What's new

Urdu & Hindi Poetry

,..,
(جمیل الدین عالی صاحب نےیہ غزل ١٩٨۵ میں کہی۔۔۔)

تمھیں مجھ میں کیا نظر آگیا جو میرا یہ روپ بنا گئے ۔۔۔۔۔۔
وہ تمام لوگ جو عشق تھے وہ میرے ووجود میں آگئے ۔۔۔۔۔۔
نہ تیرے سوا کوئی لکھ سکے نہ میرے سوا کوئی پڑھ سکے ۔۔۔۔۔۔
یہ حروف بے ورق و سبق ہمیں کیا زباں سکھا گئے ۔۔۔۔۔۔۔
نہ کر آج ہم سے یہ گفتگو مجھے کیوں ہوئ تیری جستجو۔۔۔۔۔۔
ارے ہم بھی ایک خیال تھے سو تیرے بھی زہن میں آگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جو سنا کہ گھر تیرے جائینگے تیرے صحن و باغ سجائنگے ۔۔۔۔۔۔۔
میرے اشک اڑ کے ہوا کے ساتھ انہی بادلوں میں سما گئے ۔۔۔۔۔۔
دلِ شب میں صبح کی دھڑکنیں ابھی ابتدائے غزل میں تھیں ۔۔۔۔۔۔
کہ وہ آے اور تمام شعر میری ہی دھن میں سنا گئے ۔۔۔۔۔
جو نہ آپ اس پہ ہوئے عیاں یہ رکھے گا ہم کو بھی سرگراں ۔۔۔۔۔۔
کئ بار لے کے شکایتیں میرے دوست ارض و سما گئے ۔۔۔۔۔۔۔
کئ محفلوں میں ٹو یوں ہوا کہ جب آئے ِعالی اے خوش ادا ۔۔۔۔۔
جو نہ کھل سکے تو چھپے رئے جو نہ رو سکےوہ رلا گئے ۔۔۔۔۔۔



(جمیل الدین عالی)​
(1925--2015)
 
khanjar-chale-kisii-pe-tadapte-hain-ham-amiir-couplets-ameer-minai_large.png
 
ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ، ایک عجب خوف سا دل کو

1665585597581.png



اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر پروفیسر شہرت بخاری کی آج 21 ویں برسی ہے۔
شہرت بخاری کا اصل نام سید محمد انور تھا۔ 2 دسمبر 1925 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔

اردو اور فارسی میں امتیازی حیثیت سے ایم اے کیا۔ عملی زندگی کا آغاز مجلسِ زبانِ دفتری سے کیا ، پھر تدریس کی طرف آئے۔ اسلامیہ کالج لاہور کے صدر شعبۂ اردو و فارسی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھہ عرصہ اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔

شاعری میں پہلے نرگس تخلص تھا۔ احسان دانش سے تلمذ حاصل ہوا تو ان کے مشورے پر شہرت تخلص اختیار کیا۔ ۔حلقۂ اربابِ ذوق کے اہم رکن تھے۔ حلقہ اربابِ ذوق میں جب نوجوانوں نےغمِ دوراں کا ذکر کچھہ زیادہ زور شور سے شروع کیا تو کچھہ بزرگوں نے اسے سیاست قرار دیا ، ۔حلقے پر سیاسی کا لیبل لگایا اور الگ سے حلقہ اربابِ ذوق (ادبی) بنا لیا۔

سیاست سے نفور کے باعث شہرت صاحب بھی اس میں پیش پیش تھے لیکن پھر ضیاع الحق کےدورِ جبر میں کسی بھی حساس شخص کیلئے سیاست سے لا تعلق رہنا ممکن نہ رہا توشہرت صاحب بھی سیاست میں ایسے آئے کہ جلا وطن بھی ہونا پڑا۔
شہرت صاحب کہتے تھے کہ ان کی اہلیہ فرخندہ بخاری انہیں سیاست میں لائیں ۔ دراصل فرخندہ صاحبہ کے بھائی خواجہ افتخار ایڈووکیٹ سرگرم سیاسی اور ٹریڈ یونین کارکن تھے۔ مرزا ابراہیم کی ریلوے ورکرز یونین کے جنرل سیکریٹری بھی تھے۔ فرخندہ صاحبہ پر بھائی کا اثر تھا۔ مارشل لا کے دوران وہ جمہوری جدوجہد میں بہت سرگرم رہیں ۔ جب انہیں زبردستی طیارے میں ڈال کرجلا وطن کیا گیا تو ظاہر ہے خاندان متاثر ہوا۔ شہرت صاحب اس پر ناخوش تو ہوئے لیکن پھر وہ بھی برطانیہ چلے گئے اور ان کا گھر وہیں آباد ہوگیا۔ جمہوریت کی بحالی پر یہ خاندان وطن واپس آیا۔

شہرت صاحب کا 11 اکتوبر 2001 کو انتقال ہوا اور میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

شہرت صاحب کے اردو شعری مجموعے طاقِ ابرو ، دیوارِ گریہ ، اور شبِ آئینہ کے عنوان سے شائع ہوئے ، فارسی کلام کی کوئی خبر نہیں۔ ان کی صاحبزادی نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔

کچھہ اشعار:

یا د رہ جاتی ہیں با تیں شہر ت
دن بہر حال گزر جاتے ہیں
شہرت ہے کہ اب وجہ پریشانی احباب
اٹھ جائے گا جس روز تو آئے گا بہت یاد
جو ہے وہ نکلنا چاہتا ہے
ہے ننگ مکان پر مکیں
ہر چند سہارا ہے تیرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
کسی کی روح کا بجھتا ہے شعلہ
کسی کی آنکھ میں جلتا ہے کاجل
ہر حال میں اتنے بھی بے بس نہ ہوئے تھے ہم
دلدل بھی نہیں لیکن نکلا بھی نہیں جاتا
کافر ہوں جو حسرت ہو جینے کی مگر شہرت
اس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا
ہم کوئی نجومی ہیں ، وقت ہی بتائے گا
کون یاد رکھے گا کون بھول جائے گا
ہم بھی رکھتے ہیں زادِ راہِ عدم
اپنا غم ، تیرا غم ، جہان کا غم
کافر ھوں جو حسرت ھو جینے کی مگر شہرت
اس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا
شُہرت بیانِ غم کےصِلے میں ہُوا نصیب
ایسا جوابِ تلخ کہ نشہ اُتر گیا
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﺪﻝ ﺩﮮ ﯾﺎﺭﺏ
ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﮎ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﺎ ﺑﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺷﻌﻠﮧ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﺎﺟﻞ
ﮐﻞ ﭼﮭﭙﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﭘﻨﯽ
ﺁﺝ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﺍﻍ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﮨﻢ ﭘﯿﺎﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﻋﺒﺚ ﺁﺱ ﻟﮕﺎﺋﯽ
ﺑﺮﺳﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﺎﺩﻝ ﺗﮭﺎ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ
ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﻌﻠﮧ ﻧﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺮﻕ
ﺷﮩﺮﺕؔ ﺑﮭﻼ ﺩﻝ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮩﻠﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ
ﺩﻝ ﻧﮯ ﮐﺲ ﻣﻨﺰﻝ ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮭﮯ
ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺮﮮ ﺳﺎﺋﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮭﮯ
ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮔﮭﭩﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ
ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺅ ﮔﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﺎﺩ
ﻣﻨﺰﻝ ﭘﮧ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮐﯿﺴﮯ
ﭘﺎﺅﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺭﺳﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
بشکریہ: اسلم ملک
 
ترک تعلقات پر رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں
ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لب گویا نہ تو نہ میں
نوحے فصیل ضبط سے اونچے نہ ہو سکے
کھل کر دیار سنگ میں رویا نہ تو نہ میں
جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی
بر گشتہ آسمان سے گویا نہ تو نہ میں

✍️
نصیر ترابی
 
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟
کبھی تو آغاز باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی،،
کبھی تو انکا حساب ہوگا
سحر کی خوشیاں منانے والو
سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی
کہ سانس لینا عذاب ہو گا
وہ دن گیا جب کہ ہر ستم کو،
ادائے محبوب سمجھ کے چپ تھے،
اٹَھے گی ہم پر جو اینٹ کوئی
‏تو پتھر اسکا جواب ہو گا۔۔۔۔۔۔
سکون صحرا میں بسنے والو۔۔
ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔
جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔
تو کل کا موسم خراب ہوگا
 
آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے

آج اس خوبصورت نغمہ کے خالق تنویر نقوی کی برسی ہے۔
اردو کے نامور فلمی شاعر تنویر نقوی کا اصل نام سید خورشید علی تھا اور وہ 6 فروری 1919ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا اور ان کے بڑے بھائی بھی نوا نقوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔
تنویر نقوی نے 15 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور 21 سال کی عمر میں1940 ء میں ان کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا اس سے قبل 1938ء میں وہ ہدایت کار نذیر کی فلم شاعر سے فلمی نغمہ نگاری کا آغاز کرچکے تھے۔ سنہرے سپنے کی اشاعت کے بعد ہدایت کار اے آر کاردار نے انہیں بمبئی آنے کی دعوت دی جہاں ان کا قیام تقریباً آٹھ برس رہا اس دوران انہوں نے قریباً ڈیڑھ درجن فلموں کے نغمات تحریر کیے جن میں انمول گھڑی اور لیلیٰ مجنوں کے نغمات بے حد مقبول ہوئے خصوصاً انمول گھڑی کا نغمہ آواز دے کہاں ہے آج بھی روز اول کی طرح پسند کیا جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد 1950ء میں تنویر نقوی پاکستان آگئے جہاں انہوں نے اپنے بے مثل گیتوں سے دھوم مچا دی تنویر نقوی کے مقبول نغمات کی فہرست بے حد طویل ہے جن میں

زندگی ہے یا کسی کا انتظار (فلم سلمیٰ)‘
جان بہاراں‘ رشک چمن (فلم عذرا)
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں (فلم انارکلی)‘
رم جھم رم جھم پڑے پھوار (فلم کوئل)‘
زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نا (فلم ہم سفر)‘
رقص میں ہے سارا جہاں (فلم ایاز)
اے دل تری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں ہے (فلم تاج محل) اور 1965ء کی
جنگ میں نشرہونے والا نغمہ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو سرفہرست ہیں۔

تنویر نقوی نے اپنے خوبصورت گیتوں پر تین مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کیا انہوں نے یہ ایوارڈ جن نغمات پر حاصل کیے ان میں فلم کوئل کا نغمہ دل کا دیا جلایا‘ شام ڈھلے کا نغمہ‘ مرلی بجائے جا گیت سنائے جا اور فلمی دوستی کا نغمہ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے شامل تھے۔ تنویر نقوی نے کئی فلموں کے لیے کئی فلموں کے لیے کئی خوبصورت نعتیں بھی تحریر کیں جن میں فلم نور اسلام کی نعت شاہ مدینہ‘ یثرب کے والی اور فلم ایاز کی نعت بلغ العلیٰ بکمالہٖ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ تنویر نقوی دو شادیاں کی تھیں ان کی پہلی بیوی فلمی ادکارہ مایا دیوی تھیں جب کہ دوسری بیوی ملکہ ترنم نورجہاں کی بڑی بہن عیدن تھیں۔
تنویر نقوی کا انتقال یکم نومبر 1972ء کو لاہور میں ہوا۔ وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

تحریر و تحقیق: عقیل عباس جعفری

May be an image of 1 person
 
Jab Teri Jaan Ho Gayi Hogi
Jaan Hairaan Ho Gayi Hogi

Shab Tha Meri Nigaah Ka Bojh Us Par
Woh To Halkaan Ho Gayi Hogi

Us Ki Khaatir Huwa Main Khaar Bahut
Woh Meri Aan Ho Gayi Hogi

Ho Ke Dushwaar Zindagi Apni
Kitni Aasaan Ho Gayi Hogi

Be-Gila Hoon Main Ab Bahut Din Se
Woh Pareshaan Ho Gayi Hogi


Ek Haveli Thi Dil Muhalle Mein
Ab Woh Weeraan Ho Gayi Hogi

Us Ke Kooche Mein Aayi Thi Sheereen
Us Ki Darbaan Ho Gayi Hogi

Kum-Sini Mein Bahut Shareer Thi Woh
Ab To Shaitaan Ho Gayi Hogi

1667920152888.png
 
,.,.
آج اُردو کے ممتاز شاعر جون ایلیا کی برسی ہے۔


1667938307659.png



جون ایلیا کی زندگی کو معاشرے، روایات، معیارات اور عام ڈگر سے کھلی عداوت و بغاوت سے عبارت کیا جاتا ہے۔ یہی بغاوت جون ایلیا کی شاعری کو دیگر شاعروں سے ممتاز و منفرد بناتی ہے۔

فلسفیانہ شک و سوالات، خدا سے تکرار، معاشرے سے عداوت، خود پر ناراض ہو جانا اور ناراض رہنا، عشق و محبت میں ناکامی و یاس کے ساتھ ساتھ غصہ و بیزاری جیسے عناصر نے جون کو اردو شاعری کے ان مکاتب میں شامل کر دیا، جو ان سے قبل چند ہی شعراء کے حصے میں آ پائے۔

اردو زبان پر جون ایلیا کی گرفت اور شاعری میں انتہائی سادہ الفاظ اور لفظوں کی تکرار سے ایک مشکل مضمون کو بیان کر دینا، بھی جون ایلیا کا ایک خاص وصف رہا ہے۔

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا

جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو
 
جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے
سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون لئی مرنا پیندا اے
(منو بھائی)​
 
,..,.
Some shining stars of Urdu literature
✨
🌹

1. Balunt Singh (1921-1986)
2. Jagannath Azad (1918-2004)
3. Sahir Ludhianvi (1921-1980)
4. Bismil Saeedi (1901-1976)
5. Josh Melih Abadi (1898-1982)
6. John Nisar Akhtar (1914-1976)
7. Devender Satyarthi (1908-2003)
8. Asrar ul Haq (1911-1955)
9. Arsah Mulshani (1908-1979)
Courtesy : Sheza Ashraf
اُردو ادب کے چند جگمگاتے ستارے
✨
🌹

1.بلونت سنگھ (1921-1986)
2.جگن ناتھ آزاد (1918-2004)
3.ساحر لدھیانوی (1921-1980)
4. بسمل سعیدی (1901-1976)
5.جوش ملیح آبادی (1898-1982)
6.جان نثار اختر (1914-1976)
7.دیوندر ستیارتھی (1908-2003)
8.اسرار الحق مجاز (1911-1955)
9.عرش ملسیانی (1908-1979)​


1668723609329.png
 
آج فیض احمد فیض کی 38 برسی ہے۔
اردو زبان و ادب میں یوں تو کثیر تعداد میں شعراء کرام پیدا ہوئے تاہم تین شعرا میرتقی میر، مرزا غالب اور علامہ اقبالؒ کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان تین شعراء کی مقبولیت کے بعد جس شاعر کو عوام و خواص کی جانب سے بے پناہ محبت و شہرت ملی وہ فیض احمد فیض ہیں۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے


May be a black-and-white image of 1 person
 
.,
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اب اس کا حال بتائیں کیا ,

آج اس خوبصورت غزل کے خالق کی برسی ہے۔

اطہر نفیس کی اس غزل میں جو کیفیت موجود ہے اس کی تفسیر بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کے غزلیات میں کوئی مشکل لفظ کم ہی آتا ہے۔ جو ترسیل میں دشواری پیدا کرے۔ اس لیے اطہر نفیس کا ہر شعر اپنی کیفیت خود بیان کر دیتا ہے۔
اطہر نفیس جس دور میں شاعری کر رہے تھے اس زمانے میں کئی ایسے شعرا موجود تھے جو اپنے اسلوب کے لحاظ سے منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان میں فیض احمد فیض، منیر نیازی، حبیب جالب وغیرہ تھے تو ہم عصروں میں ابن انشا،مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی، اقبال ساجد اور عزیز حامدمدنی وغیرہ تھے۔ لیکن اطہر نفیس نے ان کے درمیان سے ایک نئی راہ نکالی۔ ان کے یہاں بہت سادگی ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام اہم گلوکاروں نے ان کی غزلوں کو اپنی آواز دی ہے۔ کیوں کہ یہ اشعار بہت آسانی سے سامعین کے ذہن میں اتر جاتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔

21 نومبر 1980کو صرف 47سال کی عمر میں اطہر نفیس نے ذات کی تنہائی سے نجات پالی۔ انٹرنیٹ اور فیس بک کو دعا دیجیے کہ اس کی بدولت دوست احباب ان کی سالگرہ اور یوم وفات پہ انھیں یاد کرلیتے ہیں۔ ورنہ تو شاید ہی کبھی کسی آرٹس کونسل، انجمن ترقی اردو یا کسی اور ادارے نے انھیں یاد کیا ہو ۔

1669048025423.png
 
Back
Top Bottom