STAFF
- Joined
- May 1, 2015
- Messages
- 3,786
- Reaction score
- 34
- Country
- Location
جنرل اختر عبدالرحمن شہید اور معرکہ برکی 1965ء
بلال علی خان لودھی
14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو جنرل اختر عبدالرحمن شہید، جو اس وقت سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے، مشرقی پنجاب (بھارت) میں تعینات تھے، اور ہندووں کی متعصبانہ ذہنیت اور مکاری کو بہت قریب سے دیکھ چکے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور ہندووں کی بربریت کا بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ وہ یہ بھی جان چکے تھے کہ ہندو کبھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا ہے۔ دھوکا اور فریب اس کی فطرت میں شامل ہے۔ جب بھی اس کو موقع ملے گا، وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا۔ اس وجہ سے بھارت اور اس کی ہندو قیادت سے انہوں نے بھی اپنی نفرت کو کبھی نہیں چھپایا تھا۔ دسمبر 1964ء میں اختر عبدالرحمن 24 فیلڈ رجمنٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ ہو کر لاہور پہنچے تو اس وقت انہیں معلوم نہ تھا کہ چند مہینے بعد ستمبر 1965ء میں انہیں یہاں بھارت کے خلاف اپنا غبار نکالنے کا موقع ملنے والا ہے۔
پاکستان کو معرض وجود میں آئے18 برس ہو چکے تھے۔ اس عرصہ میں سیاسی بے اعتدالیوں کے باوجود، وہ اپنے پاوں پر کھڑا ہو چکا تھا اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن تھا۔ ظاہر ہے، بھارت کو یہ گوارا نہیں تھا اور اس نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے اور اس کی ترقی کا پہیہ جام کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ مئی 1965ء میں دسویں ڈویژن کے دستے برکی کے بارڈر پر تعینات ہوئے، تو جنرل اختر عبدالرحمن نے، جو اس وقت میجر تھے، بی آر بی نہر کے پار بنگالی گاوں میں اپنا خیمہ لگالیا۔ اگلے چارمہینے میں وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہو چکے تھے۔ 6 ستمبر کو بھارت نے حملہ کیا تو اس وقت ان کی طبیعت اگرچہ کچھ ناساز تھی، لیکن جنگی تیاری ہر طرح سے مکمل تھی۔ چنانچہ حملہ کی اطلاع ملتے ہی وہ ناسازی طبع کو بھول کر اپنے خیمے سے نکل کر دو میل جنوب میں واقع رجمنٹل کمانڈ پوسٹ پر چلے گئے،جو وہاں امردوں کے ایک چھوٹے سے باغ میں قائم کی گئی تھی۔ میجر شفقت بلوچ نے وائر لیس پر بھارتی ٹینکوں کے حرکت میں آنے کی اطلاع دی۔ دفاعی پلان یہ تھا کہ جنگ شروع ہوتے ہی اگلے مورچوں پر تعینات توپچیوں کو بی آر بی نہر کے اس طرف منتقل کر لیا جائے گا؛ چنانچہ جب میجر شفقت بلوچ اپنے جوانوں کو لے کر پیچھے ہٹ رہے تھے، تو میجر اختر نے بھی اپنے جوانوں کو طے شدہ دفاعی منصوبہ کے تحت پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ بدقسمتی سے توپ کھینچنے والی ایک گاڑی عین وقت پر خراب ہو گئی۔ میجر اختر کو اس کی اطلاع دی گئی۔ ان کا جوابی حکم تھا، کچھ بھی ہو، مقررہ وقت کے اندر اندر توپوں کی واپسی ہو گی۔ دن کا ایک بج رہا تھا اور پل کو اڑانے کے لیے فلیتے کو آگ لگائی جاچکی تھی،جب برکہ کلاں سے آخری توپ کی واپسی ہوئی۔ کچھ ہی دیر میں ایک زبردست دھماکہ ہوا اور پل کے ٹکڑے فضا میں بکھر گئے۔
7 ستمبر کی صبح میجر اختر کو ہنگامی طور پر آرٹلری بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں طلب کیا گیا اور مطلع کیا گیا کہ ان کا بریگیڈ میجر بیمار ہو گیا ہے، لہٰذا اب انہی کو ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں بھی فرائض دینا ہو ں گے۔ تازہ احکامات ملنے کے بعد میجر اختر آرٹلری کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئے کہ اطلاع آئی کہ بھارتی ٹینک برکہ کلاں کے قریب پہنچ چکے ہیں؛ یعنی وہ ہڈیارہ سیم نالہ، بی آر بی سائفن کے نیچے سے گزر کر لاہور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ میجر اختر کا کوارٹر ماسٹر بھی قریبی علاقے میں تھا۔ انہوں نے وائرلیس پر رابطہ قائم کیا اور اس اطلاع کی تصدیق چاہی۔ ایک کیپٹن فوراً اپنی بے نشان جیپ پر سائفن کے نیچے سے گزر کر موقع پر پہنچا، وہاں کوئی ٹینک نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن اسلحہ سے بھری کچھ گاڑیاں ضرور موجود تھیں۔ اس نے میجر اختر کو اس بارے میں آگاہ کر دیا۔ میجر اخترخود بھی موقع پر پہنچے اور واپسی پر توپچی کو فائر کاحکم دیا۔ یوں برکی کے محاذ پر دفاع لاہور کے لیے جو پہلی گولی چلی، وہ میجر اختر کے حکم پر چلائی گئی۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے ایک بار خود بھی اپنے رفقائے کار کو بتایاکہ ”لاہور کی طرف پیش قدمی کرتی ہوئی بھارتی فوج پر پہلی گولی ہماری یونٹ نے چلائی تھی، اور اسی لمحے مجھے یقین ہو گیا کہ ہم نے بھارتی فوج کو گردن سے دبوچ لیا ہے۔ اس کے بعد ہم نے بھارتی پیش قدمی کی رفتار کو اس وقت تک روکے رکھا، جب تک کہ ہماری فوج نے اس محاذ پر اپنی پوزیشنوں کو مستحکم نہیں کر لیا۔“
جنرل اختر عبدالرحمن خان کو اس پر بھی فخر تھا کہ1965ء کی جنگ میں برکی کے محاذ پر ان کے توپچیوں نے بہترین کارکردگی دکھائی تھی۔ فی گھنٹہ60، 65 گولوں کی عام اوسط کے بجائے ان کے توپچیوں نے فی گھنٹہ 120گولے برسائے تھے اور بعض مواقع پر اتنی شدید گولہ باری کی تھی کہ توپوں کے دہانے سرخ ہو گئے تھے۔ اس سترہ روزہ جنگ کا ایک اور واقعہ بھی ان کا یاد تھا، جب گولوں کو محاذ تک پہنچانے کے لیے گاڑیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا۔ 24 فیلڈ رجمنٹ کا اسلحہ ڈپو ہوائی اڈے کے بالکل قریب واقع تھا، لیکن شہر سے ٹرک لے کر وہاں تک پہنچانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ اس پر ہوائی اڈے کے ساونڈ سسٹم سے اعلان کرایا گیا کہ محاذ جنگ پر گولے پہنچانے کے لیے گاڑیوں کی فوری ضرورت ہے۔ اعلان ہونے کی دیر تھی کہ اعلان کردہ مقام ہر طرح کی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، جن میں بالکل نئی اور چمکدار مرسیڈیز کاریں بھی شامل تھیں۔ جنگی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا کہ گولہ بارود اس طرح کاروں میں ڈال کر محاذ جنگ پر پہنچایا گیا ہو۔ قوم کا جوش وخروش دیدنی تھا۔
بھارت نے دوسرا حملہ واہگہ کے راستے سے کیا، لیکن یہ حملہ بھی ناکام بنا دیا گیا۔ 9 ستمبر کی رات تک بھارتی حملہ کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ جنگ کو84 گھنٹے گزر چکے تھے۔ دنیا کے سامنے بھارت کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھل چکی تھی۔ لاہور جم خانہ میں پہنچ کر فتح کا جشن منانے کے بلند بانگ دعوے بارود کے دھوئیں میں تحلیل ہو چکے تھے۔ بی بی سی، جس نے لاہور پر بھارتی قبضے کی جھوٹی خبر نشر کی تھی، اپنی شرمندگی کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ دنیا جان چکی تھی کہ پاکستانی فوج نے اپنے سے تین گنا بڑی فوج کا حملہ پسپا کر دیا ہے اوربھارتی فوج پوری ایک کور کے ساتھ بھی بی آر بی نہر پار نہیں کر سکی۔ آرٹلری کمانڈ پوسٹ سے میجر اختر کا گھر صرف چار سو گز کے فاصلے پر تھا، لیکن ان ابتدائی 84 گھنٹوں میں انہیں کسی چیز کا ہوش نہ تھا، صرف پاکستان اور صرف پاکستان کی ان کو فکر تھی اور ان کے دل ودماغ پر ایک ہی عزم سوار تھا کہ بھارت کو ایک انچ بھی لاہور کے اندر نہیں آنے دینا، چاہے اس میں جان چلی جائے۔ ان لمحات میں ان کی آنکھوں کے سامنے 14 اگست 1947ء کے خون آشام مناظرابھرتے تو وقت کی گرد میں دبے ہوئے ان کے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے اور بھارت کے خلاف ان کا خون کھولنے لگتا تھا۔
برکی کے محاذ پر میجر اختر عبدالرحمن خان کی رجمنٹ نے اپنے حصے کا کردار ادا کر دیا تھا۔ بھارت کا بزدلانہ حملہ پسپا ہو چکا تھا۔ بریگیڈئر محمد یوسف اپنے مشاہدات پر مبنی کتاب“ خاموش مجاہد“ میں لکھتے ہیں؛ ”میجر اختر نے برکی کے محاذ پر جس طرح اپنی یونٹ کی کمان کی، وہ بھارت سے ان کی گہری کا نفرت کا بھرپور اظہار تھی۔جنرل مرزا سلم بیگ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا؛ ”1965ء کی جنگ میں بھارتی فوج کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے والے شہیدوں اور غازیوں نے عہد رفتہ کے مسلمان مجاہدوں کی یاد تازہ کر دی تھی اور ان میں اختر عبدالرحمن کا نام بھی شامل ہے۔“23 ستمبر 1965ء کو جنگ ختم ہوئی اور اسی روز اختر عبدالرحمن کو میجر کے عہدے سے ترقی دے کر لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیا، جو اس جنگ میں ان کے بھرپور کردار کا اعتراف تھا۔
بلال علی خان لودھی
14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو جنرل اختر عبدالرحمن شہید، جو اس وقت سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے، مشرقی پنجاب (بھارت) میں تعینات تھے، اور ہندووں کی متعصبانہ ذہنیت اور مکاری کو بہت قریب سے دیکھ چکے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور ہندووں کی بربریت کا بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ وہ یہ بھی جان چکے تھے کہ ہندو کبھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا ہے۔ دھوکا اور فریب اس کی فطرت میں شامل ہے۔ جب بھی اس کو موقع ملے گا، وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا۔ اس وجہ سے بھارت اور اس کی ہندو قیادت سے انہوں نے بھی اپنی نفرت کو کبھی نہیں چھپایا تھا۔ دسمبر 1964ء میں اختر عبدالرحمن 24 فیلڈ رجمنٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ ہو کر لاہور پہنچے تو اس وقت انہیں معلوم نہ تھا کہ چند مہینے بعد ستمبر 1965ء میں انہیں یہاں بھارت کے خلاف اپنا غبار نکالنے کا موقع ملنے والا ہے۔
پاکستان کو معرض وجود میں آئے18 برس ہو چکے تھے۔ اس عرصہ میں سیاسی بے اعتدالیوں کے باوجود، وہ اپنے پاوں پر کھڑا ہو چکا تھا اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن تھا۔ ظاہر ہے، بھارت کو یہ گوارا نہیں تھا اور اس نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے اور اس کی ترقی کا پہیہ جام کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ مئی 1965ء میں دسویں ڈویژن کے دستے برکی کے بارڈر پر تعینات ہوئے، تو جنرل اختر عبدالرحمن نے، جو اس وقت میجر تھے، بی آر بی نہر کے پار بنگالی گاوں میں اپنا خیمہ لگالیا۔ اگلے چارمہینے میں وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہو چکے تھے۔ 6 ستمبر کو بھارت نے حملہ کیا تو اس وقت ان کی طبیعت اگرچہ کچھ ناساز تھی، لیکن جنگی تیاری ہر طرح سے مکمل تھی۔ چنانچہ حملہ کی اطلاع ملتے ہی وہ ناسازی طبع کو بھول کر اپنے خیمے سے نکل کر دو میل جنوب میں واقع رجمنٹل کمانڈ پوسٹ پر چلے گئے،جو وہاں امردوں کے ایک چھوٹے سے باغ میں قائم کی گئی تھی۔ میجر شفقت بلوچ نے وائر لیس پر بھارتی ٹینکوں کے حرکت میں آنے کی اطلاع دی۔ دفاعی پلان یہ تھا کہ جنگ شروع ہوتے ہی اگلے مورچوں پر تعینات توپچیوں کو بی آر بی نہر کے اس طرف منتقل کر لیا جائے گا؛ چنانچہ جب میجر شفقت بلوچ اپنے جوانوں کو لے کر پیچھے ہٹ رہے تھے، تو میجر اختر نے بھی اپنے جوانوں کو طے شدہ دفاعی منصوبہ کے تحت پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ بدقسمتی سے توپ کھینچنے والی ایک گاڑی عین وقت پر خراب ہو گئی۔ میجر اختر کو اس کی اطلاع دی گئی۔ ان کا جوابی حکم تھا، کچھ بھی ہو، مقررہ وقت کے اندر اندر توپوں کی واپسی ہو گی۔ دن کا ایک بج رہا تھا اور پل کو اڑانے کے لیے فلیتے کو آگ لگائی جاچکی تھی،جب برکہ کلاں سے آخری توپ کی واپسی ہوئی۔ کچھ ہی دیر میں ایک زبردست دھماکہ ہوا اور پل کے ٹکڑے فضا میں بکھر گئے۔
7 ستمبر کی صبح میجر اختر کو ہنگامی طور پر آرٹلری بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں طلب کیا گیا اور مطلع کیا گیا کہ ان کا بریگیڈ میجر بیمار ہو گیا ہے، لہٰذا اب انہی کو ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں بھی فرائض دینا ہو ں گے۔ تازہ احکامات ملنے کے بعد میجر اختر آرٹلری کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئے کہ اطلاع آئی کہ بھارتی ٹینک برکہ کلاں کے قریب پہنچ چکے ہیں؛ یعنی وہ ہڈیارہ سیم نالہ، بی آر بی سائفن کے نیچے سے گزر کر لاہور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ میجر اختر کا کوارٹر ماسٹر بھی قریبی علاقے میں تھا۔ انہوں نے وائرلیس پر رابطہ قائم کیا اور اس اطلاع کی تصدیق چاہی۔ ایک کیپٹن فوراً اپنی بے نشان جیپ پر سائفن کے نیچے سے گزر کر موقع پر پہنچا، وہاں کوئی ٹینک نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن اسلحہ سے بھری کچھ گاڑیاں ضرور موجود تھیں۔ اس نے میجر اختر کو اس بارے میں آگاہ کر دیا۔ میجر اخترخود بھی موقع پر پہنچے اور واپسی پر توپچی کو فائر کاحکم دیا۔ یوں برکی کے محاذ پر دفاع لاہور کے لیے جو پہلی گولی چلی، وہ میجر اختر کے حکم پر چلائی گئی۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے ایک بار خود بھی اپنے رفقائے کار کو بتایاکہ ”لاہور کی طرف پیش قدمی کرتی ہوئی بھارتی فوج پر پہلی گولی ہماری یونٹ نے چلائی تھی، اور اسی لمحے مجھے یقین ہو گیا کہ ہم نے بھارتی فوج کو گردن سے دبوچ لیا ہے۔ اس کے بعد ہم نے بھارتی پیش قدمی کی رفتار کو اس وقت تک روکے رکھا، جب تک کہ ہماری فوج نے اس محاذ پر اپنی پوزیشنوں کو مستحکم نہیں کر لیا۔“
جنرل اختر عبدالرحمن خان کو اس پر بھی فخر تھا کہ1965ء کی جنگ میں برکی کے محاذ پر ان کے توپچیوں نے بہترین کارکردگی دکھائی تھی۔ فی گھنٹہ60، 65 گولوں کی عام اوسط کے بجائے ان کے توپچیوں نے فی گھنٹہ 120گولے برسائے تھے اور بعض مواقع پر اتنی شدید گولہ باری کی تھی کہ توپوں کے دہانے سرخ ہو گئے تھے۔ اس سترہ روزہ جنگ کا ایک اور واقعہ بھی ان کا یاد تھا، جب گولوں کو محاذ تک پہنچانے کے لیے گاڑیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا۔ 24 فیلڈ رجمنٹ کا اسلحہ ڈپو ہوائی اڈے کے بالکل قریب واقع تھا، لیکن شہر سے ٹرک لے کر وہاں تک پہنچانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ اس پر ہوائی اڈے کے ساونڈ سسٹم سے اعلان کرایا گیا کہ محاذ جنگ پر گولے پہنچانے کے لیے گاڑیوں کی فوری ضرورت ہے۔ اعلان ہونے کی دیر تھی کہ اعلان کردہ مقام ہر طرح کی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، جن میں بالکل نئی اور چمکدار مرسیڈیز کاریں بھی شامل تھیں۔ جنگی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا کہ گولہ بارود اس طرح کاروں میں ڈال کر محاذ جنگ پر پہنچایا گیا ہو۔ قوم کا جوش وخروش دیدنی تھا۔
بھارت نے دوسرا حملہ واہگہ کے راستے سے کیا، لیکن یہ حملہ بھی ناکام بنا دیا گیا۔ 9 ستمبر کی رات تک بھارتی حملہ کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ جنگ کو84 گھنٹے گزر چکے تھے۔ دنیا کے سامنے بھارت کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھل چکی تھی۔ لاہور جم خانہ میں پہنچ کر فتح کا جشن منانے کے بلند بانگ دعوے بارود کے دھوئیں میں تحلیل ہو چکے تھے۔ بی بی سی، جس نے لاہور پر بھارتی قبضے کی جھوٹی خبر نشر کی تھی، اپنی شرمندگی کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ دنیا جان چکی تھی کہ پاکستانی فوج نے اپنے سے تین گنا بڑی فوج کا حملہ پسپا کر دیا ہے اوربھارتی فوج پوری ایک کور کے ساتھ بھی بی آر بی نہر پار نہیں کر سکی۔ آرٹلری کمانڈ پوسٹ سے میجر اختر کا گھر صرف چار سو گز کے فاصلے پر تھا، لیکن ان ابتدائی 84 گھنٹوں میں انہیں کسی چیز کا ہوش نہ تھا، صرف پاکستان اور صرف پاکستان کی ان کو فکر تھی اور ان کے دل ودماغ پر ایک ہی عزم سوار تھا کہ بھارت کو ایک انچ بھی لاہور کے اندر نہیں آنے دینا، چاہے اس میں جان چلی جائے۔ ان لمحات میں ان کی آنکھوں کے سامنے 14 اگست 1947ء کے خون آشام مناظرابھرتے تو وقت کی گرد میں دبے ہوئے ان کے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے اور بھارت کے خلاف ان کا خون کھولنے لگتا تھا۔
برکی کے محاذ پر میجر اختر عبدالرحمن خان کی رجمنٹ نے اپنے حصے کا کردار ادا کر دیا تھا۔ بھارت کا بزدلانہ حملہ پسپا ہو چکا تھا۔ بریگیڈئر محمد یوسف اپنے مشاہدات پر مبنی کتاب“ خاموش مجاہد“ میں لکھتے ہیں؛ ”میجر اختر نے برکی کے محاذ پر جس طرح اپنی یونٹ کی کمان کی، وہ بھارت سے ان کی گہری کا نفرت کا بھرپور اظہار تھی۔جنرل مرزا سلم بیگ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا؛ ”1965ء کی جنگ میں بھارتی فوج کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے والے شہیدوں اور غازیوں نے عہد رفتہ کے مسلمان مجاہدوں کی یاد تازہ کر دی تھی اور ان میں اختر عبدالرحمن کا نام بھی شامل ہے۔“23 ستمبر 1965ء کو جنگ ختم ہوئی اور اسی روز اختر عبدالرحمن کو میجر کے عہدے سے ترقی دے کر لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیا، جو اس جنگ میں ان کے بھرپور کردار کا اعتراف تھا۔
Google Translation:
General Akhtar Abdul Rehman Shaheed and Battle of Burki 1965
Bilal Ali Khan Lodhi
When Pakistan came into being on August 14, 1947, General Akhtar Abdul Rehman Shaheed, then a Second Lieutenant, was stationed in East Punjab (India) and had witnessed the racist mentality and cunning of the Hindus. He also witnessed the mass migration and Hindu barbarism after the partition of India. He also knew that a Hindu could never be a friend of a Muslim. Deception and deception are inherent in it. Whenever he gets a chance, he will harm Muslims. That is why he never hid his hatred from India and its Hindu leadership. When Akhtar Abdul Rehman arrived in Lahore in December 1964 as the second-in-command of the 24th Field Regiment, he did not know at that time that a few months later, in September 1965, he was going to have a chance to raise his voice against India.
It had been 18 years since Pakistan came into being. During this period, despite the political instability, he was able to stand on his own two feet and, despite all obstacles, was moving very fast towards the goal of progress and prosperity. Obviously, India did not like this and planned to impose war on Pakistan and jam the wheel of its development. In May 1965, troops of the 10th Division were stationed at the Barki border, and General Akhtar Abdul Rehman, then a major, pitched his tent in a Bengali village across the BRB canal. Over the next four months, he became acquainted with the secrets of the area. When India invaded on September 6, he was in a bad mood at the time, but his war preparations were complete in every way. So as soon as they heard of the attack, they forgot their bad temper and left their tent and went to the regimental command post two miles south, which was set up in a small garden of immortals. Major Shafqat Baloch reported the movement of Indian tanks on wireless. The defense plan was that as soon as the war broke out, the artillery deployed on the front lines would be moved to this side of the BRB canal. So while Major Shafqat Baloch was retreating with his men, Major Akhtar also ordered his men to retreat as per the agreed defense plan. Unfortunately, a cannon pulling vehicle broke down just in time. Major Akhtar was informed. His response was, "Whatever happens, the cannons will be returned within the allotted time." It was one o'clock in the afternoon and the fleet had been set on fire to blow up the bridge, when the last cannon returned from Baraka Kalan. Soon there was a huge explosion and the bridge shattered.
On the morning of September, Major Akhtar was summoned to the Artillery Brigade Headquarters and informed that his Brigade Major had fallen ill, so he would now have to perform duties at the Divisional Headquarters as well. After receiving fresh orders, Major Akhtar entered the artillery brigade headquarters and was informed that Indian tanks had approached Baraka Kalan. That is, they can enter Lahore by passing under Hadiyara Sam Nala, BRB Siphon. Major Akhtar's quartermaster was also in the vicinity. He contacted Wireless and sought confirmation of the report. A captain immediately rushed to the spot in his unmarked jeep under the siphon, no tank was visible, but there were some vehicles loaded with weapons. He informed Major Akhtar about it. Major Akhtar himself also reached the spot and ordered the artilleryman to fire on his return. Thus, the first bullet fired for the defense of Lahore on the Burki front was fired on the orders of Major Akhtar. General Akhtar Abdul Rehman himself once told his colleagues, "Our unit fired the first shot at the Indian Army advancing towards Lahore, and at that moment I became convinced that we had strangled the Indian Army." ۔ "After that, we stopped the pace of Indian advance until our army consolidated its position on this front."
General Akhtar Abdul Rehman Khan was also proud of the fact that his artillery had performed well on the Burke front in the 1965 war. Instead of the usual average of 60, 65 rounds per hour, their artillerymen fired 120 rounds per hour, and on some occasions fired so heavily that the barrels turned red. He also recalled another incident in the 17-day war, when there was a shortage of vehicles to deliver ammunition to the front. The 24th Field Regiment's weapons depot was located very close to the airport, but there was no time to take a truck from the city. The airport's sound system announced that vehicles were urgently needed to deliver shells to the battlefield. It was too late to announce that there were queues of all kinds of vehicles at the announced location, including brand new and shiny Mercedes cars. Rarely in the history of war has ammunition been loaded into cars and transported to the battlefield. The excitement of the nation was palpable.
India launched a second attack via Wagah, but the attack was foiled. By the night of September 9, the Indian offensive had subsided. 84 hours had passed since the war. India's stronghold of false claims was exposed to the world. Arriving at the Lahore Gymkhana, the loud claims of celebrating the victory had dissolved into dynamite smoke. The BBC, which had broadcast false news of the Indian occupation of Lahore, was trying in vain to hide its embarrassment. The world knew that the Pakistani army had repulsed an attack three times larger than its own and the Indian army could not cross the BRB canal with a single corps. Major Akhtar's house was only 400 yards from the artillery command post, but in those first 84 hours he was unconscious, he was only concerned about Pakistan and only Pakistan and the same determination on his heart and mind. He was adamant that India should not be allowed to enter Lahore even an inch, even if it cost him his life. In those moments, if the bloody scenes of August 14, 1947 had appeared before his eyes, his wounds, buried in the dust of time, would have turned green again and his blood would have started flowing against India.
Major Akhtar Abdul Rehman Khan's regiment had played its part on the Burki front. India's cowardly attack was repulsed. Brigadier Muhammad Yusuf writes in his book "Silent Mujahid" based on his observations. "The manner in which Major Akhtar commanded his unit on the Burki front was an expression of his deep hatred of India," General Mirza Salim Baig wrote in an article. "The martyrs and invaders who crushed the abominable intentions of the Indian Army in the 1965 war were reminiscent of the late Muslim Mujahideen, including Akhtar Abdul Rehman." The war ended on September 23, 1965. On the same day, Akhtar Abdul Rehman was promoted from Major to Lieutenant Colonel, acknowledging his full role in the war.