What's new

Urdu & Hindi Poetry



آج حضرت واصف علی واصف صاحب کی برسی ہے

واصف صاحب رح کو مختصر لفظوں میں بڑی اور گہری بات کہنے کا فن وودیعت تھا۔ یہی وجہ تھی کہ واصف صاحب کے جملوں کو بےتحاشا پذیرائی ملی اور انکے درجنوں جملے زبان زدِ عام ہوئے۔ واصف صاحب کے فکر و فن کو دو حوالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ایک اس کا دینی پہلو ہے اور اخلاقی پہلو۔ دینی فکر کا نچوڑ عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اخلاقی فکر کا نچوڑ قربانی ہے

محبّت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ عطا ہے...!
یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔...!
زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہی ہےـ...!!!
اچھے الفاظ پر کُچھ خرچ نہیں ہوتا، لیکن اچھے الفاظ سے بُہت کُچھ حاصل ہوتا ہے۔ الفاظ ہی انسان کو پسندیدہ یا نا پسندیدہ بناتے رہتے ہیں۔ الفاظ خُوشبو کی طرح ماحول کو معطر کرتے ہیں۔۔۔۔!

واصف على واصف​

1642513615475.png
 

آج پاکستان کے مشہور کالم نویس، مصنف, شاعر اور ڈرامہ نگار منو بھائی کی برسی ہے.

منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔6 فروری 1933ء کو وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے، کتابوں کی جلد سازی اور کتابت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ ان کے والد محمد عظیم قریشی ریلوے میں ملازم تھے، جو بعد میں اسٹیشن ماسٹر بنے۔ پنجابی کے معروف شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ 1947ء میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک) آ گئے، وہاں غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان جیسے اساتذہ سے انہیں پڑھنے کا موقع ملا۔ یہیں پنجابی شاعری شروع کی۔ طالب علم سیاست میں سرگرم ہونے کی وجہ سے کالج سے نکال دیا گیا۔۔
یوں بی اے مکمل نہ کرسکے۔

والد نے افسروں سے کہہ کر ریلوے میں بھرتی کرالیا ۔ ایک اچھی نوکری کا تقرر نامہ بھی آگیا۔ لیکن انہیں یہ پسند نہیں آیا۔ گھر سے نکل کر راولپنڈی آگئے جہاں ان کے کالج کے زمانے کے دوست شفقت تنویر مرزا پہلے سے موجود تھے۔ منوبھائی نے اخبار تعمیر میں پچاس روپے ماہوار پر پروف ریڈر کی نوکری کرلی۔ پھراسی اخبار سے اوٹ پٹانگ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔

امروز اخبار میں نظم بھیجی تو اس وقت کے مدیر احمد ندیم قاسمی نے قلمی نام منو بھائی عطا کیا۔ جو ان کے اصل نام کی جگہ معروف ہے، اسی نام سے کالم اور ڈراما نگاری کی۔’’تعمیر‘‘ سے قاسمی صاحب انہیں ’’امروز‘‘ میں لے آئے۔ یہاں انہوں نے دوسری صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ’’گریبان‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے۔ حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر ان کا تبادلہ سزا کے طور پر ملتان ’’امروز‘‘میں کر دیا گیا، جہاں سے حنیف رامے انہیں مساوات میں لے آئے۔ 7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ پھر امروز میں واپس چلے گئے۔ جنگ لاہورسے شروع ہوا تو میر خلیل الرحمنٰ انہیں بھی لے آئے۔۔

ڈرامہ نگاری بھی منو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسے ڈرامے تحریر کیے۔ کالم نویسی کی طرح اپنے ڈراموں میں بھی انہوں نے ورکنگ کلاس کے لوگوں کی زندگی اور مسائل پیش کیے۔ ٹی وی کے لیے ڈرامہ نویسی کی طرف انہیں اسلم اظہر لائے، جن کے کہنے پر انہوں نے 65ء کی جنگ کے موضوع پر ’’پل شیر خان‘‘ ڈراما لکھا

2014ء میں منو بھائی نے اپنا ذاتی کتب خانہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو عطیہ کر دیا تھا۔ یہ کتب خانہ 145,464 کتب پر مشتمل تھا-

منو بھائی نے 19 جنوری 2018 کو لاہور میں وفات پائی۔




May be a closeup of 1 person and smoking
 
تیزگام میں سفر کر رہا تھا ۔مسافروں سے پوچھا دینہ کب آئے گا مجھے اترنا ہے
تو مسافروں نے بتایا بھائی یہ تیزگام ہے ۔دینہ سے گزرے گی مگر رکے گی نہیں
یہ سن کر میں گھبرا گیا مگر مسافروں نے کہا گھبراؤ نہیں
دینہ اسٹیشن سے گذرتے ہوئے یہ ٹرین سلو ہو جاتی ہے
تم ایک کام کرنا جیسے ہی ٹرین آہستہ ہو تو تم دوڑتے ہوئے ٹرین سے اتر کر آگے کی طرف بھاگ پڑنا ،جس طرف ٹرین جا رہی ہےاس طرح کرو گے تو تم گروگے نہیں
دینہ آنے سے پہلے ہی مسافروں نے مجھے گیٹ پر کھڑا کر دیا
اب دینہ آتے ہی ٹرین آہستہ ہوئی تو میں ان کے بتانے کے مطابق پلیٹ فارم پر کودا اور کچھ زیادہ ہی تیزی سے دوڑ گیا
اتنا تیز دوڑا کہ اگلے ڈبے تک جا پہنچا
اگلے ڈبے کے کچھ مسافر دروازے میں کھڑے تھے ان مسافروں میں کسی نے میرا ہاتھ پکڑا تو کسی نے شرٹ پکڑی اور مجھے کھینچ کر ٹرین میں چڑھا لیا
اب ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی اور سب مسافر کہے رہے تھے
تیرا نصیب اچھا ہے جو تجھے یہ گاڑی مل گئی
ورنہ یہ تیزگام ہے اور دینہ میں نہیں رکتی!!
😂
🤣
❤️
🙄
 
تم نے پوچھا ہے تو احوال بتا دیتے ہیں
ورنہ چہرے بھی مہ و سال بتا دیتے ہیں

روح کا حال بھی اے کاش بتائے کوئی
دل کی حالت تو خد و خال بتا دیتے ہیں

اب مراسم بھی بساطوں پہ سجے مہرے ہیں
کون سی کس نے چلی چال بتا دیتے ہیں

کس میں اب کتنی اڑانوں کی سکت باقی ہے
ہر پرندے کے پر و بال بتا دیتے ہیں

دل کے غنچے بھی تھے معصوم ہمارے جیسے
کس کے ہاتھوں ہوئے پامال بتا دیتے ہیں

حاکم وقت کو کس کس نے سلامی دی ہے
کس کی تالی میں ہے سر تال بتا دیتے ہیں

گھر کی دیوار سے گرتے ہوئے روغن کی طرح
اب مری عمر مرے بال بتا دیتے ہیں​
 
ھمارا سفر بہت مختصر ھے۔۔۔🍀

"ھمارا سفر بہت مختصر ہے" میں نے اس تحریر کو کم از کم پانچ بار پڑھا ہے۔ ایک حقیقت پر مبنی خوبصورت تحریر۔۔۔

ایک خاتون تیزی سے بس میں سوار ہوئی اور ایک دوسری خاتون کے برابر کی نشست پر بیٹھیں تب انکے پرس سے ساتھ بیٹھی خاتون کو چوٹ لگی۔۔۔

دوسری خاتون خاموش رہیں، اس خاتون کو خاموش دیکھ کر پہلی خاتون نے سوال کیا کہ آپ میرے پرس سے چوٹ پہنچنے کے باوجود خاموش کیوں رہیں۔۔۔؟

وہ خاتون مسکرائی اور بولی:
"ایک معمولی سے چیز کے لیے مجھے برہم ہونے کے لیے کوئی ضرورت نہیں تھی جبکہ ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ سفر نہایت مختصر ہے ، کیونکہ میں اگلے اسٹاپ پر اترنے والی ہوں"

اس جواب نے اس عورت کو بےچین کردیا اس نے اس عورت سے معافی طلب کی اور جو الفاظ سوچے وہ سنہری حروف سے لکھنے کے لائق ہیں۔۔۔

ہم میں سے ہر شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ دنیا میں ہمارا وقت بہت مختصر ہے، اس مختصر وقت کو بےجا بحث و تکرار، حسد، کدورت اور دیگر رنجشوں سے تاریک نہیں کرنا چاہیے اور یہ خراب رویے وقت اور توانائی کی بربادی کا سبب ہوتے ہیں۔۔۔

