What's new

Pakistan Tourism: Information Desk

*سندھ کی نئی نسل، شہری و دیہی افراد سے اگر پوچھا جائے کہ دریائے سندھ کہاں سے شروع ہوتا ہے، دس میں سے آٹھ افراد کہتے ہیں سکھر سے شروع ہوتا ہے، اس لئے آج سوچا آپ کو دریائے سندھ کے بارے میں کچھ تفصیل سے بتایا جائے۔*
دریائے سندھ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔
چین کے علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک ذیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے ۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل "مانسرور" ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا اور بھی نکلتے ہیں۔
ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔
گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔
برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔
اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔
ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 عیسوی میں "ولیم مور کرافٹ" نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرور نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے "سیون ہیڈن" 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر "سنگی کباب" یا "سینگے کباب" کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی "گارتنگ" یا "گارتانگ" ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔
گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں ۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔
دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر اسکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔
اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس اٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے ۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔
کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔
گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گذر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گذر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔
اس دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان کا نام انڈیا پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔ اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں۔ یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے۔ اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔
یوں یہ دریا چین کے تبت اور لداخ سے ہوتا ہوا ہندستان سے گھومتا ہوا بلتستان کے علاقوں گلگت، اسکردو، استور نانگا پربت کے پہاڑی سلسلوں سے اپنا راستہ بناتا خیبرپختونخواہ میں داخل ہوتا ہے
دریا پارسی زبان کا لفظ ہے جس کو سنسکرت میں ندی، عربی میں نہر، ترکی میں نیلاب اور انگریزی میں river کہتے ہیں۔
سنسکرت میں سندھو کا مطلب ہے سمندر یا بڑا دریا۔ سنسکرت ڈکشنری کے مطابق سندھو کا بنیادی لفظ سنید Syand ہے جس کا مطلب بہنا ہے۔ یعنی سندھو کا مطلب ہوا "ایسی ندی جو ہمیشہ بہتی رہے یا پھر بہتی ہوئی ندی۔ پروفیسر میکس میولر کے نزدیک سندھو کا لفظ سُدھ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بچاؤ کرنا۔ دریائے سندھ جن علاقوں سے بہتا ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کا بچاؤ کرتا ہے۔ غیروں کے حملے سے اور جنگلی سوروں سے۔
*سندھو لفظ کے مختلف لہجے۔۔۔*
رگ وید کے زمانے 1500 ق م میں سندھو کو سندھو ہی کہا جاتا تھا۔ ایرانی دور 518 ق م میں ایران کے دارا نے سندھ پر قبضہ کیا تو انہوں نے سندھ کو ہندو کہنا شروع کردیا۔ کیونکہ ان کی زبان میں "س" کا حرف نہیں تھا۔ اور انہوں نے س کی جگہ ہ استعمال کرنا شروع کیا۔ اور اس طرح سندھو سے ہندو ہوگیا۔
یونانی دور 326 ق م میں یونانیوں نے سندھ کو ہند کہا اور اس کا لہجہ "انڈ" کردیا۔ اور ندی کو انڈوس indos اور ملک کا نام انڈیکا Indica رکھا۔ لاطینی زبان بولنے والوں نے انڈوس کو "انڈس Indus" اور سندھ کو ہند اور پورے خطے کو انڈیکا سے انڈیا بنایا۔ چینی سیاح یوان نے 641 عیسوی کو سندھو کو "سن تو" (سنتو) لکھا ہے۔ غرض دریائے سندھ مختلف لہجوں میں کچھ یوں ہے۔ (سندھو ۔ سنسکرت) (ہندو ۔ ایرانی) (انڈوس ۔ یونانی) (انڈس لاطینی) (سن ۔ تو چینی)
سندھ کے صفاتی نام
سنسکرت میں ہی سندھو کو بچانے والا یا روزی دینے والا کہا گیا ہے۔ تبت والوں نے اسے شیر کے منہ سے نکلنے والا دریا یعنی شیر دریا کہا۔ قراقرم کے بیچ والے حصے میں اسے دریا کہا گیا ہے۔ قراقرم سے نیچے تربیلا تک اسے ابا سین کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے سب کا باپ یا دریاؤں کا باپ۔
*سندھی زبان میں دریا کیلئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ اسی طرح سنسکرت ایک قدیم زبان ہے جس کا مطلب ہے "تراشی ہوئی"۔ تو یہ کہاں سے تراشی ہوئی ہے۔ غالب امکان ہے کہ یہ موئن جو ڈارو کی زبان سے تراشی گئی ہوگی۔ جس کو اگر سندھی کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔ لفظ سندھو کے دریا ہونے کا ایک ثبوت اس طرح سے ہے کہ آریہ قوم نے شمالی سندھ کو سپت سندھو کہا۔ سپت کا مطلب سات اور سندھو کا مطلب دریا۔ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین۔*
*********************
اس مضمون کی تیاری کیلئے وکیپڈیا اور کتاب شیر دریا ۔۔۔۔۔۔ جین فیرلیی
شیر دریا ۔۔۔۔۔ Raza Ali Abidi
رضا علی عابدی کی کتاب کا سندھی ترجمہ Gul Hassan Kalmatti نے کیا ہے۔
گزر گاہیں ۔۔۔ پروفیسر شیر خان سیلرو سے مدد لی گئی ہے۔

