What's new

Whatever

Friend.jpeg


:rofl: :yahoo:
 
no jokes, I am getting cranky, angry, and annoyed in my personal day to day life, its literally affecting my mental well-being and in turn that of my loved ones- I love my country more than anything in the world short of my parents, wife etc
need to catch a break
You already married?

Anyway tell the story of your experience with Gujaratis. Why do you hate Gujaratis so much? Please do tell because gossip gives happiness.
 
You already married?

Anyway tell the story of your experience with Gujaratis. Why do you hate Gujaratis so much? Please do tell because gossip gives happiness.
F skinny fat , Pajeet Gujrati in thier curry a**hole
--------------
3.8 Plus gpa with internship experience, from a high ranking state university

I applied for a Big 4 Job, a skinny fat , Patel Pajeet rejected me cause I was a Pakistani

But it doesn't matter, I got a job with another big 4, than switched out of that too and now I am in government so in hindsight it doesn't matter
but f this ugly rat breed golems
 
Last edited:
F skinny fat , Pajeet Gujrati in thier curry a**hole
--------------
3.8 Plus gpa with internship experience, from a high ranking state university

I applied for a Big 4 Job, a skinny fat , Patel Pajeet rejected me cause I was a Pakistani

But it doesn't matter, I got a job with another big 4, than switched out of that too and now I am in government so in hindsight it doesn't matter
but f this ugly rat breed golems
Among all the Indians that I came across in 10+ years outside Pakistan, I found Gujjus to be the biggest Pakistani/Muslim haters.

Indian Bengalis probably are the coolest lot when it comes to us, in my experience.
 
Among all the Indians that I came across in 10+ years outside Pakistan, I found Gujjus to be the biggest Pakistani/Muslim haters.
little penis ugly rats, god I wish for a day when government falls and it all becomes lawless

I swear, my inner Maula Jutt will come out and hunt a dozen of these pajeet patels
Indian Bengalis probably are the coolest lot when it comes to us, in my experience.
which is kinda weird tbh...

Among all the Indians that I came across in 10+ years outside Pakistan, I found Gujjus to be the biggest Pakistani/Muslim haters.

Indian Bengalis probably are the coolest lot when it comes to us, in my experience.
Although my neighbor is a gangu or UP'ite but he is a good man
Get along fine with him, but if it was a pajeet patel, Id be arrested for homicide within a month or two
 
