What's new

Cleaning Pakistan : where to start from?

Look at article below:

بلوچ قبائلی نظام کے لاپتہ افراد​

جمعرات 23 فروری 2023ء
بلوچستان میں اس وقت سات ’’نواب‘‘ کئی سو ’’سردار‘‘ اور ہزاروں ’’ٹکری‘‘ ، ’’ملک‘‘ اور ’’وڈیرے‘‘ بلوچ قبائلی نظام کو ستونوں کی طرح قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ سیاسی لحاظ سے قوم پرست بھی ہیں اور کچھ اسٹیبلشمنٹ پرست ۔ نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل بلوچوں کی قوم پرستانہ سیاست کے سرخیل سمجھے جاتے تھے۔ ان دونوں کے ہمرکاب نواب اکبر بگٹی بھی ہوا کرتے تھے مگر 1974ء میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت کے برطرف ہونے کے فوراً بعد جب فوجی ایکشن کی سرپرستی کے لئے وہ گورنر بلوچستان بن گئے تو پورا ملک چاہے انہیں کسی بھی مقام و مرتبہ پر فائز کرے، بلوچ قوم پرست سیاسی حلقوں نے ان پر کبھی اعتبار نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہی کی موت کے سانحہ نے بلوچستان میں ایک ایسی چنگاری سُلگائی جس نے قوم پرستانہ سیاست اور مسلح جدوجہد کے تن مردہ میں جان ڈال دی۔ بلوچستان میں آباد پشتونوں کے حصے میں بھی ایک نواب آتا ہے، جسے نواب جوگیزئی کہتے ہیں، لیکن جس طرح پشتون معاشرہ اپنے قدیم قبائلی جال کو بہت حد تک توڑنے میں کامیاب ہو چکا ہے، اس لئے اب پشتونوں میں نواب بس نام کا ہے، وہاں قوم پرست باقی رہ گئے ہیں یا ملّا اور طالب۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب سردار، نواب، ٹکری، ملک اور خان اپنی سیاست و حکومت کے حوالے سے جو بھی کریں، ایک کے ساتھ اپنی وفاداری توڑیں اور دوسرے کے ساتھ قائم کریں، بلوچ قوم کے استحصال کا نعرہ بلند کر کے مراعات لیں، یا پھر اسی نعرے کی وجہ سے جیل کی صعوبتیں اُٹھائیں، جمہوریت، انسانی حقوق، برابری، کیمونزم، انقلاب وغیرہ جیسے عالمی تصورات کا پرچار کریں، لیکن جیسے ہی معاملہ قبائلی نظام اور اس میں نواب اور سردار کی حیثیت، مرتبے اور کنٹرول کا آ جائے گا یہ اپنے تمام اُصول اور سیاسی مقام و مرتبہ کو بالائے طاق رکھ کر اس محدود اور مخصوص قبائلی نظام کا بھر پور دفاع کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے کھیتران قبیلے کے سردار اور صوبائی وزیر عبدالرحمن کھیتران پر یہ الزام لگا کہ اس نے اپنے نجی عقوبت خانے میں ایک خاندان کی عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا ہے اور ان پر بدترین تشدد کرنے کے علاوہ خواتین سے جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔ یہ خاندان کوہلو کے رہائشی خان محمد مری کا تھا جو اسی سردار کھیتران کے ساتھ کام کرتا تھا۔ ایک قبائلی جھگڑے کی وجہ سے سردار عبدالرحمن کے گھر چھاپہ پڑا اور سردار کے ساتھ خان محمد مری کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ سردار نے اس پر اپنا جرم بھی تھوپ دیا اور اس کو اپنے مخالف بیٹے کے خلاف گواہی دینے پر مجبور کیا۔ لیکن اس گواہی سے انکار کی وجہ سے خان محمد مری کے چھ بچوں، ایک بچی اور ایک بیوی کو اُٹھا لیا گیا اور اسے نجی جیل میں رکھا گیا۔ یہ 2019ء کا واقعہ ہے۔ یہ آٹھ افراد چار سال سے بلوچ قبائلی نظام کے ’’لاپتہ افراد‘‘ تھے جن کی اس چار سال کے عرصے میں نہ تو کوئی شنوائی ہو سکی اور نہ ہی یہ خبر منظر عام پر آئی۔ ان کا نام لاپتہ افراد کی کسی لسٹ میں بھی شامل نہ کیا گیا اور نہ ہی ان کی رہائی کے لئے کوئی تحریک چلی۔ کچھ عرصہ پہلے خان محمد مری کی بیوی ’’گران نواز‘‘ نے موبائل سے ایک ویڈیو بنائی جس میں وہ قرآن ہاتھ میں لے کر فریاد کر رہی تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو سردار عبدالرحمن کھیتران کی جیل سے نکالا جائے۔ یہ ویڈیو ابھی ملک میں پھیلی بھی نہیں تھی کہ عبدالرحمن کھیتران کے گھر کے قریب ایک کنویں سے تین لاشیں برآمد ہوئیں جن میں سے ایک اسی خاتون کی لاش تھی جس نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر پوری قوم سے فریاد کی تھی۔ اس واقعے نے پوری قوم کو دہلا کر رکھ دیا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک بلوچستان کے کسی قوم پرست سردار، نواب یا اسٹیبلشمنٹ کے حامی سردار اور نواب میں سے کسی فرد کا مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ سیاسی لاپتہ افراد کا تو سب کو علم ہوتا ہے کہ وہ کن کے پاس ہیں لوگ ان اداروں کا نام بھی لیتے ہیں مگر ان ’’قبائلی لاپتہ افراد‘‘ کا بھی سب کو پتہ ہے کہ وہ کس سردار کے پاس ہیں مگر کوئی زبان نہیں کھولتا۔ اس لئے کہ بلوچ معاشرے میں یہ سردار اور نواب، ملک اور ٹکری سب کے سب ایسے ہی جرائم میں خود ملوث ہیں۔ صدیوں سے ان سرداروں کو قبائلی روایات نے نجی جیلیں بنانے، لوگوں کو حراست میں رکھ کر تشدد کرنے اور پھر لاپتہ کر دینے کے لامحدود اختیارات حاصل رہے ہیں اور آج بھی وہ ان اختیارات کا بے محابہ استعمال کر رہے ہیں۔ یوں تو بلوچ معاشرے میں نواب اور سردار خاصے جمہوری ہوتے ہیں اور جرگے کی عمومی کارروائی قبائلی نظامِ انصاف کے مطابق خاصی بہتر ہوتی ہے لیکن جو آمرانہ اختیارات بلوچ معاشرے میں کلّی طور پر سردار کو حاصل ہیں وہ خوفناک اور ظالمانہ ہیں۔ وہ اپنی دستار بچانے اور ذاتی دشمنی نبھانے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ سردار کا ظالمانہ اختیار نچلی سطح پر ملک اور ٹکری وغیرہ بھی اپنی بساط کے مطابق بھر پور استعمال کرتے ہیں اور ان کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف بھی کوئی چوں چرا نہیں کرتا۔ جو جتنا کمزور ہو گا، اتنا ہی زیادہ مظلوم ہو گا۔ سبّی میں جن دنوں میں ڈپٹی کمشنر تھا تو ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ ڈاکٹر صدیق بگٹی وہاں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر تھا۔ یہ ڈاکٹر ایک خدا کا خوف رکھنے والا عبادت گزار اور دلیر بلوچ تھا۔ اس کے زیر انتظام مری قبیلے کے علاقے کٹ منڈائی میں ایک ڈسپنسری تھی۔ ڈسپنسری پر جو درجہ چہارم کے ملازم ہوتے ہیں وہ عموماً خاندانی طور پر چلے آتے ہیں۔ چوکیدار، چپراسی اور خاکروب کے مرنے پر ان کی اولاد میں سے ہی کوئی اپنے باپ کی جگہ پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اس ڈسپنسری کا خاکروب انتقال کر گیا۔ وہ پارٹ ٹائم کام کرتا تھا لیکن سرکار نے اس کی موت سے چند دن پہلے ہی اس ڈسپنسری کے لئے مستقل خاکروب کی آسامی نکال دی۔ اس مستقل آسامی پر کٹ منڈائی کے ایک وڈیرے کی نظریں للچائیں اور وہ ڈاکٹر صدیق بگٹی کے پاس گیا اور اسے کہا کہ یہ پوسٹ ہمیں دے دو۔ ڈاکٹر بگٹی نے انکار کیا اور اسے کہا کہ یہ اس کے بیٹے کا حق ہے اور کیا تم مری لوگ اب خاکروب کا کام کرو گے؟ وڈیرے نے کہا کام وہی کرے گا اور ہم اسے تھوڑے سے پیسے دے دیا کریں گے۔ وڈیرہ اُٹھ کر چلا گیا اور کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے یہ نوکری لیتا ہے۔ اس کے شیطانی دماغ میں ایک ترکیب آئی جسے بلوچ روایات کی منظوری حاصل تھی۔ اس نے اپنی ایک پچھہتر سالہ بوڑھی عورت پر الزام لگایا کہ وہ اس خاکروب کے بیٹے کے ساتھ تعلقات رکھتی ہے اور پھر اسے ’’کاری‘‘ کر کے قتل کر دیا اور اس کے بعد روایت کے مطابق اس معصوم نوجوان کو بھی قتل کر دیا۔ دونوں کو قتل کرنے کے بعد وہ وڈیرہ ڈاکٹر صدیق بگٹی کے پاس پہنچا اور کہا، بتائو ڈاکٹر صاحب اب پوسٹ ہماری ہوئی یا کچھ اور چاہئے۔

The same types of Maree, Bugti, Laghari, Mahar, Nizamani, Wattos et als were helping pre Islamic rulers, then they helped Mughals, then they helped britishers, and now they help corrupt establishment.
They must be rootout at all costs.
So the rule should be: a family cant keep more than 50 acres of land. A family here is: baap, usky sub baity or unky sub baity.
Or baqi zameen bant di jaey aam awam main.

Land Reforms.
 

پنجۂ یہود اور پاکستان​

جمعرات 02 مارچ 2023ء


عالمی صیہونی ریاست کا خواب یوں تو ہر یہودی کے خمیر میں گندھا ہوا ہے، لیکن اس کی عملی تشکیل کا آغاز صیہونیت کے سب سے اہم ستون روتھ شیلڈ خاندان نے تِل ابیب شہر کے قیام سے کیا۔ 1906ء سے تِل ابیب کی بنیاد رکھنے کی تمام کارروائی انتہائی خفیہ انداز سے ہوتی چلی آ رہی تھی۔ ایک جانب برطانوی حکومت سے گٹھ جوڑ کے لئے خفیہ مذاکرات بھی شروع تھے اور ساتھ ہی فلسطین کے جافہ شہر کے چند ایک یہودیوں نے ایہوذات بایت‘‘ کے نام سے ایک سوسائٹی بنائی جس کا مطلب ’’روشن مسکن‘‘ تھا۔اس کا مقصد یہودیوں کے لئے جدید شہروں کی طرز پر ایک شہری سہولت میسر کرنا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں پر زمین خریدنے کی پابندی تھی۔ اس پابندی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے روتھ شیلڈ خاندان نے ایک ولندیزی (Dutch) شہری جیکبس کان (Jacobus Kann) کو سرمایہ فراہم کیا اور اس نے اپنے نام پر جافہ کے شمال میں واقع ایک ریگستان میں تِل ابیب والی جگہ خریدی،جہاں گیارہ اپریل 1909ء کو ساٹھ پلاٹوں کی تقسیم کی گئی تھی۔ اسی سال انگلینڈ کی کابینہ میں ہربرٹ سیموئیل (Herbert Samuel) نامی شخص نے حلف اُٹھایا۔یہ برطانوی تاریخ کا پہلا یہودی وزیر تھا۔وہ برطانوی سوسائٹی جو شیکسپیئر کے ڈراموں میں شائی لاک (Shylock)،جیسے ظالم یہودی سود خوروں کے کرداروں کی وجہ سے یہودیوں سے سخت نفرت کرتی تھی،اس ملک کی کابینہ میں ایک ایسے یہودی وزیر کا حلف اُٹھانا ایک اچھنبے کی بات تھی،جو نہ صرف ایک یہودی تھا بلکہ صیہونیت کا علمبردار بھی تھا،جس کا مشن فلسطین کے علاقے میں ایک یہودی ریاست کا قیام تھا۔اس شخص نے برطانوی کابینہ میں 1914ء میں ایک یہودی ریاست کا تصور پیش کیا۔ اسرائیل کے ابتدائی شہر اور موجودہ دارالحکومت تِل ابیب کی سب سے قدیم سڑک کا نام روتھ شیلڈ بلیوارڈ ہے۔ اسی سڑک پر موجود ایک ہال میں 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزادی کا ڈیکلریشن پڑھا گیا اور اس پر دستخط ہوئے۔ روتھ شیلڈ کے ہمراہ آنے والے ساٹھ خاندان اسی سڑک اور صیہونیت کے بانی ہرزل (Herzl) کے نام والی سڑک پر واقع ہیں۔ انہی سڑکوں کے ملاپ پر جو چوراہا ہے وہاں لاتعداد بڑی بڑی منقش دیواریں (Murals) ہیں، جن کے نقش و نگار میں ایک یہودی کو بیج بوتے، پھر فصل کاٹتے دکھایا گیا ہے اور یروشلم کے پسِ منظر میں ایک گڈریے کو بھیڑوں کے ساتھ پینٹ کیا گیا ہے، جس کے ساتھ تورات کے باب جرمیاہ کی یہ آیت تحریر ہے ’’میں اسے دوبارہ تعمیر کروں گا اور یہ یقیناً دوبارہ تعمیر ہو گا‘‘۔ اس آیت میں اشارہ ہیکل سلیمانی کی طرف ہے۔ روتھ شیلڈ خاندان صیہونیت کے فروغ میں اس لئے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے کیونکہ گزشتہ کئی صدیوں سے یہ خاندان بینکاری کے شعبے سے منسلک چلا آ رہا ہے۔ روم کی بادشاہت کے زمانے سے ہی یہ خاندان اسی سودی کاروبار سے منسلک رہا ہے۔ پورے یورپ میں 1264ء سے لے کر 1567ء تک ان تین صدیوں کے دوران یہ واحد سودی بینکاری کا نجی ادارہ تھا اور اسی خاندان کی ملکیت تھا۔ لیکن جب 1694ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے ذریعے بینک آف انگلینڈ کا چارٹر منظور کیا تو اس حکم نامے کے ساتھ ہی اس بینک کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ کاغذ کے نوٹ جاری کر سکے گا۔ انہیں اس وقت "Promissory Note" کہا جاتا تھا۔ بینک آف انگلینڈ کے قیام کے دوران خاندان کا سربراہ مائر امشیل روتھ شیلڈ (Mayer Amschel Rothschild) تھا، اس نے انگلینڈ کا چارٹر ملتے ہی اپنے بچوں کو یورپ کے تمام بڑے بڑے شہروں میں بینک قائم کرنے کے لئے روانہ کیا اور ان بچوں میں سے ناتھن مائر (Nathan Mayer) کو انگلینڈ کے مرکزی بینک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 23 فروری 1774ء سے لے کر اب تک یہ خاندان بینکاری، انوسٹمنٹ اور دیگر معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے بڑا خاندان سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی بینکاری نے یورپ کی سیاسی تاریخ کو تراشا ہے۔ وہ سیاسی تاریخ جس میں دو عالمی جنگیں اور کروڑوں انسانوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔ قائد اعظمؒ نے یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں ان دو عالمی جنگوں کا انہی بینکاروں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ قائد اعظمؒ نے کہا تھا: ’’مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے ایسے لاینحل مسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو پیش آمدہ تباہی سے بچا سکے۔ یہ نظام انسان اور انسان کے درمیان عدل قائم کرنے اور بین الاقوامی سطح پر انتشار ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں دو بڑی عالمی جنگوں کا بنیادی ذمہ دار ہے‘‘۔ اقبالؒ نے اپنی مشہور نظم ’’فلسطینی عرب‘‘ میں انہی بینکاروں کو یورپ کے اصل حکمران قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں سے کہا تھا: تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں فرنگ کی رگِ جاں، پنجۂ یہود میں ہے اقبال ؒ نے اس حقیقت کو مزید آشکار کرتے ہوئے اس یہودی سودی بینکاری نظام کو انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے۔ ایں بنوک ایں فکر چالاکِ یہود نورِ حق از سینۂ آدم ربود تا تہ و بالا نہ کردد ایں نظام دانش و تہذیب و دیں سودائے خام ترجمہ ’’یہ بینک جو یہودیوں کی مکار و عیاّر سوچ کی پیداوار ہیں، انہوں نے انسانیت کے سینے سے حق کا نور نکال دیا ہے۔ جب تک اس نظام کو تہہ و بالا (برباد) نہیں کیا جاتا، عقل و دانش، تہذیب و تمدن اور دین کی باتیں بے سود ہیں‘‘۔ سودی بینکاری کا یہ پنجۂ یہود ہی تھا، جس نے تاریخی طور پر پہلے پورے یورپ کو اپنے معاشی شکنجے میں جکڑا اور پھر امریکہ کی سیاست و حکومت کو کنٹرول کرنے لگے۔ ان بینکاروں کو جنگ بہت فائدہ دیتی ہے کیونکہ انہی کے سرمائے سے اسلحے کی فیکٹریاں چلتی ہیں۔ مشہور مؤرخ ایلن برگر (Alan Burger) جس نے یہودیوں پر مظالم یعنی ہولوکوسٹ پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا، اس جیسا یہودیوں کا ہمدرد مؤرخ بھی لکھتا ہے کہ: "For every soldier who died in Battle the international Bankers made a profit of Ten thousand dollar" (ہر سپاہی جو میدانِ جنگ میں مارا جاتا ہے، عالمی بینکار اس سے دس ہزار ڈالر منافع کماتے ہیں)۔ پاکستان کو ایک خاص منصوبے کے تحت گزشتہ چالیس سالوں میں بددیانت حکمرانوںکے ذریعے قرضے کی دلدل میں اُتار دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی دلدل ہے جس سے نکلنے کا اب کوئی راستہ کسی کو بھی سجھائی نہیں دے رہا۔ ایک سال سے آئی ایم ایف پاکستان کو ٹرخاتا چلا آ رہا ہے۔ سعودی عرب، دبئی اور چین کی مدد نہیں آئی کیونکہ یہ بھی آئی ایم ایف سے مشروط ہے۔ قرضوں کی قسط سر پر ہے۔ جبکہ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے نام پر ایک اور جنگ میں افغانستان سے لڑانا چاہتا ہے۔ بلاول بھٹو ایسا کرنے پر امریکی سرپرستی اور امداد کی خوشخبریاں سنا رہا ہے، ایسے میں یہودی صیہونی لابی کے سب سے شاطر و عیاّر اور صاحبِ حیثیت روتھ شیلڈ خاندان کی پاکستان آمد لاتعداد شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ کیا ہم گروی رکھے جا رہے ہیں؟ کیا ہم جنگ کا ایندھن بننے والے؟ کیا ہمیں اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ لاتعداد سوالات ہیں، جن کا فی الحال سوائے پریشان ہونے کے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

