What's new

Whatever

@Windjammer , is anyone going to post about the latest promotions in PAF? Or do we have to wait for the official announcement?
 
Last edited:
Screenshot_20230111_060454.jpg
 
@SIPRA paaji, can you please throw some light of the meanings on the following words:

Yahwiyan
Bongian
Chawal

They have been employed quite frequently of late by Pakistanis. I suspect they mean similar things, viz Bullshit, but there must be important differences that I am not aware of.
 
@SIPRA paaji, can you please throw some light of the meanings on the following words:

Yahwiyan
Bongian
Chawal

They have been employed quite frequently of late by Pakistanis. I suspect they mean similar things, viz Bullshit, but there must be important differences that I am not aware of.

Sir Jee: "Yaahwiyaan", "Bongiyaan" and "Chawaliyaan" are plural forms of "Yaahwi", "Bongi" and "Chawali", respectively, and the persons, who utter these, are called "Yaahwa", "Bonga" and "Chawal", respectively.

"Yaahwa" and "Bonga" are almost synonymous, and imply utterly fool person. "Chawal" has a different meaning and implies a mean person.
 
کیمونسٹ نظریے کے زوال سے پہلے پسماندہ ممالک کے جدید پڑھے لکھے افراد عموماً معیشت میں ہی ’’دخل در معقولات‘‘ کیا کرتے تھے۔ انہیں مارکسی فلسفہ اور معاشی نظام بہت پسند تھا اور وہ اس نظام کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں انسانی دُکھوں کا مداوا سمجھتے تھے۔ پاکستان میں یہ ’’سرخے‘‘ کہلاتے، لیکن یہاں ان کا ہدف مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام نہیں، بلکہ اسلام اور اس کا معاشی نظام ہوتا۔ وہ اس دور میں ایک ہی سوال کیا کرتے، ’’کیا اسلام کا کوئی معاشی نظام ہے‘‘، اگر ہے تو جدید دور کے مسائل کا اس کے پاس کوئی حل بھی موجود ہے اور اس معاشی نظام کے ماہرین کون ہیں/کہاں ہیں؟مارکسزم دفن ہو گیا، لینن گراڈ واپس سینٹ پیٹرز برگ کہلانے لگا، اور اس کے ماننے والے جو کبھی امریکہ کو لعنت ملامت کیا کرتے تھے اب اسی سرمایہ دارانہ نظام کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کایا کلپ کے باوجود ان کی اسلام سے دُشمنی بدلی اور نہ ہی ان کا یہ سوال کہ ’’کیا اسلام کا کوئی معاشی نظام ہے اور اگر ہے تو اس معاشی نظام کے ماہرین کہاں ہیں؟ یوں تو اس سوال کا جواب ہر دور میں دیا جاتا رہا ہے، لیکن گذشتہ چند سال خصوصاً 2008ء کے معاشی بحران کے بعد تو دنیا بھر کے معاشی مفکرین، اسلامی معاشی نظام کی جانب سوچنے پر ایسے مجبور ہوئے کہ انہوں نے اسلامی معاشی نظام سے متعلق ذہنوں پر چھائی صدیوں کی جہالت کا پردہ پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ پھر بھی میرے ایک دوست کالم نگار کے کالم نگار بیٹے نے اپنے کالم میں طنزاً یہ فقرہ تحریر کیا ہے کہ ’’سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کیا ہو گی۔ یہ اسلام کا نہیں معیشت کا سوال ہے، اس کا جواب مولانا مودودیؒ نہیں جان مینارڈکینز نے دینا ہے‘‘۔ میرے دوست کو یقیناً اندازہ ہو گا کہ جان مینارڈ کینز کو مرے ہوئے چھہتر (76) سال بیت گئے اور آج کی جدید مانیٹری پالیسی جس کا وہ تذکرہ فرما رہے ہیں اس کی تشکیل کا کینز کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج کی معاشی دنیا امریکی شہر بریٹن ووڈز (Bretton Woods) میں 44 ملکوں کے 730 ماہرین کے قائم کردہ عالمی مالیاتی یا ’’مانیٹری‘‘ نظام کی پیداوار ہے، جس کا تعلق معاشیات کے نفسِ مضمون سے نہیں بلکہ دنیا کو معاشی طور پر غلام بنانے کے لئے ایک سسٹم کو زبردستی لاگو کرنے سے ہے۔ یہ عالمی طاقتیں کبھی بھی ایسا عالمی مالیاتی نظام قائم کرنے کے قابل نہ ہوتیں اگر انہیں دوسری جنگِ عظیم میں فتح نصیب نہ ہوتی۔ جیسے ہی نارمنڈی فتح ہوا تو اس کے فوراً بعد بریٹن ووڈز کانفرنس طلب کی گئی، جس کی کوکھ سے عالمی مالیاتی نظام اور اس کے نفاذ کے دو اہم ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بینک وجود میں آئے۔ ان دونوں اداروں کا مقصد دراصل دنیا کی تمام معیشتوں کو کنٹرول کرنا تھا، یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پہلے دو مقاصد یہ رکھے گئے۔ (1) عالمی مالیاتی اشتراک کے لئے کام کرنا اور (2) دنیا میں معاشی استحکام قائم کرنا۔ اسی مالیاتی نظام کے تحت ہی سب سے پہلے دنیا کے تمام ممالک کو مجبور کیا گیا، کہ وہ ایک مصنوعی، جعلی کاغذی کرنسی کا نظام اختیار کریں جس کے لئے ہر ملک کا ایک سنٹرل بینک ہونا چاہئے جو اس جعلی کاغذی کرنسی کو چھاپنے کا اہتمام کرے۔ اس ’’جبری نفاذ‘‘ سے پہلے دنیا بھر کی معیشتیں ہمیشہ اس چیز کو کرنسی مانتی تھیں جس کے اندر اس کی ازخود قیمت موجود ہو (intrinsic value of its own)۔ یعنی اگر اسے بازار میں جا کر بیچا جائے تو کسی بھی قسم کی گارنٹی کے بغیر اس کی قیمت مل جائے، جیسے سونا اور چاندی وغیرہ۔ لیکن اگر کاغذ کے نوٹوں کو بغیر کسی گارنٹی کے بیچا جائے تو ردّی کے بھائو بھی نہیں بکیں گے۔ یوں کاغذی کرنسی کے نفاذ سے اس عالمی دھوکہ دہی، فراڈ اور جعلی مالیاتی نظام کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے اگر کوئی کاغذی کرنسی نما چیز موجود تھی بھی تو اس کی حیثیت صرف ایک ’’معاہداتی دستاویز ‘‘ (Promissory note) سے زیادہ نہ تھی۔ آغاز میں یہ کلیہ بنایا گیا کہ ان کاغذ کے جعلی نوٹوں کے بدلے تمام ملک اپنے پاس سونے کا ذخیرہ رکھیں جسے "Gold Standard" کہا گیا۔ لیکن صرف 18 سال کے بعد 1973ء میں جب فرانس کے صدر نے امریکی صدر سے یہ مطالبہ کیا کہ فرانس کے دو ارب ڈالر امریکی بینکوں میں موجود ہیں، ان کے بدلے اسے سونا چاہئے تو ساری عالمی ’’مانیٹری پالیسی‘‘ کا فراڈ سامنے آ گیا، کیونکہ امریکہ کے پاس تو اتنا سونا موجود ہی نہیں تھا جتنے اس نے ڈالر چھاپ رکھے تھے۔ اس نے صاف انکار کر دیا اور دنیا کو ایک اور جعلی تصور دیا گیا جس کا نام "Goodwill of a Country" یعنی کسی ملک کی ’’معاشی حیثیت‘‘ رکھا گیا۔ اب اس حیثیت کا اندازہ کون لگائے۔ اس کے لئے ایک عالمی بینک پہلے سے موجود تھا جس کا نام تھا "Bank of International Settlements" اس بینک کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ ہر ملک کی کرنسی کی حیثیت (Value) کا تعین کرے۔ اس بینک کی کارگزاری ملاحظہ ہو۔ نائیجیریا ایک ایسا ملک ہے، جس کے پاس سعودی عرب سے بھی زیادہ تیل ہے، لیکن اس کی کرنسی کمزور ہے، جبکہ آئس لینڈ جہاں گھاس بھی نہیں اُگتی اس کی کرنسی مضبوط ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ سونا افریقہ میں پیدا ہوتا ہے لیکن عالمی ’’گولڈ سٹینڈرڈ‘‘ امریکہ اور یورپ کے پاس ہے۔ یہ ہے طاقت کے بل بوتے پر معیشتوں پر قبضہ۔ اسی سال 1973ء میں اس جعلی کاغذی کرنسی کو سونے کے بجائے پٹرول سے ’’قیمت‘‘ (Value) دینے کی کوشش کی گئی۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے کہا گیا کہ وہ اپنا تیل صرف ڈالروں میں بیچیں گے۔ یعنی اگر پاکستان، ملائیشیا، فرانس یا دیگر ممالک نے تیل خریدنا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی مصنوعات وغیرہ بیچ کر امریکی ڈالر خریدیں گے اور پھر ان ڈالروں سے تیل خریدیں گے جو اصل میں عربوں اور افریقیوں کی ملکیت ہے۔ یوں تیل صرف ڈالروں میں خریدا جانے لگا اس لئے ڈالر ہی سٹینڈرڈ بن گیا اور اس کے مقابلے باقی تمام کرنسیاں ذلیل و رُسوا۔ یہی ڈالر ہے جو محض بہترین پرنٹنگ والے ایک کاغذ کے سوا کچھ نہیں۔ آج اگر یہ اعلان ہو جائے کہ تیل صرف پاکستانی روپوں میں خریدا جائے گا، تو دنیا میں ایک روپے کے سو ڈالر مارکیٹ میں ملنے لگیں۔ اس ساری مانیٹری پالیسی کا نہ معیشت سے کوئی تعلق ہے اور نہ مولانا مودودیؒ اور کینز سے۔ اس عالمی مانیٹری پالیسی سے نہ کسی ملک کی پیداوار میں اضافہ ہوتا اور نہ ہی معیشت کی درستگی کی جاتی ہے۔ یہ تو ایک طاقتور قوت کا زبردستی نافذ کیا گیا فراڈ ہے۔ مگر اس فراڈ کو علمی سطح پر جائز قرار دینے کے لئے دنیا کی یونیورسٹیوں میں ایک معاشی علم تخلیق کیا گیا ہے جسے جدید معاشی و مالیاتی سائنس کہتے ہیں۔ اگر دنیا سے کاغذی جعلی کرنسی کا وجود ختم ہو جائے تو اس معاشی سائنس کے لاتعداد مضامین ناکارہ ہو جائیں۔ مثلاً پاکستان کے سونے کے سکے اور فرانس، برطانیہ اور امریکہ کے سونے کے سکے میں رتی برابر بھی فرق نہیں ہو گا۔ یہ سب ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر کام کریں گے اور یوں جدید معاشیات کا وہ علم جو شرح تبادلہ (Exchange Rate) سے تعلق رکھتا ہے بالکل بے کار ہو جائے گا۔ اس طرح کاغذی نوٹ چھاپ کر جو افراطِ زر پیدا کی جاتی ہے اس کا مضمون بھی نصاب سے خارج کرنا پڑے گا۔ اس عالمی مالیاتی سودی نظام کا کوئی تعلق معاشی سائنس سے ہے اور نہ معاشی تجزیئے سے، بلکہ عالمی طاقتوں کی قوتِ نافذہ سے ہے۔ اگر اس کا کوئی تعلق معاشی ترقی سے ہوتا تو جاپان مدتوں عالمی معیشت پر چھایا رہا، لیکن اس بیچارے کو تو سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست بھی نہیں دی گئی۔
 
Ham apny logon se sachay nahi hain. Or logon se kia gila kerna.

اس دور میں اہم شخصیات کی خبروں سے متعلق
تصاویر صرف اخبارات میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ یہ شاید 1963ء کی بات ہے، یادش بخیر مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کی ایک ایسی تصویر اخبارات میں چھپی تھی جس میں انہیں دل کا عارضہ ہوا تھا اور وہ لاہور کے میو ہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈ میں ایک بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ پہلی دفعہ نواب آف کالا باغ کو اپنی لمبے طرّے والی پگڑی کے بغیر، ایک بستر پر نڈھال لیٹے ہوئے دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ لیکن اس حیرت سے ہزار گنا بڑی حیرت آج ساٹھ سال کے بعد سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اس تصویر کو دیکھ کر ہوئی، جس میں وہ ’’ہرنیا‘‘ کے آپریشن کے بعد امریکہ کے ایک ہسپتال میں ویسے ہی بستر پر لیٹے ہوئے ہیں۔ دونوں تصاویر ہماری ساٹھ سالہ تاریخ کے زوال کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ دل کا مرض ساٹھ سال پہلے بھی موجودہ دور کی طرح طبّی دنیا کا پیچیدہ اور نازک مرض ہی تصور ہوتا تھا جبکہ ’’ہرنیا‘‘ اس دور میں بھی آسان ترین امراض میں گِنا جاتا تھا۔ یہاں معاملہ ان دونوں امراض کے تقابل کا نہیں ہے، بلکہ معاملہ اس ’’قومی مرض‘‘ کا ہے جو ہمارے حکمرانوں میں بدترین کینسر کی طرح سرایت کر چکا ہے۔ یہ تکبّر، دکھاوے، اور عام آدمی کو مرعوب کرنے کی بیماری ہے جس نے میرے پیارے پاکستان کو دو واضح نظر آنے والے جزیروں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک بہت ہی چھوٹا سا جزیرہ ہے، جس میں اس ملک کی اشرافیہ یعنی سیاست دان، جرنیل، جج، بیوروکریٹ، تاجر اور اب تو میڈیا انڈسٹری کے کچھ اہم چہرے بھی رہتے ہیں، جبکہ دوسرے جزیرے پر بائیس کروڑ عوام کا بسیرا ہے۔ ان دونوں جزیروں کے درمیان طاقت و قوت کا سمندر کھولتے ہوئے پانی کی طرح پھنکارتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے دست و گریبان نہیں ہونے دیتا۔ ایک زمانے میں صرف قبرستانوں میں کچھ مخصوص خاندانوں کے احاطے ہوا کرتے تھے، اس میں بھی امیروغریب کی تفریق نہیں ہوتی تھی، بس مرنے والے کا تعلق اس مخصوص برادری سے ہونا چاہئے تھا، لیکن شہروں کی آبادیاں ہمیشہ سے مشترک تھیں۔ آپ لاہور کے اندرون شہر یا کسی بھی شہر کی قدیم آبادی کو دیکھیں تو آپ کو ایک ہی محلے میں بہت بڑی حویلی بھی ملے گی اور متوسط طبقے کے مکانات کے ساتھ ساتھ غرباء کے چھوٹے چھوٹے گھر بھی نظر آئیں گے۔ بجلی جاتی، پانی بند ہوتا، محلے میں صفائی نہ ہوتی تو یہ تمام مسائل امیروغریب سب کے لئے مشترکہ ہوتے۔ انگریز نے اپنے وفادار حکومتی کارندوں کی کالونیاں علیحدہ بنائی تھیں اور ان میں بھی آپس میں تفریق رکھی تھی۔ ضلع کے اعلیٰ افسران کے ایکڑوں پر پھیلے ہوئے گھر تھے جبکہ سٹاف کے لئے ’’بابو محلے‘‘ الگ بنائے گئے تھے۔ اس رہائشی تقسیم کے باوجود بھی انگریز نے عوام اور اشرافیہ کے تعلیمی ادارے علیحدہ کئے تھے اور نہ ہی ہسپتال۔ سب لوگ ایک ہی بازار سے ضروریاتِ زندگی کی اشیاء خریدتے تھے۔ کنٹونمنٹ انگریز نے اس لئے آباد کئے تھے کہ ان میں افواج کے افسران اور عام فوجی عارضی طور پر قیام پذیر ہوں تاکہ وہ وطن کے دفاع کا فریضہ یکسوئی سے سرانجام دے سکیں۔ افواج کو عام لوگوں سے الگ رکھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ انہیں صرف اور صرف دفاع کے لئے مخصوص رکھا جائے۔ آہستہ آہستہ وہاں افواج کے اعلیٰ افسران کو مستقل پلاٹ الاٹ ہوئے اور پھر گھر بھی ملنے لگے۔ اس کے بعد ملک کے ’’صاحبانِ حیثیت‘‘ افراد کو بھی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ کنٹونمنٹ ایک ایسا علاقہ، جس کے چاروں طرف باادب، باملاحظہ، ہوشیار کہتے ہوئے باوردی پہرے دار ہوتے ہیں، ایسا کسے اچھا نہیں لگتا۔ آج بھی آپ کو سیاسی اشرافیہ کے پرانے گھر کنٹونمنٹ میں ہی ملیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سول لائنز کے نام سے عام آدمیوں سے علیحدہ ایک اور علاقہ آباد کیا گیا جو زیادہ تر امراء کے لئے مختص تھا۔ سرمائے کی ریل پیل شروع ہوئی تو گلبرگ لاہور اور ڈیفنس کراچی جیسی آبادیاں وجود میں آئیں جہاں ایکڑوں پر پھیلی ہوئی رہائش گاہیں تھیں۔ مگر آج تو ہر شہر اور قصبے میں آپ کو ایسی لاتعداد آبادیاں نظر آئیں گی جن میں صرف امراء و رئوسا رہتے ہیں۔ ان کے بازار الگ ہیں، تفریح گاہیں مختلف ہیں، سکول، ہسپتال علیحدہ ہیں۔ بڑے بڑے آہنی دروازے ہیں جن میں عام انسان صرف مزدوری کرنے کے لئے ہی داخل ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کا کوئی غریب پڑوسی ہے اور نہ ہی اس کے حقوق کی کسی پر ذمہ داری۔ دونوں علاقے علیحدہ دکھائی بھی دیتے ہیں اور سہولیات کے حوالے سے بھی مختلف ہیں۔ ایک جانب غریب تعفن زدہ بستیاں ہیں جن میں سیوریج نہ پانی و بجلی اور دوسری طرف زندگی جگمگاتی جاگتی ہے۔ رہائش گاہوں کے حساب سے ایسی تقسیم آپ کو دنیا کے کسی ترقی یافتہ ممالک میں بھی نظر نہیں آئے گی۔ وہاں اگر بڑے بڑے محل ہیں تو وہ چند ایک ہی ہیں مگر عام بستیوں سے بہت دُور جبکہ عام شہری آبادی میں امیروغریب یکساں رہ رہے ہوتے ہیں۔ علاقے اور رہائش گاہیں تو ہم نے الگ کر لیں لیکن سب سے بڑا ظلم جو ہم نے اس ملک پر کیا وہ یہ تھا کہ ہم نے دو بنیادی ضروریات کے اداروں میں بھی بدترین طبقاتی تقسیم پیدا کر دی۔ یہ تھے صحت اور تعلیم کے ادارے۔ غریب اور امیر افراد دونوں اپنے اپنے مکانوں میں گزارا کر لیتے ہیں، اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کپڑے پہن لیتے اور اپنی اوقات کے حساب سے کھانا کھا کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر غریب کے بیٹے اور امیر کے بیٹے کو کینسر ہو جائے تو دونوں کو ایک ہی طرح کا علاج ملنا چاہئے۔ اسی طرح اگر غریب کا بیٹا ذہین ہے تو وہ بھی امیر کے ذہین بیٹے کی طرح اعلیٰ تعلیمی ادارے کی سہولیات کا حقدار ہے۔ جن دنوں کی ملک امیر محمد خان کی میو ہسپتال کی تصویر ہے، اس دور میں یہ تفریق ہرگز نہیں تھی۔ میں گجرات کے جس ٹاٹ والے سکول میں پڑھتا تھا، اس میں ڈپٹی کمشنر اور ممبرانِ اسمبلی کے بیٹے بھی ہمارے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ گجرات کے ایم سی پرائمری سکول کی پانچویں کلاس میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والی ایک ہی کلاس سے ہم تین لوگ سول سروس میں آئے۔ سابق فیڈرل سیکرٹری سیرت اصغر جوڑا، مَیں اور سابق کمشنر انکم ٹیکس جاوید رانا۔ ہمیں کسی طور پر بھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم کسی اہم اور غیر مرئی قسم کی مخلوق سے مقابلہ کرنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح شہر میں ایک ہی سول ہسپتال تھا جس میں سب علاج کروانے جایا کرتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے ان دونوں سہولیات سے فائدہ اُٹھانے والوں کے درمیان اتنا فاصلہ بڑھا دیا ہے کہ اب یہ دونوں الگ دنیائوں کی مخلوق لگتی ہیں۔ وہ شخص جو سرمایہ رکھتا ہے اس کے لئے پرائیویٹ ہسپتالوں کی ایک وسیع دنیا ہے جہاں سے وہ علاج کروا سکتا ہے جبکہ غریب آدمی سرکاری ہسپتال کی زبوں حال کیفیت میں اپنے پیارے کی لاش اُٹھا کر لاتا ہے۔ اسی طرح صاحبانِ حیثیت افراد کے لئے دنیا کے مہنگے ترین نظامِ تعلیم کی مقامی شاخیں اور ان سے متاثر سکول سسٹم کھلے ہوئے ہیں جبکہ ایک غریب شخص کا ذہین ترین بچہ بھی ایک ایسے سکول میں پڑھنے پر مجبور ہے جس پر سرکار بھی توجہ نہیں دیتی۔ ایک دفعہ سیکرٹریز کی میٹنگ میں ایک وزیر اعلیٰ نے سوال کیا، کہ ’’ہم اپنی صحت اور تعلیم کی سہولیات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں‘‘۔ مَیں نے کہا کہ صرف ایک حکم نامے سے کہ ’’وزیر اعلیٰ سے لے کر چھوٹے درجے کے ملازمین تک، سب کو پابند کریں کہ وہ اپنا علاج سرکاری ہسپتال سے کرائیں اور اپنے بچوں کو سرکاری سکول سے پڑھائیں۔ پھر دیکھئے گا یہ دونوں ادارے مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں انقلابی طور پر تبدیل ہو جائیں گے‘‘۔
 
Back
Top Bottom