What's new

Urdu Desinged Poetry

کوئی حسرت بھی نہیں، کوئی تمنا بھی نہیں

دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں

روٹھ کر بیٹھ گئی ہمت دشوار پسند

راہ میں اب کوئی جلتا ہوا صحرا بھی نہیں

آگے کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے ہنس دیتے تھے

اب یہ عالم ہے کہ کوئی دیکھنے والا بھی نہیں

درد وہ آگ کہ بجھتی نہیں جلتی بھی نہیں

یاد وہ زخم کہ بھرتا نہیں، رستا بھی نہیں

بادباں کھول کے بیٹھے ہیں سفینوں والے

پار اترنے کے لئے ہلکا سا جھونکا بھی نہیں

(احمد راہی)

1.jpg

غم عشق کتنا عجیب ہے

یہ جنون سے کتنا قریب ہے

کبھی اشک پلکوں پہ رک گئے

کبھی پورا دریا بہا دیا

(فیض احمد فیض)

2.jpg
 
اگرچہ خوف کے عالم میں خواب ختم ہوا

لگا کہ روح پہ طاری عذاب ختم ہوا

یہ ملنا اور بچھڑنا ہے پانیوں کی طرح

کہ ایک لہر اٹھی نقش آب ختم ہوا

کسی کو پڑھ لیا ایک ہی نشست میں ہم نے

کوئی ضخیم تھا اور باب باب ختم ہوا

اگرچہ مرگ وفا ایک سانحہ تھا مگر

میں خوش ہوا کہ چلو یہ سراب ختم ہوا

مہک کے ساتھ ہی رنگت بھی اڑ گئی خالد

بچھڑ کے شاخ سے خود بھی گلاب ختم ہوا

(خالد شریف)

1.jpg

امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجئے ناصر

جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے

(ناصر کاظمی)

2.jpg
 
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

ڈال کر خاک مرے خوں پہ قاتل نے کہا

کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ مٹا بھی نہ سکوں

ضبط کمبخت نے اور آکے گلا گھونٹا ہے

کہ اسے حال سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں

اس کے پہلو میں جو لے جا کے سلادوں دل کو

نیند ایسی اسے آئے کہ جگا بھی نہ سکوں

نقشِ پا دیکھ تو لوں لاکھ کروں گا سجدے

سر مرا عرش نہیں ہے کہ جھکا بھی نہ سکوں

اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے مرے زانوں پر

اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں

(امیر مینائی)

1.jpg

.................
کھِلتا تھا کبھی جس میں تمنا کا شگوفہ

کھڑکی وہ بڑی دیر سے ویران پڑی ہے

(منیر نیازی)

2.jpg
 
مدت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی

ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی

کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال

باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی

کچھ کہتے آکے ہم تو سنا کرتے وے خموش

اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی

نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی

اب تو خراب ہوکر خرابات بھی گئی

عمامہ جاجماز گئے لے کے مغ بچے

واعظ کی اب لباسِ کرامات بھی گئی

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

(میر تقی میر)
1.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا

تڑپ جا پیچ کھا کھا کر بدل جا

نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج

ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا

(علامہ اقبال)
2.jpg
 
کس نوازش کی ہے غماز کوئی کیا جانے

پاس رہ کر بھی وہ کچھ دور ہی رہنے کی ادا

کس رفاقت کا ہے آغاز کوئی کیا جانے

اتنا مانوس ہے اس کا ہر انداز کہ دل

اس کی ہر بات کا افسانہ بنالیتا ہے

اس کے ترشے ہوئے پیکر سے چرا کر کچھ رنگ

اپنے خوابوں کا صنم خانہ سجا لیتا ہے

جانے اس حسن تصور کی حقیقت کیا ہے

جانے ان خوابوں کی قسمت میں سحر ہے کہ نہیں

جانے وہ کون ہے میں نے اسے سمجھا کیا ہے

جانے اس کو بھی میرے دل کی خبر ہے کہ نہیں

(حمایت علی شاعر)
1.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ملا ہے تو اب یہ غم ہے

پیار زیادہ ہے زندگی کم ہے

(پروین شاکر)

