پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ بہت سے مبینہ شدت پسند گروہوں اور ان کے سرکردہ لیڈران نے جن میں فضل اللہ، فقیر محمد، عبدالولی اور حکیم اللہ شامل ہیں افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے ہیں اور یہ گروہ سرحد پار کر کے پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔
بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین میں ایک انٹرویو میں میجر جنرل اطہر عباس نے بتایا کہ ان علاقوں سے جب نیٹو اور افغان فوجی اپنے پوسٹیں چھوڑ کر جا رہے تھے تو اس وقت پاکستانی فوج نے انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا اور اب یہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے علاقے دیر میں ایک گاؤں میں پاکستان کے ستائیس سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ پہلی جون کا واقعہ ہے جس کا تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ یہ کن لوگوں نے کیا اور کن حالات میں پیش آیا۔
اس واقع کی تفصیل بتائے ہوئے میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پہلی جون کو پچاس سے ساٹھ دہشت گردوں نے جن کا تعلق تحریک طالبان سوات سے تھا افغانستان کے صوبے کنڑ کے علاقے سے سرحد پار کر کے آئے اور انھوں نے لیوز اور پولیس کی مشترکہ چیک پوسٹ پر حملہ کردیا۔ حملہ کے وقت چیک پوسٹ پر تیس سیکورٹی اہلکار موجود تھے جنہیں ان دہشت گردوں نے سفاکانہ طریقے سے ہلاک کردیا۔
میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ چیک پوسٹ کے قریب گاٰؤں شلتالو میں ان طالبان نے مقامی لوگوں کو یرغمال بنائے رکھا اور چھ پرائمری سکولوں کو نذر آتش کر دیا۔
انھوں نے کہا کہ کمانڈر حفیظ اللہ عرف کوچوان، مفتی الدین عرف شبر اور تور ملا دیر سے تعلق رکھنے والے تین کمانڈر تھے جو حملہ آووروں کی سرکردگی کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ طالبان دیر سے ہی کنڑ گئے ہیں اور وہاں انھوں نے محفوظ پناہ گاہ بنائی ہوئی ہیں۔
ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان کی فوج کنڑ میں کارروائی تو نہیں کر سکتی لیکن پشاور میں ایک جوائنٹ کمیشن بنایا گیا ہے اور تمام حقائق اس کے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں۔ یہ کمیشن ہی فیصلہ کرے گا کہ ان عناصر کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔
افغان سرحد پر پاکستانی فوج کی تعداد کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ پاکستانی فوج نے سرحد کے ساتھ ساتھ نو سو چوکیاں قائم کر رکھی ہیں۔ ان پوسٹوں پر ایک لاکھ سینتالیس ہزار فوجی تعینات ہیں۔ میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ سرحد پار اس تعداد میں فوجی تعینات نہیں ہیں جس کی وجہ سے شدت پسندوں کو کنٹرول کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
ماضی میں سامنے آنے والی فوج کی طرف سے گرفتار شدہ شدت پسندوں پر تشدد اور ہلاک کرنے کی ویڈیوز کے بارے میں ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کا اس سلسلے میں بہت سخت رویہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوج کے اعلی حکام نے ایسے اہلکاروں اور افسران جو کسی بھی اس قسم کے واقعے میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی ہے اور برطرفیاں بھی ہوئی ہیں۔
میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ ان میں کئی ایک ویڈیوز جعلی بھی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے اندر ضابطے کی کارروائیوں کے بارے میں تفیصلات اس لیے کبھی عام نہیں کی گئیں کیونکہ ان سے فائدے سے زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
news link
?BBC Urdu? - ????????? - ???? ??? ??????? ?????? ?? ??? ?
link: detail interview of DG ISPR in audio
?BBC Urdu? - ????????? - ????? ???? ???? ???? ?? ????????