What's new

Political Columns

کومپنی پتر دی ، تنخواہ پئیو دی ، تے تسی ؟

وسعت اللہ خان 3 گھنٹے پہلے

سوائے جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم گروپ آف پارٹیز کوئی ایسی سرکردہ قومی یا علاقائی جماعت جس کی قیادت موروثی نہ ہو ؟ کئی جماعتوں کی قیادت تو تیسری نسل کے ہاتھ میں ہے ورنہ پہلی اور دوسری نسل تو متحرک ہے ہی۔

مثلاً مولانا مفتی محمود کے پانچ میں سے چار بیٹے فضل الرحمان ، عطا الرحمان ، لطف الرحمان ، عبید الرحمان اور خود فضل الرحمان کے بیٹے اسد محمود جمیعت علماِ اسلام کا بورڈ آف ڈائریکٹرز کنٹرول کرتے ہیں۔لے دے کے ضیا الرحمان نامی برادرِ خورد ہیں جو سیاست میں نہیں بیوروکریسی میں ہیں اور’’ بہ فضلِ رسوخِ برادرِ کلاں‘‘ کمشنر برائے افغان ریفیوجیز بھی رہ چکے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کا شجرہ خان عبدالغفار خان سے براستہ ولی خان ، بیگم نسیم ولی ، اسفند یار ، امیر حیدرخان ہوتی اور آزو بازو کے عزیزوں سمیت ماشاللہ چار نسلوں تک پھیلا ہوا ہے۔پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی میں عبدالصمد خان اچکزئی کی گرانقدر سیاسی و تاریخی جدوجہد کا ثمر الحمداللہ تین بیٹوں یعنی محمد خان اچکزئی، محمود خان اچکزئی، حامد خان اچکزئی اور عم زاد مجید خان اچکزئی کے لیے بہت ہے۔پارٹی قیادت اور گورنری سے لے کے پارلیمانی نمایندگی اور صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تک صمد خان کے ترکے میں ملنے والی سیاسی چادر اہلِ خانہ کے لیے لامتناہی خیر و برکت کا سبب ہے۔

بلوچستان کی کوئی ایسی غیر موروثی جماعت پلیز جس کی پارلیمنٹ یا صوبے میں نشستیں ہوں ؟ خیبر پختون خواہ میں آفتاب شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی سمیت کوئی غیر خاندانی جماعت ؟ ( تحریکِ انصاف کو چھوڑ کر )۔

صوبہ سندھ میں کوئی ایسا قوم پرست یا غیر قوم پرست سیاسی خانوادہ یا پارلیمانی جماعت جہاں صرف ایک جنا ہی سیاست میں ہو اور اس نے کوئی اور سیاستداں نہ جنا ہو اور نہ وہ کسی سیاستداں سے جنا گیا ہو ؟ ( ایم کیو ایم کے دھڑوں کو چھوڑ کے )۔

آپ بھلے کتنے بھی بل کھائیں یا مٹھیاں بھینچیں ، اگلے اور پھر اس سے اگلے انتخابات میں بھی سیاسی مدرسے کا نصاب یہی رہے گا۔ لہذا کسی سیاستداں کے بارے میں کسی اور سیاستداں کا یہ کہنا کہ یہاں صرف خاندانی بادشاہت ہی کو دوام ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئلہ کیتلی کے پیندے کو کالا کہے ۔

مجھے ذاتی طور پر موروثی سیاست سے کوئی تکلیف نہیں۔کیونکہ یہ موروثیت ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ اگر حکیم بڈھن کا اپنے لگڑ دادا کے معجونی نسخے اور حاجی گھسیٹے خان کی مغل دور سے چل رہی کھچڑی کی خاندانی ریسیپی اپنے لگڑ پوتے کو سونپنے میں کوئی عیب نہیں ، اگر پکا راگ خان صاحبوں کے ہزاروں قابل شاگردوں کے باوجود نسل در نسل گھرانوں کی گائیکی میں ہی بند رہ سکتا ہے ، اگر پہلی عالمی جنگ لڑنے والے صوبیدار کی چھٹی پشت بھی کاکول جا سکتی ہے اور پہلے دادا سے آخری پوتے تک کئی خانوادے بیوروکریسی میں جھنڈے گاڑ سکتے ہیں ، اگر ہم مغلوں سے سعودیوں تک پشت در پشت خاندانی فراست کے معترف ہیں تو پھر موروثی سیاست میں کیا برائی ہے ؟ چیتے کا بچہ لگڑ بگا تو ہونے سے رہا۔