1732091361365.jpeg
1732091367281.jpeg
 
.
Kirthar National Park is a hidden gem located in Sindh, Pakistan, known for its stunning landscapes and diverse wildlife. Here’s an overview of what makes this national park a paradise for nature lovers and adventurers:

Overview of Kirthar National Park​

  • Location and Size: Kirthar National Park is situated in the Kirthar Mountain Range, spanning over 3,087 km² (approximately 1,192 square miles). It is the second-largest national park in Pakistan and was established in 1974, making it a significant area for conservation.
  • Biodiversity: The park is home to a rich variety of wildlife, including:
    • Mammals: Species such as the Sindh ibex, urial, chinkara gazelles, leopards, and several others thrive here. The park has seen successful conservation efforts, with populations of these species being monitored and protected.
    • Birds: Over 147 species of birds have been recorded, including migratory species like the bearded vulture and various eagles. Birdwatching is a popular activity due to the diverse avian life.
    • Reptiles: The park hosts several reptiles, including the Indian python, Russell's viper, and various lizard species.

Attractions​

  • Scenic Landscapes: Kirthar National Park features breathtaking landscapes, from rugged mountains to arid plains. The natural beauty is complemented by historical sites like the Ranikot Fort, which adds cultural significance to the area.
  • Wildlife Viewing: The park provides excellent opportunities for wildlife viewing. Visitors can spot various animals in their natural habitats, making it a favorite destination for photographers and nature enthusiasts.
  • Adventure Activities: The rugged terrain offers thrilling experiences for adventurers. Activities such as hiking and off-road driving are popular among visitors looking to explore the remote areas of the park.

Visitor Information​

  • Accommodation: There are two main tourist centers within the park managed by the Sindh Wildlife Management Board—Khar and Karchat—which offer basic lodging facilities. Visitors can also set up tents if they prefer camping.
  • Access and Transportation: The primary entrance to Kirthar National Park is through Karchat, accessible via unpaved roads that require a four-wheel-drive vehicle. It is advisable to plan transportation in advance as there are no public transport facilities within the park.
  • Best Time to Visit: The ideal time to visit is from October to January when the weather is cooler, making exploration more enjoyable.

Conclusion​

Kirthar National Park stands out as a remarkable destination for wildlife enthusiasts and nature lovers. Its unique blend of biodiversity, stunning landscapes, and adventure opportunities make it an unforgettable experience for all who visit. Whether you're interested in wildlife photography, hiking, or simply enjoying the natural beauty, Kirthar offers something for everyone.

View attachment 1034485View attachment 1034486
Kirthar Park in Sindh is a gem only hidden away from the world, offering habitat to wildlife and a haven of nature for lovers. The park accommodates a rich variety of flora and fauna, which makes it an integral part of Pakistan's natural heritage. A visit here showcases pure wilderness beauty.
It is home to a safe haven for various endangered species in the form of leopards, wolves, and hyenas. Its ravishing landscapes, very dense forests, and towering mountains have made the place an ideal habitat for various wildlife species. Kirthar's massive realm along with its natural beauty makes the area of an important ecological treasure.
It is an eagerly waiting paradise for nature lovers and adventurers. It offers something unforgettable, whether it is trekking through its hills or seeing its wildlife in their natural habitats. It is an ideal place to find peace amidst the wonders of nature.

