفری
آپ کا خاندانی نام عزیز جہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی ۔وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری عموماً اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہی ۔ ان کے شعری مجموعہ شہر درد کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ ’’جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغا امتیاز سے نوازا-
مختصر علالت کے بعد 12 مارچ، 2015ء کو آپ کا انتقال ہو گیا
..

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبئہِ نام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے
 
علامہ اقبال کی جنگ طرابلس پر مشہور نظم

شاعر مشرق نے ’فاطمہ بنت عبداللہ‘ میں کسے خراج عقیدت پیش کیا؟

فاطمہ بنت عبداللہ
عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ ميں
غازيوں کو پانی پلاتی ہوئی شہيد ہوئی
1912ء
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تيری مشت خاک کا معصوم ہے
يہ سعادت ، حور صحرائی! تری قسمت ميں تھی
غازيان ديں کی سقائی تری قسمت ميں تھی
يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
ہے جسارت آفريں شوق شہادت کس قدر
يہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر ميں تھی
ايسی چنگاری بھی يارب، اپنی خاکستر ميں تھی
اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھی پوشيدہ ہيں
بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھی خوابيدہ ہيں
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ماتم ميں ہے
رقص تيری خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبريز ہے
ہے کوئی ہنگامہ تيری تربت خاموش ميں
پل رہی ہے ايک قوم تازہ اس آغوش ميں
بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعت مقصد سے ميں
آفرينش ديکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے ميں
تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
ديدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موج نور
جو ابھی ابھرے ہيں ظلمت خانۂ ايام سے
جن کی ضو ناآشنا ہے قيد صبح و شام سے
جن کی تابانی ميں انداز کہن بھی، نو بھی ہے
اور تيرے کوکب تقدير کا پرتو بھی ہے



علامہ محمد اقبال کی اس نظم میں فاطمہ بنتِ عبداللہ کا تذکرہ اس عقیدت کے ساتھ کیا گیا ہے جس کا اظہار عام طور پر مذہبی شخصیات کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔

ان کے مجموعے ’بانگ درا‘ میں شائع ہونے والی اس نظم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جنگِ طرابلس میں بہادری اور شجاعت کی مثال بننے والی ایک 14 سال کی لڑکی کے بارے میں ہے۔

