What's new

Urdu Aadab

@nline

FULL MEMBER
Joined
Feb 27, 2011
Messages
970
Reaction score
0
attachment.php
 
.
صبر
انسان کو اُس با ت پر صبر کر نے کے لیے کہا گےا ہے ‘ جو اسے پسند نہ ہو اور جس کا ہو نا نا گزےر ہو ۔ ہر وہ عمل جو بردا شت کر نا پڑے ‘ صبر کے ذےل مےں آتا ہے ۔ ناقا بل برداشت کو ئی واقعہ نہےں ہو تا ‘ جس کو دےکھنے والے اور پڑھنے والے نا قابل برادشت کہتے ہےں ۔ سانحہ ہو ےا حا دثہ جس کے ساتھ پےش آرہا ہے وہ تو اس مےں سے گزررہا ہے ‘ رو کر ےا خا مو ش رہ کر ۔
انسا ن کو صبر کی تلقےن کی گئی ہے ‘ اس لیے کہ ےہ زندگی ہما ری خواہشا ت کے مطابق نہےں ہو تی ۔ جہا ں ہما ری پسند کی چےز ہمےں مےسر نہ آئے ‘ وہا ں صبر کا م آتا ہے ۔ جہا ں ہمےں نا پسند واقعا ت اور افرا د کے سا تھ گزر کر نا پڑے ‘ وہاں بھی صبر کا م آ تا ہے
صبر کا نا م آتے ہی اذےت کا تصو ر آتا ہے۔ نا پسند ےد ہ زند گی قبو ل کر نے کی اذےت ےا پسند ےد ہ زند گی تر ک کر نے کی اذےت ۔ ےہ اذےت احساس کی لطا فت کی نسبت سے بڑھتی اور کم ہو رہتی ہے ۔
کو ئی زند گی اےسی نہےں جو اپنی آرزو اور اپنے حا صل مےں مکمل ہو ‘ برا بر ہو کبھی آرزو بڑھ جا تی ہے اور کبھی حاصل کم رہ جا تا ہے ۔ صبر کا خےا ل ہی اس با ت کی دلےل ہے کہ انسان جو چا ہتا ہے وہ اسے ملا نہےں ۔
انسان محنت کر تا ہے ‘ کو شش کر تا ہے ‘ مجا ہد ہ کر تا ہے ‘ رےا ضت اور عبا د ت کر تا ہے کہ زند گی اطمےنا ن اور آرام سے گزر ے اور ما بعد حےا ت کے بھی خطرا ت نہ رہےں ‘ لےکن زند گی عجب ہے ۔ اس مےں جب کو ئی مقا م حاصل ہو تا ہے ‘ پسند ےد ہ مقا م ‘ تب بھی ہمےں احساس ہو تا ہے کہ کہےں نہ کہےں کچھ نہ کچھ رہ گےا ہے ےا کہےں نہ کہےں کچھ نہ کچھ غےر ضرور ی اور غےر منا سب شئے شا مل ہوگئی ہے ‘ اُس زند گی مےں بس اےسی صو ر ت مےں انسان بے بس ہو تا ہے ۔ صبر کے سوا کو ئی چا رہ نہےں ہو تا ہے ۔
انسا ن شا دی کر تا ہے ۔ شا دی کا معنی خو شی ہے ‘ لےکن کچھ ہی عر صہ بعد انسان محسو س کر تا ہے کہ شا د ی کا عمل ضرا ئض اور ذمہ دا رےو ں کی داستا ن ہے ۔ حقو ق کا قصہ ہے ۔ صر ف خوشی کی بات نہےں ۔ اس مےں رنج اور رنجشےں بھی شا مل ہےں ۔ دو انسان ‘زو جےن ‘ مل کر سفر کر تے ہےں ۔ اےک دوسر ے کے لیے با عث مسر ت ہو نے کے وعدے اور دعو ے لےکر ہم سفر بنتے ہےں اورکچھ ہی عر صہ بعد اےک دو سر ے کو برداشت کر نے کے عمل سے گزرتے ہےں ۔ خوش رہنے کا تصو ر ختم ہو جا تا ہے ۔ صبر کر پڑتا ہے ۔ اب ےہ فےصلہ تبدےل نہےں ہو سکتا ۔ اولا د ہو نے کے بعد انسان کو محسو س ہو تا ہے کہ وہ اےک خو بصو ر ت ر سی سے جکڑا گےا ہے ۔ اسکی آزادی اور آزادخےا لی ختم ہو گئی ہے ۔ اس پر عجےب و غر ےب فرا ئض عا ئد ہو گئے ہےں ۔ محبت کے نا م پر مصےبت مےں گر فتا ر ہو گےا ہے ۔ لےکن اب صر ف صبر ہے۔ ےہی تلقےن ہے کہ ہو جا نے واے واقعا ت پر افسوس نہ کر و ‘ صبرکر و ۔
