What's new

Pakistan Tourism: Information Desk

*سندھ کی نئی نسل، شہری و دیہی افراد سے اگر پوچھا جائے کہ دریائے سندھ کہاں سے شروع ہوتا ہے، دس میں سے آٹھ افراد کہتے ہیں سکھر سے شروع ہوتا ہے، اس لئے آج سوچا آپ کو دریائے سندھ کے بارے میں کچھ تفصیل سے بتایا جائے۔*
دریائے سندھ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔
چین کے علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک ذیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے ۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل "مانسرور" ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا اور بھی نکلتے ہیں۔
ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔
گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔
برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔
اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔
ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 عیسوی میں "ولیم مور کرافٹ" نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرور نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے "سیون ہیڈن" 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر "سنگی کباب" یا "سینگے کباب" کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی "گارتنگ" یا "گارتانگ" ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔
گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں ۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔
دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر اسکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔
اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس اٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے ۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔
کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔
گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گذر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گذر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔
اس دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان کا نام انڈیا پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔ اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں۔ یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے۔ اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔
یوں یہ دریا چین کے تبت اور لداخ سے ہوتا ہوا ہندستان سے گھومتا ہوا بلتستان کے علاقوں گلگت، اسکردو، استور نانگا پربت کے پہاڑی سلسلوں سے اپنا راستہ بناتا خیبرپختونخواہ میں داخل ہوتا ہے
دریا پارسی زبان کا لفظ ہے جس کو سنسکرت میں ندی، عربی میں نہر، ترکی میں نیلاب اور انگریزی میں river کہتے ہیں۔
سنسکرت میں سندھو کا مطلب ہے سمندر یا بڑا دریا۔ سنسکرت ڈکشنری کے مطابق سندھو کا بنیادی لفظ سنید Syand ہے جس کا مطلب بہنا ہے۔ یعنی سندھو کا مطلب ہوا "ایسی ندی جو ہمیشہ بہتی رہے یا پھر بہتی ہوئی ندی۔ پروفیسر میکس میولر کے نزدیک سندھو کا لفظ سُدھ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بچاؤ کرنا۔ دریائے سندھ جن علاقوں سے بہتا ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کا بچاؤ کرتا ہے۔ غیروں کے حملے سے اور جنگلی سوروں سے۔
*سندھو لفظ کے مختلف لہجے۔۔۔*
رگ وید کے زمانے 1500 ق م میں سندھو کو سندھو ہی کہا جاتا تھا۔ ایرانی دور 518 ق م میں ایران کے دارا نے سندھ پر قبضہ کیا تو انہوں نے سندھ کو ہندو کہنا شروع کردیا۔ کیونکہ ان کی زبان میں "س" کا حرف نہیں تھا۔ اور انہوں نے س کی جگہ ہ استعمال کرنا شروع کیا۔ اور اس طرح سندھو سے ہندو ہوگیا۔
یونانی دور 326 ق م میں یونانیوں نے سندھ کو ہند کہا اور اس کا لہجہ "انڈ" کردیا۔ اور ندی کو انڈوس indos اور ملک کا نام انڈیکا Indica رکھا۔ لاطینی زبان بولنے والوں نے انڈوس کو "انڈس Indus" اور سندھ کو ہند اور پورے خطے کو انڈیکا سے انڈیا بنایا۔ چینی سیاح یوان نے 641 عیسوی کو سندھو کو "سن تو" (سنتو) لکھا ہے۔ غرض دریائے سندھ مختلف لہجوں میں کچھ یوں ہے۔ (سندھو ۔ سنسکرت) (ہندو ۔ ایرانی) (انڈوس ۔ یونانی) (انڈس لاطینی) (سن ۔ تو چینی)
سندھ کے صفاتی نام
سنسکرت میں ہی سندھو کو بچانے والا یا روزی دینے والا کہا گیا ہے۔ تبت والوں نے اسے شیر کے منہ سے نکلنے والا دریا یعنی شیر دریا کہا۔ قراقرم کے بیچ والے حصے میں اسے دریا کہا گیا ہے۔ قراقرم سے نیچے تربیلا تک اسے ابا سین کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے سب کا باپ یا دریاؤں کا باپ۔
*سندھی زبان میں دریا کیلئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ اسی طرح سنسکرت ایک قدیم زبان ہے جس کا مطلب ہے "تراشی ہوئی"۔ تو یہ کہاں سے تراشی ہوئی ہے۔ غالب امکان ہے کہ یہ موئن جو ڈارو کی زبان سے تراشی گئی ہوگی۔ جس کو اگر سندھی کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔ لفظ سندھو کے دریا ہونے کا ایک ثبوت اس طرح سے ہے کہ آریہ قوم نے شمالی سندھ کو سپت سندھو کہا۔ سپت کا مطلب سات اور سندھو کا مطلب دریا۔ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین۔*
*********************
اس مضمون کی تیاری کیلئے وکیپڈیا اور کتاب شیر دریا ۔۔۔۔۔۔ جین فیرلیی
شیر دریا ۔۔۔۔۔ Raza Ali Abidi
رضا علی عابدی کی کتاب کا سندھی ترجمہ Gul Hassan Kalmatti نے کیا ہے۔
گزر گاہیں ۔۔۔ پروفیسر شیر خان سیلرو سے مدد لی گئی ہے۔