اگرچہ آج کے دور میں اس جنگ کو پہلی عالمی جنگ کے آس پاس ہونے والی دیگر لڑائیوں کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے تاہم مسلم دنیا کے لیے یہ ایک انتہائی اہم معرکہ تھا کیونکہ اس سے قبل طرابلس اور سیرے نائیک شمالی افریقہ کے ایسے علاقے تھے جو یورپی ممالک کے تسلط سے آزاد تھے اور وہاں سلطنت عثمانیہ کا پرچم لہراتا تھا۔
یہ 28 ستمبر 1911 کا دن تھا جب اٹلی نے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی غرض سے سلطنت عثمانیہ کو الٹی میٹم دیا اور 30 ستمبر کو طرابلس پر قبضہ کر لیا۔
کہا جاتا ہے کہ اٹلی کی فوجوں نے طرابلس کے مسلمانوں پر ظلم و ستم اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تاہم طرابلس کے باسیوں نے بے شمار قربانیاں دے کر اطالوی فوجوں کو ساحل کی طرف دھکیل دیا۔
جنگ کے لگ بھگ ایک برس بعد 13 نومبر 1912 کو مولانا ابوالکلام آزاد کی ادارت میں شائع ہونے والے مشہور جریدے ’الہلال‘ نے اس جنگ کے بارے میں ایک خصوصی مضمون شائع کیا۔
اس مضمون میں لکھا تھا کہ اس جنگ نے ’صدیوں کے بعد اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور کے غزوات اور مجاہدات کے واقعات زندہ کر دیے اور مدتوں بعد عرب دنیا کو موقع ملا کہ ان کے اصلی جوہر نمایاں ہوں۔‘
مضمون کے مطابق ’بدر اور احد کے واقعات میں ہم پڑھتے تھے کہ ایسی عورتیں تھیں جو اپنے آٹھ آٹھ لڑکوں کو اللہ کی راہ میں زخمی کرواتیں اور خود بھی زخمی ہو جاتی تھیں۔ وہ اللہ کے رسولؐ کی محبت میں ایسی محو تھیں کہ تیروں پر تیر کھاتی تھیں مگر اپنے جسم کو ان کے سامنے ڈھال کی طرح رکھتی تھیں۔ یہ ہم پڑھتے تھے مگر خاک طرابلس نے تمام واقعات دہرا دیے۔‘
الہلال میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ’عربی جنگ کی پہلی خصوصیت عورتوں کی شرکت‘ تھی۔ جنگ طرابلس کے لیے جب اطراف و جوانب اور اندرون صحرا سے قبائل جمع ہونے لگے تو ہر قبیلے کے سردار کے ہمراہ اس کا پورا خاندان تھا۔
ان میں ہر طرح کی عورتیں ہوتی تھیں، وہ نوجوان لڑکیاں بھی تھیں جن کے ابھی کھیل کود کے دن تھے، بوڑھی عورتیں بھی ہوتی تھیں جن کے جسم کے قویٰ جواب دے چکے تھے۔ بہت سی عورتیں ایسی بھی تھیں کہ ان کی گود میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور وہ ان کو الگ نہیں کر سکتی تھیں۔
مضمون کے مطابق ادارتی ٹیم نے ’وہ تصویریں بھی دیکھی ہیں جن میں کسی عورت نے ایک طرف تو گود میں بچہ اٹھا لیا ہے اور دوسری جانب پانی کی مشک ہے، ایسی حالت میں (وہ) زخمیوں کو ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔‘
شیخ عبداللہ اور فاطمہ کا خاندان
جنگ طرابلس میں جن قبائل نے سب سے زیادہ فعال کردار ادا کیا ان میں ایک مشہور قبیلہ البراعصہ تھا جو افرادی قوت اور اثر و رسوخ کے لحاظ سے اندرون طرابلس کا سب سے بڑا قبیلہ سمجھا جاتا تھا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام شیخ عبداللہ تھا۔
روایات کے مطابق شیخ عبداللہ نے جنگ کے آغاز سے اختتام تک انتہائی جرأت مندانہ کردار ادا کیا اور انھوں نے نہ صرف اپنے قبیلے کو جنگ کے لیے تیار کیا بلکہ اردگرد کے دوسرے قبائل کو بھی اس پر آمادہ کیا۔
جنگ میں حصہ لینے والے تمام ترک افسر اس بارے میں متفق ہیں کہ اگر شیخ عبداللہ شروع سے ہی اس جنگ میں ان کا ساتھ نہ دیتے تو بعد کی کامیابیاں ہرگز حاصل نہ ہو سکتی تھیں۔ عبداللہ نے اپنا تمام مال و متاع ترک افسروں کے سپرد کر دیا اور اپنے قبیلے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان کے تمام افراد کو دشمن کے سامنے کھڑا کر دیا اور خود ان کی قیادت کا فریضہ سنبھال لیا۔
شیخ عبداللہ کا تمام خاندان مصروف جہاد تھا۔ ان کی صرف ایک بیٹی تھیں جن کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ 1898 میں پیدا ہوئی تھیں اور اس جنگ کے وقت ان کی عمر 13 یا 14 برس تھی۔ ان کی خدمات کو دیکھ کر تمام ترک افسر اور سپاہی حیران ہو جاتے تھے۔
فاطمہ کا جنگ اور زخمیوں سے ’انس‘
فاطمہ کی واحد تصویر ڈاکٹر اسماعیل تبانی بک نے کھینچی جو لکھتے ہیں: ’سب سے پہلے میں نے اس معصوم انسان کو اس وقت دیکھا جب میں پہلی مرتبہ اپنی جماعت لے کر عزیزیہ سے زوارہ آیا۔ عورتوں اور لڑکیوں کے لشکر میں کمی نہ تھی کیوں کہ ہر عرب اپنے پورے خاندان کے شریک جہاد ہوا تھا لیکن چند مخصوص باتیں فاطمہ میں ایسی نظر آتی تھیں جن کی وجہ سے وہ ہزارہا مردوں اور عورتوں میں بھی پہچان لی جاتی تھیں۔‘
’اول تو اس کی عمر بہت چھوٹی تھی۔۔۔ دوسرے اس کو جنگ اور جنگ کے زخمیوں سے ایسا انس ہو گیا تھا کہ سخت سے سخت معرکوں میں بھی اس کی مسابقت اور پیش قدمی کو ہر سپاہی محسوس کرتا تھا۔ جنگ خواہ حملے کی ہو، خواہ مدافعت کی، ساحلی بیڑے سے توپوں کی بارش ہو رہی ہو یا تلواروں اور سنگینوں کے سامنے صفیں ہوں مگر زخمی مسلمان کی آہ اس کے لیے ایک ایسی کشش تھی جس کو سن لینے کے بعد محال ہو جاتا تھا کہ اس کی چھوٹی سی مشک اپنے فرض کو بھول جائے۔‘
ڈاکٹر اسماعیل کے مطابق فاطمہ کم سن تھیں لیکن ان کے اندر ’ایک کہن سال عشق‘ موجود تھا۔
’یہ عشق لہو و لعب اور یا تمتعات حیات کا نہ تھا بلکہ خون، زخم اور کٹی ہوئی انسانی رگوں کا، جہاں کہیں یہ چیزیں موجود ہوتیں، وہ ایک باد رفتار ہرنی مستعدی مگر فرشتہ عشق کے پروں پر اڑتی ہوئی پہنچ جاتی تھی۔‘
ڈاکٹر اسماعیل تبانی مزید لکھتے ہیں: ’میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ بارود کے دھوئیں سے تمام فضا تاریک ہو رہی ہے۔ کانوں کے پردے توپوں کی سامعہ شکن فضائوں سے پھٹ رہے ہیں، گولوں کے پھٹنے سے ایک عارضی روشنی نمودار ہو جاتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی انسانی چیخیں گولوں کی گرج کے ساتھ مل کر ایک عجیب وحشت انگیز ہنگامہ برپا کر دیتی ہیں۔‘
’ایسے جگر پاش اور زہرہ گداز عالم میں وہ معصوم ہرنی اس طرح دوڑ رہی ہے کہ معلوم ہوتا تھا کہ مظلوم و محتاج زخمیوں کی خبر گیری کے لیے کوئی فرشتہ ربانی آسمان سے اتر آیا ہے اور اللہ نے ہوا اور زمین کو اس کے تابع کر دیا ہے۔ انسانی لاشیں ایک پر ایک گر رہی تھیں مگر ہر نئی لاش کے گرنے کی آواز خوف کی جگہ اس میں قوت کی نئی رو پیدا کر دیتی تھی۔‘
ان کے مطابق یہ حالت دیکھ کر وہ بے اختیار ہو گئے۔ ’کچھ بعید نہیں کہ ایسے خطرناک اور یکسر موت و ہلاکت کے عالم میں یہ چہرہ ہمیشہ کے لیے نظروں سے چھپ جائے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اب کے مرتبہ اگر وہ نمودار ہوئی تو کسی نہ کسی طرح اسے پکڑ لوں گا اور سمجھاؤں گا کہ موت کی اس درجہ آرزو مند کیوں ہو گئی ہے۔‘
پھر ڈاکٹر اسماعیل نے بچی پر ترس کھا کر اسے اپنی جان بچانے کا کہا بھی تو اس نے ایک نہ سنی۔ ’تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک چھوٹا سا سایہ قریب سے گزرا، میں نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کیا تجھے نہیں معلوم کہ تو اپنے باپ کی ایک ہی بیٹی ہے۔‘
جواب آیا: ’چھوڑ دو، کیا تم بھول گئے کہ اسلام اور وطن کے کتنے فرزند یہاں پیاسے دم توڑ رہے ہیں؟‘ یہ کہہ کر فاطمہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
مشکیزہ اور تلوار
سنہ 1912 کا ایک گرم دن تھا اور ظہر کا وقت تھا۔ اطالوی توپیں آگ برسا رہی تھیں اور فاطمہ کے والد شیخ عبداللہ جنگ میں شریک تھے۔ ان کی بیوی اور بیٹی فاطمہ بھی زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں۔
عصر کے وقت عرب مجاہدین کا ایک دستہ حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑا اور ایک ترک افسر احمد نوری بھی اپنے تیس سپاہیوں کو لے کر آگے بڑھے۔ فاطمہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔
اطالوی فوجیوں نے ترک دستے کو گھیر لیا مگر ترکوں نے شجاعت سے کام لیتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنا لیا تاہم اس کوشش میں ان کے چار سپاہی زخمی ہوگئے۔
فاطمہ نے دوڑ کر اپنا مشکیزہ ایک زخمی سپاہی کے سینے پر رکھ دیا۔ وہ چاہتی تھی کہ مشکیزے کا منھ زخمی کے ہونٹوں سے لگا دے مگر اسی لمحے ایک اطالوی سپاہی نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔
فاطمہ نے بجلی کی سی تیزی سے زخمی ترک سپاہی کی تلوار اٹھائی اور اس زور سے اطالوی سپاہی پر وار کیا کہ اس کے دائیں ہاتھ کا پنجہ کٹ کر لٹک گیا۔
فاطمہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی تاہم اطالوی سپاہی نے پیچھے ہٹ کر بائیں ہاتھ سے بندوق اٹھائی اور پے درپے تین گولیاں فاطمہ کو دے ماریں۔
یاد رہے کہ اس معرکے میں تین ہزار عربوں اور ترکوں نے تقریباً 12 ہزار اطالوی فوجیوں کو شکست دی تھی۔ جنگ کے بعد لوگ اپنے زخمی اور ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی تلاش میں نکلے تو چار بہادر ترک بے ہوش پڑے تھے اور ان کے پاس ہی فاطمہ کی لاش تھی۔
پانی کا مشکیزہ ترک سپاہی کے سینے پر پڑا تھا لیکن مشکیزے کا منھ زخمی کے لبوں پر نہ تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ فاطمہ ترک سپاہی کو پانی پلانے سے پہلے ہی شہید ہو گئی تھی۔


تحریر و تحقیق:
عقیل عباس جعفری





May be an image of 1 person
 
بن صفی مرحوم کو جن لوگوں نے پڑھا ہے،وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں پیروڈی نگاری میں بھی ید طولی حاصل تھا۔انہوں نے جیمز بانڈ کی "ٰٹیمز فانڈ" ، الہ دین کے چراغ کی "چراغ الہ دین دائجسٹ" اور شیخ چلی کی "پرنس چلی"وغیرہ مشہور پیروڈیاں لکھی۔ایسی ہی ایک پیروڈی انہوں نے عمران سیریز ناول سوالیہ نشان میں بھی لکھی ہے،گو کہ مختصر ہے ، لیکن ہے جاندار،پڑھئے اور
سر دھنیے:

بیکار باتیں نہ کرو۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔یہ تو حسن وعشق ہی کی سرزمین ہے۔۔۔ ۔۔۔ میں نے تمہارے یہاں کی کہانیاں سنی ہیں۔۔۔ پڑھی ہیں! وہ کون تھے۔۔۔ ۔ہیر اور رانجھا۔۔۔ ۔!
ان کا تو نام ہی نہ لو۔۔۔ ۔! عمران برا سا منھ بنا کر بولا۔
کیوں ! ان کی داستان تو ساری دنیا میں مشہور ہے۔
بعد کے حالات سے تم واقف نہیں ہو۔خبروں پر سنسر ہوگیا تھا اور بعد کے حالات دنیا کو نہیں معلوم ہوسکے تھے۔
کیسے حالات۔۔۔ ۔۔!

"وہ دونوں رواوی کے کنارے ملا کرتے تھے۔عشق ہوگیا۔ہیر دراصل وہاں کپڑے دھونے آیا کرتی تھی۔رانجھا اس کاہاتھ بٹانے لگا۔ہاتھ کیا بٹانے لگا ہیر کو تو الگ بٹھا دیتا اور خود ہی اس کے کپڑے دھو دھاکر ڈھیر لگادیتا۔اچانک ایک دن اس نے محسوس کیا کہ اسے تقریبا ڈھائی سو کپڑے روزانہ دھونے پڑتے ہیں۔تب اسے ہوش آیا اور بری طرح بوکھلاگیا۔۔۔ ۔۔۔ اس نے ہیر کی طرف دیکھا جو کچھ دور گھاس پر بیٹھی لسی پی چکنے کے بعد نسوار کی چٹکی چلانے جارہی تھی۔۔۔ ۔مگر وہ صرف دیکھ کر ہی رہ گیا کچھ بولا نہیں۔لیکن اسے چونکہ تشویش ہوگئی تھی اس لیے وہ نچلا نہیں بیٹھا! کپڑے تو اسے بہر حال دھونے پڑتے تھے اس سے جو وقت بچتا تھا اس معمے کو حل کرنے میں صرف کردیتا۔اب اسے ہیر سے عشق جتانے کا بھی کم موقع ملتا تھا۔
ویسے وہ لسی کاگھڑاسامنے رکھے بیٹھی اس کا دل بڑھایا کرتی تھی آخر ایک دن یہ راز کھل ہی گیا ۔بیچارے رانجھے کومعلوم ہواکہ ہیر کے بھائی نے مال روڈ پر ایک بہت بڑی لانڈری کھول رکھی ہے۔بس وہ غریب ویہں پٹ سے گرا اور ختم ہوگیا یہ ہے اصلی داستان ہیر رانجھا کی۔"

