What's new

Urdu & Hindi Poetry

7e18d6e2e969d293b4515b2edce68d56.jpg
 
کل ___مجھے NAB نے بلایا تھا
میرے اثاثوں میں صرف تم نکلے

49948672_986523178209730_2293627134381391872_n.jpg
 
Two legends in one frame
Jaun & Sadequain

خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں
خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں
خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں
خود گیر ہوں خود نگر ہوں خود گر میں ہوں

صادقین


عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ

جون ایلیا


65556200_2312295505517556_8578764202401857536_n.jpg
 
Happy Birthday ; Living legend Amjad Islam Amjad

Amjad Islam Amjad is currently Pakistan’s best-known Urdu poet. Born on Aug. 4, 1944, he enjoys immense popularity among Urdu lovers in both India and Pakistan because of his brilliant poetry and excellent screenplays. Winner of many awards, including the Sitara-e-Imtiaz, and an author of many books of poetry, he has been a regular feature at poetry readings all over the world for the last four decades.

Some of his plays, dramatized by Pakistan Television (PTV) and other private television channels, have won international acclaim. “Waris,” “Samandar,” “Waqat,” “Dehleez,” “Raat” and “Apne Log” are among his most popular screenplays. He wrote his first drama, “Pehla Khel,” in 1973.

First and foremost, however, he is a poet whose lines tug at the hearts of those who have either fallen in or out of love. Few modern-day poets have captured the feelings of lovelorn souls the way Amjad Islam Amjad has. His work is brilliant and towers well above his fellow poets.

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا

 
Waris Shah

Ajj aakhan Waris Shah nuu,
Kiton qabraan vichon bol,
Tey ajj kitaab-e-ishq daa,
Koi agla warka khol


Ikk royi sii dhi Punjab di,
Tu likh likh maarey wain,
Ajj lakhaan dhiyan rondiyan,
Tenu Waris Shah nuu kain


Uthh dard-mandaan diya dardiya,
Utth tak apna Punjab
Ajj bailey lashaan bichiyaan
Tey lahoo di bhari Chenab
 
Death anniversary of legendary Ahmad Fraz

پاکستان کے نامور شاعر احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق کوہاٹی فارسی کے ممتاز شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔

احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور ریڈیو پاکستان سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں وہ پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فائونڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

احمد فراز عہد حاضر کے مقبول ترین شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں بالعموم رومان کا شاعر کہا جاتا ہے مگر وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں احتجاج کا پرچم بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں بھی جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔ احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں تنہا تنہا، درد آشوب، نایافت، شب خون، مرے خواب ریزہ ریزہ، جاناں جاناں، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، سب آوازیں میری ہیں، پس انداز موسم، بودلک، غزل بہانہ کروں اور اے عشق جنوں پیشہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔

احمد فراز کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی تھی۔

25 اگست 2008ء کو احمد فراز اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ احمد فراز اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

تحریر و تحقیق:
عقیل عباس جعفری‎

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
 
مہ جبینوں کی اداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

اس کا مطلب ہے بلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

باب تاثیر سے ناکام پلٹ آئی ہے

اس لئے اپنی دعاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

تیری دہلیز پہ جھکنے کا سوال آیا تھا

میں زمانے کی اناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

جو مسافر کے لئے باعث تسکین نہیں

ایسے اشجار کی چھاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

جو غریبوں کا دیا پھونک کے تھم جاتی ہے

ایسی کم ظرف ہواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

اب تری گود کے پالوں میں بھی احساس نہیں

بس یہی سوچ کے گاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

عرش والے مری توقیر سلامت رکھنا

فرش کے سارے خداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

اپنے قاتل سے الجھنے کا ارادہ کر کے

لوگ کہتے ہیں خلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

ایک کم ظرف کی بے ربط جفا کی خاطر

شہر والوں کی وفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

تیری دستار سے کاظمؔ میں الجھ نہ پاتا

بس یہی سوچ کے پاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
 
Waris Shah

Ajj aakhan Waris Shah nuu,
Kiton qabraan vichon bol,
Tey ajj kitaab-e-ishq daa,
Koi agla warka khol


Ikk royi sii dhi Punjab di,
Tu likh likh maarey wain,
Ajj lakhaan dhiyan rondiyan,
Tenu Waris Shah nuu kain


Uthh dard-mandaan diya dardiya,
Utth tak apna Punjab
Ajj bailey lashaan bichiyaan
Tey lahoo di bhari Chenab
i think this is amrta pritam
 
Back
Top Bottom