Sulman Badshah
STAFF
- Joined
- Feb 22, 2014
- Messages
- 4,282
- Reaction score
- 34
- Country
- Location
پاکستان جا رہا ہے "ٹرمینیٹر" جو پرامن ہے
© Sputnik/ Ruslan Krivobok
برصغیر
17:26 28.01.2016(اپ ڈیٹ 00:03 29.01.2016) مختصر یو آر ایل حاصل کریں
076351
2016 میں روس پاکستان کو چھ ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر ایم آئی-171 فراہم کرے گا۔ ایم آئی8 اے ٹی ایم کی یہ شکل روس کی فوج کا جدید ترین کثیر الافعال ہیلی کاپٹر ہے۔ ایم آئی 8 اے ٹی ایم فوجیوں اور گولہ بارود کی منتقلی اور بالواسطہ فائرنگ کرکے فوج کی مدد کرنے کے کام آتا ہے، اس لیے اسے فوج میں ایک غیر رسمی نام "ٹرمینیٹر" سے پکارا جاتا ہے۔
"ٹرمینیٹڑ" کی نسبت، ایم آئی171 میں ہتھیار نصب نہیں ہیں اور یہ صرف ٹرانسپورٹ کے کام آتا ہے، چاہے سول ہو یا ملٹری سے متعلق۔
© SPUTNIK/ SERGEY MAMONTOV
ایم آئی 171 ش جنگی ہیلی کاپٹر
بتاتے چلیں کہ یہ پہلی بار نہیں کہ اس خطے میں ایسا سازوسامان دیا جا رہا ہو۔ ایسے ہیلی کاپٹر انتہائی سخت موسمی حالات والے بنگلہ دیش میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی معیشت و بین الاقوامی تعلقات کے انسٹیٹیوٹ کے مرکز برائے سلامتی کے کہنہ مشق تحقیق کار پیوتر تاپیچکانوو نے کہا کہ اگر فراہمی یقینی بنا دی گئی تو یہ پورے خطے کے لیے ایک علامت خیز واقعہ ہوگا۔
"سب سے پہلے تو یہ غمّاز ہےکہ روس اور پاکستان اپنے عسکری تکنیکی تعاون کو ترقی دے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کہ پاکستان روس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط رکھنے میں دلچسپی لے رہا ہے اور اگر خطے کے مجموعی دشوار تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بہت علامت خیز اور اہم واقعہ ہوگا"۔
دوسری بات جو تاپیچکانوو نے کہی وہ یہ کہ نہیں کہا جا سکتا فریقین براہ راست سازوسامان لینے دینے لگے ہیں کیونکہ یہ ہیلی کاپٹر دہری نوعیت کا ہے، جو فوجی ٹرانسپورٹ ایوی ایشن کا حصہ بنے گا یا انجنیرنگ کور کا نہ کہ پاکستان کی لڑاکا فوج کا"۔
"اس طرح روس کی کوشش ہے کہ وہ ہندوستان کے منفی ردعمل سے بچے" تاپیچکانوو کا کہنا ہے۔۔
"اس سے قطع نظر کہ روس کے حکام کئی بار پاکستان کے ساتھ بھرپور عسکری تکنیکی تعاون شروع کرنے کے ارادے کا اظہار کر چکے ہیں، اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اب تک نہیں لیا گیا ہے جبکہ روس کو دہلی کی جانب سے اس سلسلے میں پہلے سے ہی منفی ردعمل کا سامنا ہے"۔
تاپیچکانوو کے مطابق روس میں اب تک یہی سمجھاجاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ روابط رکھنے سے ہندوستان کے ساتھ روس کے عسکری تکنیکی تعاون پر بہت برا اثر پڑے گا۔
"یہی وجہ ہے اب تک پاکستان کو کچھ نہیں دیا جا سکا اگرچہ منصوبے کچھ کم نہیں تھے۔ پھر یہ کہ روس اس سلسلے میں انتہائی احتیاط سے کام لے رہا ہے مگر پاکستان کے ساتھ تعاون میں ہماری دلچسپی ضرور ہے" تاپیچکانوو سمجھتے ہیں۔
ساتھ ہی پاکستان کی منڈی کے معروضی خطرات سے بھی صرف نظر نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ ایسا نہیں کہا جا سکتاکہ پاکستان ہمارے ساتھ کسی "خالی فضا" میں تعلقات کو فروغ دینے کا آغاز کر رہا ہے۔
"پاکستان کے اہم عسکری تکنیکی شراکت کار ملکوں میں امریکہ اور چین آتے ہیں، یہ ملک اسلام آباد کو جو سہولتیں اور سرمایہ فراہم کرتے ہیں اس کی توقع روس سے نہیں رکھی جا سکتی" تاپیچکانوو نے کہا۔
علاوہ ازیں امریکہ نے اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان عسکری تعاون پر بہت زیادہ عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔
چنانچہ پاکستان اور روس کو دیگر ممالک کے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا اس لیے شروع میں ان کے درمیان عسکری تکنیکی تعاون کسی حد تک محدود رہے گا۔
http://urdu.sputniknews.com/baresagheer/20160128/1763614.html#ixzz3yhxz16IC
:مزید پڑھیں
© Sputnik/ Ruslan Krivobok
برصغیر
17:26 28.01.2016(اپ ڈیٹ 00:03 29.01.2016) مختصر یو آر ایل حاصل کریں
076351
2016 میں روس پاکستان کو چھ ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر ایم آئی-171 فراہم کرے گا۔ ایم آئی8 اے ٹی ایم کی یہ شکل روس کی فوج کا جدید ترین کثیر الافعال ہیلی کاپٹر ہے۔ ایم آئی 8 اے ٹی ایم فوجیوں اور گولہ بارود کی منتقلی اور بالواسطہ فائرنگ کرکے فوج کی مدد کرنے کے کام آتا ہے، اس لیے اسے فوج میں ایک غیر رسمی نام "ٹرمینیٹر" سے پکارا جاتا ہے۔
"ٹرمینیٹڑ" کی نسبت، ایم آئی171 میں ہتھیار نصب نہیں ہیں اور یہ صرف ٹرانسپورٹ کے کام آتا ہے، چاہے سول ہو یا ملٹری سے متعلق۔
© SPUTNIK/ SERGEY MAMONTOV
ایم آئی 171 ش جنگی ہیلی کاپٹر
بتاتے چلیں کہ یہ پہلی بار نہیں کہ اس خطے میں ایسا سازوسامان دیا جا رہا ہو۔ ایسے ہیلی کاپٹر انتہائی سخت موسمی حالات والے بنگلہ دیش میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی معیشت و بین الاقوامی تعلقات کے انسٹیٹیوٹ کے مرکز برائے سلامتی کے کہنہ مشق تحقیق کار پیوتر تاپیچکانوو نے کہا کہ اگر فراہمی یقینی بنا دی گئی تو یہ پورے خطے کے لیے ایک علامت خیز واقعہ ہوگا۔
"سب سے پہلے تو یہ غمّاز ہےکہ روس اور پاکستان اپنے عسکری تکنیکی تعاون کو ترقی دے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کہ پاکستان روس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط رکھنے میں دلچسپی لے رہا ہے اور اگر خطے کے مجموعی دشوار تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بہت علامت خیز اور اہم واقعہ ہوگا"۔
دوسری بات جو تاپیچکانوو نے کہی وہ یہ کہ نہیں کہا جا سکتا فریقین براہ راست سازوسامان لینے دینے لگے ہیں کیونکہ یہ ہیلی کاپٹر دہری نوعیت کا ہے، جو فوجی ٹرانسپورٹ ایوی ایشن کا حصہ بنے گا یا انجنیرنگ کور کا نہ کہ پاکستان کی لڑاکا فوج کا"۔
"اس طرح روس کی کوشش ہے کہ وہ ہندوستان کے منفی ردعمل سے بچے" تاپیچکانوو کا کہنا ہے۔۔
"اس سے قطع نظر کہ روس کے حکام کئی بار پاکستان کے ساتھ بھرپور عسکری تکنیکی تعاون شروع کرنے کے ارادے کا اظہار کر چکے ہیں، اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اب تک نہیں لیا گیا ہے جبکہ روس کو دہلی کی جانب سے اس سلسلے میں پہلے سے ہی منفی ردعمل کا سامنا ہے"۔
تاپیچکانوو کے مطابق روس میں اب تک یہی سمجھاجاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ روابط رکھنے سے ہندوستان کے ساتھ روس کے عسکری تکنیکی تعاون پر بہت برا اثر پڑے گا۔
"یہی وجہ ہے اب تک پاکستان کو کچھ نہیں دیا جا سکا اگرچہ منصوبے کچھ کم نہیں تھے۔ پھر یہ کہ روس اس سلسلے میں انتہائی احتیاط سے کام لے رہا ہے مگر پاکستان کے ساتھ تعاون میں ہماری دلچسپی ضرور ہے" تاپیچکانوو سمجھتے ہیں۔
ساتھ ہی پاکستان کی منڈی کے معروضی خطرات سے بھی صرف نظر نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ ایسا نہیں کہا جا سکتاکہ پاکستان ہمارے ساتھ کسی "خالی فضا" میں تعلقات کو فروغ دینے کا آغاز کر رہا ہے۔
"پاکستان کے اہم عسکری تکنیکی شراکت کار ملکوں میں امریکہ اور چین آتے ہیں، یہ ملک اسلام آباد کو جو سہولتیں اور سرمایہ فراہم کرتے ہیں اس کی توقع روس سے نہیں رکھی جا سکتی" تاپیچکانوو نے کہا۔
علاوہ ازیں امریکہ نے اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان عسکری تعاون پر بہت زیادہ عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔
چنانچہ پاکستان اور روس کو دیگر ممالک کے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا اس لیے شروع میں ان کے درمیان عسکری تکنیکی تعاون کسی حد تک محدود رہے گا۔
http://urdu.sputniknews.com/baresagheer/20160128/1763614.html#ixzz3yhxz16IC
:مزید پڑھیں