May be an image of 1 person
 
ماں باپ بھی کتنے دلچسپ ہوتے ہیں
ادھر بارش کی ٹپ ٹپ ادھر یادوں کی برکھارت

تحریر : اظہر عزمی


کراچی میں برسات کا موسم آئے تو ماں باپ گئے دنوں کے قصے لے بیٹھتے ہیں ۔ اسی میں کہیں نکل آتی ہے کوئی ایسی بات جو آنکھوں میں نمی لے آئے لیکن یہ چند لمحوں کی ہوتی ہے اور پھر زندگی برسات کی تازگی کی طرح تر و تازہ ہوجاتی ہے ۔
باپ : ارے آج تو اس رم جھم میں پکوڑے ہو جائیں ۔
ماں : اب اس وقت تو میں بنانے سے رہی ۔ دوپہر میں فون کر کے کہہ دیتے تو تیاری کر بھی لیتی۔ اب تو میں رات کا کھانا بنا رہی یوں ۔
باپ : بھائی دوپہر میں مجھے کوئی بارش کا الہام ہوا تھا جو فون کر دیتا ۔
ماں : نہیں تو اب میں اکیلی کیا کیا کروں ۔ آپ کو تو ذرا بھی میرا احساس نہیں ۔ ایک عورت کب تک اتنے سارے کام نمٹائے ۔
باپ : ( چھیڑتے ہوئے ) کبھی ہمیں بھی اس ایک عورت سے ملوادیں۔
ماں : میں مذاق نہیں کر رہی ہوں
باپ : ارے ایک عورت سے ملنے میں مذاق کون کرے گا ۔ تمھیں یاد تو ہوگا کہ جب ہماری شادی کے بعد پہلی بارش ہوئی تو اماں نے تم سے کہا کہ بہو پہلی برسات ہے پکوڑے بنا لو ۔ اچھا شگن ہوتا ہے ۔
ماں : ہاں تو بنائے تو تھے
باپ : ( زور کا قہقہہ لگاتا ہوئے ) وہ پکوڑے تھے ۔ ہیں ۔۔۔ پکوڑے تھے وہ ۔ ارے تم نے پانی میں بیسن کی گھٹلیاں بنا دی تھیں ۔ موہنجودڑو کے پتھر بھی اس سے کم سخت ہوں گے ۔
ماں : ( چڑ کر ) اچھا کھا تو پورے لیے تھے ۔ اس وقت تو کچھ نہ بولے ۔
باپ : ( ہنستے ہوئے ) بولتا کیسے ۔ پتھر کھا کر بھی کوئی بولنے کے قابل رہتا ہے ۔ وہ تو اچھا ہوا اس دن اماں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لئے انہوں نے پکوڑوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔
ماں : ابا نے بھی تو کھائے تھے
باپ : وہی تو تمھیں بچا گئے ۔ اماں نے پوچھا تو بولے اتنے مزے کے نرم پکوڑے کھائے ہی نہیں ۔ بس منہ میں رکھتے ہی نمکین گلاب جامن کی طرح حلق سے پھسلتے چلے جاتے ۔
ماں : ہاں تو اس وقت نہیں آتے تھے ۔ اب تو آپ تعریفیں کر کر کے کھاتے ہیں ۔
باپ : ہاں یہی ہوئی نا بات ۔ مان گئیں ۔
ماں : کیوں ہم کوئی باورچی کے خاندان سے ہیں کیا ؟
باپ : اچھا سنو ۔ شروع شروع کی روٹیاں تو یاد ہوں گی ۔ گول روٹی کی جگہ ملکوں کے نقشے بنایا کرتی تھیں ٹیڑھے میڑھے ۔ کچھ تو تم نے ان ملکوں کے نقشے بنائے جن کا اقوام متحدہ کو بھی علم نہ تھا ۔ تمھارے نقشے پہلے بنے وہ آزاد بعد میں ہوئے ۔ روٹی سے نجوم کے سلسلے کی بانی ہو ۔
ماں : سب نقشے بنا دیئے بس بس ایک نقشہ ویسے کا ویسا ہے ۔
باپ : ( چھیڑتے ہوئے ) کچھ ناراض لگ رہی ہو ؟
ماں : ( طنز کرتے ہوئے ) نہیں آپ طنز کے تیر برساتے جائیں اور میں کہوں کچھ اور کچھ اور ۔۔۔ اور یہ بتائیں آپ کا اپنی بہن سے متعلق کیا خیال ہے ۔ آج تک ان کے ہاں روٹیاں بازار سے آتی ہیں ۔
باپ : اس کو تو گٹھیا ہے ۔ آٹا گوندھنا اس کے بس میں کہاں ؟
ماں : یہ سب تو چار پانچ سال پہلے ہوا ہے ۔ جب بھی یہاں آتی تھیں ۔ حرام ہے جو آٹھ کر پانی بھی پی لیں ۔ اسلم پیٹ میں تھا ۔ ( اب آواز بھرا جاتی ہے ) کچن کی گرمی اور بیس بیس روٹیاں وہ بھی کھڑے ہو کر ۔ کہتی رہ گئی ایک فین کچن میں لگوادیں مگر آپ اماں کی مرضی کے بغیر کہاں ہلنے والے تھے ۔
اب دوپٹے سے آنسو پونچھنا شروع ہو چکے ہیں ۔ باپ گھبرا جاتے ہیں ۔ ماں کے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں ۔
باپ : ارے دیکھو تم رو مت ۔ میں تو مذاق کر رہا تھا ۔
ماں : ہٹیں ۔ آپ ہمیشہ ایسی جلی کٹی باتیں کرتے ہیں ۔
اتنی دیر میں اسلم کمرے میں آجاتا ہے ۔ ماں فورا دوپٹے سے آنسو پونچھ لیتی ہے ۔ باپ بھی ماں سے ذرا دور ہو جاتے ہیں ۔
ماں : اتنا بھیگ کر آنے کی کیا ضرورت تھی ؟
اسلم : کیا مطلب ؟ بارش رکوا دیتا کیا ؟ اچھا سنیں ! امی میرا بہت دل چاہ رہا ہے گرم گرم پکوڑوں اور چائے کو ۔
ماں : ( رونا دھونا بھول چکی ہیں ) بس تم جلدی سے کپڑے بدلو ۔ میں پکوڑے بناتی ہوں ۔
اسلم چلا جاتا ہے ۔
باپ : ہم نے کہا تو صفا چٹ انکار بیٹے نے کہا تو فورا تیار
ماں : وہ میرا بیٹا ہے !
باپ : ( اداس ہو کر ) ہم بھی تو کسی کے بیٹے تھے ۔
ماں : ( مسکراتے ہوئے ) اچھا اب زیادہ علاءالدین بننے کی کوشش نہ کریں ۔ بنا رہی ہوں آپ کے لئے موہنجودڑو کے پتھر ۔۔۔ کھا لیں گے ؟
باپ : ( مسکراتے ہوئے ) کیوں نہیں کھائیں گے ۔
اور ساتھ ہی گنگنانے لگتے ہیں ۔​


شوہر حاضر ہے بیوی کے پکوڑے کھانے کو
ہری چٹنی بھی بنا لینا ، آگ لگانے کو


1633265914697.png
 

ماں باپ بھی کتنے دلچسپ ہوتے ہیں
محلہ کی ایک شادی اور ساتھ جانا کسی کا

تحریر : اظہر عزمی


اب تو خیر کراچی میں کار کا ہونا کسی گنتی میں بھی نہیں ۔ ایک زمانہ کراچی میں وہ بھی تھا جب مڈل کلاس گھروں میں بھی کار خال خال ہوا کرتی تھی ۔ یادوں کی یہ لڑی بھی انہی دنوں کے ایک قصے سے جڑی ہے ۔

محلے میں سے کسی کے ہاں سے شادی کارڈ آ جاتا اور شادی ذرا دور ہوتی تو پھر وہی ٹیکسی رکشہ کا چکر ۔ جن کے پاس موٹر سائیکل ہوتی وہ میاں بیوی موٹر سائیکل پر بیٹھتے اور تین بچوں تک موٹر سائیکل کار آمد رہتی ۔ دو آگے ٹنکی پر بیٹھتے اور سب سے چھوٹا ماں کی گود میں ہورے راستے رال ٹپکائا ، آتی جاتی گاڑیوں کو ٹکر ٹکڑ دیکھتا جاتا اور جب ماں اترتی ٹو آستین پر رال ہی رال ہوتی ۔