Last edited:
Part 1
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی سول سروس
اور فوج کی بناوٹ، ساخت اور گھڑت ایک جیسی ہے۔ اس لئے کہ انہیں انگریز نے برطانوی استعمار کے تحفظ اور نوآبادیاتی تسلّط کے اُصولوں میں گُندھے ہوئے دھاگے سے بُنا ہے۔ افواج کے لئے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مفادات کے تحفظ کے لئے 1600 عیسوی میں ہی بھرتی کر لی گئی تھی اور یہ تقریباً ایک سو تہتر سال تک ہندوستان میں برطانوی تجارت کا تحفظ کرتی رہی۔ ہندوستانی فوج میں مسلسل مقامی افراد کو بھرتی کیا جاتا رہا اور ساتھ ہی ہندوستان پر قبضے کا منصوبہ بھی بنتا رہا۔ سراج الدولہ کا بنگال اس فوج کا پہلا نشانہ تھا۔ 1757ء کی جنگِ پلاسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کی پہلی فتح تھی جو ایک جرنیل سید میر جعفر علی خان بہادر کی غدّاری سے ممکن ہوئی۔ آغاز میں بنگال کی حکمرانی اسی میر جعفر کو ہی دے دی گئی لیکن غدّاری کا یہ صلہ زیادہ دیر قائم نہ رہا اور انگریز خود حکمران ہو گیا۔ شروع شروع میں بغیر کسی قاعدے قانون، حکومت چلائی جاتی رہی مگر 1793ء میں ایک سول سروس کا ڈھانچہ متعارف کروایا گیا۔ اس ڈھانچے کو کارنویلس کوڈ (Cornwallis Code) کہتے ہیں۔ یکم مئی 1793ء کو نافذ ہونے والے اس ضابطے کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کی سروس کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، محصولات (Revenue) ، عدلیہ (Judiciary)، اور تجارت (Commerce)۔ عدلیہ اور محصولات کے افسران پر تجارت کرنے کی پابندی عائد تھی تاکہ ان کا اس سے کسی بھی قسم کا مفاد وابستہ نہ ہو۔ اس ’’قربانی‘‘ کے بدلے، انہیں انتہائی اہم حیثیت دے کر شاندار مراعات اور تنخواہوں سے نوازا گیا۔ محصولات کے افسران ہی سے بعد میں کلکٹر، ڈپٹی کلکٹر اور ڈپٹی کمشنر کے عہدوں کا ارتقاء ہوا اور آخر کار ڈپٹی کمشنر / ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ایک ایسا عہدہ تخلیق کیا گیا جو نہ صرف ایک ضلع کا انتظامی سربراہ تھا بلکہ اپنے ضلع کی حدود میں وہ انگریز وائسرائے کے اختیارات رکھتا تھا۔ کئی ایکڑوں پر پھیلی اس کی رہائش گاہ تھی اور اس کی تنخواہ اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے ذہن میں کرپشن، بددیانتی یا کسی قسم کے کاروبار کا تصور بھی آنا محال تھا۔ آخری دفعہ جب انگریز نے تنخواہوں پر نظرثانی کی تو ایک ڈپٹی کمشنر کی تنخواہ کم از کم دو ہزار روپے تھی جبکہ اس دور میں ایک کلرک کی تنخواہ صرف بارہ روپے ماہانہ تھی۔ اسی طرح عدلیہ کو مالی مسائل سے آزاد رکھنے کے لئے سیشن جج کی تنخواہ ڈپٹی کمشنر سے بھی زیادہ رکھی گئی تھی۔ سول سروس کی طرح یوں تو افواج کی تنخواہیں بھی بہتر تھیں مگر وہ مراعات کے اعتبار سے سول سروس کا ہرگز مقابلہ نہیں کرتے تھے۔ البتہ انہیں مراعات عطا کرنے کے لئے انگریز نے ایک طریق کار وضع کر رکھا تھا کہ افواج میں سے بہترین افسران کو سول سروس میں بھیجا جاتا تھا۔ سنڈیمن، لارنس، لٹن ، بارنس، لائل وغیرہ کہ جن کے نام پر آج شہر یا شاہراہیں موجود ہیں، یہ سب انگریز سول سروس کے وہ افسران تھے جو پہلے فوج میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے بعد سول سروس میں آئے تھے۔ پاکستان میں اس کی مثال سکندر مرزا کی ہے جس نے 1920ء میں برٹش آرمی میں کمیشن لیا۔ بنگال کے اس آفیسر نے 1920ء ہی میں وزیرستان کی جنگ میں اپنے مسلمان پشتون بھائیوں پر گولیاں چلا کر انگریز کا دل جیتا اور اس کے صلے میں اسے سول سروس میں بھیج کر 1926ء میں علی گڑھ میں اسسٹنٹ کمشنر لگا دیا گیا۔ سول سروس میں نوکری کے ساتھ ساتھ اسے فوج میں بھی مسلسل پرموشن دی جاتی رہی۔ وہ ترقی پا کر ہزارہ کا پولیٹیکل ایجنٹ بنا تو 1927ء میں اسے ساتھ ہی فوج میں کیپٹن بھی بنا دیا گیا۔ آخری دفعہ جب وہ سیکرٹری دفاع کے عہدے سے صدرِ پاکستان بنا تو وہ میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھا۔ صدارت کے عہدے پر ہی اس نے سات اکتوبر 1958ء کو اپنے جونیئر پارٹنر اور فوج کے سربراہ ایوب خان کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا، مگر صرف 20 دن بعد 27 اکتوبر 1958ء کو جب جسٹس منیر نے یہ فیصلہ دیا کہ ’’طاقت ہی اصل قانون ہوتی ہے‘‘ تو اس نے سول اور ملٹری بیوروکریسی کی دو سو سالہ بساط اُلٹ کر رکھ دی۔ اب ملٹری بیوروکریسی سینئر پارٹنر بن گئی اور سول بیوروکریسی جونیئر کی سطح پر آ گئی۔ اس اہم تبدیلی کے بعد کے پینسٹھ سال اس ملک میں افواجِ پاکستان کے عروج اور سول سروس کے زوال کے سال ہیں۔ بظاہر دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اس ملک کے عوام پر بے دریغ حکمرانی کرتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کی مراعات یہاں تک کہ اختیارات میں بھی نمایاں فرق آتا چلا گیا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کے بارہ سال اس پرانی شادی کے مرتب کئے گئے نئے اُصولوں کے ابتدائی سال تھے۔ سول سروس نے انتہائی آسانی اور خوش دلی سے طاقت کے اصل مرکز ’’فوج‘‘ کے سامنے اپنا سر نگوں کر دیا اور اب عوام پر حکمرانی کے تمام ’’حربے‘‘ فوج کے جرنیلوں کی چھائوں میں استعمال کئے جانے لگے تھے۔ فوج سے سول سروس میں لوگوں کو بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری رہا مگر اس عرصے میں ان کا معیار برقرار رکھا گیا۔ کیپٹن کی سطح کے ایسے افراد کو سول سروس میں بھیجا جاتا جو ملٹری اکیڈیمی میں اعزازی تلوار "Sword of Honor" کے مستحق قرار پائے ہوتے تھے جیسے کیپٹن عسیانی وغیرہ۔ لیکن وقت کے ساتھ سول سروس میں بھیجے جانے والے افسران خالصتاً سفارش اور اقرباء پروری پر بھیجے جانے لگے، جس کی بدترین مثال مریم نواز کے شوہرِ نامدار کیپٹن صفدر کی ہے۔ ایسے افسران کی ایک طویل لسٹ ہے جو کسی جرنیل کے بیٹے، داماد، بھانجے، بھتیجے تھے یا پھر ان کے لاڈلے اے ڈی سی رہے تھے۔ اس پینسٹھ سال کے عرصے میں اتنا پانی پُلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے کہ اب دونوں گروہوں کی صورت ہی پہچانی نہیں جاتی۔ وہ سول سروس جس کی بنیاد پر انگریز نے ایک ایسا نظام قائم کیا تھا جس کے ذریعے وہ عام ہندوستانیوں کو خوش رکھنے کے لئے ان کے درمیان عدل قائم کیا کرتی اور یہ افسران رشوت و بددیانتی سے پاک ہوتے۔ البتہ یہ سول سروس تاجِ برطانیہ کے خلاف بغاوت کو کچلنے اور اس کے اقتدار کو قائم کرنے کے لئے عوام پر کسی بھی قسم کا ظلم روا رکھنے کے لئے تیار رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ 1857ء کے بعد نوے سالہ اقتدار میں انگریز نے اس ہندوستان کے وسائل کو بے دریغ طریقے سے لُوٹا، لیکن عام آدمی کو بہت حد تک مطمئن رکھا۔ دوسری جانب انگریز نے اپنی افواج کو عوام سے اتنا دُور رکھا کہ عام آدمی کا سایہ بھی ان پر نہ پڑے تاکہ بوقت ضرورت عوام کو دبانے کے لئے ان کا خوف ہی کافی ہو۔ شہروں سے کئی میل دُور کنٹونمنٹ بنائے گئے اور فوجیوں کو سول علاقوں میں آنے کے لئے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا۔ لاہور کا سول علاقہ چیئرنگ کراس پر ختم ہو جاتا تھا اور کنٹونمنٹ کئی میل دُور میاں میر سے شروع ہوتا۔ گذشتہ پینسٹھ سال میں سول سروس کے ڈھانچے کی مسلسل تباہی جاری رہی اور ایک لمحے کے لئے بھی اس کو گرانے کی رفتار میں کمی نہ آئی۔ افواجِ پاکستان کے جرنیل ہوں یا سیاستدانوں کے وزرائے اعظم سب نے سول سروس کے مضبوط ڈھانچے کو اوّل تو کمزور کر کے اپنے حق میں نرم کرنا چاہا اور پھر مسلسل شکست و ریخت سے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی 1973ء کی سول سروس ریفارمز اور پرویز مشرف کی 2001ء کا ناظمین کا نظام اس تباہی کی واضح مثالیں ہیں۔ (جاری ہے)

