(هم اور ھماری انگلش ونگلش)
مجھے بچپن سے ہی انگریزی میں فیل ہونے کا شوق تھا لہذا میں نے ہر جماعت میں اپنے شوق کا خاص خیال رکھا۔ ویسے تو مجھے انگریزی کوئی خاص مشکل زبان نہیں لگتی تھی ، بس ذرا (سپیلنگ ، گرائمراور Tenses) نہیں آتے تھے۔ مجھے یاد ہے جو استاد ہمیں جماعت میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے وہ بھی کاٹھے انگریز ہی تھے، دو سال تک (’’سی۔۔۔یو ۔۔۔پی۔۔۔’’سپ‘‘) پڑھاتے رہے، مشین کو ’’مچین‘‘اور (نالج کو ’’کنالج‘‘) کہتے رہے۔
آج سے دو سال پہلے تک مجھے یقین ہوچکا تھا کہ میں فارسی، عربی ، پشتو اور اشاروں کی زبان تو سیکھ سکتا ہوں لیکن انگریزی نہیں،لیکن اب جو حالات چل رہے ہیں اُن کو مدنظر رکھ کر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یا تو مجھے انگریزی آگئی ہے، یا سب کو بھول گئی ہے۔۔۔۔۔
کچھ بھی ہو، میری خوشی کی انتہا نہیں، اب سارے (سپیلنگ) بدل گئے ہیں اور دو تین لفظوں میں سما گئے ہیں۔ اب( Coming) لکھنا ہو تو صرف (cmg )سے کام چل جاتا ہے۔ (فیس بک FB) بن گئی ہے۔ اب کوئی انگریزی کا لمبا لفظ لکھنا ہو تو اُس سے پہلے کے چند الفاظ لکھ کر ہی ساری بات کہی جاسکتی ہے، میں نے ساڑھے تین سال کی(’’ٹیوشن) بامشقت‘‘ کے بعد (unfortunately) کے (سپیلنگ) یاد کیے تھے، آج کل صرف( Unfort) سے کام چل جاتاہے یعنی جہاں سے مشکل (سپیلنگ )شروع وہیں پہ ختم۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن اب تو اس مختصر انگریزی میں بھی ایسی ایسی مشکلات آن پڑی ہیں کہ کئی دفعہ جملہ سمجھنے کے لیے استخارہ کرنا پڑتاہے.... ابھی کل مجھے ایک دوست ک(امیسج) آیا، لکھا تھا(’’U r inv in bk crmy‘‘) میں نے حیرت سے (میسج) کو پڑھا، اللہ جانتا ہے تین چار دفعہ مجھے شک گذرا کہ اُس نے مجھے کوئی گندی سی گالی لکھی ہے....
دل مطمئن نہ ہوا تو ایسی ہی انگریزی لکھنے اور سمجھنے کے ماہر ایک اور دوست سے رابطہ کیا، اُس مردِ مجاہد نے ایک (سیکنڈ) میں ترجمه کردیا، کہ لکھا ہے (You are invited in book ceremony)
انگریزی سے نمٹنے کا ایک اوراچھا طریقہ میرے ہمسائے نے نکالا ہے، جہاں جہاں انہیں انگریزی نہیں آتی وہاں وہ اطمینان سے اُردو ڈال لیتے ہیں۔مثلاً اگر کھانا کھاتے ہوئے اُنہیں کسی کا (میسج) آجائے تو جواب میں لکھ بھیجتے ہیں(''پلیز اِس ٹائم ناٹ ڈسٹرب، آئی ایم کھانا کھائینگ‘‘۔) ایک دفعہ موصوف کو( فیس بک) پر ایک لڑکی پسند آگئی....... فوراً لکھا
(’’آئی وانٹ ٹو شادی وِد یو۔۔۔آر یو راضی......؟‘‘) لڑکی کا جواب آی(ا’..’ہاں آئی ایم راضی، بٹ پہلے ٹرائی ٹو راضی میرا پیو تے بے بے ‘‘۔)
آج کل یہ دونوں میاں بیوی ہیں اوراکثر اسی انگریزی میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، تاہم اب وہ درمیان میں اُردو کی بجائے پنجابی بولتے ہیں اور ایک جملہ بار باردہراتے ہیں(’’ آئی سیڈ کھصماں نوں کھا ، یور سارا خاندان اِز چول‘‘۔)
انگریزی کے بدلتے ہوئے رنگ صرف یہیں تک محدود نہیں، اب تو کوئی صحیح انگریزی میں جملہ لکھ جائے تو اُس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگتا ہے، (ماڈرن) ہونے کے لیے انگریزی کا بیڑا غرق کرنا بہت ضروری ہوگیاہے ،میں تو کہتا ہوں انگریزی کی صرف ٹانگ ہی نہیں، دانت بھی توڑ دینے چاہئیں ، اِس بدبخت نے ساری زندگی ہمیں خون کے آنسو رُلایا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب انگریزی لکھنے کے لیے (گرائمراورTenses) بھی غیر ضروری ہوگئے ہیں۔یعنی اگر کسی کو کہنا ہو کہ ’’میں تمہارا منتظر ہوں، تم کب تک آؤ گے؟‘‘ تو بڑی آسانی سے اِسے چٹکیوں میں یوں لکھا جاسکتا ہے( m wtg u cm whn?۔۔۔!!!)
دنیا مختصر سے مختصر ہوتی جارہی ہے، (کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ سے لیپ ٹاپ اور اب آئی پیڈ) میں سما چکے ہیں، موٹے موٹے (ٹی وی اب سمارٹ ایل سی ڈی) کی شکل میں آگئے ہیں، (ونڈو اے سی کی جگہ سپلٹ اے سی) نے لے لی ہے،(انٹرنیٹ ایک چھوٹی سی USB میں سمٹ چکا ہے-)
ایسے میں انگریزی کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی، اُردو کا حل تو ’’رومن اُردو‘‘ کی شکل میں بہت پہلے نکل آیا تھا، اب انگریزی کی مشکل بھی حل ہوگئی ہے۔اب جو جتنی غلط انگریزی لکھتاہے اُتنا ہی عالم فاضل خیال کیا جاتا ہے، اگر آپ کو کسی دوست کی طرف سے( میسج )آئے اور اُس میں (That) کی بجائے (Dat )لکھا ہو توبیہودہ سا قہقہہ لگانے کی بجائے ایک لمحے میں سمجھ جائیں کہ آپ کا دوست ایک ذہین اور دنیا دار شخص ہے جو جدید انگریزی کے تمام تر لوازمات سے واقف ہے....۔میں سمجھتا تھا کہ شاید انگریزی میں اُردو اور پنجابی کا تڑکا ہمارے ہاں ہی لگایا جاتا ہے لیکن میر اخیال غلط ثابت ہوا...... عرب کے لوگ بھی انگریزی کا شوق پورا کر رہے ہوں تو جہاں جہاں انگریزی آنکھیں دکھاتی ہے وہاں یہ عربی کا لفظ ڈال لیتے ہیں، مثلاًاگر انگریزی میں کہنا ہو کہ یہ میرا گھر ہے تو بڑے آرام سے کہہ جاتے ہیں
(’’ھذا مائی ہوم‘‘۔)
انگریزی اتنی آسان ہوگئی ہے لیکن بڑے دکھ کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ یہ آسان انگریزی صرف ہماری عام زندگیوں میں ہی قابل قبول ہے، انگریزی کا مضمون پاس کرنے کے لیے تاحال اُسی جناتی انگریزی کی ضرورت ہے جوخود انگریزوں کو بھی نہیں آتی۔پتا نہیں آج کل کی رنگ بدلتی انگریزی میں اب پرانی انگریزی کی کیا ضرورت رہ گئی ہے؟ پہلے کبھی لگتا تھا کہ ساری دنیا میں انگریزی کی اشد ضرورت ہے، دنیا سے رابطے کے لیے انگریزی بولنا اور لکھنا بہت ضروری ہے ، لیکن اب تو لگتا ہے عالمی رابطے کے لیے کوئی نئی زبان ہی وجود میں آرہی ہے، یہ زبان کسی نے نہیں بنائی، نہ اِس کے کوئی قواعد ہیں ، بس یہ خوبخود بن گئی ہے اور لگ رہا ہے کہ کچھ عرصے تک باقاعدہ ایک شکل اختیار کرجائے گی، یہ زبان سب سمجھ سکتے ہیں،لکھ سکتے ہیں لیکن شاید بول کبھی نہیں سکیں گے کیونکہ یہ (’’شارٹ ہینڈ‘‘) کی وہ قسم ہے جو کسی (کالج یا انسٹی ٹیوٹ) میں نہیں پڑھائی جاتی۔اِس زبان میں خوبیاں تو بہت ہیں لیکن ایک کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی، یہ جذبات سے عاری زبان ہے، یہ چند لفظوں میں دو ٹوک بات کرنے کی عادی ہے، اس زبان میں کسی کی موت پر (v sad) لکھ دینا ہی کافی سمجھا جاتاہے، یہ محبتوں اور احساسات سے محروم زبان ہے۔ میں یہ زبان کچھ کچھ سیکھ چکا ہوں، لیکن استعمال کرنے سے گھبراتا ہوں، پتا نہیں کیوں مجھے لگتاہے اگر میں نے بھی یہ زبان شروع کردی تومجھ میں اور روبوٹ میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔۔۔۔
حاصل مطالعه:- همیں اپنی قومی زبان پر توجه دینی چاهیۓ کیونکه جس قوم نے بھی ترقی کی ھے اپنی مادری زبان میں کی هے لھذا آیۓ عزم کریں که انگریزی کی ٹانگیں توڑنے کی بجاۓ اپنی قومی زبان اردو کو پھیلائیں
عمارؔ #نعیمی
Another one.
@Djinn