دیکھتے آج کے دور میں ان دنوں کا ذکر نکل آئے تو ماں باپ میں کیا گفتگو ہوتی ہے اور بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے ۔ باپ نماز نغرب پڑھ کر گھر واپس آتے ہیں ۔ ٹوپی ایک طرف رکھ کر ابھی بیٹھے ہی ہوتے ہیں کہ ماں چائے ٹرے میں سجائے لے آتیں ۔

باپ : تم نے بھی عادت بگاڑ دی ہے ۔ نماز کے بعد چائے نہ پیو تو لگتا ہے کچھ کمی سی ہے ۔
ماں : اچھا یہ بتائیں کہ منیر صاحب کے ہاں شادی میں جانا ہے کہ نہیں ۔ بچے تو جانے سے رہے ۔ ہم دونوں ہی چلتے ہیں ۔ برسوں کی محلے داری ہے ۔ نشاط آپا آج پھر آئیں تھیں رٹ جگے کا کہنے ۔
باپ : ( لہک کر ) مردوں کو بھی بلایا ہے ؟
ماں : کیا ہو گیا ہے رت جگے میں بھلا مردوں کا کیا کام ؟
باپ : کیوں ؟ ایک مرد عمر قید میں جا رہا ہے ۔ اجتماعی دعا تو کر سکتے ہیں آخر میں ۔
ماں : یہ بات ناں آپ نشاط آپا سے کہہ دیں ۔ ان کے بھتیجے سے شادی ہورہی ہے طلعت کی ۔
باپ : بارات تو پرسوں ہے ۔ میں کیا پہنوں گا ؟
ماں : اپنا ڈارک گرے رنگ کا سوٹ پہن لیجئے گا ۔ چھ مہینے سے ڈرائی کلینر سے دھلا ٹنگا ہے ۔
باپ : تو پھر آپ شادی والا شخص جوڑا پہن لیجئے گا ۔ چٹا پٹی کے غرارے والا ۔
ماں : اچھا میں دلہن کی چھوٹی خالہ ہوں جو بن ٹھن کے بارات کا سواگت کروں گی ۔
باپ : نہیں تو میں کیا دولھا کا سب سے چھوٹا کنوارا چچا ہوں جو دبئی سے آیا ہے اور آپ اس کے گلے میں ہار ڈالیں گی بارات میں
ماں : اچھا جو جی میں آئے پہن لیں ۔ میری بلا سے ۔ پتہ بھی ہے کوئی 500 افراد کا انتظام ہے بارات میں ۔
باپ : یہ 500 افراد کی بارات تو عرس لگتی ہے ۔ صاحب خانہ دور سے ہاتھ ہلاتے رہ جاتے ہیں ۔
ماں : تو آپ کو کیا دولھا کے ساتھ بیٹھکر وڈیو بنوانی ہے ۔
باپ : میں نے تو اپنی شادی میں اتنی مشکل سے بارات ولیمے والے دن وڈیو بنوائی تھی ۔ یاد ہے تم سے کتنا دور دور بیٹھا تھا ۔
ماں : اب میرا منہ نہ کھوائیں ۔ گھسے چلے جارہے تھے ۔ وہ تو میں نے ہی لفٹ نہ کرائی۔ یاد ہے خالہ اماں نے کیا کہا تھا: آئے بھائی اب یہ تمھارے ساتھ ہی جائے گی ۔
باپ بات کو موضوع بدلتے ہیں : خالہ اماں کی تو رہنے ہی دو انہیں تو مجھ سے خدا واسطے کا بیر ہے شروع سے ۔ سنو وہ ایک بات بتانے تھی ۔
ماں : کیا ؟ اب سرخ جوڑے کا نہ کہہ دیجئے گا ۔
باپ : نہیں ۔ وہ دراصل نماز میں مجھے مسعود ملے تھے ۔ کہہ رہے تھے ان کی گاڑی آجکل خراب ہے ۔ اگر آپ کے بچے نہ جائیں تو ہم میاں بیوی کو بھی ساتھ لے چلیں ۔
ماں کے تو جیسے کرنٹ لگ جاتا ہے : اور آپ نے تو فورا ہاں کہہ دی ہو گی ۔ آپ کی تو جیسے کوئی دلی دعا پوری ہو گئی ۔ ایسا کریں آپ ان دونوں کو ہی لے جائیں ۔
باپ : پرابلم کیا ہے ؟
ماں : اب یہ بھی میں بتاوں ۔ زہر لگتا ہے مجھے ان کا آپ سے ہنس ہنس کے بات کرنا ۔
باپ : ارے بہت خوش اخلاق ہیں ۔ سب سے ہی ایسے بات کرتی ہیں ۔
ماں : کوئی اچھی بات تو نہیں ۔ پورے محلے کی عورتیں نام رکھتی ہیں انہیں ۔ ویسے کبھی مل جائیں تو سلام تک نہیں کرتیں ۔ اور یہ بتائیں ہماری گاڑی ہے کہ چنجی جو ان کو ڈھو کر لے جائیں ۔ یاد ہے جب میں نئی بیاہ کر آئی تھی تو پڑوس کے راشد بھائی کی شادی میں گئے تھے ۔ شادی کا سرخ جوڑا پہن کر گئی تھئ ۔ گاڑی نہیں تھی ان دنوں ہمارے پاس ۔ ان کی گاڑی میں صرف دونوں میاں بیوی تھی ۔ سامنے سے گزر گئے جھوٹے منہ پوچھا تک نہیں ۔
باپ : نظر نہیں پڑی ہو گئی
ماں : نظر نہیں پڑی ہوگی ۔ اب ان کی گاڑی خراب ہے تو نظر ہماری گاڑی پر ۔
باپ : ( ڈرتے ڈرتے ) مگر میں نے تو ہاں کہہ دی ہے ۔
ماں : آپ کا بس چلتا تو مجھ سے پہلے ان کے لئے ہاں کہہ دیتے
باپ : ہونی کو کون ٹال سکتا ہے
ماں : مگر اب یہ ہونی میں نہیں ہونے دوں گی ۔ ٹالنا ہوگا ورنہ میں بتائے دے رہی یوں گاڑی میں قدم نہیں رکھوں گی ۔
باپ : تو اب مسعود سے کیا کہوں ؟
ماں : کوئی اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دیا ہے کیا ؟ پولیس پکڑ کر لے جائے گی آپ کو ۔
ماں غصے میں چلی جاتی ہیں اور باپ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ، ہلکے سے کہتے ہیں : پتہ نہیں اس عورت کو محلے داری کب آئے گی ؟
ماں سن لیتی ہے ۔ پلٹ کر آتی ہے : اسے محلے داری نہیں اپنا الو سیدھا کرنا کہتے ہیں ( کچھ لمحے رک کر ) وہ بھی آپ جیسوں سے ۔


