صحیح بخاری، کتاب اللباس (لنک):
عکرمہ نے اور انہیں رفاعہ رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی ۔ پھر ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ نے نکاح کر لیا تھا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ خاتون سبز اوڑھنی اورڑھے ہوئے تھیں ، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ( اپنے شوہر کی ) شکایت کی اور اپنے جسم پر سبز نشانات ( چوٹ کے ) دکھائے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ( جیسا کہ عادت ہے ) عکرمہ نے بیان کیا کہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی مددکرتی ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ) کہا کہ کسی ایمان والی عورت کا میں نے اس سے زیادہ برا حال نہیں دیکھا ان کا جسم (مار کھا کھا کر) ان کے کپڑے سے بھی زیادہ برا حال ہو گیا ہے ۔ بیان کیا کہ ان کے شوہر نے بھی سن لیا تھا کہ بیوی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ہیں چنانچہ وہ بھی آ گئے اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے ان سے پہلی بیوی کے تھے ان کی بیوی نے کہا اللہ کی قسم مجھے ان سے کوئی اورشکایت نہیں البتہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جس سے میرا کچھ نہیں ہوتا ۔ انہوں نے اپنے کپڑے کا پلو پکڑ کر اشارہ کیا ( یعنی ان کے شوہر کمزور ہیں ) اس پر ان کے شوہر نے کہا یا رسول اللہ ! واللہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں تو اس کو ( جماع کے وقت ) چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں مگر یہ شریر ہے یہ مجھے پسند نہیں کرتی اور رفاعہ کے یہاں دوبارہ جانا چاہتی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو تمہارے لیے وہ ( رفاعہ ) اس وقت تک حلال نہیں ہوں گے جب تک یہ ( عبدالرحمٰن دوسرے شوہر ) تمہارا مزا نہ چکھ لیں ۔
چنانچہ:
(1) بیوی کو مار مار کے اس کے نیل ڈال دیے جاتے ہیں۔
(2) آپ دیکھئے کہ عورت کو پہلے شوہر سے پیار ہے اور وہ مضطرب ہے کہ اپنے پہلے شوہر کے پاس جائے، مگر مذہب نے اس پر آسودگی کے تمام تر دروازے بند کر دیے ہیں۔
(3) اور یہاں ایک خاندان نہیں، بلکہ 2 خاندان تباہ ہو رہے ہیں۔ پہلے خاوند کا گھر بھی ویران ہے، اور دوسرے خاوند کا گھر بھی مار کٹائی کا اڈہ بنا ہوا ہے اور گھر میں زبردست ٹینشن پھیلی ہوئی ہے۔
(4) بالیقین اس کیس میں پہلے خاوند سے اس عورت کے بچے مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے کہ جہاں ان کی ماں کی ایسے بری طریقے سے پٹائی کی جا رہی ہے کہ اس کے نیل پڑ رہے ہیں۔
(5) پیار کو کبھی بھی پابند سلاسل نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر اس عورت کو پہلے خاوند سے پیار ہے، اور وہ اپنی زندگی اور اپنا جسم صرف اس کے ساتھ ہی تصور کر سکتی ہے، تو پھر یہ ظلم عظیم ہے کہ عورت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس پورے پراسیس سے گذرے۔
(6) یقینی طور پر دوسرے شوہر سے سیکس کرنے کے بعد پہلے شوہر کی نظر میں بھی اس کی قدر و قیمت کم ہو چکی ہو گی اور وہ اسے پہلے کی طرح پیار نہیں کر سکے گا۔
(7) واحد عذر یہ پیش ہوتا ہے کہ ان میاں بیوی کو طلاق لینے سے قبل ان تمام پہلوؤں پر سوچنا چاہیے تھا۔ لیکن سوچئے اگر عورت شروع سے ہی بے قصور ہو، اور طلاق دینا اس کے پہلے شوہر کی غلطی ہو، تو پھر بے چاری عورت کو اس تمام پراسیس سے گذرنے پر مجبور کرنا اس کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی اور ظلم ہے۔ اس ناکردہ گناہ کے باوجود اس کی زندگی تباہ کر دی جاتی ہے، اس کے بچوں کی زندگیاں تباہ کر دی جاتی ہیں۔
For my Indian friends, let me translate what I wrote about Halalah above in Urdu.
According to this Hadith of Prophet (
link), the 2nd husband beat the woman so badly that her body became blue, but Prophet Muhammad was satisfied with this brutal beating and telling her to stay with the 2nd husband.
This woman wants to return to the first husband, but religion closed all doors upon her, and her fate is only to get the beating. Not only 1, but 2 families are being destroyed here.
And for surely the children of this poor woman are also going to be ruined in the house of 2nd husband where their mother gets daily brutal beating.
Love is natural. If this woman can only imagine her life with the father of her children, then why to stop her?
The only defence that is presented is this that both 1st husband and the wife should have thought about the consequences before the divorce.
But just image that the woman is innocent and it was the fault of first husband to divorce her. In this case, why the poor woman has to pay such heavy price and should go through all this torture and why her life and the life of her children are ruined?