1732091361365.jpeg
1732091367281.jpeg
 
.
Kirthar National Park is a hidden gem located in Sindh, Pakistan, known for its stunning landscapes and diverse wildlife. Here’s an overview of what makes this national park a paradise for nature lovers and adventurers:

Overview of Kirthar National Park​

  • Location and Size: Kirthar National Park is situated in the Kirthar Mountain Range, spanning over 3,087 km² (approximately 1,192 square miles). It is the second-largest national park in Pakistan and was established in 1974, making it a significant area for conservation.
  • Biodiversity: The park is home to a rich variety of wildlife, including:
    • Mammals: Species such as the Sindh ibex, urial, chinkara gazelles, leopards, and several others thrive here. The park has seen successful conservation efforts, with populations of these species being monitored and protected.
    • Birds: Over 147 species of birds have been recorded, including migratory species like the bearded vulture and various eagles. Birdwatching is a popular activity due to the diverse avian life.
    • Reptiles: The park hosts several reptiles, including the Indian python, Russell's viper, and various lizard species.

Attractions​

  • Scenic Landscapes: Kirthar National Park features breathtaking landscapes, from rugged mountains to arid plains. The natural beauty is complemented by historical sites like the Ranikot Fort, which adds cultural significance to the area.
  • Wildlife Viewing: The park provides excellent opportunities for wildlife viewing. Visitors can spot various animals in their natural habitats, making it a favorite destination for photographers and nature enthusiasts.
  • Adventure Activities: The rugged terrain offers thrilling experiences for adventurers. Activities such as hiking and off-road driving are popular among visitors looking to explore the remote areas of the park.

Visitor Information​

  • Accommodation: There are two main tourist centers within the park managed by the Sindh Wildlife Management Board—Khar and Karchat—which offer basic lodging facilities. Visitors can also set up tents if they prefer camping.
  • Access and Transportation: The primary entrance to Kirthar National Park is through Karchat, accessible via unpaved roads that require a four-wheel-drive vehicle. It is advisable to plan transportation in advance as there are no public transport facilities within the park.
  • Best Time to Visit: The ideal time to visit is from October to January when the weather is cooler, making exploration more enjoyable.

Conclusion​

Kirthar National Park stands out as a remarkable destination for wildlife enthusiasts and nature lovers. Its unique blend of biodiversity, stunning landscapes, and adventure opportunities make it an unforgettable experience for all who visit. Whether you're interested in wildlife photography, hiking, or simply enjoying the natural beauty, Kirthar offers something for everyone.

View attachment 1034485View attachment 1034486
Kirthar Park in Sindh is a gem only hidden away from the world, offering habitat to wildlife and a haven of nature for lovers. The park accommodates a rich variety of flora and fauna, which makes it an integral part of Pakistan's natural heritage. A visit here showcases pure wilderness beauty.
It is home to a safe haven for various endangered species in the form of leopards, wolves, and hyenas. Its ravishing landscapes, very dense forests, and towering mountains have made the place an ideal habitat for various wildlife species. Kirthar's massive realm along with its natural beauty makes the area of an important ecological treasure.
It is an eagerly waiting paradise for nature lovers and adventurers. It offers something unforgettable, whether it is trekking through its hills or seeing its wildlife in their natural habitats. It is an ideal place to find peace amidst the wonders of nature.

1732091894468.jpeg
 
.
1929-31 میں کالاباغ میانوالی میں دریائے سندھ پر ریلوے پل کی تعمیر کے دوران لی گئی ایک تصویر۔
کالاباغ پل، جو سندھ دریا پر 1929-31 کے دوران تعمیر ہوا، ایک اہم تاریخی شاہکار ہے۔ یہ پل 8 اسپینوں پر مشتمل تھا اور اس کی کل لمبائی تقریباً 1,400 فٹ تھی، جس کی تعمیر میں اسٹیل اور کنکریٹ کا استعمال کیا گیا۔ پل کی تعمیر کا مقصد میانوالی اور ملحقہ علاقوں کو بہتر مواصلاتی رابطے فراہم کرنا تھا، جس سے تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ تعمیراتی عمل کے دوران دریا کی تیز لہریں اور موسمی حالات نے چیلنجز پیش کیے، لیکن انجینئرنگ کی مہارت اور محنت نے ان مسائل کا مقابلہ کیا۔ کلاباغ پل، آج بھی اس دور کی تکنیکی مہارت اور انجینئرنگ کی کامیابی کا عکاس ہے۔

1732102862073.jpeg
 
.
چھوربٹ خپلو بلتستان میں دریائے شیوک پہ سلسلہ کوہ قراقرم کے دامن میں تاریخی طرزِ تعمیر کا انوکھا شاہکار پُل:- لکڑی سے بنا اپو علی زمبا (فرانو پل) زمبا بلتی زبان میں پل کو کہتے ہیں ۔
یہ تاریخی پل اپنی نوعیت کا ایک ایسا عجوبہ ہے جسکی تعمیر میں نہ ھی کوئی نَٹ بولٹ یا لوہے کا میخ استعمال ہوا ہے اور نہ ہی سیمنٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔
بڑے بڑے پتھروں میں سفیدے کے تختوں کو گاڑ کر تعمیر کیا جانے والا یہ پل تقریباً اپنی تعمیر کے 100 سال پوری کر چکا ہے۔ اس عظیم کاریگر کے انوکھے شاہکار میں سہارہ دینے کیلئے نہ کوئی ستون ہے اور نہ ہی کوئی لوہے کی رسیاں ہیں جوکہ عموماً لکڑ ی کے پلوں میں استعمال ہوتی ہیں ۔
اس پل کے معمار کا نام اپو علی شاہ تھا آج تک مقامی لوگ اسے اپو علی شاہ پل کہتے ہیں ۔
فرانو، ضلع گنگچھے، گلگت بلتستان کا لائن آف کنٹرول پہ آخری گاؤں ہے۔ اور یہ پل لائن آف کنٹرول ہے، قیامِ پاکستان سے قبل اس پل کے ذریعے لداخ کو خپلو اور بلتستان سے جوڑ کے رکھا ہوا تھا۔
تحریر: زبیر شریف قاضی

1732107805360.jpeg
1732107811478.jpeg
 
.
Back
Top Bottom