244079252_10165792460625357_2007631502163713472_n.jpg






244332855_10165792460970357_4340089533690822287_n.jpg
 
ناول.... چاکی واڑہ میں وصال

مصنف.... محمد خالد اختر

اس ناول کو اپنے منفرد اسلوب کی وجہ جناب فیض احمد فیض صاحب نے اردو ادب کا بہترین ناول قرار دیا۔
اس میں مزاح، مضحکہ خیزی،اور جادوئی حقیقت نگاری کے بھی کچھ رنگ ملتے ہیں۔

اقتباس

"میرے اپنے ہیرو۔۔۔میرے حقیقی ہیرو ۔۔وہ لوگ ہیں جو کتابیں لکھتے ہیں۔میں ان ادیبوں کو ترجیح دیتا ہوں جو ادیب شہیر یا مصور جذبات بن چکے ہیں۔مگر ان ادبی شیروں کے علاوہ ہر وہ شخص جس نے کوئی کتاب لکھی ہو، خواہ وہ ’ پکی روٹی‘ کا مصنف ہی کیوں نہ ہو، میرا ہیرو ہے۔۔میرا اپنا سگا بھائی ہے۔۔ میں ادبی لوگوں کو اس طرح جمع کرتا ہوں جس طرح بعض لوگ ٹکٹ جمع کرتے ہیں۔ میری آٹو گراف کتاب پر شیخ اے ڈی کھوکھر (مصنف ُہن میں پتلون پاواں گی تے ڈانس گھراں وچ جاواں گی) سے لے کر چوہدری نرگس بغدادی (مصنف مشہور اسلامی ناول دغا باز شیر) تک کے آٹو گراف، ان کے اپنے ہاتھوں سے(اگرچہ میرے فونٹین پین کی سیاہی سے ) رقم زدہ موجود ہیں۔


1633718573350.png
 
Death anniversary of Noon Meem Rashid, one of the pioneers of modern Urdu poetry.

He got his elementary education from Alipur Chatha. Later on, he got his masters degree from Government College, Lahore in Economics.

After completing his education, he served for a short time in the Royal Indian Army during the Second World War, attaining the rank of Captain. He worked with All India Radio before Independence. After Independence, he worked with Radio of Pakistan in Peshawar till 1953. Later on, he worked with United Nations and retired Director of Press and Information Department in 1973. He died on 9 October 1975 in London due to cardiac arrest.


!زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!
زندگی سے ڈرتے ہو؟
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں


May be a closeup of 1 person, beard and sunglasses
 
کراچی، پاکستان سے تعلق رکھنے والے دُنیا کے منفرد مصنف ابن صفی صاحب، جن کے تخلیق کردہ کِرداروں کرنل فریدی، کیپٹن حمید، علی عمران ایم ایس سی ڈی ایس سی آکسن، قاسم، سلیمان، جولیا، جوزف، ایکسٹو، ہارڈ اسٹون وغیرہ وغیرہ کو برصغیر پاک و ہند کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر شہرت ملی

اور دُنیا کے واحد مصنف جن کی زندگی ہی میں کئی لوگوں نے نقل کرتے ہوئے انکی تخلیق کردہ عمران سیریز اور جاسوسی دنیا ’’فریدی حمید سیریز‘‘ اور انکے کرداروں پر اُن کی اجازت کے بغیر لکھا اور ان لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہیکہ یہ بھی ایک ورلڈ ریکارڈ ہے، یعنی ڈیڑھ سو 150 سے زائد مصنفین نے ابن صفی صاحب کے کرداروں پر لکھا اور کئی نے شہرت پائی۔

اردو ادب میں جاسوسی ادب کے صحیح معنوں میں بانی کہلوانے والے ایک عظیم مصنف ابن صفی صاحب۔

جب موبائل، انٹرنیٹ اور دیگر کئی جدید سہولیات کا کوئی وجود نہ تھے اس وقت اپنی اعلی کتب کے ذریعے حقیقت کے قریب ترین منظر کشی کر کے لاکھوں پڑھنے والوں کو دُنیا کے مختلف ممالک کی سیر کروانے و الے مصنف، جدید سائنسی دُنیا کے حیرت انگیز کمالات دِکھانے والے مصنف، جاسوسی و سراغرسانی ہوتی کیا ہے؟ اردو میں پہلی بار صحیح معنوں میں جاسوسی و سراغرسانی کو متعارف کروانے والے مصنف، اپنے ناولوں کے ذریعے طنز و مزاح، نفسیات، سسپنس، ایکشن و ایڈونچر، حب الوطنی کا درس دینے والے، تھکے تھکے سے بوجھل لمحات میں لبوں پر مسکراہٹ لانے والے۔ دنیا کے کئی موضوعات کو اپنے ناولوں میں عمدگی سے پیش کرنے والے اور اپنے قلم کے ذریعے ایسے موضوعات پر بھی خوبصورتی سے لکھنے والے مصنف جن موضوعات پر بڑے سے بڑے قلماروں کو مشکل پیش آئے۔

اردو ادب میں مشہور و معروف سلسلوں عمران سیریز اور جاسوسی دنیا ’’فریدی حمید سیریز‘‘ تخلیق کر کے عالمی سطح پر مشہور کرنے والے مصنف ابن صفی صاحب جن کے سلولوں پر ڈیڑھ سو سے زائد مصنفین نے انکی اجازت کے بغیر لکھا۔ ان ڈیڑھ سو سے زائد لوگوں میں سے فی الحال انچاس مصنفین کی تصاویر ملی ہیں جو سوشل میڈیا پر پہلی بار اولڈ کراچی گروپ میں شیئر کی جا رہی ہیں۔ امید ہے معلومات پسند آئیں گی۔



ابن صفی صاحب کے کرداروں پر لکھنے والے جن مصنفین کی تصاویر پوسٹ میں نظر آ رہی ہیں انکے نام:
ایچ اقبال (ہمایوں اقبال)،،، ایم اے راحت،،، ایس قریشی،،، اظہر کلیم،،، حمید اقبال،،، آئی ایچ کاظمی،،، ابن کلیم،،، ایس کرن،،، این صفی نامعلوم،،، نجمہ صفی نامعلوم،،، ناصر جاوید،،، ایم اے پیرزادہ،،، ایم ایس قادری،،، ایس آر قریشی،،، مظہر کلیم،،، صفدر شاہین،،، اسلم راہی ایم اے،،، ایس ایم طارق،،، رفیق پاشا،،،، حمد حسین ضیاء،،، مظہر الحق علوی،،، محمد حسین ضیاء،،، رفیق ندیم،،، مظہر الحق علوی،،، ہما اقبال،،، محی الدین نواب،،، ایم عرفان علی،،، مشتاق احمد قریشی،،، ایم اشرف،،، ایم اے رزاق،،، خان آفریدی،،، ظہیر احمد،،، شاہد محمود،،، زریں قمر،،، عقاب صحرائی،،، وید پرکاش کمبوج انڈیا ہندی ناول، منصور عارفی،،، اشتیاق احمد،،، فاروق احمد،،، جہانزیب عزیز،،، سجاد جہانیہ،،، مظہر علیم،،، سہیل اقبال،،، وید پرکاش شرما، انڈیا، صلاح الدین انقلابی،،، طاہر نجمی،،، فاروق سلیم،،، خالد نور،،، سید علی حسن گیلانی،،، ارشادالعصر جعفری،،، علی نوازش۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر و ترتیب سید فہد ترمذی (حسینی)، پاکستان۔



May be an image of 48 people and text
 


میرے پاس تم ہو
بھول جانے کا ہنر مجھ کو سکھاتے جاؤ
جا رہے ہو تو سبھی نقش مٹاتے جاؤ
چلو رسما" ہی سہی مڑ کے مجھے دیکھ تو لو
توڑتے توڑتے تعلق کو نبھاتے جاؤ____
کبھی کبھی یہ مجھے ستائے
کبھی کبھی یہ رلائے___
فقط میرے دل سے اتر جائیے گا
بچھڑنا مبارک بچھڑ جائیے گا___
میں سمجھا تھا
تم ہو تو کیا اور مانگوں..؟؟
میری زندگی میں میری آس تم ہو
یہ دنیاء نہیں ہے میرے پاس تو کیا
میرا یہ بھرم تھا میرے پاس تم ہو
مگر تم سے سیکھا
محبت بھی ہو تو دغاء کیجیئے گا
مکر جائیے گا___
تیرا ہاتھ کل تک میرے ہاتھ میں تھا
تیرا دل دھڑکتا تھا دل میں ہمارے
یہ مخمور آنکھیں جو بدلی ہوئی ہیں
کبھی ہم نے ان کے ہیں صدقے اتارے
کہیں اب ملاقات ہو جائے ہم سے
بچا کے نظر کو گزر جائیے گا _
کہاں جوڑ پائیں گے ہم دھڑکنوں کو،
کے دل کی طرح ہم بھی ٹوٹے ہوئے ہیں

خلیل الرحمٰن قمر​






May be a closeup of 1 person and standing
 
Back
Top Bottom