2.jpg
 
تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے

تجھے الگ سوچوں تو عجیب لگتا ہے

جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار

وہ شخص مجھ کو بہت بدنصیب لگتا ہے

حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا

نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے

یہ دوستی، یہ مراسم، یہ چاہتیں، یہ خلوص

کبھی کبھی مجھے سب عجیب لگتا ہے

افق پہ دور چمکتا ہوا کوئی تارہ

مجھے چراغ دیارِ حبیب لگتا ہے

(جاں نثار اختر)

1.jpg

.....................
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے

(مرزا غالب)

2.jpg
 
اداس شامیں، اجاڑ رستے، کبھی بلائیں تو لوٹ آنا

کسی کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب آئیں تو لوٹ آنا

ابھی نئی وادیوں، نئے منظروں میں رہ لو مگر میری جاں

یہ سارے اک ایک کرکے جب تم کو چھوڑ جائیں تو لوٹ آنا

نئے زمانوں کا کرب اوڑھے ضعیف لمحے، نڈھال یادیں

تمہارے خوابوں کے بند کمروں میں لوٹ آئیں تو لوٹ آنا

اگر اندھیروں میں چھوڑ کر تم کو بھول جائیں تمہارے ساتھی

اور اپنی خاطر ہی اپنے اپنے دیئے جلائیں تو لوٹ آنا

مری وہ باتیں تو جن پہ بے اختیار ہنستا تھا کھلکھلا کر

بچھڑنے والے مری وہ باتیں کبھی رلائیں تو لوٹ آنا

(فرحت عباس)

1.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

(امیر مینائی)

2.jpg
 
وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلادیں

محبت کریں خوش رہیں مسکرادیں

غرور اور ہمارا غرور محبت

مہ و مہر کو ان کے در پر جھکادیں

جوانی ہو گر جاودانی تو یارب

تری سادہ دنیا کو جنت بنادیں

شب وصل کی بے خودی چھارہی ہے

کہو تو ستاروں کی شمعیں بجھادیں

بہاریں سمٹ آئیں کھِل جائیں کلیاں

جو ہم تم چمن میں کبھی مسکرادیں

وہ آئیں گے آج اے بہار محبت

ستاروں کے بستر پر کلیاں بچھادیں

بناتا ہے منہ تلخی مے سے زاہد

تجھے باغ رضواں سے کوثر منگادیں

تم افسانہ قیس کیا پوچھتے ہو

آؤ ہم تم کو لیلیٰ بنادیں

انہیں اپنی صورت پہ یوں ناز کب تھا

مرے عشق رسوا کو اختر دعا دیں

(اختر شیرانی)

5.jpg


اوجھل سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں
درپیش صبح و شام یہی کشمکش ہے اب
اُس کا بنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جتنا برا سمجھتے ہو اتنا نہیں ہوں میں
اس طرح پھیر پھیر کے باتیں نہ کیجئے
لہجے کا رخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
امجد تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
گرنے کا ایسا خوف تھا ٹھہرا نہیں ہوں میں

(امجد اسلام امجد)
1.jpg
 
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وہ قتل کرکے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں

یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا

وفا کریں گے، نبھاہیں گے، بات مانیں گے

تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا

مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا

نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت

تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا

تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق

کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا

ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں

سنا جو تونے بہ دل وہ پیام کس کا تھا

اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں

لحاظ آپ کو وقت خرام کس کا تھا

گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں

خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا

ہمیں تو حضرت واعظ کی ضد نے پلوائی

یہاں ارادۂ شرب مدام کس کا تھا

اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے

تباہ حال بہت زیر بام کس کا تھا

وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بے وفا جانا

خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا

انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور

جو لطف عام وہ کرتے یہ نام کس کا تھا

ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا

یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

(داغ دہلوی)
1.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ بچھڑ جائیں ہم

دو قدم اور مرے ساتھ چلو

(ناصر کاظمی)
2.jpg
 
اب پھول چنیں گے کیا چمن سے

تو مجھ سے خفا، میں اپنے من سے

وہ وقت کہ پہلی بار دل نے

دیکھا تھا تجھے بڑی لگن سے

جب چاند کی اشرفی گری تھی

اک رات کی طشتری میں چھن سے

چہرے پہ مرے جو روشنی تھی

تھی تیری نگاہ کی کرن سے

خوشبو مجھے آرہی تھی تیری

اپنے ہی لباس اور تن سے

رہتے تھے ہم ایک دوسرے میں

سرشار سے اور مگن مگن سے

یہ زندگی اب گزر رہی ہے

کن زرد اداسیوں کے بن سے

کیا عشق تھا، جس کے قصے اب تک

دہراتے ہیں لوگ اک جلن سے

(ثمینہ راجا)
1.jpg

میں اپنے دل کی سنوں یا کہ اس زمانے کی

یہاں ہے رسم محبت نشاں مٹانے کی

میں تم سے مل کے بہت ہی اداس رہتی ہوں

سزا ملی ہے مجھے تم سے دل لگانے کی

(شگفتہ شفیق)

2.jpg
 
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

زمانے بھر کے غم یا ایک تیرا غم؟

یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تیری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

حفیظ ان سے میں جتنا بدگماں ہوں

وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے

(حفیظ ہوشیار پوری)

1.jpg

................

مار دو جان سے کوئی غم نہیں، پر یہ سزا مت دو

کہ ہمارے سامنے بیٹھ کر ہم کو تم اجنبی سے لگو

(پروین شاکر)

2.jpg
 
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے کہ جس کو چھپا رہے ہو؟

آنکھوں میں نمی، ہنسی لبوں پر

کیا حال ہے، کیا دکھا رہے ہو؟

بن جائیں گے زہر پیتے پیتے

یہ اشک جو پیتے جارہے ہو

جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے

تم کیوں انہیں چھیڑ جارہے ہو؟

ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر

ریکھاؤں سے مات کھارہے ہو

(کیفی اعظمی)

1.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
سنا ہے اکیلے ہو تم آج کل

اداسی کی برکھا برس رہی ہے

سارے موقع پرست ہوئے رخصت

سوچتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔

خزاں کے موقع پر

اک ایسا کارڈ بھیجوں میں تم کو

جس کو دیکھتے ہی تمہاری آنکھیں جگمگا اٹھیں

آس و امید بر آئے

لمحہ بھر کو ہی سہی

تم مسکرادو پیار سے ۔۔۔۔۔۔

(شگفتہ شفیق)​
2.jpg
 
سر جھکاؤگے تو پتھر دیوتا ہوجائے گا

اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہوجائے گا

ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے

جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہوجائے گا

کتنی سچائی سے مجھ سے زندگی نے کہہ دیا

تو نہیں میرا تو کوئی دوسرا ہوجائے گا

میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو

زہر بھی اس میں اگر ہوگا دوا ہوجائے گا

سب اسی کے ہیں ہوا، خوشبو، زمین و آسماں

میں جہاں بھی جاؤں گا اس کو پتہ ہوجائے گا

(بشیر بدر)

1.jpg


۔۔۔۔۔۔۔۔
جو مڑ کے پیچھے کبھی ہم نے دیکھا

تو یادوں کے جھروکوں سے

اجلی اجلی روشن صبحیں

ساری پیاری پیاری شامیں

پیار میں ڈوبی سیاہ راتیں

اور ان سب کے ہو محور تم

نام تمہارے جیون میرا

میرا ہو بس زیور تم

(شگفتہ شفیق)

2.jpg
 
دھڑکن کو تیری یاد سے تحریک مل رہی ہے

چاہت اگر سزا ہے، ہمیں ٹھیک مل رہی ہے

اس در سے جو بھی لوٹ کے آیا تو رو پڑا وہ

لگتا ہے آنسوؤں کی وہاں بھیک مل رہی ہے

ہم نے تو پل صراط کے بارے میں سن رکھا تھا

ہر راہ بال سے ہمیں باریک مل رہی ہے

شاید کسی بھی لمحے مقابل ہوں اس کی گلیاں

جو دور کی صدا تھی وہ نزدیک مل رہی ہے

جو جگمگا اٹھی تھی تجھے دیکھ کر خوشی سے

مدت سے راہ وہ ہمیں تاریک مل رہی ہے

(فاخرہ بتول)
1.jpg


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کیسا نشہ ہے، میں کس عجب خمار میں ہوں

تو آکے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

(منیر نیازی)
2.jpg
 

Country Latest Posts

Back
Top Bottom