What's new

Panama leak Case Proceedings - JIT Report, News, Updates And Discussion

Status
Not open for further replies.
Summary of Today's Hearing


ایک ایسے کمرہ عدالت سے رپورٹ کرنا جہاں ڈیڑھ سو افراد کی گنجائش ہو، اور سات سو سے زائد لوگ ایک دوسرے کو ھکے دے رہے ہوں، زندگی کا مشکل ترین وقت یوں بھی ہوتا ہے کہ گٹھن اور سانس لینے میں آسانی نہ رہے تو کسی بھی لمحے ہجوم کے پاﺅں تلے روندے جانا کا امکان بڑھ جاتاہے۔

جب عدالت کے کمرے میں چوھری شجاعت اور ظفرالحق جیسے عمررسیدہ سیاست دان بھی صبح نو بجے پہنچ جائیں اور کوئی بھی شخص کالا کوٹ پہن کر وکیل کے بھیس میں داخل ہوجائے، عدالتی کارروائی کی الف بے سے بھی ناواقف پریس کارڈ رکھنے والا صحافی بھی ’وزیراعظم کی نااہلی‘ کے حکم کا عینی شاہد بننے کی کوشش میں ہو تو پھر پیشہ ورانہ مجبوری کی وجہ سے رپورٹنگ کیلئے موجود ہم جیسوں کی ہی شامت آتی ہے جنہوں نے لمحہ بہ لمحہ درست معلومات ٹی وی اسکرین کے ذریعے اپنے ناظرین تک پہنچانا ہوتی ہیں۔

جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کا آغاز کیا تو ہرطرف دھکم پیل تھی اور عدالتی ہرکارے منت سماجت کرکے خاموشی اختیار کرنے کاکہنے پر مجبور تھے۔ سینٹرلی ائرکنڈیشنڈ نظام سے منسلک کمرے میں کئی افراد نے سانس گھٹنے کی شکایت کرتے ہوئے باہر جانے کیلئے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہر شخص پیسنے سے شرابور تھا مگر جج مکمل سکون کے ساتھ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کو سن رہے تھے جنہوں نے تفتیشی رپورٹ میں جے آئی ٹی کی جانب سے اخذ کیے گئے نتائج کے نکات عدالت کے سامنے پیش کیے۔ ابتداء نعیم بخاری نے ان الفاظ میں کی کہ ’اب یہ مقدمہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، چونکہ تفتیش عدالت کے حکم پر ہوئی ہے تو میرا مقدمے میں آنادرست نہیں ہوگا تاہم معاونت کیلئے رپورٹ کے اہم مندرجات کی نشاندہی کرنا چاہتاہوں۔ نعیم بخاری نے کہاکہ تفتیشی ٹیم نے شریف خاندان نے تمام کاروبار اور آف شور کمپنیوں کی ملکیت ثابت کردی ہے، وزیراعظم کی بیرون ملک ملازمت اورکمپنی کی بھی تصدیق ہوگئی ہے، رپورٹ میں گلف اسٹیل کے اثاثوں کے بارے میں بھی نتائج اخذ کیے گئے ہیں، طارق شفیع کے بیان حلفی کو جعلی قرار دیا گیاہے، امارات کی وزارت قانون نے گلف اسٹیل کی بارہ ملین درہم میں فروخت کی تصدیق نہیں کی، لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کو جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مریم نواز کی ملکیت قراردیاہے، فلیٹ خریداری کی منی ٹریل اور مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ پر بھی رپورٹ میں نتائج دیے گئے ہیں، جے آئی ٹی نے وہ دستاویزات بھی حاصل کی ہیں جن سے مریم نواز کی ملکیت ثابت ہوتی ہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ بیرئیر سرٹیفیکٹ پر بھی جے آئی ٹی نے قانونی رائے حاصل کی ہے اور چونکہ سرٹیفیکیٹ مریم کی تحویل میں نہیں دیے گئے اس لیے قانونی طورپر ٹرسٹ وجود میں ہی نہیں آیا۔ نعیم بخاری کاکہنا تھاکہ جے آئی ٹی رپورٹ نے مریم کی ٹرسٹ ڈیڈ کا فرانزک ماہر سے معائنہ کرایا جس میں معلوم ہواکہ دوہزار چھ میں انگریزی خطاطی کا یہ فونٹ دستیاب ہی نہیں تھا جس میں یہ تحریر کی گئی اس لیے یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ اسی طرح رپورٹ میں وزیراعظم کے موقف کو تبدیل ہوتے بتایا گیاہے، قطری خطوط کے بارے میں وزیراعظم نے پارلیمان میں بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔

نعیم بخاری کو کافی دیر بعد بنچ کے سربراہ نے مداخلت کرکے روکا کہ اس چیز کا جائزہ لینے کیلئے قانون شہادت میں سیکشن ایک سوباسٹھ موجود ہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ مائی لارڈ، آپ درست کہتے ہیں کہ گواہ پر عدالت میں جرح ہوتی ہے تب نتائج تک پہنچاجاتاہے، اسی لیے یہ معاملہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت نہ آنے کا نہیں بلکہ ’کورم نان جوڈس‘ ہے (یعنی ایسی کارروائی جوکسی عدالت کے سامنے نہیں ہوئی)۔ اس کے بعد اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ نعیم بخاری نے کہاکہ مائی لارڈ، مسکرا رہے ہیں جس کی وجہ سے میں کچھ کہنے سے ہچکچا رہاہوں۔ اب یہ عدالت کاکام ہے کہ جے آئی ٹی کے ساٹھ روزہ کام کا جائزہ لے کہ عدالتی احکامات کے مطابق ہے یانہیں۔ پھر بولے کہ قطری شیخ کا اس پورے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ سرمایہ کاری میاں شریف اور ان کے بیٹوں کے درمیان معاملہ تھا، وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی نے ’سورس ڈاکومنٹ‘ کا بھی ذکر کیاہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا یہ تصدیق شدہ دستاویزات ہیں؟۔ نعیم بخاری نے جواب دیاکہ دستاویزات کی نقول دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ جے آئی ٹی ایک قدم آگے بڑھی ہے اور پچاس ٹرکوں کے اسکریپ کا لکھاہے لیکن ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ تریسٹھ کی بجائے صرف اڑتالیس ملین ریال میں بیچی گئی، اس فروخت سے حسین نوازکو صرف چودہ ملین ریال ملے، اس طرح ان کے پاس اسپانسرڈ سرمایہ موجو نہیں تھا، جے آئی ٹی نے لکھاہے کہ دوہزار آٹھ میں سعودی عرب کے الرازی بنک سے 35ملین ریال قرض لیا گیا لیکن دوہزار نو میں بنک نے یہ قرض منسوخ کردیا۔ اس موقع پر نوٹس کو دیکھ کر نعیم بخاری نے شیخ سعید کا ذکر کیا اور پھر معاون وکیل کے سمجھانے پر عدالت سے معذرت کرلی کہ غلطی ہوگئی۔ نعیم بخاری نے کہاکہ اس کے بعد جے آئی ٹی اس علاقے میں داخل ہوئی جسے گرے ایریا کہتے ہیں اور وزیراعظم کے سات لاکھ پچاس ہزار ڈالرز کا تذکرہ ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہاں بھی دستاویز تصدیق شدہ نہیں بلکہ سورس ڈاکومنٹ کا کہاگیاہے۔وکیل نے کہاکہ رپورٹ میں وزیراعظم کو ایف زیڈ ای کمپنی کے بورڈ کا چیئرمین بتایا گیاہے اور اس کی دستاویز بھی موجو دہے، یہ سورس ڈاکومنٹ نہیں، حسین نواز نے یہ کمپنی سنہ دوہزار چودہ میں بند کردی، یہ دستاویز انڈیکس میں ایکس پر موجود ہیں۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ڈبل ایکس یا ٹرپل ایکس؟۔ ( عدالت میں موجود افراد حیران ہوکر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور جج صاحب معلوم نہیں کس طرف دیکھنے لگے)۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق وزیراعظم نے ایف زیڈ ای کمپنی سے جولائی دوہزار تیرہ تک تنخواہ وصول کی لیکن یہ تنخواہ باقاعدگی سے نہیں لی گئی۔جسٹس اعجازافضل نے پوچھاکہ کیا قانون کی شق اکیس کی ذیلی شقوں جی اور ایچ کے مطابق ان دستاویزات کاجائزہ لیاجا سکتاہے؟۔ نعیم بخاری نے کہاکہ مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ ان دستاویزات پر وزیراعظم کے دستخط موجود ہیں، امارات کی وزارت قانون نے جے آئی ٹی کو چار معاملات پر جواب دیاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ شفافیت کو برقرار رکھنے کیلئے ہم رپورٹ کی دسویں جلد کو بھی کھولیں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ کیا جے آئی ٹی نے دستاویزات پاکستان میں لانے کیلئے قانونی طریقہ کار اختیارکیا گیا؟۔ نعیم بخاری نے کہاکہ دستاویزات جے آئی ٹی کی درخواست پر فراہم کی گئیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ خود سے فراہم کردہ دستاویزات اور تفتیشی کی لائی گئی دستاویزات کی قانونی حیثیت میں فرق ہوتاہے۔

