HamzaWaseem
FULL MEMBER

- Joined
- Aug 7, 2024
- Messages
- 398
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
ہے Nur Khan base چکلالہ میں جو اب runway جہازوں کا گراونڈ
ہمارے گاوں کے نزدیک تھا ۔ ۔ ہم گراونڈ کے اندرچلے جاتے تھے۔ 1935 میں جنگ عظيم دوم سے پہلے انگریزوں نے بنایا تھا ۔ اور 1953 میں ہم جب چھوٹے تھے تو بغیر انجن والا گلائیڈر جہاز اڑتے دیکھا ۔ بچپن میں تو گراونڈ کے اندر جا کر تماشا دیکھتے تھے۔ ہم اس کو انہا جہاز کہتے تھے یعنی اندھا جہاز۔ اس گلائیڈر کے آگے رسہ باندھ کر جیپ اسے کھینچتی تھی جب تھوڑی سپیڈ ہوتی تا گلائیڈر میں بیٹھا واحد پائلٹ اس کے مکینیکل الیویٹر کو حرکت دے کر ہوا میں لے جاتا تھا اور رسہ نیچے پھینک دیتا تھا۔ اور گلائڈر بغیر پٹرول ہوا کی دوش پر اڑتا رہتا تھا۔ جب لینڈ کرتا تو اہک پہیہ ہوتا تھا اور کچھ آدمی کھڑے ہوتے تھے جو اس کو پروں سے تھام لیتے تھے ۔ ہم گراونڈ کے اندر چلے جاتے تھے۔
ایک لڑاکا جہاز فیوری بھی کبھی کبھار آتا تھا۔ اس کی ائیر فلائٹ بھی دیکھتے۔
میرے والد صاحب ائر فورس میں 1945 سے کام کرتے تھے انگریز دور میں 1947 میں پاکستان بنا تو PAF کے بجائے اس کو RAF یعنی رائیل ایئر فورس کہتے تھے ۔ میں جب پانچ سال کا ہوا تو والد صاحب نے مجھے PAF سکول میں داخل کرا دیا۔ سکول اسی جگہ پر تھا جہاں آجکل ہے۔ صرف ایک انگریزوں کی بیرک میں تھا صرف پانچویں تک تھا۔ ایم آئی روم بھی ساتھ تھا۔ ایک دفعہ میری والدہ مرحومہ sick Report کے لئے جب ایم آئی روم میں آئیں تو وہ اس وقت سفید لٹھے کا برقعہ ٹینٹ نما جو آجکل پٹھان پہنتے ہیں۔ میں نے والدہ کو دیکھا تو بریک ٹائیم میں ان کے پاس چلا گیا۔ تیبل فین بھی لگا ہوا تھا۔ ہمارے گاوں میں بجلی نہیں تھی ۔ میں نے جب ٹیبل فین کو دیکھا تو پر چل رہے تھے لیکن دوسری طرف بھی نظر آ رہا تھا۔ میں نے اپنی انگلی ڈالی کہ دوسری طرف پہنچتی ہے یا نہیں تو پنکھے کے پروں سے میری انگلی کٹ گئی۔ شکر ایم آئی روم میں تھا .نرس نے پٹی کر دی۔ چند دن میں زخم ٹھیک ہو گیا۔ میرے ساتھ ایک بنگالی بھی پڑھتا تھا اس کا نام انڈہ اللہ تھا۔ اس کا گھر پرانی ڈھوک پیرا فقیرا میں تھا۔ سکول سے اس کا گھر نظر آتا تھا۔ اور وہ ہمیں بتاتا وہ میرا گھر ہے۔ شائد کرائے پر لیا ہو گا۔
جب چھٹی ہوتی تو میں پیدل ڈومیسٹک کیمپ سے چل کر پرانی ڈھوک پیرا فقیرا کراس کر کے ٹیکنیکل گارڈ روم کے ساتھ MT سیکشن میں والد صاحب کے پاس آ جاتا تھا۔ پرانی ڈھوک پیرا فقیرا جہاں آجکلPAFWA اکیڈمی ہے ادھر تھی بعد میں اس ایکوائر کر کے دوسری جگہ آباد کیا ٹیپو روڈ پر جہاں اب ہے۔ ان کا قبرستان بھی ادھر ہی تھا جہاں آجکل پارک بنا ہوا ہے۔ ۔ اس وقت ایڈمنسٹریشن تقریبا انگریز اور پاکستانی مکس تھے۔ بیس کمانڈر EG HAUL تھے۔ والد صاحب مرحوم چونکہ بیس کمانڈر کی گاڑی کی دیکھ بھال مینٹینس کرتے تھے وہ بیس کمانڈر کے ڈرائیور کو کہتے کی قدیر کو رن وے کے اوپر گاڑی میں گھر چھوڑ آئیں۔ اس وقت رن وے خالی تھا اور ہمارا گاوں رنوے کے آخر میں تھا۔ بیس کمانڈر کی کالی شیورلیٹ میں ڈرائیور رن وے کے آخر میں مجھےاتار دیتا ۔ وہاں سے میں گھر پہنچ جاتا تھا ۔ گھر قریب ہی تھا۔ کئی دفعہ والد صاحب کے ساتھ سائیکل پر رنوے سے گھر آ جاتا تھا۔ ایک دن والد صاحب بیس کماڈر کی گاڑی کا کچھ تیل وغیرہ تبدیل کر رہے تھے تو میں ذرا شرارتی تھا۔ ایک فورک لفٹر پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ وہ سیلف سٹارٹ تھا۔ میں نے ایک بٹن دبایا تو فورک لفٹر سٹارٹ ہو گیا۔ والد صاحب قریب ہے تھے انہوں نے آکر فورک لفٹر بند کیا۔ گھر آ کر والدہ مرحومہ کو بتایا تو وہ بھی خوش ہوئیں۔ کہ بہت ذہین ہے۔ جب بیس کمانڈر EG HAUL کی پوسٹنگ پشاور AHQ میں ہوئی تو ان کا سارا سامان Bristol freighter جہاز میں رکھا اور ہم سب ان کو رخصت کرنے گئے مجھے یاد ہے جون کی گرمی تھی اور ٹارمک پر ہم جہاز کے ونگ کے نیچے کھڑے تھے۔ برسٹل فریٹر جہازوں کا ایک سکوارڈن ہوتا تھا۔ فریٹر کا منہ آگے سے کھلتا تھا اور آگے سے سامان رکھتے تھے ۔
اس کو بعد میں سی_130 نے ریپلیس کیا۔ جس کو پچھلی طرف سے کھول کر سامان رکھتے ہیں۔
چکلالہ بیس پر دارلخلافہ بننے کے بعد 1962 میں جہازوں کچھ آمدورفت زیادہ ہوئی
تحریر راجہ قدیر
ہمارے گاوں کے نزدیک تھا ۔ ۔ ہم گراونڈ کے اندرچلے جاتے تھے۔ 1935 میں جنگ عظيم دوم سے پہلے انگریزوں نے بنایا تھا ۔ اور 1953 میں ہم جب چھوٹے تھے تو بغیر انجن والا گلائیڈر جہاز اڑتے دیکھا ۔ بچپن میں تو گراونڈ کے اندر جا کر تماشا دیکھتے تھے۔ ہم اس کو انہا جہاز کہتے تھے یعنی اندھا جہاز۔ اس گلائیڈر کے آگے رسہ باندھ کر جیپ اسے کھینچتی تھی جب تھوڑی سپیڈ ہوتی تا گلائیڈر میں بیٹھا واحد پائلٹ اس کے مکینیکل الیویٹر کو حرکت دے کر ہوا میں لے جاتا تھا اور رسہ نیچے پھینک دیتا تھا۔ اور گلائڈر بغیر پٹرول ہوا کی دوش پر اڑتا رہتا تھا۔ جب لینڈ کرتا تو اہک پہیہ ہوتا تھا اور کچھ آدمی کھڑے ہوتے تھے جو اس کو پروں سے تھام لیتے تھے ۔ ہم گراونڈ کے اندر چلے جاتے تھے۔
ایک لڑاکا جہاز فیوری بھی کبھی کبھار آتا تھا۔ اس کی ائیر فلائٹ بھی دیکھتے۔
میرے والد صاحب ائر فورس میں 1945 سے کام کرتے تھے انگریز دور میں 1947 میں پاکستان بنا تو PAF کے بجائے اس کو RAF یعنی رائیل ایئر فورس کہتے تھے ۔ میں جب پانچ سال کا ہوا تو والد صاحب نے مجھے PAF سکول میں داخل کرا دیا۔ سکول اسی جگہ پر تھا جہاں آجکل ہے۔ صرف ایک انگریزوں کی بیرک میں تھا صرف پانچویں تک تھا۔ ایم آئی روم بھی ساتھ تھا۔ ایک دفعہ میری والدہ مرحومہ sick Report کے لئے جب ایم آئی روم میں آئیں تو وہ اس وقت سفید لٹھے کا برقعہ ٹینٹ نما جو آجکل پٹھان پہنتے ہیں۔ میں نے والدہ کو دیکھا تو بریک ٹائیم میں ان کے پاس چلا گیا۔ تیبل فین بھی لگا ہوا تھا۔ ہمارے گاوں میں بجلی نہیں تھی ۔ میں نے جب ٹیبل فین کو دیکھا تو پر چل رہے تھے لیکن دوسری طرف بھی نظر آ رہا تھا۔ میں نے اپنی انگلی ڈالی کہ دوسری طرف پہنچتی ہے یا نہیں تو پنکھے کے پروں سے میری انگلی کٹ گئی۔ شکر ایم آئی روم میں تھا .نرس نے پٹی کر دی۔ چند دن میں زخم ٹھیک ہو گیا۔ میرے ساتھ ایک بنگالی بھی پڑھتا تھا اس کا نام انڈہ اللہ تھا۔ اس کا گھر پرانی ڈھوک پیرا فقیرا میں تھا۔ سکول سے اس کا گھر نظر آتا تھا۔ اور وہ ہمیں بتاتا وہ میرا گھر ہے۔ شائد کرائے پر لیا ہو گا۔
جب چھٹی ہوتی تو میں پیدل ڈومیسٹک کیمپ سے چل کر پرانی ڈھوک پیرا فقیرا کراس کر کے ٹیکنیکل گارڈ روم کے ساتھ MT سیکشن میں والد صاحب کے پاس آ جاتا تھا۔ پرانی ڈھوک پیرا فقیرا جہاں آجکلPAFWA اکیڈمی ہے ادھر تھی بعد میں اس ایکوائر کر کے دوسری جگہ آباد کیا ٹیپو روڈ پر جہاں اب ہے۔ ان کا قبرستان بھی ادھر ہی تھا جہاں آجکل پارک بنا ہوا ہے۔ ۔ اس وقت ایڈمنسٹریشن تقریبا انگریز اور پاکستانی مکس تھے۔ بیس کمانڈر EG HAUL تھے۔ والد صاحب مرحوم چونکہ بیس کمانڈر کی گاڑی کی دیکھ بھال مینٹینس کرتے تھے وہ بیس کمانڈر کے ڈرائیور کو کہتے کی قدیر کو رن وے کے اوپر گاڑی میں گھر چھوڑ آئیں۔ اس وقت رن وے خالی تھا اور ہمارا گاوں رنوے کے آخر میں تھا۔ بیس کمانڈر کی کالی شیورلیٹ میں ڈرائیور رن وے کے آخر میں مجھےاتار دیتا ۔ وہاں سے میں گھر پہنچ جاتا تھا ۔ گھر قریب ہی تھا۔ کئی دفعہ والد صاحب کے ساتھ سائیکل پر رنوے سے گھر آ جاتا تھا۔ ایک دن والد صاحب بیس کماڈر کی گاڑی کا کچھ تیل وغیرہ تبدیل کر رہے تھے تو میں ذرا شرارتی تھا۔ ایک فورک لفٹر پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ وہ سیلف سٹارٹ تھا۔ میں نے ایک بٹن دبایا تو فورک لفٹر سٹارٹ ہو گیا۔ والد صاحب قریب ہے تھے انہوں نے آکر فورک لفٹر بند کیا۔ گھر آ کر والدہ مرحومہ کو بتایا تو وہ بھی خوش ہوئیں۔ کہ بہت ذہین ہے۔ جب بیس کمانڈر EG HAUL کی پوسٹنگ پشاور AHQ میں ہوئی تو ان کا سارا سامان Bristol freighter جہاز میں رکھا اور ہم سب ان کو رخصت کرنے گئے مجھے یاد ہے جون کی گرمی تھی اور ٹارمک پر ہم جہاز کے ونگ کے نیچے کھڑے تھے۔ برسٹل فریٹر جہازوں کا ایک سکوارڈن ہوتا تھا۔ فریٹر کا منہ آگے سے کھلتا تھا اور آگے سے سامان رکھتے تھے ۔
اس کو بعد میں سی_130 نے ریپلیس کیا۔ جس کو پچھلی طرف سے کھول کر سامان رکھتے ہیں۔
چکلالہ بیس پر دارلخلافہ بننے کے بعد 1962 میں جہازوں کچھ آمدورفت زیادہ ہوئی



View attachment 1036726View attachment 1036727
Last edited: