What's new

PTI was Danger to Pakistan, Pakistan wouldn't survive with them : General Bajwa

Since that's the case for all civilian leaders in Pakistan, and since I haven't found a post where you supported anything other than democracy so let's agree to a compromise. Let's forgo the briefcases, since everything utilizes them. If everyone is special, no one is.

So the question becomes, did he get any votes at all? Were they more than the votes the others got?

That train left the station decades ago. If you search the archives here, you may still be able to find an article for PDF that I wrote, back in the day when I cared, on a way forward for Pakistan's governance.
 
ایکسپریس اردو
عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں
جاوید چوہدری جمعرات 9 فروری 2022


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔
یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔


جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔


جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔


سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں View attachment 915765View attachment 915766




Just imagine if PTI says

Pak army is threat to Pakistan(which is actually true) and it should cease to exist

Imagine the aghast and number of FIRs and kidnappings
But Pak army(generals) IS a threat to Pakistan. Its corruption and support for corruption… and corrupt wannabe rulers… like sharifs and bhuttos
 
You are the one who brought up the SC's declaration of innocence for Gen Musharraf but not his treason conviction. Besides, if you care to read my posts with your jaundiced eye, you will see that I ALWAYS advocated rule of law, no matter what. Equally, and not just when it only suits my preferences: Ousting NS prematurely to install IK was just as wrong as installing PDM after IK's removal.
Lol,

He wasn’t convicted technically was he? The conviction was found to be illegal according to higher courts.

According to you, rule of law is SC. SC is highest law of land.

SC found NS guilty - no one doubts that he was, in fact, guilty. SC never found Mushi guilty. Vindicated him in 1999. Alas. Never found him guilty of anything.
 
IMO the biggest threat to Pakistan was for the Pakistani public to see the PTI gov't fail by the end of its term. If seeing that, then they'd lose all hope in any of the mainstream parties and institutions.

However, Bajwa accelerated that entire process by a few years, maybe even several decades. Therefore, Bajwa actually did a favour because he got us to the inevitable sooner, hence forcing us to discuss solutions earlier.

Bajwa the Itachi playing 5G warfare chess.

/s
 
Kya bakwas ha or log isa be defend kerna ponch ga? I mean IK or PTI itni bari threat thi kah Pakistan GDP 6 plus per growth ker raha tha, dollar 170 tha, reserves 22 billion dolalr tha or petrol 150 per litre tha or yeh economy bitha raha tha or dosari taraf tajbarkar team na dollar 278, petrol 250, foreign reserves 3 billion or GDP growth - ker di ha or is per mulk qaim ha? Aisi akal per lanat bhajna ka dil kerta ha.
Saaf saaf Genral Bajwa kyn nahi kahta apni corruption chupana ka lia chor or dhako muslat kia. Na woh bajwa ki chori per bolain or na bajwa un ki. Bajwa had just one problem with IK, IK wasn't going to let go of corruption charges. IK was adamant and wanted all looted wealth to be brought back to Pakistan. Had he achieved this and people actually convicted, Pakistan today would have been different, so the army under bajwa intervened and made sure IK is removed.

Bad people exist everywhere. The problem is that in developing nations crooks make it to influential positions. Bajwa is an excellent example of a third world general who thinks he is above the law. No regard for the law. No respect for institutions. Just the law of the jungle. A general decides who gets to stay and who has to leave. This is the classic example of a banana republic.
 
Javed Chaudhary sahab aap kay honton say ralain tapak rahi hain.

Lagta hai agla ISI plane ka trip Javed Chaudhary ko bari buri tarah chahiay...:P
 
Lol,

He wasn’t convicted technically was he? The conviction was found to be illegal according to higher courts.

According to you, rule of law is SC. SC is highest law of land.

SC found NS guilty - no one doubts that he was, in fact, guilty. SC never found Mushi guilty. Vindicated him in 1999. Alas. Never found him guilty of anything.

I have always regarded NS as a convicted criminal. But you cannot accept that Gen Musharraf was eventually convicted of treason and sentenced to death. That verdict is still suspended, but not overturned.
 
As opposed to barely surviving with Sharifs and Zardaris :lol:

I think they are hiding from corruption accountability. Sadly too many were involved in the last 20 years and I bet they wish they didn't in hindsight. Trapped by their own sins. Its a common theme for 3rd world countries and its a continuous cycle of degenerate leadership until there is an uprising like the Arab spring.

This is in a way, kicking the can down the road. Chickens will come home to roost one day for sure.
 
ایکسپریس اردو
عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں
جاوید چوہدری جمعرات 9 فروری 2022


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔
یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔


جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔


جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔


سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں View attachment 915765View attachment 915766




Just imagine if PTI says

Pak army is threat to Pakistan(which is actually true) and it should cease to exist

Imagine the aghast and number of FIRs and kidnappings
So if we take this article as truth baju and co are biggest patriots
And bigger economic experts then economic experts
 
If it had become unavoidable to oust IK-led setup due to its miscalculations, solution was to implement an interim setup of economists, researchers and level-headed foreign policy experts to manage the country and bring those who had wronged the country to the courts.

PDM was NOT the solution.
Whitewashing corruption cases of corrupt politicians was NOT the solution.

Dispensing justice was the solution.

Who will fix the ongoing mess now?
Country has been moved from icu to hospice waiting for its end, unless by some miracle junior officers not part of the corrupt system rise up and support the oppressed people and get rid of corrupt politicians, judges, media and basically cleanse all institutions..
 
Last edited:
I have always regarded NS as a convicted criminal. But you cannot accept that Gen Musharraf was eventually convicted of treason and sentenced to death. That verdict is still suspended, but not overturned.
It’s overturned. Go read the court verdict. The entire verdict was found to be illegal. Like it never happenedZ
 
Thanks for posting. Before the general is condemned with the usual, people should pay heed to some of this. It cannot be all wrong. Some missteps were costly, some immature, and some outright stupidity.
Why? Why must even a single thing Bajwa said be true?

Having gone back and forth to Pakistan in the last 2 years, I can safely say that the removal of PTI was the stupidest decision ever made. Pakistan's economy was recovering, and while PTI made some stupid decisions (none of which are mentioned in the article), the overall performance was far better than PPP's kleptocracy, and PMLN's fake growth.

PTI was not a danger to Pakistan. If PTI was a danger, the PPP and PMLN are death sentences.
 
It’s overturned. Go read the court verdict. The entire verdict was found to be illegal. Like it never happenedZ

You are correct here. Indeed it was later overturned. Of course the Army will work to keep itself above the law. So I guess his betrayal of his SGG blood oath will have to suffice for his guilt in this world. That alone is good enough for me.
 
You are correct here. Indeed it was later overturned. Of course the Army will work to keep itself above the law. So I guess his betrayal of his SGG blood oath will have to suffice for his guilt in this world. That alone is good enough for me.
Not according to SC or courts unf. The standard which you set btw. Alas, cruel fates.
 
Back
Top Bottom