اس دوران جسٹس عظمت سعید کو خیال آیاکہ سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء عدالت میں کھڑے ہیں اوران کے بیٹھنے کیلئے کرسی موجو نہیں۔ انہوں نے کہاکہ افسوس ہے کہ جونیئر وکیل بیٹھے ہوئے ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم جب وکالت کرتے تھے تب ایسی صورتحال کبھی پیدانہیں ہوئی۔ نعیم بخاری نے کہاکہ روایات تبدیل ہورہی ہیں۔ عدالت کو بتایا گیاکہ وکیل سلمان اکرم راجا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی۔

عدالتی وقفے کے بعد نعیم بخاری نے حسن نواز کی فلیگ شپ اور دیگر تین کمپنیوں کا رپورٹ میں ذکرکیا، قطر کے شیخ کی سرمایہ کاری سے متعلق حسن اورحسین کے بیانات میں تضاد کی بات کی اور کہاکہ سرمایہ کاری بالکل غلط اورمن گھڑت ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ رپورٹ میں سرمایہ کاری کو نہیں اس کی کہانی کو من گھڑت کہاگیاہے۔ نعیم بخاری نے کہاکہ برطانیہ میں شریف خاندان کی کمپنیاں خسارے میں تھیں، حسین نواز کمپنیاں بنانے کیلئے سرمایہ کی فراہمی کابتانے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی نے کمپنیوں کے درمیان سرمائے کی گردش بھی بتائی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ رپورٹ میں سرمائے کی گردش کابہت ذکرہے مگر کیا یہ بتایا گیاہے کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟۔ نعیم بخاری نے کہاکہ رپورٹ کہتی ہے کہ حسن کے پاس سرمایہ موجود ہی نہ تھا۔اس کے بعد نیب اور ایف آئی اے میں شریف خاندان کے زیرالتواء مقدمات کا ذکر ہوا، پھر معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی بات کی گئی،نعیم بخاری نے فرسٹ لیڈی یعنی کلثوم نواز کا بھی نام لیا اور کہاکہ ان کے بارے میں رپورٹ میں نتائج اخذ نہیں کیے گئے تاہم اسحاق ڈار کو بھی آمدن سے زیادہ اثاثوں کامالک بتایا گیاہے۔ وکیل نے کہاکہ عدالتی سوال پر جے آئی ٹی نے قطری خطوط کو افسانہ قرار دیاہے، مریم کی ٹرسٹ ڈیڈجعلی اور ان کو فلیٹس کا مالک بتایا گیاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگرہم مریم نواز کو مالک تسلیم کرلیں تب بھی جب تک وہ وزیراعظم کے زیرکفالت ثابت نہ ہوں تو اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟۔وکیل نے کہاکہ شریف خاندان کے کاروباری سرمائے کی کہیں سے بھی تصدیق نہیں ہوئی، انہوں نے آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے۔ جسٹس عظمت بولے، تو کیاہوا؟ اس کے کیا اثرات ہوں گے؟۔ نعیم بخاری فورا سنبھل کربولے کہ یہ عدالت پر ہے، عدالت جے آئی ٹی کی سفارشات ماننے کی پابند نہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہمیں بتائیں اس رپورٹ میں ہمارے لیے کیاہے جو ہم کریں؟۔ وکیل نے کہاکہ عدالت بیانات میں تضادات سے نتائج اخذ کرسکتی ہے۔ جسٹس اعجازافضل بولے کہ اس کا مطلب ہے آپ صادق و امین پر فیصلہ چاہتے ہیں۔ نعیم بخاری نے کہاکہ ہل میٹل مل لگانے کیلئے شریف خاندان کے پاس سرمایہ نہ تھا، جب مل خسارے میں جارہی تھی اس وقت حسین نے اپنے والد کو اٹھاسی کروڑ بھیجے۔اسی طرح وزیراعظم نے ایف زیڈ ای سے ملنے والی تنخواہ کا گوشوارے میں ذکر نہیں کیا۔ جسٹس اعجازافضل نے پوچھاکہ کیا اس معاملے پرقانون کے مطابق سماعت کیے بغیر فیصلہ کیاجاسکتاہے؟۔نعیم بخاری بولے کہ پانامہ پیپرز فیصلے میں عدالت نے کہاتھاکہ ضرورت محسوس کی تو وزیراعظم کو وضاحت کیلئے بلایا جاسکتاہے، ہماری استدعاہے کہ وزیراعظم کو بلایا جائے ، ہم جرح کریں گے، ہماری استدعاہے کہ وزیراعظم کے خلاف ڈیکلریشن جاری کیاجائے۔ نعیم بخاری کے دلائل اس مرحلے پر مکمل ہوگئے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے رپورٹ کے مندرجات پڑھنے شروع کیے، پہلے دس منٹ تک تو جج خاموش ہوکر سرکھجاتے رہے پھر جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ رپورٹ ہم نے بھی پڑھی ہے صرف اس بارے میں قانونی معاونت فراہم کریں کہ اس پر کیسے کارروائی کی جائے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جے آئی ٹی کے نتائج ماننا ہم پر لازم تو نہیں، یہ بتایاجائے کہ ان نتائج کے مطابق عدالت کیا فیصلہ کرسکتی ہے؟۔وکیل نے کہاکہ رپورٹ کے نتائج کے مطابق بظاہر وزیراعظم نااہل قراردیے جاسکتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ کے نتائج کس حد تک ماننے ہیں اور اس کی کیا شرائط ہیں اس کیلئے قانونی معاونت کریں، آپ کے بظاہر کامطلب ہے کہ بات ابھی حتمی نہیں۔ اس پرجب ہنسنے کی آوازیں ابھریں تو جماعت کے وکیل نے کہاکہ وہ شریف خاندان کے وکلاءکے دلائل کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اورامید ہے کہ ان کو اس کاموقع دیاجائے گا۔