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ سیاستداں موروثی ہیں کہ غیر موروثی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ من حیث الطبقہ سیاستداں اسٹیبلشمنٹ سے بار بار مات کیوں کھاتے ہیں ؟ شائد یہ کہ سیاستدان اپنے طرزِ زندگی کے اعتبار سے تو اکیسویں صدی میں مگر ذہنی اعتبار سے اب تک اٹھارویں صدی تک کے قبائلی و شخصی دور میں رہتے ہیں۔جب کہ اسٹیبلشمنٹ وقت اور حالات کے اعتبار سے حلیہ ، حکمتِ عملی اور مہرے چلنے اور بدلنے کے معاملے میں بہتر وسائل ، وسائل کے چابک دست استعمال اور خودکو اردگرد کے رجحانات و تغیرات سے اپ ٹو ڈیٹ اور ہم آہنگ رکھنے کے سبب سیاسی کلاس سے ہمیشہ دو چال اور تین ہاتھ آگے رہتی ہے۔

بہتر شرح خواندگی ، نظم و ضبط اور مفاداتی سوجھ بوجھ سے مالامال اسٹیبلشمنٹ اپنے اندر بہت سے مختلف الخیال ذیلی یونٹ رکھتے ہوئے بھی پبلک امیج کے بڑے پردے پر اپنے حقیقی قدسے بڑا وجود محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں کو اندر ہی اندر دبانے اور خوبیوں کو سامنے لانے کا آرٹ جانتی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا وجود اور وزن ہر کسی کو گردن پر محسوس ہوتا ہے مگر کوئی بھی کسی ایک امیج پر انگلی رکھ کے یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ دیکھئے دراصل یہ ایک چہرہ ہے اسٹیبلشمنٹ کا۔راون کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے کئی چہرے ہو سکتے ہیں۔

جب کہ سیاسی کلاس اپنی بے چہرگی کے سبب جانی جاتی ہے۔ہر پارٹی قیادت کی قابلیت ، حالات پرکھنے اور اس کے مطابق فیصلہ سازی کی صلاحیت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا چونکہ سیاستداں کی طرح ہر وقت عوام سے براہ راست آمنا سامنا نہیں رہتا لہذا سیاستداں اسٹیبلشمنٹ کے برعکس ہر وقت پبلک امیج کی خوردبین تلے زندہ رہتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے برعکس سیاستداں کی کوئی پرائیویسی نہیں ہوتی۔یہ سیاستداں کی چوائس نہیں بلکہ پیشے کی مجبوری ہے۔

شائد اسی لیے اسٹیبلشمنٹ کے برعکس پولٹیکل کلاس اپنے تضادات اور سوچ کے فرق سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان مسائل کے سبب طشت از بام کمزوریوں کو اپنے ہی طبقے کے فورم پر حل کرنے یا پوشیدہ رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔لہذا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ’’ مارے بھی جہان خان اور فیصلہ بھی جہان خان کرے ’’ طرزِ حکمرانی کے آگے بے بس تھی ، ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔

اس حالت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سیاسی عمل بھلے کتنا بھی سازشی ہو مگر چلتا رہے۔بعض علتوں کا علاج محض تسلسل ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے بہتر یہ بات کون جانتا ہے ؟ سیاستداں یہ سب جاننے کے باوجود عادت و طبیعت سے مجبور ہیں۔بیسیوں بار تہیہ کرتے ہیں کہ اب ہیروئن کے سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور ہر بار خود سے کیا وعدہ یہ کہتے ہوئے توڑ دیتے ہیں بس یہ آخری سگریٹ! اس کے بعد کبھی نہیں۔۔۔

مگر ایک مخلوق ایسی بھی ہے جس کی معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی کی اپنی ہی فارسی ہے۔یہ مخلوق نہ تو قانونی موشگافیاں اور باریکیاں سمجھنے کے تکلف میں پڑتی ہے، نہ ہی موروثیت و غیر موروثیت کی کھکھیڑ اس کا دردِ سر ہے۔یہ مخلوق اپنے ہی موڈ اور سمجھ کے تابع ہے اور اس مخلوق کا نام ہے عوام کہ جس کی فیصلہ ساز ریسیپی آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکی ۔ووٹ بینک ایک الگ دنیا ہے اور اس دنیا کا اپنا دستور ہے۔

مجھ جیسے لال بجھکڑوں کو تو بہت خوشی ہے کہ سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے طاقتور سیاسی خانوادے کو سینگوں سے پکڑ لیا اور یہ پیغام بھی دیا ہے کہ بس بہت ہو چکا۔اب چھوٹی سے چھوٹی بے قاعدگی بھی برداشت نہیں ہو گی۔بھلے وہ دس ہزار درہم کی ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن کیا ووٹ بینک بھی یہ پیغام اسی طرح سمجھ رہا ہے؟ اگر تو واقعی سمجھ رہا ہے پھر تو سمجھو پاکستان بدل گیا۔ لیکن اگر ایک ٹھیلے والا ، قصائی ، نانبائی ، بھڑ بھونجا ، لوہار ، آڑھتی، کریانہ فروش اور گدھا گاڑی چلانے والا فیصلے کی تشریح یہ کر رہا ہے کہ ’’ کومپنی پتر دی، تنخواہ پئیو دی، اوہ تنخواہ لوے یا نہ لوے تسی مامے لگدے او ’’تو سمجھیے کہ گیم ایک بار پھر جواریوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔پتے پھر سے بانٹنے پڑیں گے۔
 
1104428142-2.gif
 
I have strong feeling that in west especially in US and UK democracies are guided by agencies. Some what the same idea was floated by Gen. Musharraf of the "guided democracy". Our agencies should also play an active role in this regard. Scrutinizing the individual parliamentarians should be the role of agencies to ensure only "SADIQ AND AMEEN" deserve to be there.
At the same time keeping and keen eye on bureaucracy.
Forces are the only institution left intact to save the country from internal and external threats. And you can't do it any more with helps of guns and F-16s. Its 5th gen war and IT skills are at the heart of it and China is good friend to get hands on it:).
May Allah guide us.
 
سہیل وڑائچ
SEPTEMBER 20, 2017 | 12:00 AM
عمران خان کو اقتدار دیں
خدا لگتی کہتا ہوں اب اقتدار عمران خان کا حق ہے۔ نواز شریف نااہل ہوچکے اور ان کے بعد عمران خان ہی مقبول ترین رہنما ہیں۔ اس لئے فوراً الیکشن کر وا کر زمام اقتدار ان کے حوالے کریں تاکہ عوام کی براہ راست منتخب اور محبوب لیڈرشپ بحرانی دور کے بڑے بڑے فیصلے کرسکے۔ 4سال پہلے پاکستانیوں کی اکثریت نے نواز شریف کو وزیراعظم بنا کر ملک و قوم کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا تھا اب جبکہ وہ گھر جاچکے ہیں تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو براہ راست عوام کا یہ اعتماد حاصل نہیں کہ وہ بحرانی دور میں بڑے فیصلے کرسکیں۔ یوں اس وقت ایک کمزور ترین جمہوری حکومت ہے جو بڑے حکومتی فیصلے نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم عباسی کبھی نواز شریف سے ملنے جاتے ہیں اور کبھی بیچارے طاقت کے دوسرے مراکز میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس مشکل سے نکالیں فوراً لیکشن کا ڈول ڈالیں اور نئی منتخب حکومت کو بڑے فیصلے کرنے دیں۔ پاکستان میں برطانیہ کی طرح کا پارلیمانی نظام ضرور قائم ہے لیکن یہاں پارٹی حکومت نہیں بلکہ شخصی حکومت ہوتی ہے۔ لوگوں نے ن لیگ کے نشان کو ضرور ووٹ دیا تھا لیکن مقصد نواز شریف کو اقتدار میں لانا تھا اب جب نواز شریف نااہل ہو گئے تو اب ان کی جگہ پارٹی میں سے کسی بھی ڈمی کو وزیراعظم بنانا انصاف نہیں اس اقتدار سے ن لیگ کو تو سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے عوام کو کیا ملے گا؟ ن لیگ کے تو مزے ہی مزے ہیں۔ وفاقی حکومت بھی ان کی، پنجاب کی صوبائی حکومت بھی ان کی اور تو اور وہ اپوزیشن بھی خود ہی بن گئے ہیں۔ حکومتی مراعات کا لطف بھی اٹھا رہے ہیں اور اپوزیشن ہونے کا سیاسی فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان نے تاریخ ساز فیصلے کرنے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا ساتھ دینا ہے یا غیرجانبدار رہناہے، الیکشن کب کرواناہے، نگران حکومت میں کون ہوگا؟ نیب کا اگلاسربراہ کون ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ دل پرہاتھ رکھ کر بتائیں کہ عوام نے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو کب مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ ملک کی قسمت کے بارے میں اتنے بڑے بڑے فیصلے کریں۔ لوگوں نے تو نوازشریف کو اس کام کے لئے چنا تھا۔ اب وہ نہیں تودوسرامقبول ترین لیڈر عمران خان ہے۔ بڑے فیصلے کرنے ہیں تو عمران خان کو لائیں۔ وہی یہ فیصلے کرے تاکہ ان بڑے فیصلوں میں عوامی خواہشات کی ترجمانی بھی ہو۔ شاہد خاقان عباسی عملی آدمی ہیں۔ بھلے شخص ہیں مگر وہ ایک کمزور سیاسی حکومت کے سربراہ ہیں۔ انہیں پاکستان کے مستقبل کے بار ےمیںفیصلہ کرنے کا اختیار دینا ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ عمران خان کو اقتدار میں نہ لا کر ہم جنرل یحییٰ خان والی غلطی دہرا رہے ہیں۔ انہوں نے الیکشن کروانے کے بعد انتقال اقتدار میںاتنی دیر لگا دی کہ ملک ہی بکھر گیا۔ اب الیکشن کروانے میں اتنی دیر کی جارہی ہے کہ لیڈر شپ کا حوصلہ ہی ٹوٹ جائے اور وہ الیکشن تک کا لمبا فاصلہ طے کرتے کرتے ہانپ جائے۔ جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے۔ جب ایک گھوڑا رُک جائے، ناکارہ ہو جائے یا تھک جائے تو نظام کو چلانے کے لئے تازہ دم گھوڑے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ افکار ِ تازہ سے ملکی مسائل حل کرے۔ اب وہ وقت ہے کہ نئی قیادت کو موقع دیا جائے۔ برصغیر کی مشہور رزمیہ کہانی ’’مہا بھارت‘‘ کی دروپدی کے پانچ پانڈو شوہر دکھائے گئے ہیں۔ ہمارے محبوب وزیراعظم خاقان عباسی کو بھی کئی شوہروں کو خوش رکھنا ہے۔ اس لئے وہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکیں گے۔ صرف قوم کا وقت ضائع ہوگا۔ گومگو ختم کرنی ہے، کنفیوژن اُڑانا ہے تو پھر فوراً الیکشن کروائیں۔ عمران جیتیں تو ان کو وزارت ِ عظمیٰ دیں تاکہ وہ ملک کو چلائیں۔ ایک سال کا انتظار کیوں؟ یہ سراسر غلط، غلط اور غلط فیصلہ ہے۔ عمران خان کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اس نے اپنی حکومت کا لائحہ عمل طے کر رکھا ہے۔ اقتدار آنے کی دیر ہے کہ چند مہینوں میں نقشہ بدل جائے گا۔ اس نے دنیا بھر میں 100ایسے ٹیکنوکریٹ پاکستانی چن رکھے ہیں جنہیں وہ پاکستان واپس بلا کر مختلف اداروں اور محکموں کا انچارج بنادے گاکیونکہ وہ انہی شعبوں کے ورلڈ کلاس ماہرین ہیں۔ عمران خان کو اچھی طرح علم ہے کہ کون پی آئی اے کوٹھیک کرسکتا ہے اور کون بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پا سکتا ہے، فنانس کوکس نے دیکھنا ہے اور معاشی اصلاحات کون کرسکتا ہے؟ بات صرف موقع کی ہے کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ یہ موقع دیا جائے؟ عمران خان کیس کی حمایت کوئی اتنی مشکل بھی نہیں۔ وہ بنا بنایا ہیرو ہے۔ 1992کا ورلڈ کرکٹ کپ جیت چکا ہے، شوکت خانم کے ذریعے ادارہ سازی میں اپنا سکہ جما چکا ہے، جلسے اور جلوس اس کے بڑے ہیں۔ محب وطن وہ سب سے زیادہ ہے۔ لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بڑا اختلاف نہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ اقتدارعمران کا حق ہے اور اسے دیا جائے تاکہ وہ نیا پاکستان بنا سکے۔ عمران آئے گا تو پاکستان پر ہُن برسے گا، بیرون ملک آباد پاکستانی عمران خان اور تحریک ِ انصاف پر جان چھڑکتے ہیں۔ بڑھ چڑھ کر پارٹی فنڈ دیتے ہیں۔ عمران خان کے برسراقتدار آتے ہی یہ سب لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے اور یوں پاکستان کی معاشی حالت بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے گی۔ توقع یہی ہے کہ عمران خان کرپشن کے خلاف ایک موثر نظام بنائیں گے جس میں انتقام نہیں بلکہ واقعی احتساب ہوگا۔ یادش بخیر 2013کے الیکشن سے پہلے صرف پی ٹی آئی ہی نہیں امریکی اور برطانوی سفارتکاروں کابھی یہ خیال تھا کہ عمران خان وزیراعظم بن رہے ہیں اگروہ اس وقت عمران خان کے وزیراعظم بننے کی توقع کر رہے تھے تو اب بھی امید ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنالیں گے۔ کوئی کچھ بھی کہے عمران خان پاکستانیت کے بارے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں۔ وہ اقوام عالم میں ڈٹ کر اپنا موقف پیش کریں گے۔ نئی افغان جنگ پر امریکہ سے ڈیل کی ضرورت پڑی تو وہ ٹرمپ سے باعزت اورمنافع بخش ڈیل کریں گے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرح سستے داموں آگ کے شعلوں میں نہیں کودیں گے۔ وہ سول اور ملٹری تعلقات کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ طرز ِ حکمرانی میں تبدیلی لانا تو ان کی مجبوری ہوگی کیونکہ وہ سب سے زیادہ تنقید اسی پر کرتے رہے ہیں۔ بھارت میں ان کی بہت دوستیاں بھی ہیں اور ان کے وہاں پرستار بھی بہت ہیں۔ وہ بھارت سے مذاکرات کا کوئی راستہ بھی نکال سکتے ہیں۔ خدشہ بس ایک ہے کہ ان کا مزاج برہم ہوا تو میڈیا پر سختی نہ شروع کردیں۔ میڈیا کی آزادی بھی گڈگورننس کا حصہ ہے اس پر انہیں ضرور غور کرنا چاہئے۔ آخر میں عرض ہے کہ بطور اپوزیشن کے مقبول حکمران، حکمرانی کا تاج ان کی جھولی میں پڑا ہے بس اپنی مینجمنٹ اتنی تو بہتر کرلیں کہ جھولی سے اٹھا کر تاج کو اپنے سر پر رکھ لیں۔

https://jang.com.pk/print/377845-imran-khan-ko-iqtidaar-den

حسن نثار
SEPTEMBER 20, 2017 | 12:00 AM میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
مجھ جیسے کودن، غور و فکر سے عاری، سوشلائزیشن سے متنفر شخص کے لئے، جس کارپورٹنگ سے بھی کبھی کوئی لینادینا نہیں رہا، یہ زندگی کافی مشکل ہے کیونکہ نہ کوئی بات سمجھ آتی ہے نہ کسی بات کی کوئی خبر ہوتی ہے اس لئے ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہوں مثلاً مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر متعلقہ، متاثرہ، فریق یا فریقین جرائم پیشہ نہیں اور ان کے دست و دامن بے داغ ہیں تو حدیبیہ کیس کے ری اوپن ہونے میں کیا تکلیف ہے؟ اگر آپ چور نہیں ہیں تو دوسری کیا، دسویں مرتبہ بھی کوئی یہ کیس کھولے گاتو منہ کی کھائے گا لیکن اگر آپ وارداتیئے ہیں، گھر کا نام ’’ہجویری‘‘ اور اصل کام ہیراپھیری ہے تو پھر یقیناً بردہ فرشوں کو اپنے اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے۔بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے ’’لیڈر‘‘بیچ کھائیں ہیں جو یوسف سی ’’رعایا‘‘ ہووےبردہ فروش تو اپنے پورے ’’کیریئر‘‘ میں چند سو یا چند ہزار انسانوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہوتا ہوگا، خائین حکمران تو کروڑوں انسانوں کی قسمتوں کی قیمتیں اِدھر اُدھر کر جاتے ہیں۔ عدیم ہاشمی یونہی نہیں چیخا تھا؎بوزنے ہیں تو ملے ہم کو ہمارا جنگلآدمی ہیں تو مداری سے چھڑایا جائےتسلیم کہ ہم بوزنے بندر ہیں تو پلیز ہمیں جنگلوں کے سپردکردو لیکن اگر ہم آدم زاد ہیں تو ہمیں ان مداریوں سے نجات دلائو جو ہماری وجہ سے خلیجی و مغربی ملکو ںمیں بیش قیمت اثاثے بناتے ہیں لیکن ہمیں نسل در نسل3 مرلوں کی چھت بھی نصیب نہیں ہوتی اور جسے ہو جاتی ہے وہ بھی ہمیں یوں بھول جاتا ہے جیسے اس کاہمارا ناطہ ہی کوئی نہ ہو۔قصور کسی اور کا نہیں، میرا پلّا ہی اتنا بوسیدہ اور پھٹا پرانا ہے کہ میرے پلّے کچھ نہیں پڑتا مثلاً مجھے یہ منطق بھی اپیل نہیں کرتی کہ قطری شہزادہ فیم برادر اسلامی قطر سے لائی گئی ایل این جی (LNG) کے معاہدوں کوبھی دُم یاگردن موڑنے، ٹینٹوا دبانے یعنی بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے تو میرے نزدیک اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ بہت بڑی واردات وہاں بھی ڈالی گئی ہے۔ نہیں تو کسی اور کا انتظار کیوں؟ سارے معاہدے، تمامتر دستاویزات خود ہی عام کردو ورنہ’’جنہاں کھادیاںگاجراں ڈھڈ اونہاں دے پیڑ‘‘ توہونی ہی ہے۔ مطلب یہ کہ جو لال لال رسیلی گاجریں کھائےگا اسے پیٹ درد توفیس کرنا ہی پڑے گا اور یہ تو وہ ہیں جنہوں نے گاجروں کے کھیت کھائے ہیں۔ مجھے تو آج تک یہی سمجھ نہیں آئی کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی گلیاںبنانے سےپہلے موٹروے بنانے کی کیا تُک بنتی ہے؟ پرائمری سے فارغ ہوئے بغیر پی ایچ ڈی کرنے کے ان شوقینوں کی کون سی حرکت قابل فہم ہے اور کمال یہ کہ جن کارناموں پر ڈوب مرنا چاہئے، یہ ان پرفخر کرتے اور ان کا کریڈیٹ لیتے ہیں۔