Facebook Twitter LinkedIn Email
 
Maybe Sindhis but not Balochs, A baloch leader once exiled a whole tribe and they just left the lands without objection. They are loyal like slaves. It's how the insurgency is going.
That is interesting to say the least. Reference plz
 
1677742594030.png
 
Pakistan must invest heavily in waste management. It's a multi billion dollar industry driven by consumerism.
 
For the first time in my life my hopes are shattered...
لیکن خدا کہتا ہے
لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ
Don't be despondent of the Mercy of Allah.

I want to see when Allah Descend on to the Earth ...
 
These are the parasites, who don't let any policy making and implemention. They are families, who are linked to their relatives or the people on their payrolls in military, civil bureaucracy and feudal lords.
These are the people who have international links. And these are the people we must clean first.

بائیس خاندانوں سے بائیس لاکھ تک (1)​

منگل 07 مارچ 2023ء




آج سے تقریباً ایک سو سال قبل جب دنیا بھر کے ایوانوں میں روس کے کیمونسٹ انقلاب نے ایک ہیجان برپا کر رکھا تھا، تو ایسے لگنے لگا تھا کہ جیسے اب اس کرۂ ارض پر آباد مزدوروں، کسانوں اور مفلوک الحال انسانوں کی قسمت بدلنے والی ہے۔ کیمونزم کی اس انقلابی تبدیلی نے غلام برطانوی ہند میں لکھنے والوں کو بے حد متاثر کیا۔ اس دور کی سب سے توانا آواز اور مسلم اُمّہ کی نشاۃِ ثانیہ کے علمبردار علامہ اقبالؒ نے بھی اشتراکیت کے مثبت پہلوئوں پر شاعری کی۔ کیمونسٹ انقلاب کے بانی ’’لینن‘‘ کو وہ چشمِ تصور میں خدا کے سامنے لے گئے اور ایک بھر پور نظم ’’لینن، خدا کے حضور‘‘ تحریر کی۔ یہ نظم مکمل طور پر مغرب کے سرمایہ دارانہ سودی نظام کے خلاف لینن کی زبان میں ایک بھر پور احتجاج ہے۔ علامہ اقبالؒ کی اس نظم کے دو اشعار نے عالمی سودی نظام کے پورے ڈھانچے کو انتہائی آسانی سے بیان کر دیا ہے: رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جُواء ہے سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگِ مفاجات نظم کے آخر میں، دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کی برائیاں، ظلم اور جبر و استبداد گنواتے ہوئے لینن اللہ سے یوں شکوہ کناں ہوتا ہے۔ تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات اقبالؒ اس احتجاج میں تنہا نہیں تھے۔ ان کے ہم عصر اور بعد میں آنے والے شاعروں، ناول نگاروںاور افسانہ نویسوں کا ایک قافلہ تھا جو کبھی انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کی صورت میں منظم ہوا اور کبھی مختلف ادیب انفرادی سطح پر حلقۂ اربابِ ذوق کی محفلوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سراپا احتجاج بنتے چلے گئے۔ اس دور میں جنم لینے والی ٹریڈ یونین سیاست کی گرم جوشی نے بھی بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کو اپنا اسیر کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی ہند کے اہم ترین سیاست دان خواہ وہ جواہر لال نہرو جیسا خاندانی رئیس ہو یا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسرت موہانی جیسے مذہبی خیالات والا لیڈر، ان میں بیشتر سرمایہ داری کے مقابلے میں مزدور کی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ کیمونسٹ پارٹی تخلیقِ پاکستان کی بھی مخالف تھی۔ ان کے نزدیک تو برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق دراصل ایک سرمایہ دارانہ سازش کا نتیجہ تھی تاکہ مزدوروں،کسانوں اور غریبوں کی مشترکہ قوت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور سرمایہ داروں کے خلاف ان کی توانائیوں کو اکٹھا نہ ہونے دیا جائے۔ قیامِ پاکستان کے آغاز میں ہی اقتدار کی طنابیں ایسے سیاست دانوں کے ہاتھ میں آ گئیں جو اپنے مخصوص حلقوں سے جیت کر آئے تھے۔ یہ بڑے بڑے زمیندار تھے، اس لئے انقلاب دشمن بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کیمونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنّفین دونوں پاکستان میں شروع دن سے زیرِ عتاب ہی رہیں۔ ایک زرعی معاشرہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کھیتوں میں کام کرنے والا ہاری اور مزارع پورے ملک میں منتشر تھا۔ کسانوں کو کسی ایسے نعرے پر اکٹھا کرنا بہت مشکل تھا، کیونکہ وہ دیہی زندگی کے معمولات میں اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں اور مطمئن بھی۔ لیکن جیسے ہی پہلے تیس سالوں میں پاکستان میں بیش بہا صنعتیں لگیں اور صنعتی ترقی نے اپنے پَر پھیلائے تو اس کے نتیجے میں مزدور دیہات سے شہروں میں آ کر ملوں کی چھتری تلے جمع ہونے لگے، جس سے ٹریڈ یونین سیاست نے ایک دَم عروج پکڑا۔ ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا ایک اہم نعرہ یہ بھی تھا کہ ’’اس ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ‘‘ ہے۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا بڑا زمیندار جس کی پارٹی میں مصطفی جتوئی، طالب المولیٰ اور مصطفی کھر جیسے لاتعداد بڑے بڑے زمیندار تھے، اس نے بھی ووٹ کی سیاست اور عوامی مقبولیت کے لئے سرمایہ داری کے خلاف پارٹی پوزیشن اس حد تک لی کہ پیپلز پارٹی کے منشور کے چار بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ یہ تھا کہ ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘۔ ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے، یہ فقرہ بھٹو کی تقریروں کا جزوِلاینفق تھا۔ اور اس نعرے سے وہ اپنے جلسوں میں عوام کا لہو گرماتا تھا۔ آج نصف صدی گزرنے کے بعد اب ان بائیس خاندانوں کا دائرۂ اثر بڑھ کر اس ملک کی ایک فیصد آبادی تک پھیل چکا ہے۔ یعنی بائیس کروڑ لوگوں کی آبادی میں سے بائیس لاکھ لوگ ایسے ہیں جو اس ملک کے نوے فیصد سے زیادہ سرمائے پر قابض ہیں۔ اس کیفیت کو دنیا بھر میں "Elite Capture" یعنی اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں مسلسل استعمال کی جا رہی ہے، لیکن اس ’’اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ‘‘ پر ایک خالصتاً تحقیقاتی کام آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے علم بشریات (Anthropology) ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر روزیٹا آرمیٹج (Rosita Armytage) نے کیا ہے۔ اس نے اپنی چودہ ماہ کی تحقیق کے بعد ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ہے، "Big Capital in an Unequal Word" یعنی ’’غیر مساوی دنیا میں سرمایہ کی فراوانی‘‘۔ کتاب کا ذیلی عنوان ہے "The Micropolitics of Welth in Pakistan" یعنی ’’دولت کی پاکستانی سیاست میں کارستانیاں‘‘ روزیٹا نے اپنی تحقیق کے لئے موضوع کا انتخاب کرتے وقت یہ ارادہ کیا کہ وہ پاکستان جیسے ملک کی مڈل کلاس کے بارے میں تحقیق کرے گی۔ اس کی وجہ اس کے آسٹریلیا میں موجود پاکستانی دوست اور ساتھ کام کرنے والے افراد تھے جو مڈل کلاس سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ ان کی وجہ سے ہی وہ پاکستان کی مڈل کلاس پر ہی تحقیق کرنے کے لئے پاکستان آ گئی، لیکن اس کے بقول، اسلام آباد سے لاہور تک کے ایک سفر نے اس کا ارادہ یکسر بدل دیا۔ اس نے بتایا کہ میں نے اپنی تحقیق کے دوران اسلام آباد سے لاہور کی ایک یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ سے ملنے جانا تھا اور اس کے لئے میں نے ایک آرام دہ بس کا ٹکٹ بھی لے لیا تھا، لیکن میری ایک دوست نے مجھے کہا کہ تم میرے فلاں دوست کی گاڑی میں سفر کرو۔ ایک آرام دہ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے، روزیٹا نے اس شخص سے اس کی زندگی، خاندان اور کاروبار کے سوالات پوچھنا شروع کر دیئے۔ جوابات سے ایک حیران کن کہانی سامنے آئی اور اسے پاکستان کی ایک ’’کلاس‘‘ کے نیٹ ورک کا اندازہ ہونے لگا۔ اس شخص کا خاندان سگریٹ بنانے کے کاروبار سے منسلک تھا اور اس کے خاندان کے افراد، ’’انکل‘‘، ’کزن‘‘ اور دیگر افراد کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تھا جو چین کے ساتھ بھی تجارت کرتے تھے اور اس دوران وہ مختلف مراحل سے گزرتے تھے، یہاں تک اس نے یہ بھی بتایا کہ ہم سے پہلے کچھ عرصہ پہلے کتنی بڑی رشوت مانگی گئی تھی۔ روزیٹا بتاتی ہے کہ اس گفتگو سے اسے اندازہ ہوا کہ پاکستان میں اشرافیہ اور سرمایہ داروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جو ملکی سیاست، کاروبار اور معیشت پر چھایا ہوا ہے اور اس طبقے پر اسے تحقیق کرنی چاہئے۔ اس کے چند دن بعد ہی وہ ایک بہت بڑے صنعتکار، اس کے بھائی، کزن، ان کے ایک ایسے خاندانی دوست کے ساتھ بیٹھی تھی جو لاہور کے بہت اہم سیاست دان کا بیٹا تھا۔ ان سب نے مل کر روزیٹا کے لئے تین صفحات پر مشتمل پاکستان کے امیر ترین صنعت کاروں، کاروباری حضرات اور طاقت ور سرمایہ داروں کی ایک فہرست مرتب کی جن سے اسے اپنی تحقیق کا آغاز کرنا تھا۔ یہ فہرست آہستہ آہستہ طویل ہوتی گئی اور چودہ ماہ کی تحقیق کے بعد وہ یہ کتاب لے کر سامنے آئی جس کے مطابق پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ اس ملک کی معیشت، حکومت اور سیاست پر قابض ہے۔ (جاری ہے)
 
Shut down isi
Remake army
Will not work. The solution is to change the mindset of Pakistanis, which is tribe/family first, then religion, ethnicity, and country. The army and ISI are simply a product of this mindset, holding the country together against all odds.
 
Solution A
ELECTION - Give Back the Power in Hand of People
Protect the ballots and Counting




Solution B
Impose Agricultural Tax
Restrict Poeple's Land Ownership , based on Tax they pay


  • Curb The SUV culture in Villages
  • Curb the Mini Armies in Villages Culture
  • Curb the Self Policing and Justice system


My one questions

"Why Does india not have these "Wadera" - Sardar ?? These Village warlords only exist in Pakistan , who are Police /Court and Justice


  • They have agricultural Tax
  • They took back excessive Land grants for which no taxes were paid
  • They don't have this problem of Dependency on Wadera and Sardar


Both India and Pakistan took freedom in 1947 , they had their republic day when they consolidated all the "Land Capture", all the illegal wars and land capture was done before Republic Day


It is 2023 , our whole setup , trembles in fear when the term "Agricultural Tax" is mentioned
 
Last edited:
Back
Top Bottom