An account of facts from history of Soviet Afghan war:
علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں فرمایا تھا!
"یہ ملک (پاکستان) اگر عالم وجود میں آگیا تو باقی ماندہ برصغیر کو شمال کی جانب سے عسکری اور نظریاتی دونوں قسم کی یلغار کے خلاف فطری اور ناقابل تسخیر دفاع فراہم کرے گا!
روس کے خلاف جہاد نے اقبال کی اس بات کی تصدیق کر دی جب بیک وقت روس کی عسکری یلغار اور سوشلسٹ اور سیکولر نظریات کو پاکستان کے ہاتھوں افغانستان میں عبرتناک شکست اٹھانا پڑی۔
جنرل ضیاء پر سب سے زیادہ تنقید اسکے روس کے خلاف جہاد کے لیے کی جاتی ہے اور دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کی جنگ لڑے۔ اس دعوے کی سچائی کو پرکھنے کی ضرورت ہے جس کے لیے کچھ حقائق کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔
افغانستان کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والی روسی فوج کی تعداد پانچ لاکھ تھی جو انکی نصف سے زائد فوج تھی اور جنگی اخراجات اتنے تھے کہ جس نے روس کی معیشت کو بالاآخر تباہ کر کے رکھ دیا پچاس ہزار کے لگھ بھگ مارے گئے اور اس سے کئی گنا زیادہ معذور ہوئے۔ حملے کے وقت سے ہی روس نے اپنی کم از کم درجن بھر ریاستوں کو داؤ پر لگا دیا تھا جو وہ بالاآخر ہار گیا یعنی وسطی ایشیاء کی ساری ریاستیں اسکے ہاتھ سے نکل گئیں۔
اتنا بڑا رسک ایک سپر پاور نے کیا محض اس لیے لیا تھا کہ حفیظ اللہ امین ، ببرک کارمل اور ترہ کئی قسم کے چند روسی کٹھ پتلیوں نے روس سے مدد طلب کی تھی اس شورش کے خلاف جو روس خود افغانستان میں پیدا کر رہا تھا؟؟؟؟؟؟
یہ دلیل ماننے کے لیے یا انتہا درجے کی حماقت کی ضرورت ہے یا جنرل ضیاء سے شدید نفرت کی!
درحقیقت روس نے چند نہایت اہم اور بڑے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے وجود کو داؤ پر لگا کر افغانستان پر حملہ کیا تھا اور وہ مقاصد افغانستان نہیں بلکہ پاکستان میں پورے ہونے تھے۔
اسکی فوری وجہ تو ایران کا اسلامی انقلاب تھا جس کے اثرات سے روس اپنی وسطی ایشیائی ریاستوں کو محفوظ کرنا چاہتا تھا لیکن اہم ترین وجہ بحرہند کا سمندر تھا جس کا خواب روس پچھلی ایک صدی سے دیکھ رہا تھا!!
روس کے پاس کوئی ایسا سمندر نہیں تھا جو سارا سال قابل استعمال رہتا۔ اسکا اپنا برفانی سمندر سال میں صرف چند مہینوں کے لیے ہی پگھلتا تھا اسکو گرم پانیوں کی ضرورت تھی اور ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان اور گوادر اس کے لیے بہترین آپشن تھا۔
پاکستان اسوقت ایک بھیانک جمہوری دور گزار کر نہ صرف معاشی طور پر تباہ تھا بلکہ عسکری طور پر بھی اسکی حالت یہ تھی کہ اس پر اسلحے کی خریداری کی پابندی عائد تھی اور اسکی فوجیں 71 کی جنگ کی وجہ سے شکست خوردہ حالت میں تھیں۔
سب سے بڑھ کر یہاں روس نے بہت عرصہ پہلے سے ہی منصوبہ بندی کے تحت ایسے گروہ تیار کر رکھے تھے جو اسکو خوش امدید کہنے کے لیے تیار بیٹھے تھے ان میں کچھ بلوچ قبائل اور صوبہ سرحد کی عوامی نیشنل پارٹی سرفہرست تھی جس کے لیڈر ماسکو جا کر تربیت حاصل کرتے تھے اور جو روس کے خلاف جہاد پر تڑپ اٹھے تھے۔
پشتونوں کی اس "خیر خواہ" جماعت نے اسوقت کبھی یہ نہیں کہا کہ پشتونوں پر روس کا یہ حملہ ناجائز ہے!!!