کیا کسی نے آپکی دل شکنی کی ہے۔۔۔؟
پرسکون رہیے سفر بہت مختصر ہے۔۔۔

کیا کسی نے آپکو دھوکا دیا ہے۔۔۔؟
مطمئن رہیں اور دباؤ کا شکار نہ ہوں۔۔۔
سفر بہت مختصر ہے۔۔۔

کیا کسی نے بلاسبب آپکی بےعزتی کی ہے۔۔۔؟
پرسکون رہیے اور نظرانداز کیجیے۔۔۔
سفر بہت مختصر ہے۔۔۔

کیا کسی نے آپ پر ناپسندیدہ تبصرہ کیا ہے۔۔۔؟
ہرسکون رہیے، نظرانداز اور معاف کیجیے، انکو اپنی دعا میں یاد رکھیں اور بغیر صلہ کے ان سے محبت کیجیے۔۔۔
سفر بہت مختصر ہے۔۔۔

ہر وہ تکلیف جو کسی دوسرے سے آپکو ملی، درحقیقت وہ اس وقت ہی تکلیف بنتی ہے جب آپ اسکے بارے میں سوچتے ہیں۔۔۔

یاد رکھیے !!!
ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ سفر بہت مختصر ہے۔۔۔

کوئی اس سفر کی طوالت سے واقف نہیں، کل کسی نے نہیں دیکھا، کوئی نہیں جانتا کہ وہ اپنے مقام یا منزل پر کب پہنچے گا۔۔۔

اس لئے کہ ہمارا سفر بہت مختصر ہے۔۔۔

آئیں اپنے خاندان اور دوستوں کی تعریف کریں۔ ان سے ہنسی مذاق کیجیے، انکا احترام کیجیے، محبت کرنے والے اور درگزر کرنے والے بنیں۔۔۔

کیونکہ سفر بہت مختصر ہے۔۔۔

مسکراہٹیں بانٹیں، اپنا سفر اتنی ہی خوبصورتی سے اختیار کریں جیسا آپ اسکو خوبصورت دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔
"ھمارا سفر بہت مختصر ہے۔"
 

ہم تو آنسو ہیں ہمیں خاک میں مل جانا ہے

آج مظفر وارثی کی برسی ہے

مظفر وارثی دنیائے سخن کا ایک معتبر نام ہے۔ حمد ہو یا نعت، غزل ہو یا نظم، گیت ہو یا قطعات، ہر صنف سخن میں انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔

مظفر وارثی ٢٣ دسمبر ۱۹۳۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ کے ہائی سکول سے حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء میں لاہور آ کر میٹرک کیا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم ہو گئے۔ مظفر وارثی کا شمار پاکستان کے نامور نعت خواں اور بہترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں انہیں ریڈیو پاکستان کی جانب سے بہترین نعت خواں کا ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔

مظفر وارثی نے اپنی شاعری کا آغاز غزلوں، نظموں اور فلمی گیتوں سے کیا۔ بعد ازاں انہوں نے خود کو حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے مخصوص کر لیا۔ وہ بلاشبہ عہد جدید کے ان چند شاعروں میں سے ہیں جنہیں غیر ممالک میں بھی دلچسپی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر اور سوچ اپنے تمام تر رنگوں میں عیاں ہیں۔ ان کا ہر مجموعہ دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت اور دلکش ہے

مظفر وارثی کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعوں میں اؒلحمد، لاشریک، نورِ ازل، بابِ حرم، میرے اچھے رسول، دل سے درِ نبی تک، صاحب التاج اور غزلوں اور نظموں کے مجموعوں میں برف کی نائو، کھلے دریچے بند ہوا،راکھ کے ڈھیر میں پھول، لہجہ، تنہا تنہا گزری ہے، دیکھا جو تیرے کھا کے، حصار، ظلم نہ سہنا، لہو کی ہریالی، ستاروں کی آب جو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خود نوشت سوانح ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔

--مظفر وارثی کا ۲۸ جنوری ۲۰۱۱ء بروز جمعہ کو لاہور میں ۷۷ سال کی عمر میں انتقال ہوا


1643764006925.png
 
اردو ادب کی عظیم مصنفہ بانو قدسیہ کو ہم سے جدا ہوئے 5 سال بیت گئے۔

بانو آپا کا پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ 1950 میں ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شایع ہوا تھا۔ ٹی وی پر بانو قدسیہ کی پہلی ڈراما سیریل ’’سدھراں‘‘ تھی. ٹی وی کے لیے ان کے سیریلز اور طویل ڈراموں میں ’دھوپ جلی‘، ’خانہ بدوش‘، ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ شامل ہیں.
1981 میں شایع ہونے والا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ بانو قدسیہ کی شناخت بنا. اس کے کئی ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں.
1983ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے بانو قدسیہ کو ستارۂ امتیاز اور 2010ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا ۔ 2012ء میں کمالِ فن ایوارڈ دیا گیا۔

کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سیارہ بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور مائع گیس میں بدل جاتا ہے‘ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے‘ جو موسم‘ جو رُت‘ جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب
کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔

بانو قدسیہ کے ناول "راجہ گدھ" سے اقتباس​

1643933813535.png
 
"ZIKAR UNKA ZABAN PER AYA- YEH KAHIN DASTAAN NA HOJAYE”
Death anniversary of legendary singer Malika Pukhraj

1644030482834.png



Malika Pukhraj was born in village Mirpur16 miles from Jammu and 55 miles from Akhnoor - over looking Jammu River. She was Malika with the blessings of a "Majzoob" Baba Moti Ram and named Pukhraj by her Aunt. Her father neglected family affairs but mother insisted to get her educated.

They shifted to Jammu Town where she learnt Urdu and Persian from a distant uncle Gulzar Hussain Shah. She also read Fasana-e-Azad and Ratan Nath Sarshar. She had melodious voice from childhood. She received music lessons in a Delhi sojourn from very strict Ustads. – arduous "Nirith Bhav". One of her teacher has been quoted as Ustad Mubarik Ali Khan. Father of Bare Ghulam Ali Khan Sahib also nurtured her.

At the age of 9 appointed at the Darbar of Maharaja Hari Singh of Kashmir. She remained there for nine years - performed at the coronation ceremony of the Maharaja. Maharaja was also an amateur singer. Once she laughed in Maharaja’s Darbar on some funny happening – This being viewed as contempt and was warned by Janak Singh. Due to some intrigues she left the Kashmir State service. She had never performed publicly before that. Afterwards she was associated with Lahore Radio Station. She has a distinct and clear style of rendering Ghazals. Her tunes matched the theme. Folk singing by her is in most natural style. Her voice is most suitable for Pahari Songs. She also occasionally sings for TV.

At the time of independence there were in all four film studio in Pakistan (all at Lahore) including two studios of Dilsukh Pancholi. One of the Pancholi Studios was initially allotted to Afzal Himaliyawala but the allotment was cancelled in 1954 and the same was re-allotted to Malika Pukhraj.(renamed as Malika Studio).

She lived in old Lahore City at that time. Shabbir Husain Shah a Government Officer very much liked her singing and actually they were in love. They were then married. She continued singing after marriage. She has six children. Malika is considered to be a very harsh teacher of music. Safiea - her eldest daughter with marvelous voice shunned singing under taunts of her schoolmates. One of her daughters (Tasleem) is an anesthesia expert (Wife of S.M Zafar- Advocate and Ex Minister). Daughter of S.M.Zafar used to occasionally sing on TV. Malika’s daughter Tahira (Law Graduate) under strict compulsion has learnt singing. .She re-sung many of her mother’s famous songs. Malika is considered to be too frank in expressing her critical observations about others –

Mr. G.N. Joshi pays tribute “Malika Pukhraj’s silvery rich voice and her superb expressive style were ideally suited for rendering romantic ghazals and dadras; she used to present them in such an arresting manner that listeners were at once held spellbound. She displayed rare virtuosity in diverse types of songs for the recordings for gramophone discs and during radio broadcasts. While the ghazals appealed most to the sensuous, her dadras had a unique charm..”

Written by : Muhammad Murtaza
Photo Courtesy : Abid Ali Baig
 
آج اردو، فارسی اور پنجابی کے نامور شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم کی برسی ہے۔

1644189944198.png



اردو، فارسی اور پنجابی کے نامور شاعر، ادیب، نقاد اور عالم صوفی غلام مصطفی تبسم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ لاہور کے تعلیمی اداروں سے بطور استاد وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں سے منسلک رہے۔

صوفی تبسم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، شاعر، استاد، شارح، مترجم، نقاد اور ادیب ان کی شخصیت کی مختلف جہتیں تھیں، پہلے اصغر پھر تبسم تخلص کیا۔ ان کی اردو اور فارسی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔

انہوں نے بچوں کی شاعری کے حوالے سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کا تخلیق کردہ کردار ٹوٹ بٹوٹ انہیں بچوں کے ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ انہیں حکومت ایران نے نشان سپاس اور حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔

7 فروری 1978ء کو صوفی غلام مصطفی تبسم لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اﷲ اﷲ
کہاں میں کہاں یہ مقام اﷲ اﷲ
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
باپ تھا اس کا میر سلوٹ
پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
کھاتا تھا بادام اخروٹ
’’میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں‘‘
آگئی یاد شام ڈھلتے ہی‘
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے
زندگی بھر ساتھ دینا تھا جنھیں
دو قدم ہمراہ چل کر رہ گئے
’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے،
میریا ڈھول سپاہیا تینوں ربّ دیا رکھاں،
کرنیل نی جرنیل نی، ’میرا سوہنا شہر قصور نی،
یہ ہواؤں کے مسافر، یہ سمندروں کے راہی‘‘


بشکریہ: عقیل عباس جعفری صاحب​
 
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے بچوں کے لیے بھی بہت لکھا،
بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے، انھوں نے ایک بار یہ واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ’’میرے بچے اپنی ماں اور دادی جان سے کہانیاں سنتے، مگر آخر ایک دن ان کی والدہ نے انھیں میری طرف بھیجا کہ جاؤ آج والد سے کہانی سنو۔

میں نے دو چار دن تو کہانی سنائی مگر پھر میں نے بچوں سے کہا کہ میں آپ کو نظم سناسکتا ہوں اور یوں انھوں نے اپنی بیٹی ثریا کے لیے ایک نظم کہی --

’’ثریا کی گڑیا نہانے لگی،
نہانے لگی ڈوب جانے لگی،
بڑی مشکلوں سے بچایا اسے،
کنارے پہ میں کھینچ لایا اسے‘‘


پھر ایک بچہ جو صوفی تبسم کے دوست عبدالخالق کا بیٹا تھا اور جو عموماً عجیب و غریب حرکتیں کرتا، اس بچے سے ایک کردار نے جنم لیا اور وہ مشہور و معروف کردار ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ ہے جو آج بھی بچوں کے پسندیدہ کردار ہے اور گنگنایا جاتا ہے:


ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
باپ تھا اس کا میر سلوٹ
پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
کھاتا تھا بادام اخروٹ​
 
یکم فروری: آج اردو کے نامور ادیب شکیل عادل زادہ کی سال گرہ ہے

شکیل عادل زادہ اردو ادب میں ایک معتبر نام ہے۔ ان کے پڑھنے ، چاہنے اور ان سے عشق کرنے والوں کی تعداد شمار نہیں کی جاسکتی۔ یہ مقبولیت اردو کے بہت کم ادیبوں کے حصے میں آئی ہے۔ جناب شکیل عادل زادہ یکم فروری 1938ء کو مراد آباد (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد مراد آباد سے ایک اردو ماہنامہ مسافر شائع کرتے تھے جس کی ادارت جناب رئیس امرہوی کے ذمہ تھی ۔ یوں شکیل عادل زادہ کو صحافت سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے اور جناب رئیس امروہوی کے اخبار شیراز اور ماہنامے انشا سے وابستہ رہے ۔ انھوں نے انشا کو عالمی ڈائجسٹ کی شکل دی جو بہت جلد ایک کثیر الاشاعت جریدہ بن گیا ۔

جناب شکیل عادل زادہ نے جنوری 1970ءمیں اپنا جریدہ سب رنگ جاری کیا۔ اس جریدے میں دنیا بھر کی شاہکار تحریروں کا انتخاب شائع کیا جاتا تھا اور قواعد ، املا، انشا، زبان کی صحت اور درستی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ سونا گھاٹ کا پجاری، غلام روحیں، انکا ، امبر بیل اور بازی گر اس ڈائجسٹ کے مقبول ترین سلسلے تھے۔

بشکریہ: راشد اشرف

1644609392499.png
 

Pakistan Defence Latest Posts

Back
Top Bottom