پاناما لیکس کیس: ’نواز شریف کا خاندان ثبوت فراہم کرے‘
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
شیئر
پاناما لیکس سے متعلق درخواست کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اگر نواز شریف کی فیملی مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ’منروا‘ کی ملکیت ثابت نہ کرسکی تو عدالت یہ تصور کرے گی کہ اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل کا دعویٰ درست ہے۔
٭
پاناما لیکس کے بعد کیا ہوا؟
٭
پاناما لیکس میں مدعی سست؟
جمعے کے روز ان درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بارِ ثبوت فراہم کرنا اُن افراد کی ذمہ داری ہے جن کے قبضے میں جائیداد ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’نیسکول‘ اور ’نیلسن‘ منروا کمپنی کے نیچے کام کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے ذریعے لندن میں جائیدادیں خریدی گئیں جبکہ مریم نواز منروا کمپنی کی ’بینیفشری‘ ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ سنہ 1990 کی دہائی میں لندن میں جب یہ جائیداد خریدی گئی تھی اس وقت مریم نواز وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زیر کفالت تھیں۔
تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ لندن میں خریدے گئے فلیٹ مریم نواز کی ملکیت ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا اُن کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لندن میں خریدے گئے فلیٹس مریم نواز کو منتقل کیے گئے۔ اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ عدالت کو اس بارے میں ثبوت مریم نواز فراہم کرسکتی ہیں۔
بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانونِ شہادت کے مطابق کسی بھی شخص کو ایسی دستاویزات عدالت میں پیش کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو اُس کے خلاف جاتی ہوں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت میں جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں اُنھیں جانچے بغیر زیرِ غور نہیں لایا جاسکتا۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو بےاختیار نہ سمجھا جائے اور عدالت جب چاہے اس ضمن میں ریکارڈ طلب کرسکتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت اس ضمن میں دوسرے فریق کا موقف سن کر احکامات جاری کرسکتی ہے۔
سماعت کے دوران وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کا بیان بھی عدالت میں جمع کروایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ جائیداد کی بینیفشری نہیں بلکہ ٹرسٹی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر موجودہ ٹرسٹی فوت ہوجائے تو اس کے بعد وہ ان کمپنیوں کے معاملات کو دیکھ سکتی ہیں۔
مریم نواز شریف کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے مذکورہ کمپنیوں کے حوالے سے جو دستاویزات جمع کرائی ہیں، ان پر ان (مریم نواز) کے جو دستخط دکھائے گئے ہیں وہ جعلی ہیں۔
Image copyrightGETTY IMAGES
اس جواب میں مریم نواز کی طرف سے گذشتہ پانچ سال کے دوران آمدن پر دیے گئے انکم ٹیکس کی معلومات بھی فراہم کی گئیں۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر شریف خاندان ان کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرتا ہے تو پھر بار ثبوت بھی اُنہی کی ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں اُنھیں بتانا پڑے گا کہ یہ کمپنیاں کب اور کیسے بنیں اور ان کمپنیوں کے لیے پیسہ کہاں سے آیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت ’منی ٹریل‘ کا ریکارڈ پیش کرنے کا بھی حکم دے سکتی ہے۔
بینچ میں موجود جسٹس اعجاز افضل نے پی ٹی ائی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت میں پیش کی گئیں دستاویزات کے بارے میں بینچ کو مطمعن کریں اور اگر تفصیلات نہ دی گئیں تو پھر ان دستاویزات کو ادھورا سمجھا جائے گا۔
اُنھوں نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت کچھ ثبوت فراہم کرنا اُن کی بھی ذمہ داری ہے۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اپنے تئیں عدالت کو مطمعن کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت پیر نو جنوری تک ملتوی کر دی
http://www.bbc.com/urdu/pakistan-38531075