حسن نثار SEPTEMBER 29, 2017 | 12:00 AM جیسا وزیراعظم ویسا ہی وزیرخزانہ
نااہل وزیراعظم پر دبائواس کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ قدیم محاورہ ہے کہ بدقسمتی برق رفتارگھوڑے پر بیٹھ کر آتی ہے لیکن اگر واپسی کا فیصلہ کر بھی لے تو پیدل واپس جاتی ہے۔ عدالتی معاملات تو اپنی جگہ، شریک ِ حیات کی بیماری نے بھی ابھی آناتھا؟ افسوس ناک خبرہے کہ’’بیگم کلثوم نوازکی طبیعت بگڑ گئی، نوازشریف آج ہی لندن روانہ ہوں گے‘‘ اللہ پاک انہیں صحت اور نواز شریف کو دبائوکا سامناکرنے کی ہمت عطا فرمائے اور وہ کہنے سےپہلے تھوڑا سوچ لیا کریں کہ کیا کہنے جارہے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہوسوتےہیں۔ناقابل برداشت دبائو سمجھنے کے لئے صرف دو تازہ ترین مثالیں ہی بہت کافی ہیں مثلاً پہلے ان کا پسندیدہ وِرد یہ سوال تھا کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ تازہ ترین انکشاف ہے ’میں جانتاہوں میرا اصل جرم کیاہے‘‘ یعنی وہ جانتے ہیں انہیں کیوں نکالا گیا۔ ادھر ’’نوازشریف کو کیوں نکالا؟‘‘کے حوالہ سے پی ٹی آئی نے آگاہی مہم چلانے کافیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کو حقائق سے آگاہ کیاجاسکے۔ پی ٹی آئی کو یہ کام اسی وقت شروع کردینا چاہئے تھا جب نواز شریف نے حقائق مسخ کرنے، دھول اڑانے اور کنفیوژن پھیلانے کا کام دکھانا شروع کیا تھا لیکن چلو دیر آید درست آید۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا لیکن میاں نواز شریف بڑھتے بڑھتے، پھیلتے پھیلتے خطرناک ترین حدود میں داخل ہوگئے ہیں مثلاً.....’’منتخب حکومت تسلیم کریں۔ ڈر ہے پاکستان کسی ’’سانحہ‘‘کا شکار نہ ہوجائے۔‘‘’’غلط فیصلوں سے ملک ’’ٹوٹا‘‘ تمیز الدین کیس سے شروع ہونے والا 30سالہ کینسر ٹھیک نہ ہوا تو ڈر ہے پھر کوئی ’’حادثہ‘‘ نہ ہو جائے‘‘’’منتخب حکومت کو نشانہ بنانےسے ملک ’’دولخت‘‘ ہوا! ڈر ہے پھر کوئی ’’سانحہ‘‘ نہ ہو جائے۔میاں نواز شریف اس طرح کےبیانات دے کر وارننگ یا چتنائونی نہیں..... پاکستان اور پاکستانیوں کو دھمکی دے رہے ہیں، سقوط ِ ڈھاکہ کی طرف اشارے کر رہے ہیں، سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد دلار ہے ہیں تو تفصیل میں جائے بغیر انہیں سمجھانا، بتانا اور یاد دلانا چاہتا ہوں کہ دیگر لاتعداد عوامل و اسباب کو علیحدہ رکھتے ہوئے صرف اس پر توجہ فرمائیں کہ مغربی و مشرقی پاکستان کی جغرافیائی حدود کے درمیان سینکڑوں میل کا فاصلہ اور درمیان میں ہندوستان جیسا دشمن تھا۔ پاکستان نیوکلیئر پاور بننے سےبہت دور تھا اور سب سے اہم یہ کہ شیخ مجیب الرحمٰن کلین سویپ کرچکا تھا لیکن اب؟؟؟ بہتر ہوگا اس ’’خیالِ بد‘‘ کا بیج پھوٹنے سے پہلے ذہن سے نکال دیں ورنہ انجام کی پیش گوئی کے لئے نہ نجومی ہونا ضروری ہے نہ پولیٹکل سائنٹسٹ ہونے کی شرط ہے۔ نااہل شریف کے پالتو درباریوں حواریوںکو چاہئے انہیں سمجھائیں کہ وہ اپنی تیزی سے سکڑتی ہوئی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ یہاں ضمناً ایک بات شیئر کرتا چلوں کہ مجھے ان کے ایک قریبی شخص نے بتایا کہ یہ لوگ کشمیری شیخ ہیں جیسے شیخ رشید لیکن ناموں کے ساتھ ’’شیخ‘‘ لکھتے نہیں۔ شیخ ہونا اور سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے دینا ایک عجیب اتفاق ہے۔ بہرحال یہ شیخ والی بات غلط ہو تو تصحیح کے لئے حاضرہوں۔ پچھلے پیرے میں، میں نے میاں صاحب کی ’’سکڑتی ہوئی حدود‘‘کا ذکر کیا ہے جسے مزید سمجھنے کےلئے اسحاق ڈار کی عدالت میں پیشی والی فوٹیج دوبارہ دیکھئے یا دھیان میں لایئے۔ مجھے تو یوں محسوس ہوا کہ ڈار صاحب عدالت جا نہیں رہے، سہارا دے کر لے جائے جارہے ہیں۔ فرد ِ جرم عائد، حسب ِ توقع ڈار کا الزام تسلیم کرنے سے انکار لیکن کب تک؟ اگلی پیشی 4اکتوبر تو محاورے والی وہ بندریا یاد آتی ہے جس کے پائوں جلنے لگے تو اس نے بچے پائوں کے نیچے رکھ لئے، یہ تو صرف ’’سمدھی‘‘ ہے اور جو ایک بار وعدہ معاف گواہ بن چکا، اس کے لئے دوسری، تیسری، چوتھی، دسویں، بیسویں بار کیا مشکل کہ ہر کام پہلی بار ہی ’’مشکل‘‘ ہوتا ہے۔ شیخ رشید نے ڈار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’سب سے گہرے پانی میں اسحاق ڈارہے‘‘ تو شیخ صاحب بھول رہے ہیں کہ ڈار کی شکل میں بھی نواز شریف ہی ٹربل میں ہے کیونکہ یہ مصرع ایسی سچوئشن کے لئے ہی لکھا گیا ہے؎’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘بلکہ میرا تجزیہ تو اس سے بھی تین ہاتھ آگےہے کہ اسحاق ڈار جتنے بھی گہرے پانی میں ہو، اپنے مالک اور محسن کو اس کی گہرائی کے سپرد کرکے خود ’’لائف جیکٹ‘‘ سمیت صحیح سلامت باہر نکل آئے گا، اندر جائے گا بھی تو ملی بھگت سے کہ بگلہ بھگت اسی کو کہتے ہیں۔ڈار کاجرم یہ نہیں کہ اس نے آمدنی سے کئی گنا زیادہ اثاثے بنانے کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور لوٹ مار، کرپشن کو فائن آرٹ کے درجہ تک پہنچا دیا۔ اسحاق ڈار کا اصل اور ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ اول اس نے نواز شریف فیملی کو اقتصادی جرائم کے نت نئے گر سکھائے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس شخص نے پاکستان کی اقتصادیات کو ’’معاشی میانی صاحب‘‘ تک پہنچا دیا ہے۔ آج سے تقریباً ساڑھے چار سال پہلے انتخابی مہم کے دوران میں بار بار کہہ بھی رہا تھا، لکھ بھی رہا تھا کہ اگر ن لیگ جیت گئی تو اقتصادی حوالوں سے عوام کی چانگڑیںمریخ پر بھی سنائی دیں گی؟..... وہ وقت آچکا۔ تب احباب نے پوچھا کہ میں اتنے یقین سے اتنی بڑی بات کیوں کررہاہوں تو میں انہیں ایک ہی جواب دیتا تھا۔’’کیونکہ نواز شریف کا وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہوگا، اور جیسا وزیراعظم ویسا ہی وزیر خزانہ ہوگا‘‘دیکھتے جائو..... ہوتا کیاہے؟