محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل(قسط1)۔۔عارف خٹک
لوگ مجھے کہتے ہیں کہ کراچی میں بیٹھ کر مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں وزیرستان کے مسائل پر قلم اٹھاتا ہوں۔
اب ان کو کیا بتاؤں کہ میرا بچپن میرعلی شمالی وزیرستان میں گزرا ہے۔ میرعلی میں،میں نے پہلا لفظ “ماں” بولنا سیکھا۔ عادل پبلک سکول، الہادی پبلک سکول اور گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول ہرمز میرے مادر علمی ہیں۔
میں اس میرعلی کو جانتا ہوں جہاں رات نو بجے خسوخیل گاؤں کی ایک شادی میں سائیکل پر بیٹھ کر گیا۔ مجھے کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ سب میرے اپنے تھے۔ گاؤں موسکی میں میرا بچپن گزرا۔ زاہد نور اور عابد نور دونوں دوست نہیں میرے سگے بھائی ہیں۔ میں ان کے گھر پلا بڑھا ہوں۔ آصف داوڑ کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کھلایا ہے۔ میرعلی سے ہزاروں کلومیٹر دور رہ کر آج بھی میرا یہ خواب ہے کہ اسی طرح رات کو سائیکل پر نکل کر میرعلی کی سڑکوں پر مٹر گشت کروں۔
قصہ مختصر ،نائن الیون کے بعد طالبان اور فوجی آپریشنوں نے پورے فاٹا کو تباہ و برباد کرڈالا۔ زیادہ تباہی شمالی و جنوبی وزیرستان کے حصہ میں آئی۔ وطن عزیز کی خوش قسمتی کہ مذکورہ دو قبائلی ایجنسیوں میں جنگی تنظیموں کی بجائے ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں جو پڑھے لکھے لڑکوں پر مشتمل تھیں۔ یہ تنظیمیں پُرامن احتجاجوں اور سوشل میڈیا پر اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے اپنے علاقوں کیلئے آواز اٹھا رہی تھیں۔ شمالی وزیرستان میں “یوتھ آف وزیرستان” جس کی پشت پر مجید داوڑ جیسے پڑھے لکھے اور محب وطن نوجوان تھے،نے اپنا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑنا شروع کیا۔ دوسری طرف جنوبی وزیرستان میں “محسود تحفظ موومنٹ” جن کی پشت پر حیات پریغال جیسا نڈر، محب وطن اور پڑھا لکھا جوان تھا، بھرپور طریقے سے اپنا مقدمہ لڑا۔
نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بعد جب اسلام آباد میں “محسود تحفظ موومنٹ” کا دھرنا شروع ہوا تو شمالی وزیرستان سے “یوتھ آف وزیرستان” اس دھرنے میں “محسود تحفظ موومنٹ” کی مدد کو آپہنچی۔ مختلف سوچ اور مکتبہ فکر کے لوگ دھرنے میں حاضری دینے پہنچ گئے۔ جس میں پاکستان کی تقریباً ساری سیاسی جماعتیں بھی پہنچ گئیں۔ مگر بدقسمتی سے وہاں بلوچستان کی پشتون پٹی سے ایک قوم پرست جماعت کے جذباتی اراکین نے جو طوفان بدتمیزی مچایا۔ تو مولانا فضل الرحمن جیسے پشتون لیڈر نے بھی اس دھرنے سے اپنے ہاتھ کھڑے کرلئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے غالبا ًدھرنے کا تیسرا دن تھا جب مجید داوڑ نے منظور پشتین کو آواز دے کر کنٹینر سے نیچے بلایا اور کالے کپڑوں میں ملبوس ایک “غیر مقبول شخص” کا منظور سے تعارف کرایا تو منظور نے سٹیج پر اس کالے کپڑوں میں ملبوس بندے کو اپنے ساتھ سٹیج پر جگہ دی۔ کالے کپڑوں میں ملبوس یہ شخص کوئی اور نہیں محسن داوڑ تھا۔ یہاں سے پشتون تحفظ موومنٹ نے جنم لیا۔
تحریک نے پانچ مطالبات سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ مگر سیاسی تربیت سے نابلد، غیر سنجیدہ رویہ اور جذباتی نعروں کی وجہ سے وہ مطالبات آج تک نہیں مانے گئے ہیں۔
محسن داوڑ کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کا یہ سرگرم کارکن کن مقاصد کو پورا کرنے اس تنظیم کا حصہ بنا۔ سب سے پہلے اپنی چرب زبانی سے منظور پشتین کو آہستہ آہستہ مخلص ساتھیوں سے دور کرتا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ لوگوں کو پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم پر جمع کرتا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے انداز سیاست سے پشتونوں کی بڑی تعداد نفرت کرتی ہے۔ آہستہ آہستہ تحریک میں مذہب پرستوں کو ایک طرف کرنا شروع کردیا گیا اور اینٹی پاکستان کے غیر مقبول اور قوم پرستوں کے برسوں پرانے مقبول نعروں نے تحریک میں اپنی جگہ بنانی شروع کردی۔
علی وزیر اور محسن داوڑ کی خود اعتمادیاں اتنی بڑھ گئیں کہ قومی انتخابات کے موقع پر منظور کی تحریک کے غیرپارلیمانی رہنے کی بات نہیں مانی گئی۔ علی وزیر اور محسن داوڑ PTM کے مقبول گھوڑے پر سوار ہوکر فوراً اسمبلی جا پہنچے۔ شمالی وزیرستان میں “یوتھ آف وزیرستان” نے قومی انتخابات میں جس بھرپور انداز سے محسن داوڑ کو سپورٹ کیا وہ دن سب کو یاد ہیں، مگرجب صوبائی الیکشن میں یوتھ آف وزیرستان نے اپنے لڑکے (جو محسن داوڑ کے سپورٹر تھے) کو آگے لانا چاہا تو محسن نے PK-111 میں اپنے دوست جمال داوڑ (جو FSP این جی او کا ایک کرپٹ ملازم تھا) اور PK-112 سے اپنے دوست میرکلام وزیر (جو پولیو ورکر تھا) کو سامنے لیکر آگیا۔ محسن داوڑ کی خودغرضی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انھوں نے اپنے محسنوں کو بھی نہیں بخشا۔ یوتھ آف وزیرستان نے تین دفعہ پشتون ولی کی “نناواتے” کی اور ان کے گھر گئے کہ علاقائی مفاد کی خاطر قبائلی اتحاد کو سبوتاژ نہ کریں مگر محسن نہیں مانا۔
مارچ 2020 میں بلدیاتی انتخابات ہونے تھے ،چنانچہ مارچ سے پہلے ہی محسن داوڑ PTM کو پارلیمانی بنانے، تحریک کی غیر پارلیمانی حیثیت ختم کرکے ایک سیاسی پارٹی بنانے کیلئے منظور سے دست و گریبان ہوچکا تھا۔ تاکہ وہ اپنے سیاسی جماعت (ANP) کو PTM کی مقبولیت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر سیاست میں قدم جمانے میں ان کی مدد کرسکے۔ بہرحال بلدیاتی انتخابات میں حکومت نے تاخیر کی۔ اب جب کہ انتخابات پھر سے قریب آ رہے ہیں تو گزشتہ تین ہفتوں سے محسن داوڑ، منظور پشتین سے ایک فریق کی حیثیت سے جرگوں کے ذریعے معاملات طے کرنے میں مصروف ہے کہ PTM کو ہر لحاظ سے پارلیمانی کردو۔ جبکہ منظور پشتین ان کی یہ بات مان نہیں رہا، حتی کہ بات گالی گلوچ اور ذاتی کردارکشی تک پہنچ چکی ہے۔
“محسن داوڑ گروپ” افراسیاب خٹک، بشری گوہر اور لطیف آفریدی جیسے چہروں کو نئی پارلیمانی PTM میں اہم عہدے دینے کی زبان کرچکا ہے۔ بالفرض مخالفت بڑھنے کے ڈر سے مذکورہ افراد کو عہدے نہ دے سکا تو بھی PTM کا ریموٹ کنٹرول محسن داوڑ اور مذکورہ چہروں کے پاس ہی ہوگا۔ منظور پشتین کی حیثیت PTM میں وہی ہوگی جو موجودہ ہے۔ مگر اس کو اتنا کمزور کردیا جائیگا کہ جب بھی نامساعد حالت کا سامنا کرنا ہوا تو منظور کو فی الفور اس کے موجودہ عہدہ سے ہٹا دیا جائیگا۔ یہ سب محسن گروپ کی دیدہ دلیری اور پلاننگ کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ منظور پشتین کے مفاہمت پرستانہ رویہ کی وجہ سے ممکن ہوگا۔
منظور پشتین کی مفاہمت پرستانہ اور نرم رویہ کی وجہ سے علی وزیر اور محسن داوڑ کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ “خڑ کمر” جیسے سنگین جرم کا ارتکاب ان دونوں صاحبان نے کیا، لوگوں کو فوج کے آمنے سامنے کروا کر مروایا اور جب ان دونوں کو جیل بھیج دیا گیا تو علی وزیر کے خاندان نے منظور کو ماں بہن کی گالیاں تک دیں کہ علی وزیر کو چھڑواؤ۔
ہم لوگوں نے جرگہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے حکومت، فوج اور تحریک کیلئے دو نشستوں کا انتظام کیا۔ وہ ایک الگ قصہ ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق یہی محسن داوڑ تھا جس نے منظور پشتین کو جرگہ میں بیٹھنے سے منع کردیا۔ حالانکہ اس نشست کیلئے منظور نے خود حامی بھری تھی۔
سوال تحریک کے پارلیمانی اور غیر پارلیمانی ہونے کا نہیں، سوال فائدہ اور نقصان کا بھی نہیں یہ منظور پشتین جانے اور اسکے ساتھی مگر میرے لئے شمالی اور جنوبی وزیرستان کا امن بہت اہم ہے۔ اگر PTM درست طریقے سے چلتی اپنے محسنوں “یوتھ آف وزیرستان” اور “محسود تحفظ مومنٹ” کیساتھ دشمنیوں کی ریت نہ ڈالتی تو امن کا یہ قافلہ بہ احسن خوبی اپنی منزل تک پہنچ سکتا تھا۔ آج شمالی وزیرستان میں طالبان دوبارہ سر اٹھانے لگے ہیں۔ حالیہ فوج کے تصادم میں دونوں فریقین کا کافی جانی نقصان ہوچکا ہے۔ مجھے وزیرستان میں آئندہ حالات کچھ اچھے نہیں لگ رہے۔
محسن داوڑ کی دیدہ دلیری کے پیچھے ایک ہی “شخص” ہے۔ جو بین الاقوامی میڈیا پر محسن داوڑ کے انٹرویو ۔منعقد کروا کر محسن داوڑ کی میڈیا پروفائلنگ کررہا ہے۔ یہی شخص محسن داوڑ کی مقبولیت کا گراف منظور سے اوپر لے جانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔اور آج محسن کی پشت پر کھڑے ہو کر PTM کو پارلیمنٹ میں زبردستی داخل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
کافی یار دوست تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ محسن داوڑ کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھرپور مدد دی جارہی ہے تاکہ پی ٹی ایم کے برانڈ کو سیاسی بنا کر دوبارہ عوامی نیشنل پارٹی کی مونوپولائزیشین کو کامیاب کیا جاسکے۔
اگلی قسط میں اس میڈیا کنگ میکر پر تفصیل سے بات کریں گے۔
جاری ہے۔
https://www.mukaalma.com/97821/
محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل(قسط 2)۔۔۔عارف خٹک
خڑ کمر، پارلیمانی نشے کا نتیجہ یا ایک سازش
میرے پہلے کالم کی پہلی قسط محسن داوڑ کے کارناموں اور تحریک کو نقصان پہنچانے پر مشتمل تھی مگر سنید داوڑ نامی لڑکے نے میرا پہلا کالم پڑھنے کے بعد سانحہ خڑ کمر کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ سو میں اپنی دوسری قسط کو ابھی فی الحال کچھ وقت کیلئے پوسٹ نہیں کررہا۔ تآنکہ میں سنید داوڑ کے اٹھائے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات نہ دیدوں۔جب آپ حقائق کے متلاشی ہوتے ہیں تو قاری کا حق بنتا ہے، کہ آپ اُن کو دستیاب حقائق سے آگاہ کریں۔ آئیں سانحہ خڑ کمر کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
جیسا کہ میرے پچھلے کالم میں بیان ہوچکا کہ میرا بچپن میرعلی، میرانشاہ اور رزمک میں گزرا ہے۔ میں نے قبائلی سسٹم کی محبت کے ساتھ ساتھ، وہاں آباد مختلف قبائلی اقوام کی آپس کی چپقلش،قبائلی تعصب اور کینہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وزیرستان میں محسود قبیلہ وزیر قبیلے کو پسند نہیں کرتا، وزیر قبیلہ محسود اور داوڑ قبیلے کو پسند نہیں کرتا اور داوڑ قبیلہ وزیر قبیلے کو ناپسند کرتا ہے۔ ایسی درجنوں قبائلی لڑائیوں کا میں خود بھی شاہد رہا ہوں۔ یہی صورتحال دیگر پشتون اقوام کی بھی ہے۔
بہرحال، الیکشن میں پی محسن داوڑکی جیت وزیر قبائل سے ہضم نہ ہوسکی اور “وزیر قومی جرگہ” نام سے ڈاکٹر گل عالم کی سربراہی میں وزیر ملکان، مشران، افسران اور سیاسی لوگوں کا ایک اتحاد بنا جس کا مقصد صوبائی الیکشن میں شمالی وزیرستان کے دونوں حلقوں یعنی PK-111 اور PK-112 سے وزیر نمائندگان کو جتوانا مقصود تھا، جس میں حلقہ PK-112 گل عالم نے اپنے لئے مختص کیا ہوا تھا۔
مسئلہ یہ تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ نے بکا خیل کیمپ کو خالی کرانے کیلئے ایک زبردست پریشر ڈویلپ کیا تھا، کیمپ میں دتہ خیل تحصیل کے لوگ زیادہ تھے، ظاہری بات تھی فوج نے دتہ خیل اور آس پاس کا علاقہ کلئیر کرنا تھا اور لوگوں کو واپس ان علاقوں میں بھیجنا تھا۔ مذکورہ علاقوں میں فوج کا ٹارگٹڈ آپریشن جاری تھا اور سانحہ خڑ کمر واقعہ سے قبل تک اس آپریشن میں 9فوجی جوان شہید ہوچکے تھے۔ علاقہ خڑ کمر میں فوجیوں نے طالبان سہولت کار کو گرفتار کرنے کیلئے ایک گھر پر ریڈ کیا، بقول مقامی لوگ چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ جبکہ پولیٹیکل محرر غلام خان غنی وزیر جو خود موقع پر موجود تھےکا کہنا تھا کہ “نہ چاردیواری کا تقدس پامال ہوا ہے نہ ہی کسی خاتون کا ہاتھ توڑا گیا”۔ بہرحال علاقے کے لوگوں نے کوئی 30 رکنی چھوٹا سا دھرنا دیا، جس میں اکثریت 19 سال سے کم عمر لڑکوں کی تھی (جو ویڈیوز میں دیکھے جاسکتے ہیں)۔ دھرنے کے شرکاء کو اعتراض اس بات پر تھا کہ فوج نے چادر اور چاردیواری کا تقدس کیوں پامال کیا ،نا کہ سہولت کار کی گرفتاری پر ان کو کوئی اعتراض تھا۔
اس افراتفری کے ماحول میں موجودہ حالات کو کیش کرنے کیلئے ڈاکٹر عالم وزیر آگے بڑھے اور علی وزیر کو فون کیا کہ آپ جلدی یہاں پہنچیں۔ علی وزیر کی چونکہ اس پورے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ علی وزیر، گل عالم کے ساتھ جانا نہیں چاہتے تھے جبکہ محسن داوڑ کی دلچسپی تھی کہ وہ موقع پر جاکر ان حالات کو کیش کرسکے، مگر گل عالم محسن داوڑ کو لے کر جانا نہیں چاہتے تھے۔ گل عالم نے علی کو مجبور کیا تو علی وزیر نے محسن داوڑ کو کہا کہ چلتے ہیں۔ محسن داوڑ نے جمال داوڑ اور میرکلام وزیر کو فون کیا کہ آپ لوگ خڑکمر پہنچیں۔ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ گل عالم، علی وزیر کے کندھوں پر خڑکمر دھرنے میں اپنا سیاسی تعارف کروا کر صوبائی اسمبلی کیلئے راہ ہموار کرنا چاہ رہے تھے، تو دوسری طرف محسن داوڑ میرکلام کی سیاسی انٹری اور مکمل لانچنگ کا فیصلہ کرچکے تھے۔ یہاں بھی خدمت کی بجائے پارلیمنٹ، ووٹ اور طاقت کی لالچ ہی مدنظر تھی۔
واضح رہے کہ سینیٹر عثمان کاکڑ نے ضم شدہ اضلاع میں سیاسی انٹری مارنے کیلئے PKMAP (پشتونخوا ملی عوامی پارٹی) کی طرف سے اپنے صوبائی امیدواروں کو 20، 20 لاکھ روپے نقد دیے تھے، جن میں میرکلام بھی شامل تھے، میرکلام کو ٹکٹ بھی دیا گیا تھا مگر PTM کی مشہوری کے سبب اس کو پی ٹی ایم کا برانڈ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اور PKMAP کا ٹکٹ واپس لے لیا گیا تھا ،پر رقم واپس نہ لی گئی۔
بہرحال، علی وزیر اور محسن داوڑ دونوں خڑکمر پہنچے، باوجود اسکے کہ انہیں معلوم تھا کہ یہاں کرفیو نافذ ہے۔ یہ دونوں سیاسی نمائندے تھے۔ دونوں کو اپنی حدود اور اختیارات کا بخوبی علم تھا، مگر سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ دونوں طاقت یا جہالت میں اتنے اندھے کیوں ہوگئے تھے کہ نہ تو کور کمانڈر پشاور کے خصوصی نوٹس کو خاطر میں لائے، نہ جی او سی میرانشاہ کی درخواست کو درخور اعتنا سمجھا، حتیٰ کہ ڈی سی کو بھی ان دونوں نے اپنی اس حرکت سے مکمل طور پر لاعلم رکھا۔ حالانکہ یہ دونوں کی جہالت یا لاپرواہی بالکل نہیں تھی بلکہ یہ کھیل مکمل پلانٹڈ تھا۔ علی وزیر تو اپنی روایتی جذباتی پن سے مار کھا گیا ،مگر محسن داوڑ نے وہ حاصل کیا جس کا انہوں نے فیصلہ کیا تھا۔ لہذا کرفیو کو زبردستی توڑنے پر بضد رہے۔ ویڈیوز میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کیساتھ موجود لڑکوں نے فوجی چیک پوسٹ پر توڑ پھوڑ کی، گالیاں دیں اور جب گالیوں کے جواب میں گولیاں چلیں تو کُل 83 بندے زخمی ہوئے ،جن میں 64 کے علاوہ باقی شہید ہوچکے تھے۔ ان سب زخمیوں اور شہید ہونیوالوں میں سے پشتون تحفظ موومنٹ کا ایک بندہ بھی شہید ہوا، اور نہ زخمی، سارے کے سارے مقامی سادہ لوح اور جذباتی لڑکوں کا نقصان ہوا۔
سانحہ خڑ کمر کی انکوائری ایک میجر جنرل کی سربراہی میں ہوئی۔ اس سانحے میں ملوث فوجیوں کا کورٹ مارشل ہوا، ان کو سزائیں ہوئیں، کسی کی نوکری گئی تو کسی کی جان گئی اور بدلے میں پشتون تحفظ موومنٹ، محسن داوڑ اور علی وزیر کو واہ واہ اور شاباشیاں ملیں۔اور انہوں نے اس واقعہ کو بھرپور طریقے سے کیش کیا۔
محسن داوڑ کو اپنا وہ تاریخی اور ریکارڈڈ جھوٹ ضرور یاد ہوگا جب اس نے دوران روپوشی ایک غیر ملکی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ “میں بھی زخمی ہوا ہوں”۔ کچھ دن خودساختہ روپوشی کے بعد بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور خود کو بغیر کسی “زخم” کے فوج کے حوالے کردیا۔
محسن داوڑ اور علی وزیر کا گروپ منظور پشتین پر مسلسل پریشر ڈالتا رہا کہ وہ میرانشاہ دھرنے میں پہنچے تاکہ یہ دونوں بچ سکیں ،مگر منظور پشتین دھرنا نہیں دے رہا تھا۔ منظور پشتین نے دونوں کو منع کردیا۔ منظور کا موقف تھا کہ “آپ دونوں کس کی اجازت اور کس کے مشورے سے خڑ کمر گئے؟”۔ محسن گرفتار ہوا تو چیف آف داوڑ ملک جان محمد کی کوشش تھی کہ معاملات اس کے ذریعے حل ہوں ،بہرحال ملک میرقادر، ملک حبیب اللہ عرف بے بے، ملک جان فراز، ملک خان مرجان وغیرہ نے محسن داوڑ کی ذمہ داری اٹھائی۔ جیل میں ان دونوں نے کیا گل کھلائے، ان کی آڈیوز (ریکارڈڈ) میں کیا منتیں ترلے ہیں، کیا کچھ انہوں نے لکھ کر دیا اور یہ کیا ٹاسک لے کر نکلے، اگر بیان کردوں تو میری بھی خیر نہیں۔۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ محسن داوڑ کی بے باکی اور نڈرپن کے پیچھے ایجنسیوں کا ایک مخصوص ٹولہ موجود ہے ورنہ جو جرم محسن داوڑ اور علی وزیر کرچکے ہیں وہ قطعا ً فوجی قوانین کے تحت ناقابل معافی جرم ہے۔ اس بات میں وزن اس لئے بھی ہے کہ دونوں کو فوری طور پر فوج کی حراست سے نکال کر مقامی عدلیہ کے حوالے کردیا گیا۔ تجزیہ نگار اس بات پر ابھی تک حیران ہیں کہ فوج کن مصلحتوں کے تحت ان دونوں کو ڈھیل دیتی رہی ہےاور کیوں ملکان ضمانت اور عدالت ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
مذکورہ دونوں مشران نے فقط تحریک کو “پارلیمانی” کرنے کی ذاتی خواہش میں بیگناہ لوگوں کو بھی مروایا، فوجی بھی نوکریوں سے گئے، اور آج بھی پشتون تحفظ موومنٹ کو “پارلیمانی حیثیت” میں لانے کا بھاری ٹاسک اپنے کندھوں پر لیے پھر رہے ہیں۔ مشترکہ مفادات کے قانون کے تحت عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر کا بھی اس کھیل میں بھرپور ہاتھ ہے ،تاکہ مستقبل میں وہ لوگ تحریک کی سربراہی کرسکیں ۔
مزے کی بات یہ کہ آج تک نہ تو گُل عالم گرفتار ہوا، نہ جمال داوڑ و میرکلام نے محسن و علی کے حق میں دھرنے اور ریلیاں نکالیں۔ الٹا منظور پشتین کو گالیاں تک دی گئیں۔اور بقول منظور کے قریبی ساتھیوں کے کہ آج بھی منظور پشتین ان کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔
ہم اگلے مضامین میں اس گروپ کے طریقہ واردات پر بات کریں گے۔ اور بتائیں گے کہ محسن داوڑ نے اپنا پریشر گروپ کیسے اور کن کی مدد سے بنایا۔ درپردہ کون کون ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ گلالئی اسماعیل کیسے باہر گئی ، بین الاقومی میڈیا پر ان کے سپانسر کون کون ہیں اور لروبر کے پرکشش نعرے کا دھوکہ دیکر کیسے مخلص اور سادہ دل پشتونوں کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
جاری ہے۔
https://www.mukaalma.com/98070/
محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل(قسط 3)۔۔۔عارف خٹک
پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم کارکن رضوان اللہ محسود کے والد کو اسلام آباد امیگریشن کاؤنٹر پر قطر سے آتے ہوئے دو ماہ کیلئے لاپتہ کردیا گیا۔ یاد رہے کہ ان لاپتہ کارکنان کی رہائی کیلئے حیات پریغال اور دوسرے دوستوں نے فوج کے کچھ اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ایم ٹی ایم کی درخواست پر کور کمانڈر پشاور کے حکم سے رضوان اللہ محسود کے والد بمعہ کافی سارے لاپتہ کارکنان کو رہا کردیا گیا۔ محسود مسائل سن کر کور کمانڈر کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔ کور کمانڈر جو خود ایک پسماندہ پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ الٹا PTM نے ان آنسوؤں کا سوشل میڈیا پر زبردست مذاق اڑایا۔یہ فوج کی طرف سے پشتون تحفظ موومنٹ کیلئے ایک مثبت پیغام تھا۔ جس پر پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہان نے ان رہائیوں اور ملاقاتوں کا اتنا برا منایا کہ مشر منظور پشتین نے ایک کمنٹ میں محسود مسائل کے علمبردار MTM کے ان لڑکوں اور PTM کے بیچ لائن کھینچ دی، اور حیات پریغال سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیا۔جسکی وجہ سے بہت سارے مخلص ساتھی تحریک سے عملی طور پر دور ہوگئے۔
یاد رہے اس سے پہلے ہم کچھ پشتون دوستوں نے جرگہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد میں ایک بہت بڑا سیمینار منعقد کیا تھا۔ جہاں پنجاب بھر کے دانشور، ادیب اور صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا جس میں پشتون صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، حسن خان اور مشہور مفکر دانشور اور شاعر اباسین یوسفزئی بھی مدعو تھے۔ ہم نے گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کو خصوصی طور پر بلایا تھا کہ سب مل کر ریاست پر زور دیتے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو کیوں نہیں سنا جاتا۔ عمران خان نے ایم این اے شاہد خٹک کو بتایا کہ سیاسی طور پر ہم منظور کے مسائل اور سوالات کو ہر فورم پر اٹھانے میں مدد کریں گے۔ میں نے ادریس پشتین اور منظور پشتین سے بات کرکے ان کے نمائندوں اولس یار وزیر اور (نام یاد نہیں آرہا) کو بھی بلایا۔ اولس یار وزیر نے سٹیج پر اور مجید داوڑ نے نیچے محفل میں PTM کا زبردست انداز ميں مقدمہ پیش کیا (مجید داوڑ کی باتوں کا ذکر فرنود عالم نے اپنے کالم میں بھی کیا) حالانکہ تحریک میں موجود کچھ مفاد پرست عناصر کسی طور اس سیمینار میں شرکت کے خواہاں نہیں تھے۔ وہ اداروں اور تحریک کے بیچ ڈیڈ لاک کے مکمل حق میں تھے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف وہ ریاست کے مقتدرہ قوتوں سے باہم ملاقاتوں پر معترض تھے تو دوسری طرف محسن داوڑ 8 اکتوبر 2019 کو صبح 11 بجے کور کمانڈر پشاور کے گھر پر اپنے پانچ رکنی گروپ سمیت ملاقات کرنے گئے تھے۔ اسی دن محسن نے نادرا کے افسران سے پشاور میں ملاقاتیں کیں جس کی تصاویر انھوں نے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردیں مگر کور کمانڈر ملاقات کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کرلی۔ نادرا حکام کی تصویریں اپلوڈ اور کور کمانڈر ملاقات چہرہ چھپا کر انھوں نے کیا پیغام دیا؟ اس پیغام کے کیا۔مقاصد تھے؟۔
یہاں کچھ سوالات رکھ رہا ہوں شاید تاریخ کا حصہ بننے کیلئے ان جوابات ضرور مل جائیں گے۔
سوال نمبر1:
محسن داوڑ ایک MNA وہ جنرل آفسر کمانڈر، کور کمانڈر اور وزیراعظم سے مل سکتے ہیں۔ مگر پوچھنا یہ تھا وہ کس حیثیت میں ملتے ہیں۔ اگر تحریک کے مشر کی حیثیت سے ملے ہیں تو کیا انھوں نے مشر منظور سے اجازت لی تھی؟ یا کور کمیٹی کی مشورے سے ملے تھے؟
ان ملاقاتوں کا منظور کو معلوم تھا اگر معلوم تھا تو MTM کے حوالے سے وہ اپنی یکطرفہ کاروائی کو کیا نام دیں گے؟ جو محسود مسائل لے کر اٹھے تھے؟
سوال نمبر 2: منظور کو یہاں مینشن کرکے پوچھ لیں، یا کوئی بااعتماد ساتھی منظور سے اکیلے میں پوچھ لے کہ میرے سوالات کی تردید کریں اور ان سے یہ پوچھیں کہ تحریک کو سب سے زیادہ نقصان کس نے دیا؟۔
کون لوگ تحریک کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟۔
کون لوگ تحریک کو طاقتور بنانے کے نام پر مٹانے کے درپے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ منظور پشتین، محسن کا نام لے گا۔
اور یقیناً یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ منظور نے کور کمیٹی میں محسن، ننگیال، علی اور محسن کے گروپ کے کسی بھی فرد کو نئی کورکمیٹی میں نہیں رکھا۔ اگر تنظیمی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ منظور پشتین کا حق بھی ہے.
میرے پاس کل چھ سوالات ہیں جس کو قسط وار چھاپا جائیگا۔
جاری ہے
https://www.mukaalma.com/98369/