1732091894468.jpeg
 
.
1929-31 میں کالاباغ میانوالی میں دریائے سندھ پر ریلوے پل کی تعمیر کے دوران لی گئی ایک تصویر۔
کالاباغ پل، جو سندھ دریا پر 1929-31 کے دوران تعمیر ہوا، ایک اہم تاریخی شاہکار ہے۔ یہ پل 8 اسپینوں پر مشتمل تھا اور اس کی کل لمبائی تقریباً 1,400 فٹ تھی، جس کی تعمیر میں اسٹیل اور کنکریٹ کا استعمال کیا گیا۔ پل کی تعمیر کا مقصد میانوالی اور ملحقہ علاقوں کو بہتر مواصلاتی رابطے فراہم کرنا تھا، جس سے تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ تعمیراتی عمل کے دوران دریا کی تیز لہریں اور موسمی حالات نے چیلنجز پیش کیے، لیکن انجینئرنگ کی مہارت اور محنت نے ان مسائل کا مقابلہ کیا۔ کلاباغ پل، آج بھی اس دور کی تکنیکی مہارت اور انجینئرنگ کی کامیابی کا عکاس ہے۔

1732102862073.jpeg
 
.
چھوربٹ خپلو بلتستان میں دریائے شیوک پہ سلسلہ کوہ قراقرم کے دامن میں تاریخی طرزِ تعمیر کا انوکھا شاہکار پُل:- لکڑی سے بنا اپو علی زمبا (فرانو پل) زمبا بلتی زبان میں پل کو کہتے ہیں ۔
یہ تاریخی پل اپنی نوعیت کا ایک ایسا عجوبہ ہے جسکی تعمیر میں نہ ھی کوئی نَٹ بولٹ یا لوہے کا میخ استعمال ہوا ہے اور نہ ہی سیمنٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔
بڑے بڑے پتھروں میں سفیدے کے تختوں کو گاڑ کر تعمیر کیا جانے والا یہ پل تقریباً اپنی تعمیر کے 100 سال پوری کر چکا ہے۔ اس عظیم کاریگر کے انوکھے شاہکار میں سہارہ دینے کیلئے نہ کوئی ستون ہے اور نہ ہی کوئی لوہے کی رسیاں ہیں جوکہ عموماً لکڑ ی کے پلوں میں استعمال ہوتی ہیں ۔
اس پل کے معمار کا نام اپو علی شاہ تھا آج تک مقامی لوگ اسے اپو علی شاہ پل کہتے ہیں ۔
فرانو، ضلع گنگچھے، گلگت بلتستان کا لائن آف کنٹرول پہ آخری گاؤں ہے۔ اور یہ پل لائن آف کنٹرول ہے، قیامِ پاکستان سے قبل اس پل کے ذریعے لداخ کو خپلو اور بلتستان سے جوڑ کے رکھا ہوا تھا۔
تحریر: زبیر شریف قاضی

1732107805360.jpeg
1732107811478.jpeg
 
.
شاہراہ قراقرم - KKH
اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جس کا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ نگر، سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت، شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔
ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!
کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"
شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔
تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔
رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ Parriجگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔
جگلوٹ کے شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔
گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔
عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔
ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔
سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔
سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔
اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔
اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے
بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے,
یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس بجھانے کا آلہ کار ہے, یہ محبت و دوستی کی علامت ہے, یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔ بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے

1732175546837.jpeg
 
.
Pakistani truck art is a vibrant and distinctive form of folk art that transforms ordinary vehicles into moving masterpieces. This unique art form has deep cultural roots and serves as a reflection of the country's diverse traditions, aesthetic sensibilities, and social narratives.

Origins and Cultural Significance

Truck art in Pakistan began in the early 20th century when drivers started personalizing their trucks to distinguish them in crowded marketplaces. Over time, this practice evolved into a rich artistic tradition that incorporates vivid colors, intricate patterns, and symbolic imagery. Each truck becomes a canvas showcasing regional culture, historical landmarks, religious symbols, and poetic expressions, often featuring portraits of beloved leaders, poets, singers, or Sufi saints.

Artistic Elements

The artistry involved in truck decoration is extensive and includes several key components:
  • Painting: Trucks are adorned with hand-painted scenes that may depict landscapes, animals, or cultural motifs unique to specific regions.
  • Calligraphy: Many trucks feature beautiful Urdu and Arabic inscriptions that convey poetic verses or proverbs, adding depth to the visual narrative.
  • Metalwork and Reflective Materials: Decorative elements such as chains, tassels, bells, and mirrors enhance the three-dimensional aspect of the trucks, creating dazzling displays as they move.

Regional Variations

While truck art is prevalent throughout Pakistan, it is particularly notable in regions like Sindh and Khyber Pakhtunkhwa. Each area has its own style and themes influenced by local culture. For example, trucks from Sindh might showcase more floral designs and bright colors, while those from Khyber Pakhtunkhwa may include motifs reflecting Pashto culture.

Economic Impact and Passion

Truck owners often invest significant sums—sometimes millions of rupees—into decorating their vehicles. This investment is driven not only by aesthetic appreciation but also by a desire to stand out on the roads. The trucks serve as mobile billboards that reflect personal identity and cultural pride.

Social Advocacy

Beyond mere decoration, truck art has been utilized for social causes. For instance, initiatives have painted images of missing children on trucks to raise awareness and help reunite families. Additionally, organizations like UNESCO have employed truck art to advocate for girls' education in rural areas by incorporating empowering messages into the designs.

Conclusion

Pakistani truck art is much more than decorative painting; it is a dynamic expression of cultural identity that resonates deeply within the community. Each truck tells a story—a blend of personal expression and collective heritage—making it an essential part of Pakistan's cultural landscape. As this art form continues to evolve, it remains a testament to the creativity and resilience of Pakistani artisans who transform everyday vehicles into extraordinary works of art on wheels.

1732181906939.jpeg
1732181915156.jpeg
1732181933466.jpeg
1732181971362.jpeg
 
.
یہ کٹاس راج ہے۔اسلام آباد سے دو گھنٹے کی مسافت پر چکوال میں واقع ایک تاریخی مقام‘ جہاں ہزاروں سال پہلے کی تاریخ سانس لے رہی ہے۔ سطحِ سمندرسے تقریباً اڑھائی ہزار فٹ بلند ‘اس جگہ پربنے ہوئے مندر اور ان سے ملحق حویلیاں دورسے ہی نظرآجاتی ہیں۔
کبھی یہ جگہ علم و فن کا مرکز تھی۔یہاں ایک قدیم یونیورسٹی تھی ‘جہاں اور علوم کے علاوہ سنسکرت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔کہتے ہیں کہ مشہور مسلمان ماہرِ ارضیات ‘ ریاضی‘ تاریخ اور نجوم ابو ریحان البیرونی نے کٹاس راج میں واقع اسی یونیورسٹی میں سنسکرت کی تعلیم حاصل کی تھی ۔
یہ البیرونی ہی تھا‘ جس نے کٹاس راج سے کچھ ہی دور پنڈ دادن خان کے مقام نندہ میں کئی سوسال پہلے زمین کے محیط اور قطر کی درست پیمائش کی تھی۔یہاں مندروں کے قریب ایک بدھ سٹوپا کے بھی آثار ہیں‘ جو بدھ پیروکاروں کی عقیدت کا مظہر اور بین المذاہب تعلق کا آئینہ دار ہے۔
کٹاس راج کی ایک اہمیت یہ بھی تھی کہ یہاں ہندوؤں کے چار وید تحریر کئے گئے۔ کہتے ہیں‘ جب پانڈو برادران کو جلاوطن کیا گیا‘ تو انہوں نے یہیں پناہ لی اور اپنی جلاوطنی کے دن یہاں گزارے۔
روایت ہے کہ شیو کواپنی بیوی ستی سے بہت محبت تھی۔ دونوں کاایک دوسرے کے بغیرزندگی کاتصورمحال تھا۔ سچ ہے کہ زندگی میںمحبت کی چاشنی ہی اس کوخوبصورت بنادیتی ہے‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے سفرمیں مسافرملتے ہیں اوربچھڑ جاتے ہیں۔ ایک روز ستی بھی شیوکوچھوڑ کرہمیشہ کے لیے اجل کی وادی میں اترگئی‘ جہاں سے لوٹ کر کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔
اس روز شیومہاراج پر انکشاف ہوا کہ زندگی ستی کے بغیر کتنی بے معنی‘ کتنی بے رنگ ہے۔ اس روز‘ وہ اپنی بے بسی پرٹوٹ کررویا۔اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی قطاریں موتیوں کی لڑیوں کی صورت بہہ رہی تھیں۔کہتے ہیں آنسوئوں کی ایک لڑی اجمیر کے قریب ایک مقام پر گری‘ جہاں ایک چشمہ بن گیا۔ آنسوئوں کی دوسری لڑی کٹاس راج کے مقام پر گری‘ جہاں ایک اور چشمہ بن گیا۔
یہ آنسوئوں کاچشمہ بڑھتے بڑھتے ایک تالاب بن گیا۔ اس تالاب کا رقبہ دوکنال سے زیادہ اورگہرائی تیس فٹ کے قریب ہے ۔ تالاب کے اردگرد چھوٹے بڑے مندر ہیں۔ محبت جب عقیدت میں ڈھلتی ہے ‘تو فن کے شاہکار وجود میں آتے ہیں۔ ہمیں اس دعوے پر اعتبار آجاتا ہے‘ جب ہم ان مندروں کی طرزِتعمیراور ان میں بنے خوبصورت نقش ونگار کودیکھتے ہیں۔
وسیع وعریض کٹاس راج کے گیٹ سے داخل ہوں‘ تو ایک متاثرکن منظر نگاہوں کے سامنے آتاہے۔ قدیم راستوں پر چلتے ہوئے بائیں ہاتھ بلندی کی طرف جاتا ہوا راستہ ہے‘ جس پرست گراہ کابورڈ لگا ہے۔ یہاں سات مندروں کاجھرمٹ ہے۔شیو مہاراج کے مندر کی خوبصورت عمارت کی بالائی منزل پر دریچوں سے روشنی اورہوا آتی ہے اوریہاں سے اردگرد کے منظربھی دکھائی دیتے ہیں۔ تالاب کی سڑھیوں سے اوپر بارہ دری ہے۔ بارہ دری کے دروازوں سے تالاب اورتالاب کے اس طرف شیوکا مندر صاف دکھائی دیتاہے۔
منتخب

