What's new

Pakistan Tourism: Information Desk

خانپور ڈیم پرتمام واٹر سپورٹس ایکٹیوٹی مکمل طور پر سیل کر دی گئی ہیں
سیاح حضرات سفر سے پہلے انفارمیشن ضرور حاصل کریں
1730207638067.jpeg

 
درہ بابوسر گلگت بلتستان کی سیاحتی لحاظ سے بہت ہی اہمیت کے حامل ہے یہاں سے روزانہ کے بنیاد پر ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح سفر کرتے ہیں ۔
گزشتہ سالوں کی بنسبت اس سال فارنرز کا ریشو گلگت بلتستان کو دیکھنے کے لئے بہت ہی زیادہ رہا ہے اور اس وقت بھی بہت زیادہ ہے جس سے نہ صرف ملکی معیشت کو تقویت ملتی ہے بلکہ پاکستان کا ایک اہم امیج بھی ان کے ساتھ چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے اور بہت سارے فارنرز آنے پر خود مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے شاہراہِ قراقرم جگہ جگہ کام کی وجہ سے روک روک کر انسان کو ذہنی مریض بنا دیتے ہیں اور ہر جگہ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار ہے جس سے نہ صرف انسان کو تھکاوٹ ہوتی ہے بلکہ اس روڈ پر دوسری دفعہ سفر کرنے کا انسان سوچتا بھی نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت اگر تھوڑی سی توجہ درہ بابوسر پر مرکوز کرئے تو میں سمجھتا اس روڈ کو دسمبر تک تو آسانی سے بحال رکھا جاسکتا ہے گزشتہ روز بابوسر ٹاپ پر 18 انچ کی قریب برف پر چکی تھی اس وقت سوائے ایک موڑ کے باقی روڈ سے برف پگل کر صاف ہو گی ہے اب اس ایک موڑ کی وجہ اس روڈ کو بند کر کے سیاحت کو کیو تباہ کر رہے ہو؟
گلگت بلتستان کی حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ کوئی ایک عاد بلڈوزر سے اس روڈ کی صفائی کرائی جائے تاکہ گلگت بلتستان کی سیاحت بھی متاثر نہ ہو اور مقامی لوگوں کو روزگار کا مواقع بھی ضائع نہ ہو

1730287940405.jpeg
 
قراقرم ھائ وے تھاکوٹ تا رائیکوٹ پراجیکٹ دو ارب ڈالرز کے لاگت سے شروع ھوگا جبکہ اس میں 17 ٹنل ھونگے جنکی کل لمبائی 20 کلو میٹر تک ھوگی،
213 چھوٹے پل بھی شامل ھیں جو 2.26 کلو میٹر کو کوور کریں گے،
یہ پراجیکٹ 2025 میں شروع ھوکر 2030 میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا
1730295986289.jpeg
 
سبحان اللہ,
اللہ کی عظمت کو سلام ہو، لوری ٹنل کراس کرنے کے بعد لوئر چترال کا گاوں میر کھنی کا آغاز ہوتا ہے، جو اپنی انتہائی خوبصورتی کے ساتھ ایک منظر کشی کا آغاز کرتا ہے، جہاں خزاں کے مناظر کم ہیں لیکن دریا کے ساتھ ساتھ کا منظر ماشاءاللہ، ان شاء اللہ اگلی پوسٹوں میں ہم لوئر چترال کے مختلف گاوں کی خزاں کی منظر کشی کا ایک انوکھا اور دلکش نمونہ پیش کریں گے، پہاڑوں میں خزاں کے رنگ بہاروں کی مانند ہوتے ہیں۔

1730357089708.jpeg
1730357110358.jpeg
1730357120752.jpeg
1730357129272.jpeg
1730357141319.jpeg
 
Babusar Top, Lulusar Lake, and Bata Kanda in Mansehra have recently experienced heavy snowfall, enhancing the beauty of these popular tourist spots.

1730363241819.jpeg
 
٠•●
🧡
موسم خزاں
🍂

وادی بونی کی دلکشی دیکھنے کے قابل
🧡
●•٠·
یوں تو خزاں کا موسم ہر جگہ بہت دلکش ہوتا ہے، جہاں رنگ بدلتے پتے, نیلگوں پانی اور خوبصورت نظارے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، مگر خزاں کے جو رنگ چترال بالا کی وادی بونی کے ہیں وہ اپنی مثل آپ ہیں
🍁

نومبر کا آغاز وادی بونی میں ٹھٹرتے موسم سرما اور خزاں کی شروعات کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہی دنوں اس حسین وادی پر چھائی خزاں کے نظارے اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔ گو، خزاں کے رنگ بدلتے پتوں کی بہار، قدرت کے نظارے ایسے کہ ہر کوئی کھنچا چلا آئے۔
پہاڑوں سے نکلتی سورج کی کرنیں اور زمیں پر جا بجا بچھی سنہری درختوں کی چادر وادی کی دلکشی میں جابجا اضافہ کر دیتی ہے۔ گو کہ، ہر طرف زمین پر بکھرے، ہوا میں لہراتے زرد پتوں کا میلہ سا لگا ہو۔ باغات، گلیوں اور سڑکوں پر ہر طرف زرد پتے بکھرے نظر آتے ہیں۔
مقامی لوگ رباب کی دھنیں بکھیر کر سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ فلک پوش پہاڑوں کے باسی اپنے مہمانوں کو سخت سردی سے بچانے کیلئے لکڑی کا انتظام کرتے ہیں اور ان کی بھرپور مہمان نوازی کرتے ہیں۔
ذاتی خیال:
"وادی بونی کا کوئی سیزن نہیں ہے۔ اس کے رنگ چاروں موسم میں نرالے ہیں"
اس وادی کے میری پسندیدہ ہونے کی وجہ یہاں لے لوگوں کی پر خلوص محبت اور خوبصورت جغرافیہ ہے۔ یہاں ہر لمحہ اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے. اور ایک منظر باز کو اس سے بڑھ کر کیا چاہیے، کہ ہر موسم میں ہر سو نت نئے نظارے آپکا استقبال کرنے کو تیار کھڑے ہوں
🧡

سو، وادی بونی کی موسمِ خزاں کے کچھ ڈرون کیمرے سے لی گئی تصاویر پیشِ خدمت ہیں۔ نیچے دیا گیا البم کھولیے اور قدرت کے ان خوبصورت رنگوں کو دیکھ کر اپنے تاثرات کا اظہار کریں۔
مقام: وادی بونی، چترال بالا
تصویروگرافی: سلمان منیر

1730379597224.jpeg
1730379609174.jpeg
1730379624338.jpeg
1730379634499.jpeg
1730379646757.jpeg
1730379667586.jpeg
1730379679526.jpeg
1730379693873.jpeg
 

Attachments

  • 1730379957903.jpeg
    1730379957903.jpeg
    154.8 KB · Views: 9
دریائے سندھ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے ۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔
چین کے علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک ذیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے ۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل "مانسرور" ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا اور بھی نکلتے ہیں۔
ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔
گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔
برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔
اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔
ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی ۔ حتی کہ 1811 عیسوی میں "ولیم مور کرافٹ" نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرور نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے "سیون ہیڈن" 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر "سنگی کباب" یا "سینگے کباب" کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی "گارتنگ" یا "گارتانگ" ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔
گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں ۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔
دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر اسکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے ۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔
اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس اٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے ۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔
کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے ۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم ، چناب ، راوی ، ستلج ، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔
گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گذر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گذر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔
اس دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان کا نام انڈیا پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔ اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں۔ یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے۔ اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔
یوں یہ دریا چین کے تبت اور لداخ سے ہوتا ہوا ہندستان سے گھومتا ہوا بلتستان کے علاقوں گلگت ، اسکردو ، استور نانگا پربت کے پہاڑی سلسلوں سے اپنا راستہ بناتا خیبرپختونخواہ میں داخل ہوتا ہے
دریا پارسی زبان کا لفظ ہے جس کو سنسکرت میں ندی ، عربی میں نہر ، ترکی میں نیلاب اور انگریزی میں river کہتے ہیں۔
سنسکرت میں سندھو کا مطلب ہے سمندر یا بڑا دریا۔ سنسکرت ڈکشنری کے مطابق سندھو کا بنیادی لفظ سنید Syand ہے جس کا مطلب بہنا ہے۔ یعنی سندھو کا مطلب ہوا "ایسی ندی جو ہمیشہ بہتی رہے یا پھر بہتی ہوئی ندی۔ پروفیسر میکس میولر کے نزدیک سندھو کا لفظ سُدھ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بچاؤ کرنا۔ دریائے سندھ جن علاقوں سے بہتا ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کا بچاؤ کرتا ہے۔ غیروں کے حملے سے اور جنگلی سوروں سے۔
سندھو لفظ کے مختلف لہجے۔
رگ وید کے زمانے 1500 ق م میں سندھو کو سندھو ہی کہا جاتا تھا۔ ایرانی دور 518 ق م میں ایران کے دارا نے سندھ پر قبضہ کیا تو انہوں نے سندھ کو ہندو کہنا شروع کردیا۔ کیونکہ ان کی زبان میں "س" کا حرف نہیں تھا۔ اور انہوں نے س کی جگہ ہ استعمال کرنا شروع کیا۔ اور اس طرح سندھو سے ہندو ہوگیا۔ یونانی دور 326 ق م میں یونانیوں نے سندھ کو ہند کہا اور اس کا لہجہ "انڈ" کردیا۔ اور ندی کو انڈوس indos اور ملک کا نام انڈیکا Indica رکھا۔ لاطینی زبان بولنے والوں نے انڈوس کو "انڈس Indus" اور سندھ کو ہند اور پورے خطے کو انڈیکا سے انڈیا بنایا۔ چینی سیاح یوان نے 641 عیسوی کو سندھو کو "سن تو" (سنتو) لکھا ہے۔ غرض دریائے سندھ مختلف لہجوں میں کچھ یوں ہے۔ (سندھو ۔ سنسکرت ) ( ہندو ۔ ایرانی ) ( انڈوس ۔ یونانی ) ( انڈس لاطینی ) ( سن ۔ تو چینی )
سندھ کے صفاتی نام
سنسکرت میں ہی سندھو کو بچانے والا یا روزی دینے والا کہا گیا ہے۔ تبت والوں نے اسے شیر کے منہ سے نکلنے والا دریا یعنی شیر دریا کہا۔ قراقرم کے بیچ والے حصے میں اسے دریا کہا گیا ہے۔ قراقرم سے نیچے تربیلا تک اسے ابا سین کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے سب کا باپ یا دریاؤں کا باپ۔
سندھی زبان میں دریا کیلئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ اسی طرح سنسکرت ایک قدیم زبان ہے جس کا مطلب ہے "تراشی ہوئی"۔ تو یہ کہاں سے تراشی ہوئی ہے۔ غالب امکان ہے کہ یہ موئن جو ڈارو کی زبان سے تراشی گئی ہوگی۔ جس کو اگر سندھی کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔ لفظ سندھو کے دریا ہونے کا ایک ثبوت اس طرح سے ہے کہ آریہ قوم نے شمالی سندھ کو سپت سندھو کہا۔ سپت کا مطلب سات اور سندھو کا مطلب دریا۔ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین۔

1730722154898.jpeg
1730722161579.jpeg
 
اگر آپ کو پاکستان میں سوئٹزرلینڈ دیکھنا ہے تو آپکو وادی چوڑ آنا پڑے گا۔ جی ہاں آج میں آپ کو ایک ایسی وادی لیئے چلتا ہوں جو ٹورسٹ کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہے۔ کہتے ہیں جنت اتنی آسانی سے نہیں ملتی اس جگہ جاکر اس بات کا یقین ہو جاتا ہے۔ وادئ چوڑ آلائی بٹگرام، پالس کوہستان، سرن ویلی اور ناران کاغان مانسہرہ کے وسط میں ایک وسیع و عریض خوبصورت ترین چراگاہ ہے، جس کو فطرت نے بے حد فیاضی سے نوازا ہے۔
وادی چوڑ ایشیاء کی سب سے بڑی چراہ گاہوں میں سے ایک ہے ۔ یہ وادی سطح سمندر سے تقریبا 14,000 فٹ اونچی ہے۔
ہر سو جنت نظیر مناظر، بڑے بڑے میدان، جا بجا جنگلی پھول، بہتا ہوا دریا، بلندوبالا پہاڑ، گلیشیئرز دلکش چراگاہیں، جھرنے، بڑی بڑی آبشاریں اور قدرت کے تمام رنگوں کو سموئے یہ وادی سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔
لاری کس، ماڑیا، حبیب کس، ستول، سرکس، ٹھنڈی دھیڑ، ڈلی میدان، سرگاہ، گیدر، سلو میدان اور ٹیپری مشہور جگہیں ہیں۔
وادی چوڑ کو الائی بٹگرام، وادی سرن، کاغان، ناران اور پالس کوہستان سے پہنچا جا سکتا ہے۔ بیشتر ٹریکر گنگوال آلائی سے چوڑ ویلی کا سفر اختیار کرتے ہیں جو کہ آسان راستہ ہے۔ اسکے علاوہ سرن ویلی سے بذریعہ کھنڈہ گلی، شاران سے بذریعہ مرزا گلی اور کاغان سے چیمبر کے راستے سے بھی چوڑ ویلی جا سکتے ہیں۔
یہاں مقامی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے مئی سے لیکر اگست تک صرف چرواہے ہی اپنی بھیڑ، بکریوں کے ساتھ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ راستوں پر سفر کرتے ہوئے چرواہے آپ کی ہر طرح کی تواضع مکمل اخلاص کے ساتھ کرتے ہیں۔ رہنے کو جگہ بھی ملتی ہے، کھانے بھی اور دودھ، لسی، ساگ، مکئی کی روٹی بھی وافر ملتی ہیں۔
آپ چوڑ جا کر زندگی کا انتہائی دلفریب اور یادگار سفر کر سکتے ہیں اور بہت کم اور خوش قسمت ترین ٹریکرز میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس وادی کو پہنچنے کیلئے دو دن پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ مکمل چوڑ کو دیکھنے کے لئے دو ہفتے بھی کم ہیں۔
اب تو تقریباً سیزن ختم ہوچکا ہے، اگر قدرت کی تمام تر رعنائیوں سے لطف اندوز ہونا ہے تو اگلے سال ضرور پلان کریں۔ ٹورسٹ کے لئے جولائی اور اگست کے مہینے سب سے بسٹ ہے۔ وادی چوڑ فطرت سے محبت کرنے والوں کی منتظر ہے۔

1730877206420.jpeg
1730877217148.jpeg
1730877279038.jpeg
1730877290014.jpeg
 

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom