What's new

Turkish language mother of Urdu : اردو کی ماں ترک زبان: اگر یقین نہ آئے تو آزما لیجیے

HAIDER

ELITE MEMBER
Joined
May 21, 2006
Messages
33,771
Reaction score
14
Country
Pakistan
Location
Pakistan
2018



4


میں نے ترکی کا سفر 4 مرتبہ کیا ہے۔ 1995ء، 2007ء، 2010ء اور 2015ء۔ یعنی 20 سال میں چار سفر۔ ترک سیاسی تاریخ کے یہ 20 سال اس حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ اس پورے عرصے میں ترک سیاست کا انداز ماضی کی روایات کے بالکل برعکس ہوگیا اور ملکی قیادت بلند ایجیوت، تانسو چلر اور سلیمان دیمرل وغیرہ سے ہوتی ہوئی نجم الدین اربکان اور رجب طیب اردوان جیسی شخصیات کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی۔

ترکی کا پہلا سفر میں نے 1995ء میں کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب نہ انٹرنیٹ کا استعمال عام تھا، نہ ای میل تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا۔ جو دیکھا حسرت سے دیکھا، جس شے پر نگاہ ڈالی، آخری نگاہ سمجھ کر ڈالی اور جس سے بھی دوستی ہوئی، اس سے جدا ہونے کو زندگی بھر کی جدائی سمجھا۔ ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘ کا محاورہ اس دور کا صحیح عکاس تھا۔ آج کل کی طرح نہیں کہ کسی سے سرِ راہ ہلکی پھلکی ہیلو ہائے کیا ہوئی، رات کو وہ اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ فیس بک پر آن حاضر ہوا اور محبتوں اور دوستیوں کی نئی نویلی داستانیں رقم ہونا شروع ہوگئیں۔

میرے دل میں ترکی دیکھنے کی خواہش پہلی مرتبہ کب پیدا ہوئی، یہ میں یقین کے ساتھ تو نہیں بتاسکتا، البتہ یہ یاد ہے کہ بچپن سے نکل کر لڑکپن کی حدود میں داخل ہوا تو بچوں کی کتابوں اور رسالوں سے تعلق رفتہ رفتہ کم ہوا اور ادبی کتابوں کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ سب رنگ، اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ ہمارے گھر ان دنوں باقاعدگی سے آتے تھے۔ اعلیٰ ادب پیش کرنے والے ان رسالوں کے مطالعے نے ذہن کو سنجیدہ ادب کی طرف مائل کردیا۔

70ء کے عشرے میں سیارہ ڈائجسٹ میں بہت عمدہ سفرنامے شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک مستنصر حسین تارڑ کا ’نکلے تیری تلاش میں‘ تھا اور دوسرا محمد اختر ممونکا کا ’پیرس 205 کلو میٹر‘ تھا، یہ پاکستان سے یورپ تک کے زمینی سفر پر مشتمل بہت اعلیٰ پائے کے سیاحت نامے تھے۔

میں نے مستنصر حسین تارڑ کی سب سے پہلی تحریر ’الپس کے آسیب زدہ قصبے‘ سیارہ ڈائجسٹ میں ہی پڑھی۔ یہ ان کے یورپی سفرنامے کا ایک باب تھا۔ یقین جانیں کہ اس سفری قصے کو پڑھ کر میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا اور آج بھی ان صفحات کا عکس میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ پھر کچھ ہی دن بعد محمد اختر ممونکا کا سفرنامہ پڑھا تو دل اسی طرح کے سفر کرنے کے لیے بے چین ہوگیا۔ چنانچہ میں نے جو اولین ادبی کتابیں خریدیں، ان میں تارڑ صاحب کا سفرنامہ ‘نکلے تیری تلاش میں‘ بھی شامل تھا۔

تارڑ صاحب کے اس سفرنامے کا سب سے طویل حصہ ترکی کے سفر پر مشتمل ہے اور ان کے قلم سے نکلے ترکی کے اس سیاحت نامے نے میرے دل میں ترکی اور استنبول سے محبت کی جو جوت جگائی، وہ آج تک روشن ہے۔ میں تادمِ تحریر ترکی کے 4 سفر کرچکا ہوں، لیکن ترکی سے لگاؤ میں کمی کے بجائے مستقل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

جہاں تک میری بیرونِ ملک سیاحتوں کا تعلق ہے، تو میرا سب سے پہلا غیر ملکی سفر چین کا تھا جو میں نے 1987ء میں شاہراہِ قراقرم سے بائی روڈ سنکیانگ کے پہلے شہر کاشغر تک کیا تھا۔ 1992ء میں دوسرا غیر ملکی سفر ایران کا تھا۔ یہ بھی بائی روڈ صوبہ بلوچستان کے راستے تفتان، زاہدان اور اصفہان سے ہوتے ہوئے بحیرہ کیسپیئن کے ساحلوں تک کا سفر تھا۔

میں ترکی کا سفر سب سے پہلے کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کا موقع مجھے 1995ء میں ملا۔ بات اصل میں یہ بھی ہے کہ چین اور ایران کے سفر میں نے بائی روڈ کیے تھے، جو خاصے کم خرچ تھے۔ چونکہ اس وقت میں اپنے طالب علمی کے ادوار میں تھا، لہٰذا صرف اسی طرح کے سفر کرنے کی سکت رکھتا تھا جو کم خرچ ہوں۔ جب برسرِ روزگار ہوا اور 4 پیسے جیب میں آئے تو ’بائی ایئر‘ سفر بھی ممکن محسوس ہونے لگے اور پھر سب سے پہلے میں نے جس سفر کا ارادہ کیا اس کی منزل ترکی تھی۔
5b349cdad9d09.jpg

1995ء میں ترکی کا سفر—تصویر عبیداللہ کیہر


ترکی کے دوسرے سفر کا موقع مجھے 12 سال بعد 2007ء میں ملا۔ اس وقت ترکی میں عدالت پارٹی کے رجب طیب اردان کی حکومت کا پہلا دور چل رہا تھا۔ اس سفر میں مجھے ترکی کے طول و عرض میں ایک بھرپور سفر کا موقع ملا۔ میں نے ترکی کے شہروں استنبول، ایدرنہ، بورصہ، قونیہ، مرسین، چناق قلعہ اور گیلی بولو میں سیر و سیاحت کی اور ترکی کے طول و ارض میں تقریباً 12 ہزار کلو میٹر سفر کیا۔ پاکستان واپس آکر میں نے ایک اخبار میں اس سفر کا مختصر رپورتاژ تو ضرور تحریر کیا لیکن دل میں بہت کچھ تھا جسے نوکِ قلم پر نہ لاسکا۔

ترکی کے ان دونوں اسفار میں ایک تکلیف دہ قدر مشترک بات یہ تھی کہ وہ سفر میں نے تقریباً گونگوں کی طرح کیے۔ ترکی کا مجھے ایک حرف پلے نہ پڑتا تھا اور انگلش ترکوں کو ذرا بھی نہیں آتی۔ چنانچہ یہ سیاحتیں اشاروں اشاروں میں ہی کی گئیں۔ میں ترکی جانے سے پہلے ایران کا سفر بھی کرچکا تھا لیکن وہاں تو 2 سے 4 دن بعد ہی ٹوٹی پھوٹی فارسی بولنا شروع کردی تھی،ٍ یوں وہاں نہ صرف یہ کہ اجنبیت میں کمی آئی بلکہ کئی اچھے اور مخلص ایرانی دوست بھی بن گئے جو آج تک رابطے میں ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ تھی کہ ترکی میں اچھے اور مخلص لوگ، خصوصاً پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرنے والے بے شمار ہیں لیکن صرف زبان نہ آنے کی وجہ سے ان میں سے کسی کے ساتھ بھی تعلق پیدا نہ ہوسکا۔ اس محرومی کو دور کرنے کے لیے میں نے حتی الامکان کوشش کی کہ کسی طرح کچھ نہ کچھ ترکی زبان ضرور سیکھ لوں۔
5b349ce33f10b.jpg

2007ء میں کھینچی گئی نیلی مسجد کی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر


میں 2003ء میں اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) میں بھی گیا۔ وہاں ترکی زبان کے کورس کے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ اس سال ترکی زبان سیکھنے کا خواہش مند میں اکیلا ہی آیا تھا، چنانچہ وہ مجھ اکلوتے شاگرد کے لیے ترکی کلاسز کا انعقاد نہیں کرسکتے تھے۔ مجبور ہوکر جب میں نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا تو یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ بنیادی ترکی سیکھنے کے لیے یہاں خاصی آسانیاں موجود تھیں۔ میرے پاس ترکی سے خریدی ہوئی زبان سیکھنے کے لیے چند کتابیں بھی موجود تھیں، لہٰذا ان کتابوں اور انٹرنیٹ کی مدد سے میں نے ترکی زبان کا قفل توڑا اور معمولی استعداد پیدا کی۔ پھر ’گوگل ٹرانسلیٹ‘ کے پروگرام نے بھی خاصی مدد کی۔

انہی دنوں انٹرنیٹ پر فیس بک کی سوشل نیٹ ورکنگ کا دنیا میں وہ غلغلہ اٹھا کہ لگتا تھا کہ کچھ دنوں میں انٹرنیٹ کا نام ہی فیس بک ہوجائے گا۔ میں بھی فیس بک کے اس میدانِ کارزار میں کود پڑا۔ فیس بک پر جہاں میرے ہزاروں پاکستانی دوست بنے، وہیں میں نے 30 سے 40 ترک دوست بھی بنا ڈالے، جن کے ساتھ میں اپنی معمولی ترکی شدھ بدھ اور گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے ترکی زبان میں گفتگو کرتا رہا اور وہ رفتہ رفتہ میرے گہرے دوستوں میں شامل ہوگئے۔

ان ترک دوستوں نے مجھے خاصی توجہ اور وقت دیا اور یوں میری ترکی زبان کی استعداد روز بہ روز بڑھتی چلی گئی۔ اب جبکہ ترکی زبان سے میری اجنبیت بھی دور ہوچکی تھی اور میں کچھ ترک دوست بھی بنا چکا تھا چنانچہ فطری طور پر دل میں ایک بار پھر ترکی جانے کی شدید خواہش پیدا ہورہی تھی سو 2010ء میں، مَیں نے ترکی کا تیسرا سفر کیا تو واپسی پر کچھ ہمت ہوئی اور میں نے ترکی پر ایک تفصیلی کتاب لکھنے کا آغاز کردیا۔ اس کتاب میں، مَیں نے اپنی تینوں سیاحتوں کی روداد کے ساتھ ساتھ ترکی کی تاریخ و ثقافت اور تہذیبی و سیاسی کشمکش کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ میری کتاب ’یارِ مَن ترکی‘ پہلے کراچی کے ایک اخبار میں قسط وار شائع ہوئی اور بالآخر 2015ء کے شروع میں کتابی صورت میں چَھپ کر مارکیٹ میں آگئی۔
5b349ce00474a.jpg

2010ء میں باسفورس کی کھینچی گئی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر

5b349cdf763ab.jpg

2010ء میں باسفورس کی کھینچی گئی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر


ترکی میں سیاحت کے لیے ترکی زبان کا آنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کو کسی کی زبان نہ آتی ہو، تب تک آپ اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں جان سکتے۔ ترک چونکہ ہمیشہ سے آزاد رہے ہیں اور انہوں نے ہماری طرح غلامی کے مزے نہیں چکھے، اس لیے انہیں انگریزی بالکل نہیں آتی اور نہ ہی وہ اس کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ ترکوں میں عربی بولنے اور سمجھنے والے پھر بھی مل جاتے ہیں کیونکہ ترک جزیرہ عرب پربھی حکمرانی کرچکے ہیں۔

ہٹلر سے دوستی اور جرمنوں میں اثرو رسوخ کے باعث جرمن زبان سمجھنے والے بھی موجود ہیں لیکن انگریزی سمجھنے والے ترک آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ترک اردو زبان بھی نہیں سمجھتے، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ترکی اور اردو زبان میں کم از کم 9 ہزار الفاظ مشترک ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ترکی میں کوئی بات کرنی ہو تو پورے پورے جملے کی جگہ آپ صرف اردو کے الفاظ بول کر بھی کام چلاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کو کسی دکان سے کوئی چیز خریدنی ہو، تو آپ How Much یا What is the price کہنے کے بجائے صرف اردو کا ایک لفظ بول دیجیے ’قیمت‘۔ دکاندار آپ کی بات فوراً سمجھ جائے گا اور آپ کو چیز کی قیمت بتا دے گا۔

اس حوالے سے بہت ہی دلچسپ قصہ یاد آگیا. میں ایک بازار سے گزر رہا تھا تو اچانک دکان پر کچھ اچھا سامان نظر آیا اور میں نے دکاندار سے پوچھا کہ ?What is the price

لیکن مجال ہے کہ وہ میری بات کو سمجھ جائے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں کسی طرح اپنی بات سمجھا سکوں لیکن میں ناکام رہا، جس پر تنگ آکر میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یار اب اس کی قیمت کیسے معلوم کی جائے۔ بس میری یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ فوراً دکاندار نے مجھے سے پوچھا قیمت؟ اور مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔

یوں میرے علم میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ ترکی میں بھی قیمت کو قیمت ہی کہا جاتا ہے۔
5b349ce1c0d01.jpg

2015ء میں ترکی کی سیر—تصویر عبیداللہ کیہر


میں نے اپنی ترک سیاحتوں کے لیے سب سے پہلے عام استعمال کے وہ ترکی الفاظ اور جملے اردو رسم الخط میں تیار کرنا چاہے کہ جن کی کسی سیاح کو ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو متوجہ کرنے کے لیے ’سنیے‘ یا ’ہیلو‘ کہا جاتا ہے تو ترکی میں اس کے لیے ’مرحبا‘ کہتے ہیں۔ مرحبا کہہ کر آپ کسی بھی ترک کی فوری توجہ حاصل کرسکتے ہیں یا پھر السلام علیکم کہہ کر بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔ مزید آگے بڑھا تو یہ جملے سامنے آئے:

اردو: آپ کا نام کیا ہے؟ ترکی: آدِ نیز نے؟ Adınız ne

اردو: میرا نام عبید ہے۔ ترکی: آدِم عبید Adım Obaid

اردو: کیا حال ہیں؟ ترکی: ناسِل سی نیز Nasılsıniz

اردو: میں ٹھیک ہوں۔ ترکی: ای یی یم İyiyim

اردو: ہاں۔ ترکی: ایویت Evet

اردو: نہیں۔ ترکی: ہائر Hayır

اردو: کیا۔ ترکی: نے Ne

اردو: کیوں۔ ترکی: نیدن Neden

اردو: کیسے۔ ترکی: ناسل Nasıl

اردو: کب۔ ترکی: نے زمان Ne zaman

اردو: کہاں۔ ترکی: نیردا Nerede

اردو: کون۔ ترکی: کِم Kim

اردو: کتنا۔ ترکی: کچ Keç

اردو: چاہیے۔ ترکی: اِستیورم İstiyorum

اردو: یہ۔ ترکی: بُو Bu

اردو: وہ۔ ترکی: سُو Su

اردو: ٹھنڈا۔ ترکی: سوغق Suğuk

اردو: گرم۔ ترکی: سجاک Sıcak

اردو: چھوٹا۔ ترکی: کوچُک Küçük

اردو: بڑا۔ ترکی: بویوک Büyük

اردو: ہے۔ ترکی: وَر Ver

اردو: نہیں ہے۔ ترکی: یوق Yok

اردو: خوبصورت۔ ترکی: گُزل Güzel

اردو: بدصورت۔ ترکی: چرکن Çirkin

اردو: سستا۔ ترکی: عجز Ucuz

اردو: مہنگا۔ ترکی: پہالی Pahalı

اردو: رقم۔ ترکی: پارہ Para

اردو: سڑک۔ ترکی: جادہ Cadde

اردو: نقشہ۔ ترکی: خریطہ Harita

اردو: ہوائی جہاز۔ ترکی: اُچاک Uçak

اردو: ایئرپورٹ۔ ترکی: ہوا لانی Havalanı

اردو: کار۔ ترکی: عرابہ Araba

اردو: بس۔ ترکی: آتو بُس Otobüs

اردو: دِن۔ ترکی: گُن Gün

اردو: رات۔ ترکی: گاجہ Gece

اردو: صبح۔ ترکی: آئدن Aydın

اردو: شام۔ ترکی: اکشام Akşam

اردو: آج۔ ترکی: بوُگن Bugün

اردو: کل۔ ترکی: یارِن Yarın

اردو: میں۔ ترکی: بین Ben

اردو: ہم۔ ترکی: بِز Biz

اردو: تم۔ ترکی: سین Sen

اردو: مرد۔ ترکی: ارکک Erkek

اردو: عورت۔ ترکی: کادن Kadın

اردو: لڑکا۔ ترکی: اوغلان Oğlan

اردو: لڑکی۔ ترکی: قز Kız

اردو: بچہ۔ ترکی: چوجک Cücük

اردو: ماں۔ ترکی: انّا Anne

اردو: باپ۔ ترکی: بابا Baba

اردو: بھائی۔ ترکی: قاردیش Kardeş

اردو: بہن۔ ترکی: قِز قردیش Kız Kardeş

اردو: روٹی۔ ترکی: ایکمیک Ekmek

اردو: گوشت۔ ترکی: ایت Et

اردو: مچھلی۔ ترکی: بالِک Balık

اردو: مرغی۔ ترکی: تاوُک Tavuk

اردو: سبزی۔ ترکی: سبزہ Sebze

اردو: پھل۔ ترکی: میوہ Meyve

اردو: میٹھا۔ ترکی: تاتلہ Tatlı

اردو: خدا حافظ۔ ترکی: گُلے گُلے Güle güle

اردو: اللہ حافظ۔ ترکی: اللہ اسما رالدک Allah ısmarladık

ان الفاظ اور جملوں کے علاوہ گنتی، دنوں اور مہینوں کے نام یاد کرنا بھی ضروری تھے۔ وہ بھی یاد کرلیے۔ دنوں کے نام ہیں:

  • جمعہ (جمعہ) Cuma،
  • ہفتہ (جمارتیسی) Cumartesi،
  • اتوار (پازار) Pazar،
  • پیر (پازارتیسی) Pazartesi،
  • منگل (سالہ) Salı،
  • بدھ (چارشنبہ) Çarşamba اور
  • جمعرات (پرشنبہ) Perşamba۔
مہینوں کے نام ہیں:

  • جنوری (اوجاک) Ocak،
  • فروری (شوبات) şubat،
  • مارچ (مارد) Mart،
  • اپریل (نیساں) Nisan،
  • مئی (مائیس) Mayıs،
  • جون (حاضران) Haziran،
  • جولائی (تموز) Temmuz،
  • اگست (اغستوس) Ağustos،
  • ستمبر (آئلول) Eylül،
  • اکتوبر (ایکِم) Ekim،
  • نومبر (قاسم) Kasım اور
  • دسمبر (آرالک) Aralık۔
سیاح کے لیے گنتی آنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ترکی گنتی یوں ہے:

  • ایک (بِر) Bir،
  • دو (اکّی) İki،
  • تین (اُچ) Üç،
  • چار (دورت) Dört،
  • پانچ (بیش) Beş،
  • چھ (التہ) Elte،
  • سات (یدی) Yedi،
  • آٹھ (سیکز) Serkis،
  • نو (دوکز) Dokus،
  • دس (اون) On،
  • بیس (یرمی) Yirmi،
  • تیس (اوتوز) Otuz،
  • چالیس (کِرک)Kırk،
  • پچاس (ایلی)Elli،
  • ساٹھ (آلتمش) Altmiş،
  • ستر (یاتمش) Yetmiş،
  • اسی (سیکسن) Seksen،
  • نوے (دوکسن) Doksan،
  • سو (یوز)Yüz،
  • ہزار (بِن) Bin اور
  • دس لاکھ (ملیون) Milyon
یہ سارے الفاظ اور جملے مجھے خاص طور پر اردو رسم الخط میں اس لیے تیار کرنے پڑے کہ ترکی کے جدید رومن رسم الخط کو پڑھنا اور سمجھ کر درست ادائیگی کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ کئی رومن حروف ایسے ہیں جن کی آواز ہم انگلش اصول کے مطابق ادا کرتے ہیں، لیکن ترکی میں پہنچ کر ان کی آواز بدل جاتی ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ رومن حرف ’C‘ کا ہے۔ ہم عام طور سے اسے ’ک (کاف) یا س (سین)‘ کی آواز سے ادا کرتے ہیں، لیکن ترکی میں یہ ’ج (جیم)‘ کی آواز دیتا ہے جبکہ ترکی کے C کے لیے جیم کی ادائیگی میں چونکہ لوگ اکثر غلطی کرجاتے ہیں اس لیے وہ لفظ بے معنی ہوجاتا ہے۔

مثلاً ترکی کے وزیرِاعظم کا نام رجب طیب اردوان (Recep Tayyip Erdogan) ہے۔ اب اگر ہم یہاں لفظ Recep کو ’رجب‘ کے بجائے ’رسپ‘ پڑھیں تو یہ بے مطلب ہوجائے گا۔ اسی طرح کی ایک مثال لفظ ’جمہوریت‘ ہے جسے رومن ترکی میں Cumhuriyet لکھا جاتا ہے۔ اب ہم اسے جمہوریت کی بجائے ’کمہوریت‘ پڑھیں تو کیسا رہے گا!

’ج‘ کے علاوہ جدید ترکی زبان میں ’ح‘، ’خ‘ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ترکی میں لفظ ’خ‘ کی ادائیگی بھی ’ح‘ جیسی ہوتی ہے۔ مثلاً ’خان‘ کو وہاں ’حان‘ کہا جاتا ہے۔ ٹی وی ڈرامہ ’میرا سلطان‘ میں ملکہ کا نام آپ نے ’حُریم سلطان‘ سنا ہوگا، جو دراصل ’خُرم سلطان‘ ہے۔

انگلش جاننے والوں کے لیے رومن ترکی حروف کی ادائیگی میں اکثر مسئلہ ہوتا ہے اس لیے میں نے احتیاطاً یہ سارے ترکی جملے سمجھ کر اردو رسم الخط ہی میں لکھ لیے تاکہ ضرورت پڑنے پر فوری طور پر پڑھ کر بھی درست ادائیگی کرسکوں۔ ترکی میں اگر رومن رسم الخط کی یہ بدعت نہ آتی تو اسے سمجھنا بہت آسان ہوتا، خصوصاً پاکستانیوں کے لیے۔ کیونکہ ترکی اور اردو میں ہزاروں الفاظ مشترک ہیں، بلکہ ترکی زبان تو اردو کی ماں ہے۔ ’اردو‘ ترکی زبان ہی کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’لشکر‘۔

مغل بادشاہوں کے بین الاقوامی فوجی لشکروں نے باہمی گفت و شنید کے لیے ترکی، فارسی، عربی اور ہندی زبانوں کا ملغوبہ بناکر ایک بولی ایجاد کی تھی جس پر ترکی زبان کا غلبہ تھا۔ یہی بولی آگے چل کر دنیا کی ایک اہم زبان بن گئی۔ اس میں مزید کئی الفاظ شامل ہوتے رہے اور بالآخر اسے ایک ملک پاکستان کی قومی زبان کا درجہ ملا۔

گزشتہ 2 عشروں میں ترکی نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں ہے اور اپنی معیشت کو اس قدر مضبوط کرلیا ہے کہ اب وہ ترقی یافتہ یورپی ممالک سے کندھا ملا رہا ہے۔ چنانچہ ہم جیسے ملکوں کے کسی شخص کو ترکی دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اس کے دل میں لازماً یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اُس کا اپنا ملک بھی ایسا ہی ہوتا اور اگلے لمحے وہ یہاں کی شہریت حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہونے کی خواہش بھی کرتا ہے۔ ترکی میں دہری شہریت رکھنے کی اجازت ہے، چنانچہ آپ اپنے ملک کی شہریت رکھتے ہوئے ترک شہریت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ترکی کے وہ شہری جنہوں نے کسی ایسے ملک کی شہریت اختیار کرلی ہے کہ جہاں دوہری شہریت رکھنا قانوناً منع ہے، جیسے جرمنی یا آسٹریا، تو ان کے لیے ترکی ’بلو کارڈ‘ جاری کرتا ہے، جس کے تحت وہ ترکی میں رہ سکتے ہیں، ملازمت یا کاروبار کرسکتے ہیں اور جائیداد خرید سکتے ہیں، البتہ قومی انتخابات میں ووٹ نہیں دے سکتے اور نہ ہی الیکشن میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔

1982ء کے ترک آئین کے مطابق ہر وہ شخص جس کی ماں یا باپ ترک ہو تو وہ ترکی کا شہری ہے۔ البتہ اگر کوئی بچہ ترکی میں پیدا ہوا ہو، لیکن اس کے ماں باپ میں سے کوئی بھی ترک نہ ہو تو اسے ترک شہریت نہیں ملے گی۔ ایک ایسا غیر ملکی بچہ جسے ترک والدین نے 18 سال سے کم عمر میں اپنی لے پالک اولاد بنالیا ہو، وہ ترک شہری ہے۔ اگر کسی کو ترکی میں رہتے ہوئے بغیر کسی وقفے کے پانچ سال گزرچکے ہوں تو وہ بھی ترک شہریت حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ترکی میں ایک مخصوص مالیت یا رقبے کی جائیداد خرید لے تو اسے بھی ترک شہریت مل سکتی ہے مگر ترک شہریت حاصل کرنے کے ان سب طریقوں میں سب سے آسان طریقہ ’شادی‘ ہے۔ اگر آپ کسی ترک خاتون سے (یا آپ خاتون ہیں تو کسی ترک مرد سے) شادی کرلیں اور اس شادی کے 3 سال بخیریت گزر جائیں تو آپ ترک شہریت حاصل کرسکتے ہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ ترکی میں دوسری شادی کرنا قانوناً ممنوع ہے۔

ایک دن میں ایشیائی استنبول کے ’حیدر پاشا‘ ریلوے اسٹیشن پر گھوم رہا تھا۔ حیدر پاشا کبھی تاریخی ’حجاز ریلوے‘ اور ’بغداد ریلوے‘ کا پہلا اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ بغداد ریلوے کی گاڑی استنبول سے چلتی تھی اور قونیہ، ادانہ اور حلب کے شہروں سے گزرتی ہوئی بغداد جاتی تھی۔ جبکہ حجاز ریلوے کی گاڑیاں استنبول سے چھوٹ کر قونیہ، ادانہ، حلب، دمشق اور عمان سے ہوتی ہوئی مدینہ منورہ تک جاتی تھیں۔

بغداد ریلوے کی گاڑی جرمن شہر برلن سے آتی تھی اور یورپ کے کئی ملکوں سے گزر کر استنبول میں آخری یورپی ریلوے اسٹیشن سرکجی پہنچتی تھی۔ یہاں سے آگے ایشیاء کے پہلے اسٹیشن حیدر پاشا تک جانے کے لیے آبنائے باسفورس کو عبور کرنا ضروری تھا، چنانچہ مسافروں سے بھری یہ پوری کی پوری ٹرین سمندر میں کھڑی ایک فیری میں گھس جاتی تھی۔ یہ فیری اسے سمندر عبور کرواکے یہاں حیدر پاشا اسٹیشن تک لے آتی تھی اور پھر ٹرین کا ایشیائی سفر شروع ہوجاتا تھا۔

حیدر پاشا کی یہ عمارت ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ دونوں کا کام دیتی تھی۔ میں خاصی دیر تک حیدر پاشا کے بلند و پرشکوہ ایوانوں میں بھٹکتا رہا اور پھر سمندر کی طرف کھلنے والے دروازے سے باہر نکل آیا۔ باسفورس کا پانی ہلکورے لیتے ہوئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کو تھپیڑے مار رہا تھا۔ میرے سامنے سمندر سے متصل ایک مختصر سی خوبصورت قدیم عمارت کھڑی تھی جس میں 2 رنگارنگ دروازے تھے۔ لوگ فیری میں سوار ہونے کے لیے پہلے دروازے سے داخل ہوتے تھے۔ اس دروازے پر فارسی رسم الخط والی ترکی میں ’برنجی موقع‘ (یعنی پہلا دروازہ) لکھا تھا، جبکہ یورپ سے ایشیاء کی طرف آنے والے مسافر فیری سے اتر کر جس دروازے سے اسٹیشن میں داخل ہوتے تھے اس پر ’اکنجی موقع‘ (یعنی دوسرا دروازہ) تحریرتھا۔ دروازے کے لیے ترکی زبان کا لفظ ’موقع‘ دیکھ کر میں چونک اٹھا۔اس لفظ کو ہم اردو میں بھی تو غیر محسوس طور پر انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ’میں موقع دیکھ کر نکل گیا‘۔ تو کیا وہ یہی نہیں کہنا چاہتا کہ میں ’دروازہ‘ دیکھ کر نکل گیا؟‘

اگر ہم ترکی زبان کے حروف تہجی کو سمجھ لیں اور پھر کوئی بھی ترک لغت اٹھا کر پڑھیں تو ایسے لاتعداد الفاظ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ وہ عین انہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جن کے لیے ہم انہیں اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ بُرا ہو اس رومن رسم الخط کا جو ترکی زبان کو ہمارے لیے یکسر اجنبی بنا دیتا ہے۔

ہم برِصغیر کے باسی چونکہ رومن رسم الخط کے English Environment میں رہتے ہیں اس لیے ترکی کے کئی حروف کی آواز انگریزی کے مطابق نکالتے ہیں، یوں ترکی کا وہ لفظ ہمارے لیے بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’HACI‘ آپ اسے ’ہاکی‘ پڑھیں گے، لیکن یہ سیدھا سادہ ’حاجی ہے۔ ’ک اور ’ق‘ دونوں کے لیے ترکی میں ’K‘ استعمال ہوتا ہے۔ ترکی میں Q نہیں ہوتا۔ ’واؤ‘ کے لیے W کے بجائے V استعمال ہوتا ہے۔ ترکی میں W نہیں ہوتا۔ ’ح‘ اور ’خ‘ دونوں کے لیے H استعمال کیا جاتا ہے۔ ’ع‘ اور ’غ‘ دونوں کے لیے G استعمال ہوتا ہے۔ ’ب‘ کے لیے B اور P دونوں مستعمل ہیں۔ مثلاً ایوب کو Eyup لکھا جاتا ہے۔ ’د‘ کے لیے D اور T دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے مراد کو Murat لکھا جاتا ہے۔ الفاظ کے آخر میں ’ہ‘ (چھوٹی ہے) کے لیے E استعمال کیا جاتی ہے۔ مثلاً سادہ کو Sade لکھتے ہیں۔ ذرا مندرجہ ذیل الفاظ دیکھیے۔ رومن حروف میں یہ کس قدر ناقابلِ فہم ہیں لیکن اردو رسم الخط میں آتے ہی یہ سب الفاظ کیسے مانوس اور اپنے اپنے سے ہوجاتے ہیں:

  • Hisap حساب
  • Kitap کتاب
  • Siyah سیاہ
  • Sise شیشہ
  • Mesgul مشغول
  • Sebep سبب
  • Peynir پنیر
  • Sehir شہر
  • Hava ہوا
  • List item
  • Zaman زمانہ

Facebook Count
Twitter Share


4

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
 
.
2018



4


میں نے ترکی کا سفر 4 مرتبہ کیا ہے۔ 1995ء، 2007ء، 2010ء اور 2015ء۔ یعنی 20 سال میں چار سفر۔ ترک سیاسی تاریخ کے یہ 20 سال اس حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ اس پورے عرصے میں ترک سیاست کا انداز ماضی کی روایات کے بالکل برعکس ہوگیا اور ملکی قیادت بلند ایجیوت، تانسو چلر اور سلیمان دیمرل وغیرہ سے ہوتی ہوئی نجم الدین اربکان اور رجب طیب اردوان جیسی شخصیات کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی۔

ترکی کا پہلا سفر میں نے 1995ء میں کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب نہ انٹرنیٹ کا استعمال عام تھا، نہ ای میل تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا۔ جو دیکھا حسرت سے دیکھا، جس شے پر نگاہ ڈالی، آخری نگاہ سمجھ کر ڈالی اور جس سے بھی دوستی ہوئی، اس سے جدا ہونے کو زندگی بھر کی جدائی سمجھا۔ ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘ کا محاورہ اس دور کا صحیح عکاس تھا۔ آج کل کی طرح نہیں کہ کسی سے سرِ راہ ہلکی پھلکی ہیلو ہائے کیا ہوئی، رات کو وہ اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ فیس بک پر آن حاضر ہوا اور محبتوں اور دوستیوں کی نئی نویلی داستانیں رقم ہونا شروع ہوگئیں۔

میرے دل میں ترکی دیکھنے کی خواہش پہلی مرتبہ کب پیدا ہوئی، یہ میں یقین کے ساتھ تو نہیں بتاسکتا، البتہ یہ یاد ہے کہ بچپن سے نکل کر لڑکپن کی حدود میں داخل ہوا تو بچوں کی کتابوں اور رسالوں سے تعلق رفتہ رفتہ کم ہوا اور ادبی کتابوں کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ سب رنگ، اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ ہمارے گھر ان دنوں باقاعدگی سے آتے تھے۔ اعلیٰ ادب پیش کرنے والے ان رسالوں کے مطالعے نے ذہن کو سنجیدہ ادب کی طرف مائل کردیا۔

70ء کے عشرے میں سیارہ ڈائجسٹ میں بہت عمدہ سفرنامے شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک مستنصر حسین تارڑ کا ’نکلے تیری تلاش میں‘ تھا اور دوسرا محمد اختر ممونکا کا ’پیرس 205 کلو میٹر‘ تھا، یہ پاکستان سے یورپ تک کے زمینی سفر پر مشتمل بہت اعلیٰ پائے کے سیاحت نامے تھے۔

میں نے مستنصر حسین تارڑ کی سب سے پہلی تحریر ’الپس کے آسیب زدہ قصبے‘ سیارہ ڈائجسٹ میں ہی پڑھی۔ یہ ان کے یورپی سفرنامے کا ایک باب تھا۔ یقین جانیں کہ اس سفری قصے کو پڑھ کر میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا اور آج بھی ان صفحات کا عکس میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ پھر کچھ ہی دن بعد محمد اختر ممونکا کا سفرنامہ پڑھا تو دل اسی طرح کے سفر کرنے کے لیے بے چین ہوگیا۔ چنانچہ میں نے جو اولین ادبی کتابیں خریدیں، ان میں تارڑ صاحب کا سفرنامہ ‘نکلے تیری تلاش میں‘ بھی شامل تھا۔

تارڑ صاحب کے اس سفرنامے کا سب سے طویل حصہ ترکی کے سفر پر مشتمل ہے اور ان کے قلم سے نکلے ترکی کے اس سیاحت نامے نے میرے دل میں ترکی اور استنبول سے محبت کی جو جوت جگائی، وہ آج تک روشن ہے۔ میں تادمِ تحریر ترکی کے 4 سفر کرچکا ہوں، لیکن ترکی سے لگاؤ میں کمی کے بجائے مستقل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

جہاں تک میری بیرونِ ملک سیاحتوں کا تعلق ہے، تو میرا سب سے پہلا غیر ملکی سفر چین کا تھا جو میں نے 1987ء میں شاہراہِ قراقرم سے بائی روڈ سنکیانگ کے پہلے شہر کاشغر تک کیا تھا۔ 1992ء میں دوسرا غیر ملکی سفر ایران کا تھا۔ یہ بھی بائی روڈ صوبہ بلوچستان کے راستے تفتان، زاہدان اور اصفہان سے ہوتے ہوئے بحیرہ کیسپیئن کے ساحلوں تک کا سفر تھا۔

میں ترکی کا سفر سب سے پہلے کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کا موقع مجھے 1995ء میں ملا۔ بات اصل میں یہ بھی ہے کہ چین اور ایران کے سفر میں نے بائی روڈ کیے تھے، جو خاصے کم خرچ تھے۔ چونکہ اس وقت میں اپنے طالب علمی کے ادوار میں تھا، لہٰذا صرف اسی طرح کے سفر کرنے کی سکت رکھتا تھا جو کم خرچ ہوں۔ جب برسرِ روزگار ہوا اور 4 پیسے جیب میں آئے تو ’بائی ایئر‘ سفر بھی ممکن محسوس ہونے لگے اور پھر سب سے پہلے میں نے جس سفر کا ارادہ کیا اس کی منزل ترکی تھی۔
5b349cdad9d09.jpg

1995ء میں ترکی کا سفر—تصویر عبیداللہ کیہر


ترکی کے دوسرے سفر کا موقع مجھے 12 سال بعد 2007ء میں ملا۔ اس وقت ترکی میں عدالت پارٹی کے رجب طیب اردان کی حکومت کا پہلا دور چل رہا تھا۔ اس سفر میں مجھے ترکی کے طول و عرض میں ایک بھرپور سفر کا موقع ملا۔ میں نے ترکی کے شہروں استنبول، ایدرنہ، بورصہ، قونیہ، مرسین، چناق قلعہ اور گیلی بولو میں سیر و سیاحت کی اور ترکی کے طول و ارض میں تقریباً 12 ہزار کلو میٹر سفر کیا۔ پاکستان واپس آکر میں نے ایک اخبار میں اس سفر کا مختصر رپورتاژ تو ضرور تحریر کیا لیکن دل میں بہت کچھ تھا جسے نوکِ قلم پر نہ لاسکا۔

ترکی کے ان دونوں اسفار میں ایک تکلیف دہ قدر مشترک بات یہ تھی کہ وہ سفر میں نے تقریباً گونگوں کی طرح کیے۔ ترکی کا مجھے ایک حرف پلے نہ پڑتا تھا اور انگلش ترکوں کو ذرا بھی نہیں آتی۔ چنانچہ یہ سیاحتیں اشاروں اشاروں میں ہی کی گئیں۔ میں ترکی جانے سے پہلے ایران کا سفر بھی کرچکا تھا لیکن وہاں تو 2 سے 4 دن بعد ہی ٹوٹی پھوٹی فارسی بولنا شروع کردی تھی،ٍ یوں وہاں نہ صرف یہ کہ اجنبیت میں کمی آئی بلکہ کئی اچھے اور مخلص ایرانی دوست بھی بن گئے جو آج تک رابطے میں ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ تھی کہ ترکی میں اچھے اور مخلص لوگ، خصوصاً پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرنے والے بے شمار ہیں لیکن صرف زبان نہ آنے کی وجہ سے ان میں سے کسی کے ساتھ بھی تعلق پیدا نہ ہوسکا۔ اس محرومی کو دور کرنے کے لیے میں نے حتی الامکان کوشش کی کہ کسی طرح کچھ نہ کچھ ترکی زبان ضرور سیکھ لوں۔
5b349ce33f10b.jpg

2007ء میں کھینچی گئی نیلی مسجد کی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر


میں 2003ء میں اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) میں بھی گیا۔ وہاں ترکی زبان کے کورس کے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ اس سال ترکی زبان سیکھنے کا خواہش مند میں اکیلا ہی آیا تھا، چنانچہ وہ مجھ اکلوتے شاگرد کے لیے ترکی کلاسز کا انعقاد نہیں کرسکتے تھے۔ مجبور ہوکر جب میں نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا تو یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ بنیادی ترکی سیکھنے کے لیے یہاں خاصی آسانیاں موجود تھیں۔ میرے پاس ترکی سے خریدی ہوئی زبان سیکھنے کے لیے چند کتابیں بھی موجود تھیں، لہٰذا ان کتابوں اور انٹرنیٹ کی مدد سے میں نے ترکی زبان کا قفل توڑا اور معمولی استعداد پیدا کی۔ پھر ’گوگل ٹرانسلیٹ‘ کے پروگرام نے بھی خاصی مدد کی۔

انہی دنوں انٹرنیٹ پر فیس بک کی سوشل نیٹ ورکنگ کا دنیا میں وہ غلغلہ اٹھا کہ لگتا تھا کہ کچھ دنوں میں انٹرنیٹ کا نام ہی فیس بک ہوجائے گا۔ میں بھی فیس بک کے اس میدانِ کارزار میں کود پڑا۔ فیس بک پر جہاں میرے ہزاروں پاکستانی دوست بنے، وہیں میں نے 30 سے 40 ترک دوست بھی بنا ڈالے، جن کے ساتھ میں اپنی معمولی ترکی شدھ بدھ اور گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے ترکی زبان میں گفتگو کرتا رہا اور وہ رفتہ رفتہ میرے گہرے دوستوں میں شامل ہوگئے۔

ان ترک دوستوں نے مجھے خاصی توجہ اور وقت دیا اور یوں میری ترکی زبان کی استعداد روز بہ روز بڑھتی چلی گئی۔ اب جبکہ ترکی زبان سے میری اجنبیت بھی دور ہوچکی تھی اور میں کچھ ترک دوست بھی بنا چکا تھا چنانچہ فطری طور پر دل میں ایک بار پھر ترکی جانے کی شدید خواہش پیدا ہورہی تھی سو 2010ء میں، مَیں نے ترکی کا تیسرا سفر کیا تو واپسی پر کچھ ہمت ہوئی اور میں نے ترکی پر ایک تفصیلی کتاب لکھنے کا آغاز کردیا۔ اس کتاب میں، مَیں نے اپنی تینوں سیاحتوں کی روداد کے ساتھ ساتھ ترکی کی تاریخ و ثقافت اور تہذیبی و سیاسی کشمکش کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ میری کتاب ’یارِ مَن ترکی‘ پہلے کراچی کے ایک اخبار میں قسط وار شائع ہوئی اور بالآخر 2015ء کے شروع میں کتابی صورت میں چَھپ کر مارکیٹ میں آگئی۔
5b349ce00474a.jpg

2010ء میں باسفورس کی کھینچی گئی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر

5b349cdf763ab.jpg

2010ء میں باسفورس کی کھینچی گئی تصویر—تصویر عبیداللہ کیہر


ترکی میں سیاحت کے لیے ترکی زبان کا آنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کو کسی کی زبان نہ آتی ہو، تب تک آپ اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں جان سکتے۔ ترک چونکہ ہمیشہ سے آزاد رہے ہیں اور انہوں نے ہماری طرح غلامی کے مزے نہیں چکھے، اس لیے انہیں انگریزی بالکل نہیں آتی اور نہ ہی وہ اس کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ ترکوں میں عربی بولنے اور سمجھنے والے پھر بھی مل جاتے ہیں کیونکہ ترک جزیرہ عرب پربھی حکمرانی کرچکے ہیں۔

ہٹلر سے دوستی اور جرمنوں میں اثرو رسوخ کے باعث جرمن زبان سمجھنے والے بھی موجود ہیں لیکن انگریزی سمجھنے والے ترک آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ترک اردو زبان بھی نہیں سمجھتے، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ترکی اور اردو زبان میں کم از کم 9 ہزار الفاظ مشترک ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ترکی میں کوئی بات کرنی ہو تو پورے پورے جملے کی جگہ آپ صرف اردو کے الفاظ بول کر بھی کام چلاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کو کسی دکان سے کوئی چیز خریدنی ہو، تو آپ How Much یا What is the price کہنے کے بجائے صرف اردو کا ایک لفظ بول دیجیے ’قیمت‘۔ دکاندار آپ کی بات فوراً سمجھ جائے گا اور آپ کو چیز کی قیمت بتا دے گا۔

اس حوالے سے بہت ہی دلچسپ قصہ یاد آگیا. میں ایک بازار سے گزر رہا تھا تو اچانک دکان پر کچھ اچھا سامان نظر آیا اور میں نے دکاندار سے پوچھا کہ ?What is the price

لیکن مجال ہے کہ وہ میری بات کو سمجھ جائے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں کسی طرح اپنی بات سمجھا سکوں لیکن میں ناکام رہا، جس پر تنگ آکر میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یار اب اس کی قیمت کیسے معلوم کی جائے۔ بس میری یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ فوراً دکاندار نے مجھے سے پوچھا قیمت؟ اور مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔

یوں میرے علم میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ ترکی میں بھی قیمت کو قیمت ہی کہا جاتا ہے۔
5b349ce1c0d01.jpg

2015ء میں ترکی کی سیر—تصویر عبیداللہ کیہر


میں نے اپنی ترک سیاحتوں کے لیے سب سے پہلے عام استعمال کے وہ ترکی الفاظ اور جملے اردو رسم الخط میں تیار کرنا چاہے کہ جن کی کسی سیاح کو ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو متوجہ کرنے کے لیے ’سنیے‘ یا ’ہیلو‘ کہا جاتا ہے تو ترکی میں اس کے لیے ’مرحبا‘ کہتے ہیں۔ مرحبا کہہ کر آپ کسی بھی ترک کی فوری توجہ حاصل کرسکتے ہیں یا پھر السلام علیکم کہہ کر بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔ مزید آگے بڑھا تو یہ جملے سامنے آئے:

اردو: آپ کا نام کیا ہے؟ ترکی: آدِ نیز نے؟ Adınız ne

اردو: میرا نام عبید ہے۔ ترکی: آدِم عبید Adım Obaid

اردو: کیا حال ہیں؟ ترکی: ناسِل سی نیز Nasılsıniz

اردو: میں ٹھیک ہوں۔ ترکی: ای یی یم İyiyim

اردو: ہاں۔ ترکی: ایویت Evet

اردو: نہیں۔ ترکی: ہائر Hayır

اردو: کیا۔ ترکی: نے Ne

اردو: کیوں۔ ترکی: نیدن Neden

اردو: کیسے۔ ترکی: ناسل Nasıl

اردو: کب۔ ترکی: نے زمان Ne zaman

اردو: کہاں۔ ترکی: نیردا Nerede

اردو: کون۔ ترکی: کِم Kim

اردو: کتنا۔ ترکی: کچ Keç

اردو: چاہیے۔ ترکی: اِستیورم İstiyorum

اردو: یہ۔ ترکی: بُو Bu

اردو: وہ۔ ترکی: سُو Su

اردو: ٹھنڈا۔ ترکی: سوغق Suğuk

اردو: گرم۔ ترکی: سجاک Sıcak

اردو: چھوٹا۔ ترکی: کوچُک Küçük

اردو: بڑا۔ ترکی: بویوک Büyük

اردو: ہے۔ ترکی: وَر Ver

اردو: نہیں ہے۔ ترکی: یوق Yok

اردو: خوبصورت۔ ترکی: گُزل Güzel

اردو: بدصورت۔ ترکی: چرکن Çirkin

اردو: سستا۔ ترکی: عجز Ucuz

اردو: مہنگا۔ ترکی: پہالی Pahalı

اردو: رقم۔ ترکی: پارہ Para

اردو: سڑک۔ ترکی: جادہ Cadde

اردو: نقشہ۔ ترکی: خریطہ Harita

اردو: ہوائی جہاز۔ ترکی: اُچاک Uçak

اردو: ایئرپورٹ۔ ترکی: ہوا لانی Havalanı

اردو: کار۔ ترکی: عرابہ Araba

اردو: بس۔ ترکی: آتو بُس Otobüs

اردو: دِن۔ ترکی: گُن Gün

اردو: رات۔ ترکی: گاجہ Gece

اردو: صبح۔ ترکی: آئدن Aydın

اردو: شام۔ ترکی: اکشام Akşam

اردو: آج۔ ترکی: بوُگن Bugün

اردو: کل۔ ترکی: یارِن Yarın

اردو: میں۔ ترکی: بین Ben

اردو: ہم۔ ترکی: بِز Biz

اردو: تم۔ ترکی: سین Sen

اردو: مرد۔ ترکی: ارکک Erkek

اردو: عورت۔ ترکی: کادن Kadın

اردو: لڑکا۔ ترکی: اوغلان Oğlan

اردو: لڑکی۔ ترکی: قز Kız

اردو: بچہ۔ ترکی: چوجک Cücük

اردو: ماں۔ ترکی: انّا Anne

اردو: باپ۔ ترکی: بابا Baba

اردو: بھائی۔ ترکی: قاردیش Kardeş

اردو: بہن۔ ترکی: قِز قردیش Kız Kardeş

اردو: روٹی۔ ترکی: ایکمیک Ekmek

اردو: گوشت۔ ترکی: ایت Et

اردو: مچھلی۔ ترکی: بالِک Balık

اردو: مرغی۔ ترکی: تاوُک Tavuk

اردو: سبزی۔ ترکی: سبزہ Sebze

اردو: پھل۔ ترکی: میوہ Meyve

اردو: میٹھا۔ ترکی: تاتلہ Tatlı

اردو: خدا حافظ۔ ترکی: گُلے گُلے Güle güle

اردو: اللہ حافظ۔ ترکی: اللہ اسما رالدک Allah ısmarladık

ان الفاظ اور جملوں کے علاوہ گنتی، دنوں اور مہینوں کے نام یاد کرنا بھی ضروری تھے۔ وہ بھی یاد کرلیے۔ دنوں کے نام ہیں:

  • جمعہ (جمعہ) Cuma،
  • ہفتہ (جمارتیسی) Cumartesi،
  • اتوار (پازار) Pazar،
  • پیر (پازارتیسی) Pazartesi،
  • منگل (سالہ) Salı،
  • بدھ (چارشنبہ) Çarşamba اور
  • جمعرات (پرشنبہ) Perşamba۔
مہینوں کے نام ہیں:

  • جنوری (اوجاک) Ocak،
  • فروری (شوبات) şubat،
  • مارچ (مارد) Mart،
  • اپریل (نیساں) Nisan،
  • مئی (مائیس) Mayıs،
  • جون (حاضران) Haziran،
  • جولائی (تموز) Temmuz،
  • اگست (اغستوس) Ağustos،
  • ستمبر (آئلول) Eylül،
  • اکتوبر (ایکِم) Ekim،
  • نومبر (قاسم) Kasım اور
  • دسمبر (آرالک) Aralık۔
سیاح کے لیے گنتی آنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ترکی گنتی یوں ہے:

  • ایک (بِر) Bir،
  • دو (اکّی) İki،
  • تین (اُچ) Üç،
  • چار (دورت) Dört،
  • پانچ (بیش) Beş،
  • چھ (التہ) Elte،
  • سات (یدی) Yedi،
  • آٹھ (سیکز) Serkis،
  • نو (دوکز) Dokus،
  • دس (اون) On،
  • بیس (یرمی) Yirmi،
  • تیس (اوتوز) Otuz،
  • چالیس (کِرک)Kırk،
  • پچاس (ایلی)Elli،
  • ساٹھ (آلتمش) Altmiş،
  • ستر (یاتمش) Yetmiş،
  • اسی (سیکسن) Seksen،
  • نوے (دوکسن) Doksan،
  • سو (یوز)Yüz،
  • ہزار (بِن) Bin اور
  • دس لاکھ (ملیون) Milyon
یہ سارے الفاظ اور جملے مجھے خاص طور پر اردو رسم الخط میں اس لیے تیار کرنے پڑے کہ ترکی کے جدید رومن رسم الخط کو پڑھنا اور سمجھ کر درست ادائیگی کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ کئی رومن حروف ایسے ہیں جن کی آواز ہم انگلش اصول کے مطابق ادا کرتے ہیں، لیکن ترکی میں پہنچ کر ان کی آواز بدل جاتی ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ رومن حرف ’C‘ کا ہے۔ ہم عام طور سے اسے ’ک (کاف) یا س (سین)‘ کی آواز سے ادا کرتے ہیں، لیکن ترکی میں یہ ’ج (جیم)‘ کی آواز دیتا ہے جبکہ ترکی کے C کے لیے جیم کی ادائیگی میں چونکہ لوگ اکثر غلطی کرجاتے ہیں اس لیے وہ لفظ بے معنی ہوجاتا ہے۔

مثلاً ترکی کے وزیرِاعظم کا نام رجب طیب اردوان (Recep Tayyip Erdogan) ہے۔ اب اگر ہم یہاں لفظ Recep کو ’رجب‘ کے بجائے ’رسپ‘ پڑھیں تو یہ بے مطلب ہوجائے گا۔ اسی طرح کی ایک مثال لفظ ’جمہوریت‘ ہے جسے رومن ترکی میں Cumhuriyet لکھا جاتا ہے۔ اب ہم اسے جمہوریت کی بجائے ’کمہوریت‘ پڑھیں تو کیسا رہے گا!

’ج‘ کے علاوہ جدید ترکی زبان میں ’ح‘، ’خ‘ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ترکی میں لفظ ’خ‘ کی ادائیگی بھی ’ح‘ جیسی ہوتی ہے۔ مثلاً ’خان‘ کو وہاں ’حان‘ کہا جاتا ہے۔ ٹی وی ڈرامہ ’میرا سلطان‘ میں ملکہ کا نام آپ نے ’حُریم سلطان‘ سنا ہوگا، جو دراصل ’خُرم سلطان‘ ہے۔

انگلش جاننے والوں کے لیے رومن ترکی حروف کی ادائیگی میں اکثر مسئلہ ہوتا ہے اس لیے میں نے احتیاطاً یہ سارے ترکی جملے سمجھ کر اردو رسم الخط ہی میں لکھ لیے تاکہ ضرورت پڑنے پر فوری طور پر پڑھ کر بھی درست ادائیگی کرسکوں۔ ترکی میں اگر رومن رسم الخط کی یہ بدعت نہ آتی تو اسے سمجھنا بہت آسان ہوتا، خصوصاً پاکستانیوں کے لیے۔ کیونکہ ترکی اور اردو میں ہزاروں الفاظ مشترک ہیں، بلکہ ترکی زبان تو اردو کی ماں ہے۔ ’اردو‘ ترکی زبان ہی کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’لشکر‘۔

مغل بادشاہوں کے بین الاقوامی فوجی لشکروں نے باہمی گفت و شنید کے لیے ترکی، فارسی، عربی اور ہندی زبانوں کا ملغوبہ بناکر ایک بولی ایجاد کی تھی جس پر ترکی زبان کا غلبہ تھا۔ یہی بولی آگے چل کر دنیا کی ایک اہم زبان بن گئی۔ اس میں مزید کئی الفاظ شامل ہوتے رہے اور بالآخر اسے ایک ملک پاکستان کی قومی زبان کا درجہ ملا۔

گزشتہ 2 عشروں میں ترکی نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں ہے اور اپنی معیشت کو اس قدر مضبوط کرلیا ہے کہ اب وہ ترقی یافتہ یورپی ممالک سے کندھا ملا رہا ہے۔ چنانچہ ہم جیسے ملکوں کے کسی شخص کو ترکی دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اس کے دل میں لازماً یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اُس کا اپنا ملک بھی ایسا ہی ہوتا اور اگلے لمحے وہ یہاں کی شہریت حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہونے کی خواہش بھی کرتا ہے۔ ترکی میں دہری شہریت رکھنے کی اجازت ہے، چنانچہ آپ اپنے ملک کی شہریت رکھتے ہوئے ترک شہریت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ترکی کے وہ شہری جنہوں نے کسی ایسے ملک کی شہریت اختیار کرلی ہے کہ جہاں دوہری شہریت رکھنا قانوناً منع ہے، جیسے جرمنی یا آسٹریا، تو ان کے لیے ترکی ’بلو کارڈ‘ جاری کرتا ہے، جس کے تحت وہ ترکی میں رہ سکتے ہیں، ملازمت یا کاروبار کرسکتے ہیں اور جائیداد خرید سکتے ہیں، البتہ قومی انتخابات میں ووٹ نہیں دے سکتے اور نہ ہی الیکشن میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔

1982ء کے ترک آئین کے مطابق ہر وہ شخص جس کی ماں یا باپ ترک ہو تو وہ ترکی کا شہری ہے۔ البتہ اگر کوئی بچہ ترکی میں پیدا ہوا ہو، لیکن اس کے ماں باپ میں سے کوئی بھی ترک نہ ہو تو اسے ترک شہریت نہیں ملے گی۔ ایک ایسا غیر ملکی بچہ جسے ترک والدین نے 18 سال سے کم عمر میں اپنی لے پالک اولاد بنالیا ہو، وہ ترک شہری ہے۔ اگر کسی کو ترکی میں رہتے ہوئے بغیر کسی وقفے کے پانچ سال گزرچکے ہوں تو وہ بھی ترک شہریت حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ترکی میں ایک مخصوص مالیت یا رقبے کی جائیداد خرید لے تو اسے بھی ترک شہریت مل سکتی ہے مگر ترک شہریت حاصل کرنے کے ان سب طریقوں میں سب سے آسان طریقہ ’شادی‘ ہے۔ اگر آپ کسی ترک خاتون سے (یا آپ خاتون ہیں تو کسی ترک مرد سے) شادی کرلیں اور اس شادی کے 3 سال بخیریت گزر جائیں تو آپ ترک شہریت حاصل کرسکتے ہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ ترکی میں دوسری شادی کرنا قانوناً ممنوع ہے۔

ایک دن میں ایشیائی استنبول کے ’حیدر پاشا‘ ریلوے اسٹیشن پر گھوم رہا تھا۔ حیدر پاشا کبھی تاریخی ’حجاز ریلوے‘ اور ’بغداد ریلوے‘ کا پہلا اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ بغداد ریلوے کی گاڑی استنبول سے چلتی تھی اور قونیہ، ادانہ اور حلب کے شہروں سے گزرتی ہوئی بغداد جاتی تھی۔ جبکہ حجاز ریلوے کی گاڑیاں استنبول سے چھوٹ کر قونیہ، ادانہ، حلب، دمشق اور عمان سے ہوتی ہوئی مدینہ منورہ تک جاتی تھیں۔

بغداد ریلوے کی گاڑی جرمن شہر برلن سے آتی تھی اور یورپ کے کئی ملکوں سے گزر کر استنبول میں آخری یورپی ریلوے اسٹیشن سرکجی پہنچتی تھی۔ یہاں سے آگے ایشیاء کے پہلے اسٹیشن حیدر پاشا تک جانے کے لیے آبنائے باسفورس کو عبور کرنا ضروری تھا، چنانچہ مسافروں سے بھری یہ پوری کی پوری ٹرین سمندر میں کھڑی ایک فیری میں گھس جاتی تھی۔ یہ فیری اسے سمندر عبور کرواکے یہاں حیدر پاشا اسٹیشن تک لے آتی تھی اور پھر ٹرین کا ایشیائی سفر شروع ہوجاتا تھا۔

حیدر پاشا کی یہ عمارت ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ دونوں کا کام دیتی تھی۔ میں خاصی دیر تک حیدر پاشا کے بلند و پرشکوہ ایوانوں میں بھٹکتا رہا اور پھر سمندر کی طرف کھلنے والے دروازے سے باہر نکل آیا۔ باسفورس کا پانی ہلکورے لیتے ہوئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کو تھپیڑے مار رہا تھا۔ میرے سامنے سمندر سے متصل ایک مختصر سی خوبصورت قدیم عمارت کھڑی تھی جس میں 2 رنگارنگ دروازے تھے۔ لوگ فیری میں سوار ہونے کے لیے پہلے دروازے سے داخل ہوتے تھے۔ اس دروازے پر فارسی رسم الخط والی ترکی میں ’برنجی موقع‘ (یعنی پہلا دروازہ) لکھا تھا، جبکہ یورپ سے ایشیاء کی طرف آنے والے مسافر فیری سے اتر کر جس دروازے سے اسٹیشن میں داخل ہوتے تھے اس پر ’اکنجی موقع‘ (یعنی دوسرا دروازہ) تحریرتھا۔ دروازے کے لیے ترکی زبان کا لفظ ’موقع‘ دیکھ کر میں چونک اٹھا۔اس لفظ کو ہم اردو میں بھی تو غیر محسوس طور پر انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ’میں موقع دیکھ کر نکل گیا‘۔ تو کیا وہ یہی نہیں کہنا چاہتا کہ میں ’دروازہ‘ دیکھ کر نکل گیا؟‘

اگر ہم ترکی زبان کے حروف تہجی کو سمجھ لیں اور پھر کوئی بھی ترک لغت اٹھا کر پڑھیں تو ایسے لاتعداد الفاظ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ وہ عین انہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جن کے لیے ہم انہیں اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ بُرا ہو اس رومن رسم الخط کا جو ترکی زبان کو ہمارے لیے یکسر اجنبی بنا دیتا ہے۔

ہم برِصغیر کے باسی چونکہ رومن رسم الخط کے English Environment میں رہتے ہیں اس لیے ترکی کے کئی حروف کی آواز انگریزی کے مطابق نکالتے ہیں، یوں ترکی کا وہ لفظ ہمارے لیے بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’HACI‘ آپ اسے ’ہاکی‘ پڑھیں گے، لیکن یہ سیدھا سادہ ’حاجی ہے۔ ’ک اور ’ق‘ دونوں کے لیے ترکی میں ’K‘ استعمال ہوتا ہے۔ ترکی میں Q نہیں ہوتا۔ ’واؤ‘ کے لیے W کے بجائے V استعمال ہوتا ہے۔ ترکی میں W نہیں ہوتا۔ ’ح‘ اور ’خ‘ دونوں کے لیے H استعمال کیا جاتا ہے۔ ’ع‘ اور ’غ‘ دونوں کے لیے G استعمال ہوتا ہے۔ ’ب‘ کے لیے B اور P دونوں مستعمل ہیں۔ مثلاً ایوب کو Eyup لکھا جاتا ہے۔ ’د‘ کے لیے D اور T دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے مراد کو Murat لکھا جاتا ہے۔ الفاظ کے آخر میں ’ہ‘ (چھوٹی ہے) کے لیے E استعمال کیا جاتی ہے۔ مثلاً سادہ کو Sade لکھتے ہیں۔ ذرا مندرجہ ذیل الفاظ دیکھیے۔ رومن حروف میں یہ کس قدر ناقابلِ فہم ہیں لیکن اردو رسم الخط میں آتے ہی یہ سب الفاظ کیسے مانوس اور اپنے اپنے سے ہوجاتے ہیں:

  • Hisap حساب
  • Kitap کتاب
  • Siyah سیاہ
  • Sise شیشہ
  • Mesgul مشغول
  • Sebep سبب
  • Peynir پنیر
  • Sehir شہر
  • Hava ہوا
  • List item
  • Zaman زمانہ

Facebook Count
Twitter Share


4

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

Are most of the foreign words in Urdu not of Farsi and Arabic origins?




Urdu, like Hindi, is a form of Hindustani.[17] It evolved from the medieval (6th to 13th century) Apabhraṃśa register of the preceding Shauraseni language, a Middle Indo-Aryan language that is also the ancestor of other modern Indo-Aryan languages, including the Punjabi dialects. Around 75% of Urdu words have their etymological roots in Sanskrit and Prakrit,[18][19][20] and approximately 99% of Urdu verbs have their roots in Sanskrit and Prakrit.[21] Because Persian-speaking sultans ruled the Indian subcontinent for a number of years,[22] Urdu was influenced by Persian and to a lesser extent, Arabic, which have contributed to about 25% of Urdu's vocabulary.[18][23][24][25][26][27][28] Although the word Urdu is derived from the Turkic word ordu (army) or orda, from which English horde is also derived,[29] Turkic borrowings in Urdu are minimal[30] and Urdu is also not genetically related to the Turkic languages. Urdu words originating from Chagatai and Arabic were borrowed through Persian and hence are Persianized versions of the original words. For instance, the Arabic ta' marbuta ( ة ) changes to he ( ه‬ ) or te ( ت‬ ).[31][note 1] Nevertheless, contrary to popular belief, Urdu did not borrow from the Turkish language, but from Chagatai, a Turkic language from Central Asia. Urdu and Turkish borrowed from Arabic and Persian, hence the similarity in pronunciation of many Urdu and Turkish words.[32]

Arabic influence in the region began with the late first-millennium Muslim conquests of the Indian subcontinent. The Persian language was introduced into the subcontinent a few centuries later by various Persianized Central Asian Turkic and Afghandynasties including that of Mahmud of Ghazni.[33][34] The Turko-Afghan Delhi Sultanate established Persian as its official language, a policy continued by the Mughal Empire, which extended over most of northern South Asia from the 16th to 18th centuries and cemented Persian influence on the developing Hindustani.[citation needed]

The name Urdu was first used by the poet Ghulam Hamadani Mushafi around 1780.[35][36](p18) From the 13th century until the end of the 18th century Urdu was commonly known as Hindi.[36](p1) The language was also known by various other names such as Hindavi and Dehlavi.[36](pp21–22) Hindustani in Persian script was used by Muslims and Hindus, but was current chiefly in Muslim influenced society.[37] The communal nature of the language lasted until it replaced Persian as the official language in 1837 and was made co-official, along with English. Hindustani was promoted in British India by British policies to counter the previous emphasis on Persian.[38] This triggered a Hindu backlash in northwestern India, which argued that the language should be written in the native Devanagari script. This literary standard called "Hindi" replaced Urdu as the official language of Bihar in 1881, establishing a sectarian divide of "Urdu" for Muslims and "Hindi" for Hindus, a divide that was formalized with the division of India and Pakistan after independence (though there are Hindu poets who continue to write in Urdu to this day, with post-independence examples including Gopi Chand Narang and Gulzar).

There have been attempts to "purify" Urdu and Hindi, by purging Urdu of Sanskrit words, and Hindi of Persian loanwords, and new vocabulary draws primarily from Persian and Arabic for Urdu and from Sanskrit for Hindi. English has exerted a heavy influence on both as a co-official language.[39]

https://en.wikipedia.org/wiki/Urdu

How correct is the above?
 
Last edited:
.
Are most of the foreign words in Urdu not of Farsi and Arabic origins?




Urdu, like Hindi, is a form of Hindustani.[17] It evolved from the medieval (6th to 13th century) Apabhraṃśa register of the preceding Shauraseni language, a Middle Indo-Aryan language that is also the ancestor of other modern Indo-Aryan languages, including the Punjabi dialects. Around 75% of Urdu words have their etymological roots in Sanskrit and Prakrit,[18][19][20] and approximately 99% of Urdu verbs have their roots in Sanskrit and Prakrit.[21] Because Persian-speaking sultans ruled the Indian subcontinent for a number of years,[22] Urdu was influenced by Persian and to a lesser extent, Arabic, which have contributed to about 25% of Urdu's vocabulary.[18][23][24][25][26][27][28] Although the word Urdu is derived from the Turkic word ordu (army) or orda, from which English horde is also derived,[29] Turkic borrowings in Urdu are minimal[30] and Urdu is also not genetically related to the Turkic languages. Urdu words originating from Chagatai and Arabic were borrowed through Persian and hence are Persianized versions of the original words. For instance, the Arabic ta' marbuta ( ة ) changes to he ( ه‬ ) or te ( ت‬ ).[31][note 1] Nevertheless, contrary to popular belief, Urdu did not borrow from the Turkish language, but from Chagatai, a Turkic language from Central Asia. Urdu and Turkish borrowed from Arabic and Persian, hence the similarity in pronunciation of many Urdu and Turkish words.[32]

Arabic influence in the region began with the late first-millennium Muslim conquests of the Indian subcontinent. The Persian language was introduced into the subcontinent a few centuries later by various Persianized Central Asian Turkic and Afghandynasties including that of Mahmud of Ghazni.[33][34] The Turko-Afghan Delhi Sultanate established Persian as its official language, a policy continued by the Mughal Empire, which extended over most of northern South Asia from the 16th to 18th centuries and cemented Persian influence on the developing Hindustani.[citation needed]

The name Urdu was first used by the poet Ghulam Hamadani Mushafi around 1780.[35][36](p18) From the 13th century until the end of the 18th century Urdu was commonly known as Hindi.[36](p1) The language was also known by various other names such as Hindavi and Dehlavi.[36](pp21–22) Hindustani in Persian script was used by Muslims and Hindus, but was current chiefly in Muslim influenced society.[37] The communal nature of the language lasted until it replaced Persian as the official language in 1837 and was made co-official, along with English. Hindustani was promoted in British India by British policies to counter the previous emphasis on Persian.[38] This triggered a Hindu backlash in northwestern India, which argued that the language should be written in the native Devanagari script. This literary standard called "Hindi" replaced Urdu as the official language of Bihar in 1881, establishing a sectarian divide of "Urdu" for Muslims and "Hindi" for Hindus, a divide that was formalized with the division of India and Pakistan after independence (though there are Hindu poets who continue to write in Urdu to this day, with post-independence examples including Gopi Chand Narang and Gulzar).

There have been attempts to "purify" Urdu and Hindi, by purging Urdu of Sanskrit words, and Hindi of Persian loanwords, and new vocabulary draws primarily from Persian and Arabic for Urdu and from Sanskrit for Hindi. English has exerted a heavy influence on both as a co-official language.[39]

https://en.wikipedia.org/wiki/Urdu

How correct is the above?
Actually Urdu is called " Lashkari zaban " means the the language of soldiers or can give any other relative name. It is composed of Farsi,Turkish, Arabic and Sanskrit words.
 
.
Actually Urdu is called " Lashkari zaban " means the the language of soldiers or can give any other relative name. It is composed of Farsi,Turkish, Arabic and Sanskrit words.

According to all the numerous references used on that Wikipedia page the few "Turkish" words actually derive from Chagatai Turkic (not much related to Turkish).

Have in mind that when Urdu was developed as a language most of Ottoman Turkish was Arabic (more Arabic than Turkish) with a few Persian loanwords.

Probably most of those words that are shared with modern-day Turkish derives from either Arabic or Farsi originally.


Urdu, like Hindi, is a form of Hindustani.[17] It evolved from the medieval (6th to 13th century) Apabhraṃśaregister of the preceding Shauraseni language, a Middle Indo-Aryan language that is also the ancestor of other modern Indo-Aryan languages, including the Punjabi dialects. Around 75% of Urdu words have their etymological roots in Sanskrit and Prakrit,[18][19][20] and approximately 99% of Urdu verbs have their roots in Sanskrit and Prakrit.[21]
https://en.wikipedia.org/wiki/Urdu

So I don't think that you can call Turkish as a mother language of Urdu.
 
.
But urdu is said to be the most beautiful daughter of farsi....
Not Turkish. But they have some main words.
Farsi and urdu has almost similar words with different sentence structure.
 
.
But urdu is said to be the most beautiful daughter of farsi....
Not Turkish. But they have some main words.
Farsi and urdu has almost similar words with different sentence structure.
It's just writer perception, not something you can authenticate it.
 
.
According to all the numerous references used on that Wikipedia page the few "Turkish" words actually derive from Chagatai Turkic (not much related to Turkish).

Have in mind that when Urdu was developed as a language most of Ottoman Turkish was Arabic (more Arabic than Turkish) with a few Persian loanwords.

Probably most of those words that are shared with modern-day Turkish derives from either Arabic or Farsi originally.
So I don't think that you can call Turkish as a mother language of Urdu.

The major contribution of Turkic languages to Urdu comes in the shape of military related terms. For example "top" = artillery, "yalghaar" = attack, "barud" = gunpowder, ordu (Urdu) = military camp etc.

Persians contribution is focused on the field of science and culture and Arabics in religion and administration. Of course there are overlaps everywhere but this is a rough generalization.

With regards to the "mother" language, Urdu is in many ways similar to a language like English as it has multiple sources of influence. Literally speaking yes Turkc (chagtai) is the mother of Urdu as emerged in the military camps of Muslim armies in the north western parts of South Asia. However in reality the language developed a native core with extensive influence from Arabic, Persian and Turkic. Similarly English is a Germanic language at its core but centuries of Latin and French influence has drawn it away from other Germanic languages significantly (not to mention the local Celtic influence on place names/geography).
 
.
The major contribution of Turkic languages to Urdu comes in the shape of military related terms. For example "top" = artillery, "yalghaar" = attack, "barud" = gunpowder, ordu (Urdu) = military camp etc.

Persians contribution is focused on the field of science and culture and Arabics in religion and administration. Of course there are overlaps everywhere but this is a rough generalization.

With regards to the "mother" language, Urdu is in many ways similar to a language like English as it has multiple sources of influence. Literally speaking yes Turkc (chagtai) is the mother of Urdu as emerged in the military camps of Muslim armies in the north western parts of South Asia. However in reality the language developed a native core with extensive influence from Arabic, Persian and Turkic. Similarly English is a Germanic language at its core but centuries of Latin and French influence has drawn it away from other Germanic languages significantly (not to mention the local Celtic influence on place names/geography).

Interesting as Arabic was the language of science, culture, religion and administration in the Arab world (naturally), Middle East, much of Muslim Africa, Muslim Southern Europe and South East Asia to a lesser degree.

I guess that Farsi had a similar role in the Muslim-majority regions of South Asia seeing that most of the ruling Muslim dynasties (Central Asian Turkic and Afghan dynasties mostly) in South Asia were Persianized in terms of the court language being Persian (if I am not wrong) while Arabic on the other hand remained a language of religion and administration.

Yes, you can say the same about numerous languages. French having had a somewhat similar development as English (Germanic at its core albeit spoken by a mostly ethnically Celtic population - hence the Celtic influences, afterwards the heavy influx of Latin which essentially turned it into a Romance language) as did Spanish (pre-Roman, mostly Celtic but not only, indigenous Iberian languages as well, later heavy Latin influences and afterwards heavy Arabic influences many of which have remained here 500+ years after the end of Al-Andalus).

However how accurate are those statements below from that same Wikipedia link?

Urdu, like Hindi, is a form of Hindustani.[17] It evolved from the medieval (6th to 13th century) Apabhraṃśaregister of the preceding Shauraseni language, a Middle Indo-Aryan language that is also the ancestor of other modern Indo-Aryan languages, including the Punjabi dialects. Around 75% of Urdu words have their etymological roots in Sanskrit and Prakrit,[18][19][20] and approximately 99% of Urdu verbs have their roots in Sanskrit and Prakrit.[21]
Another thing, how similar are Urdu and Hindi? Are they not essentially the same language?

Since Punjabi is the most dominant native tongue of Pakistan, how similar is Punjabi (I know that there are many Punjabi dialects) to Urdu? Or is the similarity bigger with Hindi?

Thanks in advance.
 
Last edited:
. .
Are most of the foreign words in Urdu not of Farsi and Arabic origins?




Urdu, like Hindi, is a form of Hindustani.[17] It evolved from the medieval (6th to 13th century) Apabhraṃśa register of the preceding Shauraseni language, a Middle Indo-Aryan language that is also the ancestor of other modern Indo-Aryan languages, including the Punjabi dialects. Around 75% of Urdu words have their etymological roots in Sanskrit and Prakrit,[18][19][20] and approximately 99% of Urdu verbs have their roots in Sanskrit and Prakrit.[21] Because Persian-speaking sultans ruled the Indian subcontinent for a number of years,[22] Urdu was influenced by Persian and to a lesser extent, Arabic, which have contributed to about 25% of Urdu's vocabulary.[18][23][24][25][26][27][28] Although the word Urdu is derived from the Turkic word ordu (army) or orda, from which English horde is also derived,[29] Turkic borrowings in Urdu are minimal[30] and Urdu is also not genetically related to the Turkic languages. Urdu words originating from Chagatai and Arabic were borrowed through Persian and hence are Persianized versions of the original words. For instance, the Arabic ta' marbuta ( ة ) changes to he ( ه‬ ) or te ( ت‬ ).[31][note 1] Nevertheless, contrary to popular belief, Urdu did not borrow from the Turkish language, but from Chagatai, a Turkic language from Central Asia. Urdu and Turkish borrowed from Arabic and Persian, hence the similarity in pronunciation of many Urdu and Turkish words.[32]

Arabic influence in the region began with the late first-millennium Muslim conquests of the Indian subcontinent. The Persian language was introduced into the subcontinent a few centuries later by various Persianized Central Asian Turkic and Afghandynasties including that of Mahmud of Ghazni.[33][34] The Turko-Afghan Delhi Sultanate established Persian as its official language, a policy continued by the Mughal Empire, which extended over most of northern South Asia from the 16th to 18th centuries and cemented Persian influence on the developing Hindustani.[citation needed]

The name Urdu was first used by the poet Ghulam Hamadani Mushafi around 1780.[35][36](p18) From the 13th century until the end of the 18th century Urdu was commonly known as Hindi.[36](p1) The language was also known by various other names such as Hindavi and Dehlavi.[36](pp21–22) Hindustani in Persian script was used by Muslims and Hindus, but was current chiefly in Muslim influenced society.[37] The communal nature of the language lasted until it replaced Persian as the official language in 1837 and was made co-official, along with English. Hindustani was promoted in British India by British policies to counter the previous emphasis on Persian.[38] This triggered a Hindu backlash in northwestern India, which argued that the language should be written in the native Devanagari script. This literary standard called "Hindi" replaced Urdu as the official language of Bihar in 1881, establishing a sectarian divide of "Urdu" for Muslims and "Hindi" for Hindus, a divide that was formalized with the division of India and Pakistan after independence (though there are Hindu poets who continue to write in Urdu to this day, with post-independence examples including Gopi Chand Narang and Gulzar).

There have been attempts to "purify" Urdu and Hindi, by purging Urdu of Sanskrit words, and Hindi of Persian loanwords, and new vocabulary draws primarily from Persian and Arabic for Urdu and from Sanskrit for Hindi. English has exerted a heavy influence on both as a co-official language.[39]

https://en.wikipedia.org/wiki/Urdu

How correct is the above?

Asalamu Alaikum

Urdu's words are mixed in origin, with most having Farsi, Arabic, Sanskrit, Pashto or Chagatai origins.

The Journal of Pakistan Vision places Urdu vocabulary as being composed of 29.9% of Arabic loanwords and 21.7% Persian loanwords.

http://pu.edu.pk/images/journal/studies/PDF-FILES/Artical-4_v16_1.pdf

It's also written in a Perso-Arabic script:

set-of-urdu-language-alphabet-signs-isolated-on-white-.jpg


However, the pronunciation of many of the Arabic words have been changed fairly significantly, and the sentence structure of Urdu is akin to other Indo-Aryan languages like Punjabi.

Another thing, how similar are Urdu and Hindi? Are they not essentially the same language?

Since Punjabi is the most dominant native tongue of Pakistan, how similar is Punjabi (I know that there are many Punjabi dialects) to Urdu? Or is the similarity bigger with Hindi?

Thanks in advance.

Urdu and Hindi have a pretty similar sentence structure, so Hindi speakers can understand Urdu speakers and vice versa. A lot of the vocabulary also overlaps (especially if one speaks informal Urdu).

Punjabi is an Indo Aryan language from the same cluster as Urdu, so yes they are pretty similar, but Urdu tends to be more considered more soft/polite, where as Punjabi is considered a little more hard/aggressive, but it can be pretty soft too if spoken correctly.

Urdu (in my opinion) has more in common with Pakistani Punjabi than Hindi.
 
.
Asalamu Alaikum

Urdu's words are mixed in origin, with most having Farsi, Arabic, Sanskrit, Pashto or Chagatai origins.

The Journal of Pakistan Vision places Urdu vocabulary as being composed of 29.9% of Arabic loanwords and 21.7% Persian loanwords.

http://pu.edu.pk/images/journal/studies/PDF-FILES/Artical-4_v16_1.pdf

It's also written in a Perso-Arabic script:

set-of-urdu-language-alphabet-signs-isolated-on-white-.jpg


However, the pronunciation of many of the Arabic words have been changed fairly significantly, and the sentence structure of Urdu is akin to other Indo-Aryan languages like Punjabi.



Urdu and Hindi have a pretty similar sentence structure, so Hindi speakers can understand Urdu speakers and vice versa. A lot of the vocabulary also overlaps (especially if one speaks informal Urdu).

Punjabi is an Indo Aryan language from the same cluster as Urdu, so yes they are pretty similar, but Urdu tends to be more considered more soft/polite, where as Punjabi is considered a little more hard/aggressive, but it can be pretty soft too if spoken correctly.

Urdu (in my opinion) has more in common with Pakistani Punjabi than Hindi.

That explains why Urdu (at times) sounds familiar to Arabic speakers especially if spoken slowly and by Urdu speakers that are speakers of Arabic too. This similarity is especially strong among teachers of Arabic (with Urdu as a mother tongue) in the West and in the GCC (teachers teaching expat communities Arabic).

The accent however is often much different which is what probably makes Urdu much, much more foreign to the Arabic ear than it would be if the words were pronounced as in Arabic.

However I would have thought that Urdu had more Farsi loanwords.

The linguistic diversity of Pakistan and South Asia as a whole is quite fascinating if you ask me. On such a relatively small geographic area like Pakistan you have quite a lot of languages, some not even from the same linguistic family.

If you don't mind me asking, where does Sindhi (for instance) fit into the narrative in relation to say Urdu and Punjabi (the two main languages of Pakistan if I am not wrong)?

Another thing, outside of Indian Punjab, are there regions that border India where the same languages are spoken? If I am not wrong the founding father of Pakistan (Muhammad Ali Jinnah) was of Gujarati descent and spoke Gujarati as his native tongue (apparently). Gujarat lies quite close to Pakistan. Is Gujarati somewhat related to say Sindhi or am I imagining things here or just looking at it from an "Arab point of view" seeing that most countries/historical regions of the Arab world have overlapping dialects?

Fascinating stuff anyway.

Thanks in advance.
 
Last edited:
.
Who are these that keep saying Urdu comes from Prakit. WTF is this Prakit BS? And Urdu does not come from Turkish either. And for all the love for Urdu, where is it in Pakistan? You people mix your bullshit english words into Urdu all the time.

Either speak your language properly, or don't speak it at all.


~ Urdu vs Hindi ~

A lot of debate over Urdu and “Hindi” languages has occurred since the turn of the 20th century. The official line today is that Urdu and “Hindi” are both registers of Hindustani language, with Urdu being the “Persianzed variant” of it, while “Hindi” being the Indic variant of it…but is this actually true? Turns out…it’s not. The Hindustani myth was made popular by Mahatma Gandhi in the 1920s to essentially bring harmony and closure to the debate. As you read on, you’ll understand why a conflict arose in the late 1860s and why both languages had become religious symbols – Urdu for Muslims and “Hindi” for Hindus. But upon introspection and a little common sense, it will become apparent to you as to which language existed for hundreds of years, and which language was simply invented out of thin air. Contrary to popular belief, Urdu was not a language of the Muslims. In fact, all Hindus living in the Delhi region spoke and wrote Urdu right up until the turn of the 20th century. What happened afterwards is where the story gets interesting.

~ Defining Urdu & Hindi ~
Before discussing this topic, we need to define terms. The term Urdu and Hindi have been around since at least the 16th century. What is today known as “Standard Urdu” was first referred to as "Zuban-e-Urdu-e-Mualla" (زبانِ اُردُوئے معلّٰى) or “language of the camp" in Persian. Urdu derives from Turkic Ordū meaning "camp" and was given this name due to its origin as the common speech of the Mughal Army. This language was written in the Nastaliq (نستعلیق‬‎) script using the Persian Alphabet and over time was given many names depending upon which region in the Mughul Empire you lived in and what dialect you spoke. Zaban-e-Urdu-e-Mualla has also been referred to as:

- Zaban-e-Delhi (زبانِ دہلی)
- Rekhta (ریختہ‬)
- Dakhani (دکنی)
- Zaban-e-Urdu (زبانِ اردو)
- Urdu (اُردُو‬‎)
- Hindavi (ہندوی)
- Zaban-e-Hind (زبانِ ھند)
- Hindi (ہندی)
- Hindustani (ہندوستانی)

Regardless of what name the language was called, there was one common denominator. The language was written in Nastaliq script – no it was not written in Devanagari script during this period…even the terms Hindi being used at this time were in reference to Zuban-e-Urdu-e-Mualla, a language written in Nastaliq. Irrespective of what dialect you spoke and irrespective of the fact that the population in the Delhi Subah was majority Hindu, it was Urdu that would became the common peoples language in this region for the next 350 years.

~ Khariboli and the origins of Urdu ~
No discussion on Urdu can be had without discussing Khariboli. This language was spoken in the Delhi region between 900 and 1200 AD. Khariboli derived from a series of Middle Indo-Aryan languages – these middle languages arose when the Aryans migrated to the Indus Valley in 1500 BCE and syncretised with the local Harappans giving rise to Vedic Civilization, and hence Vedic Sanskrit, which later evolved into Middle Indo-Aryan languages like Gandhari and Pali. From these Middle Indo-Aryan languages, arose languages like Khariboli, Braj Bhasha, Awadhi and Maithili, all of which were spoken natively around the Delhi region. After the Bhakti movement degenerated into ritualistic cults, these languages came to be regarded as rural and unrefined. However, Khariboli seem to have survived as it was spoken in the urban areas.

~ Influence of Persian ~
When Muslim rule began, the Delhi Sultanate, which comprised several Turkic dynasties, introduced Persian to the region, and specifically around Delhi, from where they ruled. Later the Mughal Empire took control in 1526 – although the Mughals were of Timurid (Gurkānī) Turko-Mongol descent, they were Persianised, and Persian had gradually become the state language of the Mughal Empire. Khariboli, spoken in the urban areas, would begin coming in contact with Persian. This was especially true around Mughul courts, as Persian was the official language of the court, while Khariboli was the language of the common masses. Over this period, Persian would influence Khariboli and thus gradually a new language would form and be regarded as a “prestige dialect”. The Mughuls called this language “Zuban-e-Urdu-e-Mualla”. Amir Khusro, who lived in the 13th century during the Delhi Sultanate period, used this language in his writings and referred to it as Hindavi. As mentioned earlier, this language had many names – however, regardless of what name was given, it was written in the same Nastaliq script and Persian (Urdu) alphabet.


~ End of Muslim rule ~
In the 18th century, towards the end of the Mughal period, with the fragmentation of the empire and the elite system, a variant of Urdu came to gradually replace Persian as the lingua franca among the educated elite upper class in the Delhi region, though Persian still retained much of its pre-eminence. The term Hindustani by now was being used to describe Urdu. Again, regardless of what name it was given, the common denomenator was that it was written in Nastaliq script using the Persian alphabet. Then the failure of the 1857 War of Independence occurs against the British. This was a tragic defeat, especially for the Muslims. Following this uprising against Britain, the British initiated an investigative commission (Hunter Commission) to understand the reasons for the uprising and how it could be prevented in the future. The commission concluded that Muslims were the main cause of the uprising as “Mohemadans (Muslims) are bound in conscience to rebel against the Queen” as was stated. He also offered suggestions as how to prevent a further uprising – this included shutting down all Madrassas as well as the banning Persian. Banning Persian instantly brought Urdu to the forefront. In fact, the British promoted Urdu and in 1857 when the British Raj was established, both English and Urdu (Hindustani) were made official languages of the new colony. In fact, the British commonly used the terms Hindustani and Hindi to describe Urdu. Again, irrespective of the name given, it was written in Nastaliq script. I keep emphasizing this over and over again, but the next section will open up significant controversy.

~ North Indian Hindu Nationalism ~
When Urdu (Hindustani) was made an official language of the British Raj in 1857, this outraged many North Indian Hindu nationalists, particularly in Bihar. But the question is why? Urdu (Hindustani) was the language of the masses – Sumit Sarkar notes that in the 18th and the bulk of the 19th century, "Urdu had been the language of polite culture over a big part of north India, for Hindus quite as much as Muslims". If both Hindus and Muslims were speaking Urdu, why was there such an outrage when the British made it an official language of the Raj? Well, in order to understand this you have to understand the political environment of that time. This was 1857 and for the first time in over 950 years, a non-Muslim empire was ruling India. For conservative Hindus (particularly from the north), this was seen as a good omen and a rallying cry to establish a Hindu empire (Akhand Bharat). In order to achieve this, all evidence of the Muslim past had to be erased and hence Urdu had to be eliminated. This is where the birth of “Hindi” occurs.

~ Birth of “Hindi” movement ~
In 1867, some conservative Hindus in the United Provinces of Agra and Oudh of the British Raj began to demand that “Hindi” be made an official language in place of Urdu. This “Hindi” is not the same Hindi that was used to describe Zaban-e-Urdu-e-Mualla – hence why I use parenthesis to differentiate the two. Hindi and “Hindi” are not the same. Babu Shiva Prasad of Banares was one of the early proponents of “Hindi”. He proposed taking Urdu language and replacing the Nastaliq script with Devanagari script, to form a new language he called “Hindi”. He also proposed replacing Persian words with Sanskrit or English words. In a “Memorandum on court characters” written in 1868, he accused the early Muslim rulers of India for “forcing them (Hindus) to learn Persian”. In 1897, Madan Mohan Malaviya published a collection of documents and statements titled “Court character and primary education in North Western Provinces and Oudh”, in which, he made a compelling case for “Hindi”. Several “Hindi” movements were formed in the late 19th and early 20th century; notable among them were “Nagari Pracharini Sabha” formed in Banaras in 1893, “Hindi Sahitya Sammelan” in Allahabad in 1910, “Dakshina Bharat Hindi Prachar Sabha” in 1918 and “Rashtra Bhasha Prachar Samiti” in 1926.

~ Rise of “Hindi” ~
In 1881, the “Hindi” movement won its first major battle. Over 118 memorials signed by 67,000 people were submitted to the Education Commission in several cities of Bihar, demanding that the Nastaliq script of Urdu be replaced with Devanagari script and that the language be called “Hindi”. The proponents of “Hindi” argued that the majority of people in the region spoke “Hindi” and therefore introduction of Devanagari script would provide better education and improve prospects for holding Government positions. They also argued that Nastaliq script made court documents illegible and encouraged forgery and promoted the use of complex Arabic and Persian words.

~ Defending Urdu ~
Organisations such as Anjuman Taraqqi-e-Urdu were formed to protect Urdu’s status. Advocates of Urdu argued that “Hindi” simply did not exist – “Hindi” was essentially Urdu written in Devanagari script. Furthermore, with the forceful expulsion of Persian words from Urdu to “Hindi”, the language lacked standardisation and mature vocabulary. They also argued that the Devanagari script could not be written faster. The last and most important point was that Urdu was spoken fluently by most of the people in the region and disputed the assertion that official status of language and script is essential for the spread of education. This indeed is backed up with evidence – Sumit Sarkar gives figures for the decade of 1881 to 1890, which showed that the circulation of Urdu newspapers was twice that of “Hindi” newspapers and there were 55% more Urdu books as “Hindi” books. He gives the example of the Indian author Premchand, who wrote mainly in Urdu until 1915, until he found it difficult to publish in the language. Urdu in every sense was a real language. “Hindi” was simply not

~ Identity Politics ~
The seeds of discourse were planted in 1881, when “Hindi” replaced Urdu in Bihar. After 1881, “Hindi” would come to be known as the “language of the Hindus” and over the successive generations, Hindus would abandon Urdu in favour of “Hindi”, while the Muslims would retain Urdu. The Christians also chose to retain Urdu – specifically Protestant Christians, who were in significant numbers in Punjab. The reason for retaining Urdu was that the majority of Christian books in circulation at the time were mainly in Urdu, together with English translations. When Christian missions arrived in Northern India during the British Raj, the missionaries chose Urdu as this was the language spoken by the masses.

~ Conclusion ~
Urdu was not a language of simply the Muslims, it was a common language spoken in the Delhi region by both Hindus and Muslims, and later by Christians. In the 1920s, Mahatma Gandhi attempted to bring closure to the debate by proclaiming that both Urdu and “Hindi” were from the same language called Hindustani. However, it should be very clear to you all by now that the term “Hindustani” is synonymous with Urdu, as mentioned earlier. This is simply a myth, which continuously gets repeated by those who are unaware of history and by those who defend the existence of “Hindi”.

For “Hindi” speakers, I can understand that this is very offensive and shocking, however, a spade indeed needs to be called a spade. This doesn’t erase the fact that “Hindi” now is not a real language. It indeed is now, as the Republic of India adopted it in 1947. But the truth and history of Hindi should be exposed – continuously denying that “Hindi” was invented in the 1860s is intellectual dishonesty at its highest form. If indeed “Hindi” existed before 1860, where is all the Hindi literature? Where is all the Hindi poetry? Fact is, that it simply doesn’t exist – ask yourself why.

There is no simple way to say this – the fact is, “Hindi” was invented out of religious hatred for Muslims and nothing else. There is no logical explanation about why there was a need to replace the Nastaliq script with Devanagari script. Even the term “Hindi” being used is incorrect, since it the term was originally used to describe Urdu.

And the trend continues to this day. Nowadays, Punjabi language in India is under attack by these same radical North Indian Hindu nationalists. In parts of Haryana, books and pamphlets are beginning to be distributed calling for Punjabi language to be written in Devanagari, instead of Gurmukhi script, which Indian Punjabis have used since the 17th century after they themselves abandoned Shahmukhi.

Does anyone else not see a bigger problem here?
 
.
Interesting as Arabic was the language of science, culture, religion and administration in the Arab world (naturally), Middle East, much of Muslim Africa, Muslim Southern Europe and South East Asia to a lesser degree.

I guess that Farsi had a similar role in the Muslim-majority regions of South Asia seeing that most of the ruling Muslim dynasties (Central Asian Turkic and Afghan dynasties mostly) in South Asia were Persianized in terms of the court language being Persian (if I am not wrong) while Arabic on the other hand remained a language of religion and administration.

Yes, with the exception of the Habbaris in the Indus/Pakistan region, rest of South Asia never witnessed Arabic as the prestige language/rulers language. Rather the islamization of the Indus region took place under the rule of Persianized dynasties of Turkic or Pashtun heritage.

However how accurate are those statements below from that same Wikipedia link?

Urdu, like Hindi, is a form of Hindustani.[17] It evolved from the medieval (6th to 13th century) Apabhraṃśaregister of the preceding Shauraseni language, a Middle Indo-Aryan language that is also the ancestor of other modern Indo-Aryan languages, including the Punjabi dialects. Around 75% of Urdu words have their etymological roots in Sanskrit and Prakrit,[18][19][20] and approximately 99% of Urdu verbs have their roots in Sanskrit and Prakrit.[21]

Hindustani was just a synonym for Urdu as the language recieved its initial patronage from rulers based in Delhi. Hindustan was a geographic region corresponding roughly from the borders (or sometimes including) the Indus region in the west to Bengal in the east. Islamic chroniclers as such gradually just started to refer to the language as Hindustani (language of the people of Hindustan) since despite having its origins in the military camps (hence the name Urdu), Urdu eventually developed under state patronage to become a court language as well as the language of the educated and learned people of the Hindustan region.

The confusion with the name Hindi however takes place during the colonial period when the British were looking to destroy the previous socio-economic structure of the region which had resulted in the rebellion of 1857 (this rebellion led by the last Mughal Emperor almost succeeded in kicking the British out of South Asia completely). After the British finally subdued the rebels they undertook an extensive reorganization of society in the region including the demotion of Muslims from the ruling class to the lowest class. In order to break the Muslim spirit Hindu nationalism was also encouraged so as to divide the local populace (many of the founding fathers of the Indian National Congress were Englishmen like Allan Octavian Hume and William Wedderburn).

As political awareness of the Hindu majority grew (especially in the Gangetic plains) under British rule, the need for a lingua franca emerged and it is in this context that Hindi language movements emerge. These movements sought to remove Arabic, Persian and Turkish words from Hindustani/Urdu and replace them with Sanskrit words. This is where the divide between modern day Urdu and Hindi begins. Hindi placed its emphasis on local colloquial dialects (known as Braj Bhasha/Khariboli) whereas Urdu continued to place importance on its court/royal heritage and thereby on its loanwords from Arabic/Persian/Turkish. Gradually Hindi became so different from Urdu/Hindustani that it could be classified as its own language.

Another thing, how similar are Urdu and Hindi? Are they not essentially the same language?

Since Punjabi is the most dominant native tongue of Pakistan, how similar is Punjabi (I know that there are many Punjabi dialects) to Urdu? Or is the similarity bigger with Hindi?

Thanks in advance.

How similar Urdu and Hindi are to each other depends strongly on the dialect and the level of formality being used. "Khalis" (pure) Urdu will be extremely difficult for a Hindi speaking person to understand and similarly formal Hindi used in Indian news channels are almost incomprehensible for an Urdu speaker like myself due to their heavy usage of Sanskrit words as replacements for their Arabic/Persian/Turkish equivalents in Urdu.

However in the informal context the north western dialects of Hindi (around Indian Punjab/Haryana/Delhi) are generally intelligble for Urdu speakers from Pakistan whereas the further east you go the harder it becomes.

Punjabi is a language that has developed closely with Urdu/Hindustani and has similarly been heavily influenced by other languages. It is nevertheless a seperate language with the similarlity between Urdu and Punjabi becoming similar to the situation between say Portuguese and Spanish or Swedish and Danish. Certainly related but different enough to be classified as seperate languages.
 
.
Fact is simple. Urdu has 500 years of history. "Hindi" is a bastard child of Urdu, created out of religious hatred in 1860. Want proof?

Ask any Hindi speaker to provide you with any piece of Hindi literature written before 1860. To this day, not one has ever been able to find it. Why? Because "Hindi" (Nagri Urdu) never existed prior to 1860.

It's a fake language and it sounds like absolute shit, which is to be expected, because the radical Hindu nationalists of Bihar removed all the Persian/Turkish words from Urdu and replaced them with made up works from Sanskrit or English.

That's why Urdu sounds beautiful, while Hindi sounds like you're murdering a cat.
 
.
BS. Turki language have least influence, i didn't even read this shit.. He must be one of Erdogan's *** lickers. we have millions of them in Pakistan..
 
.
Back
Top Bottom