What's new

Urdu & Hindi Poetry

,.,.,.
1649632047959.png


,.,.,,.,
 
Jahan unka naksh e qadam daikhty hain
Kharaman Kharaman irum daikhty hain.

Badalky faqeeron ka ham bhes ghalib,
Tamasha e Ahle Karam daikhty hain.
 
صغیر صفی۔

مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا

کہیں،، رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ

مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو،،،، حُسنِ یار کا تذکرہ

تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو،،،،،، حاکموں کو بُرا بھلا

تمہیں،،، فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو

جو امیرِ شہر کہے تُمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو

کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو

نہ امیرِ شہر کا زکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو

کہیں تار تار ہوں،، عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو

جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا،،،،، نام لو

کسی تاک میں ہیں لگے ہُوئے
میرے جاں نثار،،،،، گلی گلی

ہیں میرے اشارے کے مُنتظر
میرے عسکری میرے لشکری

جو تُمہارے جیسے جوان تھے
کبھی،،، میرے آگے رُکے نہیں

انہیں اس جہاں سے اُٹھا دِیا
وہ جو میرے آگے جُھکے نہیں

جنہیں،، مال و جان عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پِگھل گئے

جو تمہاری طرح اُٹھے بھی تو
اُنہیں بم کے شعلے نگل گئے

میرے جاں نثاروں کو حُکم ہے
کہ،،،،،، گلی گلی یہ پیام دیں

جو امیرِ شہر کا حُکم ہے
بِنا اعتراض،، وہ مان لیں

جو میرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی،،،،،،، عدلیہ میں رہا کریں

مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے،،،،،،، وہ ہُوا کریں

جنہیں مجھ کچھ نہیں واسطہ
انہیں،،،، اپنے حال پہ چھوڑ دو

وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں،،،،، گردنوں سے مروڑ دو

وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
اُنہیں،،،، زر کا سکہ اُچھال دو

جنہیں،،،،، اپنے درش عزیز ہوں
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو

جو میرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے، اسے مان لو

جو میرا امام،،،،،،، بیاں کرے
وہی دین ہے ، سبھی جان لو

جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو

کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے،، زمین میں اتار دو

جو میرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں، خُوب مال و منال دو

جو، میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں، نوکری سےنکال دو

جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گُناہ کریں وہی معتبر

یہ عجیب روزِ حساب ہے
یہ عجیب رُت ہے بہار کی

کہ،، ہر ایک زیرِ عتاب ہے
"کہیں پر شکستہ ہے فاختہ

کہیں،،، زخم زخم گلاب ہے"
میرے دشمنوں کو، جواب ہے

نہیں غاصبوں پہ شفیق میں
میرے حاکموں کو خبر کرو

نہیں،، آمروں کا رفیق میں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں

مجھے،، خوفِ مرگ نہیں زرا
میرا حرف حرف لہو لہو
میرا،،، لفظ لفظ ہے آبلہ

 
مہ جبینوں کی اداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
اس کا مطلب ہے بلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

باب تاثیر سے ناکام پلٹ آئی ہے
اس لئے اپنی دعاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

تیری دہلیز پہ جھکنے کا سوال آیا تھا
میں زمانے کی اناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

جو مسافر کے لئے باعث تسکین نہیں
ایسے اشجار کی چھاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

جو غریبوں کا دیا پھونک کے تھم جاتی ہے
ایسی کم ظرف ہواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

اب تری گود کے پالوں میں بھی احساس نہیں
بس یہی سوچ کے گاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

عرش والے مری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں


اپنے قاتل سے الجھنے کا ارادہ کر کے
لوگ کہتے ہیں خلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

ایک کم ظرف کی بے ربط جفا کی خاطر
شہر والوں کی وفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

تیری دستار سے کاظمؔ میں الجھ نہ پاتا
بس یہی سوچ کے پاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
 

Pakistan Defence Latest Posts

Back
Top Bottom