ایرانی انقلاب کے بعد جب امریکہ نے خلیج میں بحر ہند کی طرف اپنے چھٹے اور ساتویں بحری بیڑے کو حرکت دی تو روس کو گوادر اور وہ بندرگاہیں جن پر اسکی نظریں تھیں خطرے میں نظر آئیں اور اسنے فوری کاروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے پوری طاقت اور غیر معمولی برق رفتاری سے افغانستان پر چڑھائی کر دی اسکا خیال تھا کہ وہ نہایت کم عرصے میں افغانستان کو روندتا ہوا پاکستان تک پہنچ جائے گا۔
امریکہ کا یہ حال تھا کہ وہ افغانستان کو روس کا زیر اثر علاقہ سمجھ کر اسکو نظر انداز کر چکا تھا اور اس سلسلے میں 1976 میں ہی امریکہ کے ایک نائب وزیر خارجہ مسٹر نیوسم نے افغانستان کو روس کا زیر اثر علاقہ قرار دے کر اس سے اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ کی عدم دلچسپی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ روس نے افغانستان پر 79ء میں حملہ کیا اور امریکہ نے 83ء میں اس جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا چار سال پاکستان اپنے مجاہدین کی مدد سے اکیلے لڑتا رہا اسوقت کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے اسوقت اعتراض ذرا دوسری قسم کا تھا کہ"آپ افغانستان کی مدد کر کے ایک سپر پاور کو ناراض کر رہے ہیں۔"
ان چار سالوں میں نہایت کم وسائل اور ہتھیاروں کی موجودگی اور روسی ہیلی کاپٹروں کی تباہ کن بمباری کی بدولت پاکستان شکست کے قریب تھا جب امریکہ نے پاکستان کی روس کے خلاف مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
پہلی بار امریکہ نے محسوس کیا کہ اگر پاکستان کا ساتھ دیا جائے تو اسکا ایک بڑا دشمن شکست کھا سکتا ہے۔
" یہ پاکستان کی جنگ تھی جس میں امریکہ نے ہمارا آدھی جنگ گزرنے کے بعد ساتھ دیا تھا نہ کہ امریکہ کی جنگ جس میں ہم نے انکا ساتھ دیا بات صرف یہ تھی کہ ہمارا دشمن مشترک تھا۔ ان چار سالوں میں پاکستان کو کوئی امداد ،کوئی ایک ڈالر یا ایک گولی بھی نہیں ملی تھی اور اکیلے صرف اپنی ہمت پر لڑتا رہا۔
یہ جنگ ہماری اپنی ضرورت ہونے کے باوجود یہ جنرل ضیاء کا کمال تھا کہ اسنے اپنی شرائط پر امریکی اتحاد قبول کیا حالانکہ ہم جنگ ہارنے والے تھے۔ ان شرائط کا ذکر اگلی پوسٹ میں ہوگا انشاءاللہ!
بہر حال امریکہ کے دئیے گئے سٹنگرز کی مدد سے مجاہدین نے روسی ہیلی کاپٹر گرانے شروع کیے اور پہلی بار مجاہدین کو کھلا آسمان دستیاب ہوا تو انہوں نے روسی فوجوں کا عبرتناک حشر کر دیا۔
تبلیغی جماعت کو اکثر لوگ ایک غیر متنازعہ اور مخلص جماعت سمجھتے ہیں اور یقیناً انکی رائے یا طرز عمل قابل احترام ہے۔ افغان جہاد کے کچھ ہی عرصے بعد پشاور کے تبلیغی مرکز میں ایسی جماعتوں کی تشکیل کی گئی جن کو بتا دیا گیا تھا کہ انکی افغانستان تشکیل ہوگی اور واپسی مشکوک ہوگی افغانستان میں انکا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ وہاں لڑنے والے مجاہدین کی حوصلہ افرائی کرتے رہیں کہ وہ دشمن کے خلاف ڈٹے رہیں۔ (اس بات کی پشاور مرکز سے تصدیق کی جا سکتی ہے)
اگر وہ امریکہ کی جنگ تھی تب تبلیغی جماعت جیسی مخلص جماعت بھی شک کے دائرے میں آتی ہے۔
آج اس جنگ پر اعتراض کرنے والے نام نہاد دانشور یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان روس کو افغانستان میں نہ روکتا تو کیا کرتا؟
کیا یہیں بیٹھ کر انکے پاکستان پر حملے کا انتظار کرتا رہتا ؟؟
ان تمام حقائق کو سامنے رکھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ جنرل ضیاءالحق کی جراءت اور حب الوطنی تھی جس نے مجاہدانہ جذبے سے سرشار ہو کر نہ صرف روس کے پاکستان کی سمت بڑھتے ہوئے قدموں کو روکا بلکہ افغانستان سمیت وسطی ایشیاء کے تمام مسلمان ممالک کو بھی اس سے آزادی دلوائی!!
" یہ ہماری اپنی جنگ تھی جو ہم نے جیتی "
تحریر شاہد خان