غالباً عثمان ڈار نام ہے سیالکوٹ کے اس سمارٹ سے نوجوان PTI لیڈر کا جسےٹی وی پر گفتگو کرتے سن کر میں حیران رہ گیا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ اس کا ایک گرائیں وزیر جو آج ارب پتی ہے، کبھی بنک میں بہت ہی معمولی اور ادنیٰ سا ملازم تھا۔ اک دوسرا وزیر با تدبیر شرمناک ترین شرائط سے مزین اقاما طوق کی طرح گلے میں لٹکائے پھررہا ہے۔ واقعی اجڑے باغاں دےگالڑ پٹواری اور للو پلٹن کا تاجا حوالدار۔مسلسل اعتراف کئے جارہا ہوں اور اس اعترافی بیان کے جواب میں وعدہ معاف گواہ بننے کی خواہش بھی نہیں کہ مجھے اس شہر آسیب کی کوئی بات سمجھ نہیںآتی اور ایسی بے شمارباتوں میں ایک بات ’’ووٹ کا تقدس‘‘ بھی ہے۔ کون سا ووٹ اور کیسا تقدس؟ کج فہمی اور کم عقلی کے باعث میرا خیال ہے کہ ’’ووٹ کے تقدس‘‘ سے مراد ہے ووٹر کا تقدس اور احترام تو اس کی جتنی پامالی ووٹ لینے والے ٹوٹ بٹوٹ کرتے ہیں، کوئی اور اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کھیل سے کسی اور کا تو کوئی تعلق ہی نہیں۔ ووٹر کی عزت اور عزت ِ نفس کی اس سے زیادہ پامالی کیا ہوسکتی ہے کہ اس دو ٹانگوں والے ’’چوپائے‘‘ کو پینے کاصاف پانی بھی نصیب نہیں اور ووٹ تو بھٹو، بینظیر بھٹو بلکہ زرداری کا بھی بہت بلکہ تم سے بڑھ کر تھا، تم نے خود ان کے ساتھ کیا کیا؟ خود عاشقی کرنی ہو تولڑکپن میں بھی مجنوں پر سنگ اٹھاتے ہوئے اپنا سر یاد کرلینا چاہئے تھا لیکن جزوی طور پر تم بھی سچے تھے کہ جب کوئی سرے محل سامنے آئے گا تو ووٹ کا تقدس سیدھا کوڑے دان میں جائے گا اور بالکل اسی طرح پاناما ہوگا تو پھر بھی یہ نام نہاد تقدس اس کی گہرائی میں غرق ہو جائے گا سو پہلے خود ووٹ یعنی ووٹر کے تقدس کا سبق سیکھو۔ حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کی مہم کے دوران پورے پاکستان نے اس حلقہ کی زبوں حالی ٹی وی اسکرینوں پر دیکھی جس کا ’’ذاتی‘‘ وزیراعظم نااہل ڈیکلیئر کئے جانے تک پورے ملک میں ’’ترقی ترقی‘‘ چلاتا پھرتا تھا جبکہ اس کے اپنے حلقہ انتخاب میں قدم قدم پر خاک اڑ رہی تھی، گٹر ابل رہے تھے، کیچڑ بہہ رہا تھا، گلیاں ٹوٹی پھوٹی تھیں اور لوگ غلیظ پانی پینے پر مجبور تھے تو دراصل یہ تم خود ہو جوووٹ کے تقدس کو روندتے اور پامال کرتے ہو۔باتوں باتوں میں پیپلزپارٹی بھی بیچ میں آگئی تو سچی بات ہے مجھے ان کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ چار ساڑھے چار سال سے تو میں اسے ’’مرحومہ مغفورہ‘‘ قرار دے رہا ہوں لیکن سمجھ نہیں آتی یہ پھر بھی ہاتھ پائوں مارنے سے باز کیو ںنہیں آتے؟ حلقہ 120میں ضمانت ضبط کرانے کے بعد بھی ان کا خبط بدستور برقرار ہے تو کوئی آصف زرداری صاحب کو کسی سیانے کا یہ قول سنائے کہ ’’جب کوئی پارٹی فلاپ ہوجائے تو اس میں جان ڈالنے کی سعی ٔ رائیگاں سے بہتر ہے آدمی نئی پارٹی بنا لے‘‘ لیکن پھر وہی بات کہ نہ انہیں میری سمجھ آئے گی نہ مجھے ان کی۔

https://jang.com.pk/print/377844-meri-samajh-main-kuch-nahi-aata

20746_83357353.jpg


http://m.dunya.com.pk/index.php/author/munir-ahmed-baloch/2017-09-20/20746/83357353

20741_74440474.jpg


http://m.dunya.com.pk/index.php/author/rauf-kalsra/2017-09-20/20741/74440474

20738_88822967.jpg

http://m.dunya.com.pk/index.php/author/haroon-ur-rahid/2017-09-20/20738/88822967
 
Back
Top Bottom