صبر کا مقا م اس وقت آتا ہے ‘ جب انسان کو ےہ ےقےن آجائے کہ اس کی زند گی مےں اس کے عمل اور اس کے ارادے کے ساتھ ساتھ کسی اور کا عمل ‘کسی اور کا ارادہ بھی شامل ہے ۔ اپنے حا ل مےں دوسر ے کا حا ل شا مل دےکھ کر انسان گھراتا ہے اور جب اسے اےک اور حقےقت کا علم ہو تا ہے کہ اس ارادو ں اور اور عمل مےں اسکے خا لق و ما لک کا امر شامل ہے اور کبھی کبھی ےہ امر اےک مشکل مقا م سے گزرنے کا امر ہے‘ تو انسان سوچتا ہے کہ اگر با ت اپنی ذات تک ہو تو بد ل بھی سکتی ہے ‘ لےکن اگر فےصلے امر مطلق کے تا بع ہےں ‘تو ٹل نہےں سکتے ۔ ےہا ں سے انسان اپنی بے بسی کی پہچا ن شرو ع کر تا ہے ۔ بے بسی کے آغا ز سے صبر کا آغا ز ہو تا ہے ۔
خو شی مےں غم کا دخل ‘ صحت مےں بےما ری کا آجا نا ‘ بنے ہو ئے پر و گرا م کا معطل ہو نا ‘ کسی اور انسا ن کے سی عمل سے ہما ری پُر سکو ن زند گی مےں پر ےشا نی کا امکا ن پےد ا ہو نا ‘ سب صبر کے مقا ما ت ہےں ۔
تکلےف ہما ر ے اعما ل سے آ ئے ےا اس کے حکم سے ‘ مقا م صبر ہے ‘ کےو نکہ تکلےف اےک اذےت نا ک کےفےت کا نا م ہے ۔ تکلےف جسم کی ہو ‘ بےما ری کی شکل مےںےا رو ح کی تکلےف ‘ احساس مصےبت ےا احساس تنہا ئی ےا احساس محرو می کی شکل مےں مقا م صبر ہے ۔ انسان جس حا ہت سے نکلنا چا ہے اور نکل نہ سکے ‘ وہا ں صبر کرتا ہے ۔ جہاں انسان کا علم ساتھ نہ دے ‘ ا س کی عقل ساتھ نہ دے اوراس کا عمل اس کی مدد نہ کر سکے ‘وہا ں مجبو ری کا حساس اسے صبر کے دامن کا آسراتلاش کر نے کی دعوت دیتا ہے ۔
صبر کا تصور دراصل مجبوری کا احساس نہیں ہے ۔ صبر کے نام کے ساتھ ہی ایک اور ذات کا تصور واضح طور پر سامنے آتا ہے کی ہم اپنی زند گی میں سب کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی زند گی کے مالک ہو کر بھی مکمل ما لک نہیں ۔ ہم مختار ہو کر بھی مختار نہیں ۔ ہم قدرت رکھنے کے با وجود قادر نہیں ۔ ہم اور ہما ری زند گی ہزارہا اور زند گیوں کے دائرہ اثر میں ہیں ۔ہم اور ہما ری ز ند گی ایک اور ذات کے ارادے کے تا بع ہیں اور وہ ذات مطلق ہے ۔ اس کا امر غا لب ہے ۔ وہ جو چا ہتا ہے کر تا ہے ۔ ہما رے ساتھ ہما ری زند گی کے ساتھ ‘ ہما ظاہر کے ساتھ ‘ ہما رے باطن کے ساتھ ‘ ہما ری تنہا ئی کے ساتھ ‘ہما رے گردوپیش کے ساتھ ‘ ہما رے وا لدین کے ساتھ ‘ ہما تی اولاد کے ساتھ ‘ ہما رے ہرہر خیال کے ساتھ۔ اور وہ ذات چا ہے تو ہما رے مر تبے عذاب بنا دے ‘ چا ہے تو ہما ری غر یبی اور غر یب الوطنی کو سرفرازیاں عطا کر دے ۔ وہ ذات یتیموں کو پیغمبر بنا دے اور چا ہے تو مسکینو ں کو مملکت عطا کر دے ۔ اس ذات کا امر اور عمل اٹل ہے ۔ اس کے فیصلے آخری ہیں ۔ اس کے حکم کے تا بع ہیں ۔ انسان کی خو شیاں ‘ انسان کے غم ‘ انسان کی زند گی ‘ انسان کی موت ‘ انسان کی محبت ‘ انسان کے خوف ‘ انسان کے جذبات واحساسات ۔ وہی ذات ہے ‘ جو انسان کو بار بار حکم فر ما تی ہے کہ صبر کرو ۔ یعنی اپنی زند گی میں میر ے حکم سے پیدا ہو نے وا لے حال کو سمجھنے سے پہلے تسلیم کر لو ۔ جو سمجھ میں نہ آسکے ‘ اس پر صبر کر و اور جو سمجھ مٰن آئے ‘ اس پر مزید غور کرو ۔ صبر کی منزل ایک مشکل منزل ہے ۔ فقر میں ایک بلند مقام ہے صبر کا ۔
وہ صبر کر نے وا لو ں کے سا تھ ہے ۔ عجب بات ہے کہوہ تکلیف دور نہیں کر تا اور برداشت کر نے وا لوں کے ساتھ رہتا ہے اور تکلیف بھیجنے وا لا خودہی ۔ بس یہی انسانی عظمت کا راز ہے ۔ انسان کی تسلیم ورضا کا روشن باب ‘ انسان کی انسا نیت کا ارفع مقام کہ وہ سمجھ لے کہ تکلیف دینے والا ہی را حت جاں ہے ۔یہ زند گی اس کی دی ہو ئی ہے اسی کے حکم کی منتظر ہے ۔ وجود اس کا بنایا ہوا ہے اسی کے امر کے تا بع ہے ۔ وہ ستم کر ے تو ستم ہی کرم ہے۔ وہ تکلیف بھیجے تو یہی را حت ہے ۔ وہ ذات ہما رے جسم کو اذیت سے گذارنے ‘تو بھی یہ اس کا احساس ہے۔
صبر کر نے وا لے اس مقام سے آشنا کر وا دیئے جا تے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی تو فیق دے رہا ہے ۔ اور اس مقام پر “صبر“ ہی“ شکر‘ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مقر ب اذیت سے گزرتے ہی سے تو گزرتے ہیں ‘ لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گذرے۔ وہ شکر کرتے ہو ئے وا دی اذیت سے گذر جا تے ہیں۔
دنیا دار جس مقام پر بیزار ہو تا ہے ‘مومن اس مقام پر صبر کر تا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے ‘ مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے ‘ کیو نکہ یہی مقام وصال حق کا مقام ہے ۔ تمام واصلین حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم ورضا گزر کر سجدہ شکر تک پہنچے ۔ یہی انسان کی رفعت ہے ۔ یہی شان عبودیت ہے ‘ کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو ‘ دل یو دوں سے زخمی ہو اور سر نیاز سجدہ میں ہو کہ“ اے خالق !مجھے صبر استقا مت کی منز لیں عطا کر نے وا لے ! مجھے تسلیم و رضا کے معراج عطا کر نے والے ! تیرا شکر ہے ‘ لاکھ بار شکر ہے کہ تو نے مجھے چن لیا ‘ اپنا اورصرف اپنا ‘ تیری طرف سے ہر آنے والے حال پر ہم را ضی ہیں ۔ ہم جا نتے ہیں کہ ہم اور ہما ری زند گی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تو ہے ۔ جس نے ہمیں تاج تسلیم ورضا پہنا کر اہل دنیا کے لیے ہما رے صبر کا ذکر ہی با عث تسکین روح و دل بنایا۔“
بیکسی کی داستان بننے والے امام عالی مقام بیکسوں کے لیے چارہ ساز بن کر آئے ۔یہ داستان اہل علم کے لیے نہیں ‘ یہ اہل نظر کا مقام ہے ‘ اہل شکر کے لیے ۔اُن کے لیے جو ہر حال پر را ضی رہتے ہیں ۔ جن لو گوں پر اس کا کرم ہوتا ہے ‘ ان کی آنکھیں تر رہتی ہیں ۔ ان کے دل گداز رہتے ہیں ´ ان کی پیشا نیا ں سجدوں کے لیے بیتاب ر ہتی ہیں۔ ان کے ہاں تکلیف رہتی ہے ‘ لیکن ان کی زبان پر کلمات شکر رہتے ہیں ۔ مقامات صبر کو مقا مات شکر بنا نا خو ش نصیبوں کے کام ہیں۔ ایسی خوش نصیبی زمین والے ان کی تکلیف پر اظہار غم کر یں اور آسمان وا لے ان پر سلام بھیجیں ۔صبر وا لواں کی شان نرالی ہے ۔ ان کا ایمان قوی ہے ۔ ان کے درجات بلند ہیں ۔ ان کے جسم پر پیوند کے لباس ہیں اور ان کے در پر جبرئیل جیسے غلام ہیں ۔ اللہ صبر کرنے وا لو ں کے ساتھ ہے ۔ ہمیشہ سے ‘ ہمیشہ کے لیے
 
. . .

Latest posts

Military Forum Latest Posts

Country Latest Posts

Back
Top Bottom