1732256149215.jpeg
 
.
اٹک پل
یہ بہت بڑا پل پاکستان کے شمال میں دریائے سندھ پر لاہور سے پشاور مین ریلوے لائن پر بنایا گیا ہے۔بہت بڑا دریا ہونے کی وجہ سے دریائے سندھ کے نیچے ایک قریبی جگہ سے سرنگ لگانے کا پہلا ٹرائل 1869 میں شروع ہوا لیکن زیادہ لاگت کی وجہ سے ترک کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹنل بور میں دریا کی تہہ میں پتھروں کے ہلنے کی آوازیں مزدوروں کو خوفزدہ کر رہی تھیں۔ یہ پل 1880 کی دہائی کے اوائل میں کھولا گیا تھا اور 1920 کی دہائی کے آخر میں اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا - دریا کے وسط میں واقع مرکزی ستون سب سے بڑی تشویش کا باعث تھا۔

1732436757876.jpeg
 
.
KOH e TAHA (Quetta) in 1900 AD
Before British arrival in Koh e Taha, the Town was famous with the names of Shal & Koh e Taha ( in between mountains) Local Baloch Population was spread in Hudda ہدہ and Sar e Aab - سر آب Saryab ( where water starts from). Sar e Aab name ( in Birahvi /Balochi) was given due to Karez System ( Underground Water Courses) in the Area.
The Britisher could not pronounce Koh e Taha properly in thier accent. To their ease they named it Quetta generally and in their official record as well, which with the passage of time became famous and the prominent name of the city.
Quetta was once little London for its pleasant climate and natural beauty.