Part 2
سول ایڈمنسٹریشن کا ڈھانچہ انگریز کی قوت و اختیار کی علامت تھا، اسی لئے اسے بے پناہ اختیارات بھی عطا کئے گئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع میں ایک چھوٹا سا بے تاج بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ امنِ عامہ، ترقیاتی منصوبے، سیاسی جوڑ توڑ، ایک حد تک انصاف کی فراہمی بھی اسی ’’امرت دھارے‘‘ کے ذمہ تھی۔ مالیہ اور آبیانہ چونکہ یہی دونوں ٹیکس تھے جن سے حکومت چلتی تھی، انکم ٹیکس اور کسٹم تو برائے نام تھے، یہی وجہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر ہی کلکٹر بھی ہوتا جو یہ محصولات وصول کرتا۔ اس قدر محدود پیمانے پر لگائے گئے ان دونوں ٹیکسوں سے پورے برصغیر کا نظام چلتا تھا اور ساتھ ہی سالانہ پانچ کروڑ پائونڈ تاجِ برطانیہ کے اخراجات کے لئے لندن بھی بھیجا جاتا تھا۔ انگریز نے اس ضلعی انتظامیہ کے علاوہ لوکل باڈیز کا بھی ایک مربوط نظام قائم کر رکھا تھا۔ تعلیم، صحت، صفائی، شہر کی سڑکیں، پارک، کھیل کے میدان اور سول ڈیفنس وغیرہ سب یونین کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں کے ذمہ ہوتے تھے اور وہ اس معاملے میں خود مختار بھی تھیں۔ ان تمام کاموں کے لئے ذرائع آمدن کے طور پر محصول چونگی وصول کرتی تھیں۔ یہ ’’گراس روٹ‘‘ سطح کی جمہوریت تھی جسے انگریز نے متعارف کروایا۔ اس سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں پنچائت اور جرگہ جیسے مضبوط علاقائی ادارے کام کر رہے تھے جن سے دیہی بلکہ نیم شہری معاشروں کا نظامِ کار چلتا تھا۔ انگریز نے جب ضلعی سطح کو ایک انتظامی یونٹ کا درجہ دیا تو انہی دونوں نظام ہائے کار کے بنیادی خدوخال اور مناصبِ کار کو مختلف اداروں میں تقسیم کر دیا اور یوں ضلع ایک ایسا مربوط یونٹ بن گیا جس میں عام آدمی کے تحفظ کے لئے امنِ عامہ کا نظام، ترقیاتی ضروریات کے لئے میونسپل نظام، اور عدل کے حصول کے لئے سیشن جج کی عدالتیں موجود ہوا کرتی تھیں۔ یہ ایک مرکزی حکومت کا چھوٹا سا ڈھانچہ (Minature) تھا جس کی مرکزیت کے لئے ڈپٹی کمشنر کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور اسے وسیع اختیارات دینے کا مطلب بھی یہی تھا کہ لوگوں کی تمام شکایات کا ازالہ یہیں پر ہو جائے اور صوبائی یا مرکزی سطح تک جانا نہ پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ایک سو سال کے عرصے میں اعلیٰ عدالتوں میں بہت کم مقدمات آئے اور زیرِ التواء مقدمات کا تو کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ انگریز نے عوام کو یہ کچھ عطا کرنے کے باوجود ایک اہم چیز کا اختیار اس محکوم ہندوستانی قوم کو نہیں دیا اور وہ تھی سیاسی آزادی و خودمختاری۔ ہمیں انگریز نے یہ درس گھوٹ گھوٹ کر پلایا کہ بہترین جمہوریت تو مقامی جمہوریت یا گراس روٹ نظامِ کار ہی ہوتا ہے۔ بنیادی جمہوریت کو اہمیت دینے کا مطلب دراصل یہ تھا کہ، اے ہندوستان کے کُند ذہن باسیو! تمہاری سطح بس اتنی ہی ہے کہ تم سڑکیں، پُل بنائو، صحت و صفائی کا نظام چلائو، سکول اور فائر بریگیڈ قائم کرو، لیکن خبردار یہ مت سوچنا کہ اس ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہو سکتی ہے۔ جنگِ عظیم اوّل اور دوّم میں کتنے سپاہیوں کو جھونکنا ہے۔ افغانوں سے کب اور کیوں لڑنا ہے اور ہماری صنعتیں کیسی ہوں گی، کس قسم کی مصنوعات ہونی چاہئیں، ہماری تجارت کس سے ہو گی اور کیا ہم برطانیہ کے علاوہ بھی تجارت کر سکتے ہیں۔ ہمارا نصابِ تعلیم کیا ہو گا، ہمارے قانونِ عدل کی بنیاد کیا ہو گی، یہ اور ایسے تمام ’’اعلیٰ‘‘ کام تم جیسے کُند ذہن، غبی اور محکوم ہندوستانیوں کے بس کی بات نہیں ہیں۔ یہ صرف اور صرف ہم کریں گے۔ انگریز کے بنائے ہوئے یہ اُصول حکمرانی ہی تھے کہ جب کبھی بھی اس ملک پر کوئی ڈکٹیٹر آیا اس نے پاکستان کی قوم کو ’’کُند ذہن‘‘، ’’غبی‘‘ اور ’’جاہل‘‘ سمجھ کر یہی کہا کہ بہترین جمہوریت تو مقامی جمہوریت ہوتی ہے۔ اے پاکستانیو! تم لوکل باڈیز کے نظام پر اکتفا کرو اور اپنے علاقے کو ’’خوبصورت‘‘ بنائو اور یاد رکھو امریکہ سے تعلقات، کیسے اور کس طرح کے ہونے چاہئیں، افغان پالیسی کیسی ہونی چاہئے، آئی ایم ایف سے قرضہ کب لینا ہے، دیہاتوں اور منڈیوں سے مربوط سڑکوں کی بجائے صرف اشرافیہ کے لئے موٹر وے کیوں بنانا ہے، ایف 16 خریدنے ہیں یا جے ایف تھنڈر، ایسے تمام معاملات کا فیصلہ ہم خود کریں گے کیونکہ صرف ہم ہی ان باتوں کا شعور رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے پاکستان کو لوکل باڈیز کے ادارے تحفے میں دیئے اور انہیں بہت حد تک خودمختار بھی کر دیا، لیکن صوبائی اور مرکزی سیاست کا ویسے ہی گلا گھونٹا گیا جیسے انگریز دور میں سیاست دانوں کو مطیع و فرمانبردار بنایا جاتا تھا۔ طاقت کے بَل بوتے پر برسراقتدار آنے یا جمہوری طور پر منتخب ہو کر حکمران بننے والے گروہ، دونوں میں کبھی اس معاملے میں اختلاف ہی نہیں رہا کہ انہوں نے پورے انتظامی ڈھانچے کے دو مرکزی کرداروں کی قوت اور طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ ایک ڈپٹی کمشنر اور دوسرا ایس ایچ او۔ یہی وجہ ہے کہ 1958ء کے پہلے مارشل لاء میں انہی دونوں کو استعمال کر کے اقتدار کو مستحکم کیا گیا تھا، یہ تجربہ کامیاب تھا۔ مادرِ ملت کو شکست دینے اور ایوب خان کو جتوانے میں انتظامیہ نے ویسے ہی انتہائی فعال کردار ادا کیا جیسا وہ تاجِ برطانیہ کے مخالفین کو کچلنے میں کیا کرتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو چونکہ ایوب خان کا چیف پولنگ ایجنٹ تھا، اس لئے اسے ان کی طاقت کا بخوبی اندازہ تھا۔ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی اس سول سروس کو تابعِ فرمان بنانے کے لئے آئینِ پاکستان میں موجود وہ ایسے تمام تحفظات (Guaranties) ختم کر دیئے، جس کی وجہ سے یہ افسران خود کو محفوظ خیال کیا کرتے تھے۔ اب ان کی نوکریاں وزیر اعظم کی جنبشِ قلم کی محتاج ہو کر رہ گئیں۔ لاتعداد افسران جو عزت سے زندگی گزارنا چاہتے تھے سیکرٹریٹ کی کھڈے لائن پوسٹنگز پر چلے گئے۔ یحییٰ خان نے تین سو تین اور پھر بھٹو نے چودہ سو افسران کو نکال کر ایک خوف پھیلایا جس کا مطلب یہ تھا، اگر تم ہر جائز و ناجائز بات نہیں مانو گے تو پھر تمہارا انجام اس قدر عبرتناک ہو گا کہ تمہاری کہیں کوئی شنوائی بھی نہیں ہو گی۔ بھٹو کے آئین کو نافذ ہوئے آج 49 برس ہو گئے ہیں، اس کے بعد لاتعداد حکومتیں آئیں، جونیجو جیسے بااُصول وزیر اعظم سے لے کر عمران خان جیسے تبدیلی کے خواہش مند رہنما تک، مگر کسی نے اس سول سروس کو وہ آئینی تحفظات دینے کے بارے میں سوچا تک نہیں جن سے یہ خود کو محفوظ خیال کریں اور ایمانداری پر ڈٹ جائیں۔ ان سیاست دانوں اور جرنیلوں کو معلوم تھا کہ اگر ایسا کر دیا گیا تو کسی سرپھرے ایماندار آفیسر کا ہاتھ ان کے گریبان تک آ سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ برسراقتدار ہوں۔ اب نواز شریف اور بے نظیر دونوں نے وہ کھیل کھیلا کہ پاکستان کی پوری بیوروکریسی دو وفادار گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان افسران کو بددیانتی اور کرپشن کے تمام گُر اَزبر تھے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں دونوں سیاسی پارٹیوں کے لوگ کارِ سرکار کی الف ب سے بھی واقف نہ تھے۔ بیوروکریسی نے ان سے مل کراس پاکستان کی شاہراہ سے ایسے تمام سپیڈ بریکر اُڑا دیئے جو کرپشن کی گاڑی کی رفتار کم کر سکتے تھے اور پھر یہ گاڑی فراٹے بھرنے لگی اور پچاس سال سے تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہے۔ ضیاء الحق سے لے کر اب تک جو کوئی بھی حکمران ہوا، ان افسران نے اس کی خواہشات کے عین مطابق کرپشن اور بددیانتی کے ’’پراجیکٹ‘‘ نہ صرف تخلیق کئے، بلکہ انہیں وسعت بھی دی۔ گزشتہ چالیس سال کے عرصے میں اس سول سروس کا سائز 1947ء سے دس گنا زیادہ بڑھا ہے اور اس ملک پر قرضوں کا بوجھ پانچ سو گنا زیادہ ہوا ہے۔ پاکستان کی تباہی میں جہاں سیاست دانوں اور جرنیلوں کا حصہ بدرجہ اتم ہے وہیں اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے سول سروس کے افسران زیادہ مجرم ہیں کیونکہ یہی تو تھے جو سیاست دانوں اور جرنیلوں کے حکم پر کرپشن کی گاڑی کی رفتار ان کی منشاء کے مطابق کبھی تیز اور کبھی سست کرتے رہتے تھے۔
 
Back
Top Bottom