What's new

Cleaning Pakistan : where to start from?

Baloch and Sindhi tribal sardars are the worst, they still have their people as slaves and you can't do nothing in their area without paying them. If you try to control them then whole area will hate you
Distribute the land among the same people who are being controlled by these wadyras, and we will see who resists then.
Btw, these same Jams, Mahars, Nizamanis, Junejas, Makhdooms, Shoros, Dahnis, Bhuttas, Wistaros, enabled goras in Sindh. These were wadyras who sold Sindh to foreigners and they will do it again once given a chance.

Sardar W B Patel broke the neck of these people in 1940s, and that why India today is much more stable than Pakistan.
 
Distribute the land among the same people who are being controlled by these wadyras, and we will see who resists then.
Btw, these same Jams, Mahars, Nizamanis, Junejas, Makhdooms, Shoros, Dahnis, Bhuttas, Wistaros, enabled goras in Sindh. These were wadyras who sold Sindh to foreigners and they will do it again once given a chance.

Sardar W B Patel broke the neck of these people in 1940s, and that why India today is much more stable than Pakistan.
Maybe Sindhis but not Balochs, A baloch leader once exiled a whole tribe and they just left the lands without objection. They are loyal like slaves. It's how the insurgency is going.
 
Maybe Sindhis but not Balochs, A baloch leader once exiled a whole tribe and they just left the lands without objection. They are loyal like slaves. It's how the insurgency is going.
We got to free these people.

مستونگ وہ ضلع ہے جو ہمیشہ سے نہ صرف ریاستِ قلات، بلکہ پوری بلوچ سیاست کا مرکز و محور رہا ہے۔ ریاستِ قلات کے دونوں مرکزی حصے، ساراوان اور جھالاوان، میں براہوی قبائل کی اکثریت آباد ہے۔ براہوی قوم نسلی اعتبار سے بھی اور اپنی زبان کے حوالے سے بھی برصغیر کی قدیم ترین دراوڑ اقوام میں سے سمجھی جاتی ہے۔ دراوڑ اقوام وہ ہیں جو اس خطے میں آریائوں اور دیگر قوموں کی آمد سے پہلے یہاں آباد تھیں اور جنہیں فاتحین نے ہندوستان کے جنوبی خطوں کی جانب دھکیل دیا گیا تھا۔ براہوی خوش قسمت تھے کہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ بلوچوں کے ساتھ رہتے رہتے براہوی بھی اب بلوچ کلچر کا مکمل حصہ بن چکے ہیں اور ان کے ہاں بھی بلوچوں والی ساری خوبیاں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ مستونگ وہ ضلع ہے جو دو نواب، شاھوانی اور رئیسانی اور کئی سردار جن میں بنگلزئی، محمد شہی، کُرد اور ساتکزئی وغیرہ کا مسکن ہے۔ یہ 1992ء کا سال تھا جب مستونگ نیا ضلع بنا تو اس کے پہلے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے میری وہاں تعیناتی ہوئی۔ کسی بروہی علاقے میں یہ میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ بالکل آغاز میں ہی مجھے ایک ایسے واقعے کا سامنا کرنا پڑا جس کو یاد کرتا ہوں تو اس کی کیفیت مجھے آج بھی لرزا دیتی ہے۔ میرے اسسٹنٹ کمشنر ساجد یوسفانی نے مجھے بتایا کہ دشت کے علاقے میں ایک گائوں کے لوگ ایک تیرہ سالہ بچی کو ’’کاری‘‘ کر کے مارنا چاہتے ہیں۔ جب میں اور ساجد لیویز کے ساتھ وہاں پہنچے تو وہاں ایک خوفناک منظر تھا۔ ایک چھوٹے سے کچے گھر کو پورے قبیلے نے گھیرا ہوا تھا اور وہ اندر محصور ماں بیٹی کو باہر آنے کی آوازیں لگا رہے تھے اور ساتھ دروازے کو زور زور سے ٹُھڈے مار رہے تھے۔ لیویز نے ہجوم کو ہٹایا اور ہمیں دروازے تک پہنچایا۔ ہمارے کہنے پر بھی دروازہ نہ کھلا تو اسے مجبوراً توڑنا پڑا۔ اندر داخل ہوئے تو ایک تیرہ سالہ سہمی ہوئی بچی اپنی ماں سے لپٹی خوفزدہ نظروں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ بچی کی برآمدگی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ دارالامان نام کی چڑیا سے قبائلی معاشرہ تو واقف نہیں تھا، عموماً ایسی خواتین کو سپرداری پر کسی نواب یا سردار کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جس کے گھر میں وہ ایک نوکرانی بن کر زندگی گزارتی ہے البتہ وہ موت کے خوف سے آزاد ضرور ہو جاتی ہے۔ اس معاملے میں سب سے حیران کن رواج مری قبیلے کا ہے۔ اگر کسی مری عورت پر ’’کاری‘‘ ہونے کا الزام لگے اور وہ قتل ہونے سے پہلے بھاگ کر نواب کے گھر پہنچ جائے تو اسے امان مل جاتی ہے، لیکن نواب اسے اپنے پاس نہیں رکھتا، بلکہ اسے عمومی طور پر سندھ میں بیچ دیا جاتا ہے۔ اس ’’فروخت‘‘ سے حاصل ہونے والی آمدن میں آدھا حصہ نواب کو ملتا ہے اور باقی آدھا لڑکی کے والدین کے حصے میں آتا ہے۔ سپرداری پر دی گئی یا جان بچا کر بھاگی ہوئی ایسی بے شمار عورتوں سے سرداروں، نوابوں، ملکوں اور وڈیروں کے گھرانے آباد ہیں۔ یہ عورتیں دراصل وہ قیدی ہیں جنہیں آج کی جدید قانونی اصطلاحات میں ’’ملامت زدہ قیدی‘‘ (Condemned Prisoner) کہا جاتا ہے اور جنہیں عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لئے حفاظتی قید (Protective Custody) میں رکھا جاتا ہے۔ جس طرح کی ذاتی جیلیں اور عقوبت خانے آپ کو بلوچستان کے بلوچ معاشرے میں ملتے ہیں، ویسے کسی دوسرے خطے میں بالکل نظر نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ ان کے شانہ بشانہ اور بالکل پڑوس میں رہنے والے پشتون قبائل جو کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، ژہوب، لورالائی اور قلعہ سیف اللہ کے اضلاع میں آباد ہیں، ان میں بھی اس طرح کی نجی جیلیں اب نظر نہیں آتیں۔ تاریخی طور پر ایسی جیلیں نہ صرف برصغیر پاک و ہند، بلکہ دنیا کے ہر خطے میں موجود تھیں کیونکہ دنیا بھر میں قبائلی نظام تھا اور ریاست جیسا ادارہ بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ اگر کسی نے ہنزہ میں بلتت فورٹ دیکھا ہو تو اس کے اندر ایک قید خانہ ہے جو والئی بلتستان کی خواب گاہ کے ساتھ ایک کمرے میں زیرِ زمین بنایا گیا ہے جس کی چھت پر سلاخوں کا جنگلہ لگا ہوا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے زمین کھود کر ایک مرغیوں کا ٹھکانہ بنایا جائے اور اس پر جالی لگا دی جائے۔ ایسی ہی ذاتی جیلوں کا سراغ تاریخ اور آثارِ قدیمہ میں ہر جگہ ملتا ہے۔ لیکن ریاست کے تصور کے زور پکڑنے، پہلے بڑی بادشاہتوں اور پھر قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے چونکہ امنِ عامہ اور انصاف اب ریاست کی ذمہ داری بن گئے تھے، اس لئے عدالتیں، سزائیں، جیل اور قید وغیرہ سب ریاست اور حکومت کے دائرۂ اختیار میں چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح ہندوستان کے باقی علاقوں میں بھی سرداروں، وڈیروں، نوابوں اور خانوں کی ذاتی جیلیں ختم ہو گئیں۔ بلوچستان میں ایسا کیوں ہے کہ ابھی تک سردار اس قدر طاقت ور ہے کہ ایک آئینی حکومت کی موجودگی میں بھی ایسی ذاتی جیلیں رکھتے ہیں اور ان جیلوں کو نہ صرف قبیلہ بلکہ پورا بلوچ معاشرہ خاموشی سے قبول کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انگریز استعماری حکومت کا اس خطے کے ساتھ روّیہ ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے تمام علاقے انگریز نے لڑ کر فتح کئے اور وہاں اپنا نظامِ انصاف و قانون ضابطۂ فوجداری، تعزیراتِ ہند اور ضابطۂ دیوانی کی صورت میں نافذ کیا۔ لیکن بلوچستان میں رابرٹ سنڈیمن کی فاروڈ پالیسی میں تاجِ برطانیہ نے سرداروں کو اقتدار میں اپنا حصے دار بنا کر بلوچستان میں اپنے اقتدار کو مستحکم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں نہ عدالتیں قائم ہوئیں اور نہ ہی پولیس کے تھانے۔ یہاں تعزیراتِ ہند، ضابطۂ فوجداری اور ضابطۂ دیوانی کا بھی نفاذ نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے فیصلے کے لئے قدیم جرگہ سسٹم کو ہی حکومتی تحفظ دے دیا گیا اور حکومت کی طرف سے اپنے علاقے میں ایک نواب یا سردار ہر طرح کے جرم پر قابو پانے اور جرگے کے ذریعے انصاف فراہم کرنے کا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ اسے مزید مضبوط اور طاقت ور بنانے کے لئے اسی کے قبیلے سے لیویز کے سپاہی بھرتی کئے گئے، انہیں تنخواہ حکومت دیتی، لیکن وہ سردار اور ڈپٹی کمشنر دونوں کے مشترکہ ملازم ہوتے۔ تمام سردار اور نواب لیویز فورس میں کوئی نہ کوئی عہدہ ضرور رکھتے۔ اسی حال میں انگریز کی حکمرانی کی ایک صدی بیتی، پاکستان بن گیا، پورے ملک میں تعزیراتِ پاکستان کا پھریرا لہرایا لیکن بلوچستان میں جرگہ اور سردار ہی قائم رہے۔ ایوب خان نے 1968ء کے آرڈیننس سے اس کی شکل تھوڑی سی بدلی مگر سردار کی سرداری مقدم ہی رہی۔ 1973ء کے الیکشنوں نے سرداری نظام کو ایک دفعہ ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن بھٹو کی ذاتی انّا اور عالمی حالات کے تحت بلوچستان میں آرمی ایکشن شروع ہوا تو عام بلوچ مرغی کے چوزوں کی طرح سرداروں کے پروں تلے جا بیٹھا ۔ بھٹو گیا تو ضیاء الحق سے لے کر موجودہ دور تک ہر کسی نے بلوچستان پر حکومت کرنے کے لئے سردار کا کندھا ہی استعمال کیا، اسے ریاستی طاقت کے ساتھ مضبوط کیا۔ آج جو سردار یا نواب ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں وہ بھی اور وہ سردار اور نواب جو ریاست کے مخالف برسرِ پیکار ہیں وہ بھی اس سسٹم کے لاڈلے ہیں۔ جو ریاست کے مخالف ہیں ان کی طاقت ان کا قبیلہ ہے اس لئے وہ قبیلے پر اپنا غلبہ چاہتے ہیں اور جو ریاست کے حق میں ہیں وہ اسی قبائلی قوت کی بنیاد پر ریاست کو بلیک میل کر کے مزید مراعات لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالرحمن کھیتران کی جیل میں قید مظلوم ہوں یا کسی اور سردار یا نواب کے عقوبت خانے میں بند افراد، کوئی سردار، نواب، وڈیرہ، ملک اور خان اس ظلم پر کبھی آواز بلند نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیاسی میدان کے کتنے بڑے نام ہیں جو سب کے سب چُپ ہیں، دَم بخود ہیں
 
cf12639f85783fa88d7ef1bd68d26698.jpg
 
When I was young, I would imagine the clean up starts from the neighborhood to keep it clean and be a good law abiding citizen.

Completely wrong.

When the rot in the top echelon of power runs deep, no amount of clean up at the bottom will help.
 
Everyone is busy blaming everyone else. Start within yourselves, then your own homes, then extended family and friends circles.

What should you do?

1. Refrain from haram activities that cause social harm.

2. Refrain from promoting such activities.

3. Ask others to refrain - cut them off from your life if they do, like completely ostracise them.

We all know people who give bribes, we may know people who take bribes, we know people that have crawled up the assholes of corrupt politicians and champion them, we may know people who have grabbed land.

These phone snatchers must have families - how many of us have friends who'd stare a girls until thier eyeballs fell out of thier heads, people who sell drugs or alcohol etc. List is endless.

As a society whatever social ill we are aware of we must stop doing ourselves and then we must isolate those who do.

As long as we have MF'ers amongst us who believe in "katha hai aur lagtha bi hai" and dynasty politics - nothing can ever change.

When I was young, I would imagine the clean up starts from the neighborhood to keep it clean and be a good law abiding citizen.

Completely wrong.

When the rot in the top echelon of power runs deep, no amount of clean up at the bottom will help.

Young you was right, and current you is right too.

We need to burn this candle at both ends. While society as a whole is accepting of haram it won't challenge.
 
Everyone is busy blaming everyone else. Start within yourselves, then your own homes, then extended family and friends circles.

What should you do?

1. Refrain from haram activities that cause social harm.

2. Refrain from promoting such activities.

3. Ask others to refrain - cut them off from your life if they do, like completely ostracise them.

We all know people who give bribes, we may know people who take bribes, we know people that have crawled up the assholes of corrupt politicians and champion them, we may know people who have grabbed land.

These phone snatchers must have families - how many of us have friends who'd stare a girls until thier eyeballs fell out of thier heads, people who sell drugs or alcohol etc. List is endless.

As a society whatever social ill we are aware of we must stop doing ourselves and then we must isolate those who do.

As long as we have MF'ers amongst us who believe in "katha hai aur lagtha bi hai" and dynasty politics - nothing can ever change.



Young you was right, and current you is right too.

We need to burn this candle at both ends. While society as a whole is accepting of haram it won't challenge.
You wash clothes? Why? Because they get dirty. Human society is same. You are right that people of Pakistan need to correct themselves as well, thats another aspect, but what I have pointed towards is another aspect.
 
Start from elections. But make it clear to whom ever is running, should they win they will have to carry the burden (pay the political costs) of implementing the economic reforms.

A leader with a mandate can build a narrative to help people get through the hard times ahead, if they see a pay off. A leader can also lay out a plan, over the next 6 months, 12 months, 2, 3, 5, 10, 15, and 20 years to fix all that ails the nation. People will be able to see the logic and through debate in the parliament and subsequent elections adjust the plan to account up changing circumstances, but by and large stick to the plan.

As part of getting the economic house in order, if a newly elected government implements reforms/strengthens existing laws to make people feel their money is safe in Pakistan, the public (local or overseas pandora is) could be asked to help either directly lend to the government at a lower interest rate then available on the international market, or buy up publicly owned companies at fair market value and take the burden off government coffers. If the countries balance sheet looks better, perhaps it can go back to international lenders and refinance its debts at a lower interest rate when the rates come down.

A new government could also hire Chinese advisors to help evaluate and recommend changes to make the state efficient in its bureaucracy and industrial policy, so tax revenue can be spent wisely to address short term issues but also invest in medium and long term growth.

Part of these economic reforms will be to let legacy companies run on their own resources (no more subsidies) and divert the resources to paying back the loans, buy technologies in industries we have a chance to be globally competitive (agriculture, textiles, IT, Medical devices), as well as supporting the working class people, in ways that maintain social harmony. There will also have to be some incentive structure to make companies re-invest a significant portion of their profits into keeping up technologically so they are competitive in the export market. I’m thinking of the ancient textile equipment in many Pakistani factories I have seen in documentaries. Part of the success in German small and medium companies is reinvesting in the machinery and the workers, no matter what economic circumstances, even if it means the owners take home very little for a few years.

For example, All kids should be in school (an extra $2.5 Billion a year) so they are not idle and so that adults can take their jobs. At school they can be given food to take home should their families require it and to incentivize families to send their kids to school and not to work.

People will also be willing to pay taxes if they see they are getting something out of it; their lives are improving in some aspects while in other aspects it’s getting hard. They will also pay their taxes if they feel inequality has been reigned in somewhat. In the 1950’s, the rich in the US had to pay 90% of their income in taxes and that partially fueled the economic growth and recovery from the war. People felt the country was in it together. The middle class mattered, and people’s movements could sway the nation. The economic foundation led to the country getting better socially, over the following decades.

cottage industries will have to be set up to help people supplement or replace lost income. Biogas generation is one industry that could probably be done in people’s homes. Having a garden and raising chickens are probably another.

Import substitution won’t work because the amount of money in the country is limited. Better to maximize exports, especially digital exports, so anyone with an internet connection can try to find a niche in an industry. An example is an artist drawing covers for books for western writers. Similar to Persian rugs, many of these products take a long time to make, but the payments are relatively high by local standards ($50-500). So Artisian digital industries are a big way to make money. You have time and the customers have money.

The importance of a good leader in tough times can not be underestimated.
 
Last edited:
DHA and GHQ ?

though those areas generally very well kept, manicured lawns, trendy minimalist architecture, full armed skorti..
 
اگر تم لوگ اب بھی نہ اٹھے تو مارے جاؤگے
 
Back
Top Bottom