 
.
تخت محل جو اجڑ گیا

بہاول نگر سے بہاول پور کو جاتی سڑک کے دائیں کنارے پہ یہ چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن موجود ہے۔ تخت محل ریلوے اسٹیشن۔ نام کتنا خوب صورت ہے۔ تخت۔ محل۔ جیسے کسی بادشاہ نے محل بنوایا ہو، تخت سجایا ہو، دربار لگایا ہو، داد رسی کی ہو۔ اور پھر کوچ کر گیا ہو کہیں۔
بہاول نگر سے ڈھلتے سورج کی کرنیں پکڑنے نکلیں تو پندرہ کلومیٹر دور یہ بجھا چراغ آپ کو نظر آتا ہے۔
سڑک سے دیکھیں تو یہ ایک سنسان سی عمارت دکھائی دیتا ہے۔ قریب آ کر دیکھیں تو ویرانی آنکھوں کے رستے دل میں اتر جاتی ہے۔ اس کے ماتھے پہ درج ہے کہ یہ سن 1897 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ برطانوی راج کا سورج ہندوستان میں دہک رہا رھا تھا تب۔ ریاست بہاول پور پہ مسلمان نواب تخت نشیں تھے۔ اسی دور میں یہ ننھا سا اسٹیشن سمہ سٹہ بھٹنڈا دلی لائن پر بنایا گیا تھا۔ اگتے سورج کی سمت یہ اس لائن سے جڑا تھا جو بہاولنگر، منچن آباد سے ہوتی ہوئی بھٹنڈہ دلی تک مسافروں کو لے جاتی تھی اور بوڑھے سورج کی سمت چشتیاں، حاصل پور، بہاول پور، کراچی تک جڑی ہوئی تھی۔
کتنا پر رونق، چہل پہل سے بھرا یہ مقام رہا ہو گا۔ صبح طلوع ہوتے ہی مسافر یہاں امڈ آتے ہوں گے۔ چھک چھک کرتی ریل گاڑی کے کندھوں پہ سوار دور دور تک جاتے ہوں گے۔ ریل کی کوک کتنے ہی دیہاتوں میں گونجتی ہو گی۔ کتنی کہانیاں ہوں گی جو یہاں سے جنم لے کر یہیں خاک ہو گئی ہوں گی۔
دیس آزاد ہوا تو تخت محل اسٹیشن کی لائن مشرق کی وسعتوں سے ہمیشہ کے لیے کٹ گئی۔ زخما گئی۔ آدھی ادھوری سی رہ گئی۔ دلی بھٹنڈہ، فیروز پور جانا خواب ہو گیا۔
دیس نے مزید سفر کیا تو یہ لائن جگہ جگہ سے اکھڑنے لگی۔ اس پہ دوڑتی ریل گاڑیاں بوڑھی ہونے لگیں۔ کچھ مر گئیں۔ کچھ اور وقت گزرا تو اس پہ صرف ایک گاڑی رہ گئی۔ اس کا بھی نا کوئی آنے کا وقت نا جانے کا بھروسا۔
وطن عزیز کو پھر یہ ایک گاڑی بھی بوجھ لگنے لگی۔ بند ہو گئی۔ ریل کی کوک اس کے گلے ہی میں پھنس گئی۔
کئی سال بیتے تو ریلوے اسٹیشن میں بھوتوں کے بسیرے ہونے لگے۔ ویرانی کے ڈیرے لگنے لگے۔ کچھ عرصہ قبل محب وطن کسی ٹھیکیدار کمپنی نے اس کی اربوں روپے لاگت کی لائن اکھاڑ لی۔ کہا گیا کہ نئی بچھائی جائے گی۔
اب دیکھئیے اس چرخ کہن کو نئی ریلوے لائن دیکھنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔
تخت محل ریلوے اسٹیشن کی دیوار پر کرایا نامہ درج ہے۔ اتنا کم کرایہ! ضرور بہت برس پہلے کا ہو گا۔
خستہ حالی سی خستہ حالی ہے۔ دور کجھور کے درخت کھڑے ہیں۔ جیسے اس بیابانی سے ڈر کر دور جا کھڑے ہوئے ہوں۔ وہ پرے گائیں بھینسیں بکریاں چر رہی ہیں۔ کچھ تپتی دھوپ سے بچنے کے لیے سائے میں ہانپ رہی ہیں۔ چرواہے اسٹیشن کے گرد آلود فرش پر لیٹے اونگھ رہے ہیں۔ اسٹیشن کے آس پاس سیم زدہ بے آباد زمیں میں جابجا جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔
خاموشی بھی خاموش لیٹی ہے۔ بس بدن جھلساتی دھوپ برس رہی ہے اور گرم ہوائیں سر سرا رہی ہیں۔
تخت محل ریلوے اسٹیشن۔ کتنا خوب صورت نام تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی بادشاہ کا تخت اجڑ گیا ہو اور محل میں ویرانی پھنکار رہی ہو۔

1732519847905.jpeg
 
.

Pakistan Defence Latest Posts

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom