What's new

Urdu & Hindi Poetry

آج جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے جاسوسی ادب کے نامور مصنف اور ادیب جناب ابنِ صفی کی برسی ہے
ابنِ صفی ایک ایسے ادیب کا نام ہے جو مقبولیت کی انتہا پر مستوی ہے۔ اپنی موت کے تقریباً اکتالیس برس بعد بھی شہرت و قبولیت کے بے کنار پر اسی آب و تاب سے موجود ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ ابن صفی کا جاسوسی ادب محض پر اسرار، حیرت زا، تحیر افروز اور تجسس و استعجاب پر محیط نہیں بلکہ ان کے جاسوسی ناولوں میں بدن دریدہ زمانے کی نبض مدھم مدھم، ہولے ہولے ایسے دبے پاؤں سے چلتی ہے جیسے بیمار کی رات۔ آپ خواہ کتنے ہی تھکے قدموں اور بوجھل ذہن سے تفنن طبع کی خاطر کسی اِکسیر کی آس، میں ان کے جاسوسی ناولوں کا مطالعہ کریں، حیات انسانی کے تاریک پہلوؤں اور زخم خوردہ انسانیت سے تصادم طۓ ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ ابن صفی مزاح کے زور پر اس کی ہیبت کم کردیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسا عنصر ہے کہ سرسری مطالعہ کرنے والے بھی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک تو انتہائی دلچسپ و دلکش، سلیس و شگفتہ نثری اسلوب اس پر ستم ظریف مزاح نگاری!! —————- یہی تو وہ بات ہے کہ ابن صفی عام لکھنے والوں سے ممتاز ہیں۔
(بشکریہ: احمد صفی صاحب)



1627305384970.png




Aamna Shah
I wish he was acknowledged for his massive service to Urdu literature since he was the pioneer of modern mystery fiction. He is the only Urdu novelist in the mystery genre who was multi dimensional, original, creative and extremely nuanced. His characters, major as well as minor, were not mere caricatures. They were living, breathing individuals one could relate to.

Even the main protagonists weren't perfect but had flawed and layered personalities which made them all the more relatable, lifelike and appealing. His humor was neither crass nor overly polished to only convey what his audience wanted to hear. His humor (chutkulay) was so fresh and an organic extension of each of his individual characters that distinguished them from the rest.

His novels weren't overtly didactic where they would compromise on the entertaining spirit of his fiction. He included some extremely pertinent issues still plaguing us that made him ahead of his time in many ways. We can find serious concerns in his work like white supremacy, Nazism, extremism, sexual abuse of women, mental health crisis like masochism and sadism, racial supremacy, lust for wealth and power and many societal injustices that created monstrous villains in his novels.

There have been mystery writers before him as well as those who later stole his characters to make a buck for themselves, but nobody will ever create the magic Ibn e Safi sahab did. Even as an adult, I still read his novels with the same passion and love since they're my comfort books.

He will forever be the undisputed champion of mystery/suspense fiction in Urdu literature. No one has or can even come close. I wish we start owning this creative genius and start acknowledging him more than the likes of Agatha Christie whom he was creatively much superior to. May Allah bless him with jannat ul firdous.
Ameen.
 
Poet: سید نوید جعفری



کوئی جینا ہیے یہ بھی ڈر ڈر کے
پھر بھی جیتے ہیں لوگ مر مر کے

چاند دیکھا جو اک نظر بھر کے
دل میں طوفاں اٹھے سمندر کے

جان دے دونگا خودکشی کرکے
میرے پہلو سے تم اگر سر کے

کوئی تو گوشہ گیر ہیے مجھ میں
خود کلامی کو معتبر کرکے

ایک مٹھی ہی دھوپ مل جاۓ
دشت تاریک ہیں مقدر کے

موسم درد ٹھیر جاتا ہیے
معجزے ہیں یہ دیدۀ تر کے

پھر سلگتا ہیے جسم تنہائی
برف لہجوں کو بے اثر کر کے

درد پہلو بہ پہلو سوتے ہیں
غم شکن در شکن ہیں بستر کے

کس قدر گونجتے ہیں سناٹے
جیسے نقارے غم کے لشکر کے

ہم تو صحرا نچوڑ لیتے ہیں
تم بھکاری رہے سمندر کے

صرف خوں ہی نہیں شفق میں نوید
رمز کچھ اور بھی ہیں منظر کے
 
سالگرہ مبارک امجد اسلام امجد صاحب


اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے
تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو
تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنی ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ
رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا





May be an image of 1 person
 
طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اِتراؤ، آئینہ ہمارا ہے"

عمر بھر تو کوئی بھی، جنگ لڑ نہیں سکتا
تم بھی ٹوٹ جاؤ گے، تجربہ ہمارا ہے

(منظر بھوپالی)​
 
آج بابائے اردو مولوی عبدالحق کی برسی ہے

بابائے اردو مولوی عبدالحق ٭16 اگست 1961ء کو اردو کے عظیم محسن بابائے اردو مولوی عبدالحق نے وفات پائی۔ مولوی عبدالحق نے ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے سیکرٹری اور صدر کی حیثیت سے اس جماعت کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ اس انجمن کے تحت لسانیات‘ لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اسی انجمن کے اہتمام میں اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج‘ اردو کامرس کالج اور اردو لاء کالج جیسے ادارے قائم کیے۔
1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں ’’بابائے اردو‘‘ کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ مولوی عبدالحق کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے عبدالحق
کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔

تحریر و تحقیق:
عقیل عباس جعفری





May be an image of 2 people
 
آج پاکستان کے نامور شاعر احمد فراز کی برسی ہے
حروف بھی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں، کسی پر نچھاور ہوجایا کرتے ہیں اور کسی کی ریاضت کا خیال بھی نہیں رہتا۔ وہ خوش نصیب تخلیق کار ہوتے ہیں، جن کے لیے حروف، معنی و متن کے لیے اپنی تاثیر وقف کردیتے ہیں۔ احمد فراز ایسے ہی واحد متکلم شاعر تھے، جن کے ہاں رومان کی علامتوں سے لے کر، مزاحمت کے استعاروں تک، ہجر کے مراحل سے وطن پرستی کی فکری اساس تک، معنویت کے کئی در وا ہوتے تھے، اُنہیں حروف اور موضوعات کی کوئی قلت نہ تھی، وہ اپنی شعری روایت اور تاثیر میں اپنی مثال آپ تھے۔


سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
 
Death anniversary of Kaleem Usmani
(Standing 2nd from right)

1630097905146.png



کلیم عثمانی ٭ اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کی تاریخ پیدائش 28 فروری 1928ء ہے۔ کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا اور وہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کلیم عثمانی نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور احسان دانش سے اصلاح لینی شروع کی۔ 1955ء میں انہوں نے کراچی میں بننے والی فلم انتخاب سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔


اس کے بعد انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں کے نغمے لکھے۔فلم راز کے لئے تحریر کردہ ان کا نغمہ میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا بے مقبول ہوا۔ یہ نغمہ زبیدہ خانم نے گایاتھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔ 1966ء میں فلم ہم دونوں میں ان کی غزل ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا۔یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا اور اس کی موسیقار نوشاد نے ترتیب دی تھی۔

بعدازاں کلیم عثمانی لاہور منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کئے۔جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔ 1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کئے۔ فلم فرض اور مامتا میں انہوں نے ایک ملی گیت ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ تحریر کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ ’’یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے‘‘ کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے۔ کلیم عثمانی کی غزلیات کا مجموعہ دیوار حرف اور نعتیہ مجموعہ ماہ حرا کی نام سے شائع ہوا تھا۔

28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی، لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں علامہ اقبال ٹائون میں کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔



میرِ کارواں ہم تھے، روحِ کارواں تم ہو

ہم تو صرف عنواں تھے، اصل داستاں تم ہو

نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا

اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا

یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسپان اس کے

یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے





May be an image of 3 people and people standing
 


میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں درد عشق سے جاں بہ لب مجھے زندگی کی دعا نہ دے


میرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی

مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے

مجھے چھوڑ دے مرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر

یہ تری نوازش مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیلؔ کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی
 
Death anniversary of Habib Wali Muhammad (3 September 2014)

حبیب ولی محمد کو مشہور غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ پر بے حد شہرت ملی

Born in Rangoon, Burma in 1924, Habib Wali Mohammad embarked on a singing career during the 1950s when he was in his early 20s in Bombay. He participated in several local music competitions — winning the first prize in one such competition in 1941 — slowly establishing his reputation as a singer. He sang his first ghazal during the 1950s for Radio Ceylon, now Sri Lanka Broadcasting Corporation. He recorded two ghazals ‘Lagta Nahin Hai Jee Mera Ujrray Dayaar Mein’ by Bahadur Shah Zafar and Mirza Ghalib’s ‘Yeh Na Thi Hamari Qismat’. Interestingly, the LP record did not have his real name. He recorded the LP under the stage name of Kamal Roy. These ghazals were composed by Saraswati Devi, said to be Indian film industry’s first female music composer.

According to music historian, Sultan Arshad, Habib Wali Mohammad recorded two more geets (‘Kit Gaye Mann Ki Naao Kay Maanjhi’, ‘Aag Lagi Mann Mein Moray Baalam’) under the stage name of Kamal Roy that were penned and composed by none other than O P Nayyar, the ace Hindi film music director who famously sidelined the reigning singing superstar of the time Lata Mangeshkar in favour of Asha Bhosle.

His first film recording was for the film Bindiya in 1955 for which he crooned two songs: ‘Teray Zulm Ki Tujh Se Faryaad Hai’, a solo number, and ‘Aaja Tujhe Ek Baar Mein Seene Se Laga Loun’, a duet with Asha Bhosle. These were the only two film numbers that he rendered in Bombay.

Hailing from an industrialist background — his family surname was Tabani, a Memon business family — he moved to Pakistan along with his family during the late 1950s and utilised his business education which he studied in the United States to set up Shalimar Silk Mills. Music was never his profession but a leisurely pursuit.
In 1970, he sang two ghazals for the film Baazi, ‘Aashiyaan Jal Gaya’ and ‘Raatein Theen Chaandni’ establishing his reputation in his new homeland. There was a resurgence of interest in the genre of ghazals throughout the 1970s. Mehdi Hasan, Amanat Ali Khan, Farida Khanum and Iqbal Bano were leaving their footprints in the vibrant ghazal landscape at the time.


It is during this time period that Habib Wali Mohammad’s star appeared and reached its zenith. In 1973 he recorded ‘Aaj Jaane Ki Zid Na Karo’ for the film Badal aur Bijli that cemented his reputation. This was a Sohail Rana composition and penned by Fayyaz Hashmi. People on the other side of the border mistakenly believe that it was originally sung by Farida Khanum when it was Habib Wali Mohammad who is the original singer of the ghazal. According to Sultan Arshad, the fact that Habib Wali Mohammad was not classically trained lending his vocal style simplicity appealing to a larger audience.

His other best known non-film songs are the national ones such as ‘Aye Nigaar-e-Watan Tu Salaamat Rahe’ penned by Jamiluddin Aali and composed by Sohail Rana and ‘Roshan-o-Rakshaan, Nayyar-o-Tabaan’ that became very popular in the 1980s. His other popular geets and ghazals include ‘Gajra Bana Kay Liya Malaniya’, ‘Gori Karat Singhaar’, Qamar Jalalvi’s ghazal ‘Kab Mera Nasheman Ehl-e-Chaman’ and Bahadur Shah Zafar’s ‘Na Kisi Ki Aankh Ka Noor Houn’.
By the 1990s musical trends had changed and so had people’s tastes. His musical career became dormant and he moved to the United States where he spent his last years performing in concerts and private functions attended by audiences who lived on nostalgia of the golden age of ghazal of the 1970s.

Habib Wali Mohammed leaves behind three sons Anwar, Rizwan and Nadeem and a daughter, Ruskhsana.
His brother Ashraf W. Tabani was governor of Sindh in late 1980s.
 
Back
Top Bottom