اس کے بعددرخواست گزار شیخ رشید سامنے آئے اور وہی تقاریردہرائیں جو عموما ٹی وی پر بولتے رہتے ہیں، جج خاموشی سے سنتے رہے، ی(یہاں ان تمام باتوں کو دوبارہ لکھنا وقت اور تحریرکی طوالت کا باعث ہوگا)۔ شیخ رشید نے کہاکہ ساری قوم سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، شریف خاندان رنگے ہاتھوں پکڑاگیاہے، شیخ رشید نے کہاکہ ان لوگوں کو ایسی سزا دیں کہ تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ شیخ رشید کی جانب سے ججوں کو جناب اسپیکر کہنے پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایاکہ ایک درخواست تفتیشی رپورٹ کی جلد دس کے حصول کیلئے دائر کی ہے تاکہ بہتر قانونی دلائل کے ساتھ مقدمہ پیش کیاجاسکے، انہوں نے کہاکہ دوسری درخواست میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات دائر کیے ہیں، وکیل نے کہاکہ تفتیشی ٹیم نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا اور بیرون ملک سے دستاویزات کے حصول میں قانون کی خلاف ورزی کی، بغیر کسی تصدیق کے دستاویزات کا ثبوت کہاگیا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگر ایک ملزم تفتیشی افسر کے سامنے اعتراف جرم کرتاہے تب بھی عدالت نے اس کو قانون کے مطابق پرکھنا ہوتاہے ، جے آئی ٹی کی رپورٹ ایک تفتیشی کی رپورٹ ہے اگرچہ یہ ٹیم نے تیارکی ہے، اس رپورٹ کے بارے میں آئین وقانون کیا کہتاہے اس کو بھی دیکھناہوگا۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ اس رپورٹ میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں، صرف اس رپورٹ کی بنیاد پر نیب کو ریفرنس بھی نہیں بھیجا جاسکتا، جے آئی ٹی اپنی رائے دینے کا اختیار ہی نہیں رکھتی تھی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ صرف تفتیش تھی جو مکمل ہوگئی ہے اب اس رپورٹ کو دیکھناہوگا کہ اس کے اخذ کیے نتائج کی بنیاد پر کیاکارروائی جاسکتی ہے، عدالت کو اس پر قانونی رائے سننی ہے وکیل معاونت کریں۔وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ جے آئی ٹی نے جودستاویزات رپورٹ میں شامل کیں ان پر کسی کی شہادت ہی ریکارڈ نہیں کرائی۔ عدالتی وقت ختم ہونے لگا تو سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ وہ مریم اورحسن وحسین کی جانب سے پیش ہوں گے جبکہ وکیل ڈاکٹر طارق حسن نے کہاکہ وہ اسحاق ڈار کی نمائندگی کریں گے انہوں نے رپورٹ پر اعتراض جمع کرایا ہے۔ مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے گیارہ صفحات کے اعتراضات میں سب سے اہم حصہ آئی ایس آئی کے اس نمائندے کی قانونی حیثیت پر سوال ہے جو جے آئی ٹی کارکن تھا۔ اعتراض میں کہاگیاہے کہ وہ شخص آئی ایس آئی کا صرف مخبر ملازم ہے اور اس کی سرکاری حیثیت ہے نہ ہی اس کو محکمے سے تنخواہ ملنے کا کوئی دستاویزی ریکارڈ موجود ہے۔

 
I don't think ke koi deal hui hai agar aesa hota hai judges know ke jo izzat rehgyi hai courts ki wo blkl khatam ho jayegi aur politicians se zyada galian paregi inko don't know what judges are thinking.
 
If ur argument..no organistaion cn withstand US pressure..was correct..then what abt JIT report? Unhein manipulate karna tu govt ke liye aur bhi asaan hota..as they were govt employees,, ab is JIT ki report ke baad...do u think judges have any option?

We just need one more judge.. Agar aisi JIT report ke baad bhi judges ne NS ko sisquLify nahi kiya.,woh kisi ko muh dikhanay ke qabil nahi rahein ge..
the real problem with majority of the pakistani elite and decision makers is that they dont care at all about the underlined part of your statement. NS would have immediately resigned the moment JIT report was put up in the SC if he cared about this" kisi ko munh dekhana" business.

We will not let it happen it now ... Togather as a nation ... Enough is enough ... No nro ... No scape route this time
we are not that kind of material. i am sorry to disagree with your statement. and our leaders are also not that kind of material who would resign if mass protests occur against them . they have no shame, no morality left in them . and mark my words if elections are carried out in this month NS will win by decisive majority in punjab.
 
I am with you 100% if you fight corruption regardless of who is involved. If that is the case I am willing to join hands. No one likes corruption but no one likes unfairness as well.

Wellcome brother ... I am sure most of our regular posters on this thread are against corruption ... Probably some of them might be PTI supporter as well but I can guarantee that if we see even some slight proof of the evidence of corruption IK we will protest again him in similar manner ...

Even now I have taken no stance on his cases of bani gala purchase and neither should we ... Only justice should prevail
 
So qadari was right after all. Though JIT wasnt a fixed match, courts definitely are.
the 3 remaining judges threw the ball out of there court so ns would get time to raaz, saaz n baaz with concerned quarters..... but some where in between a saazish was born..........now NS is crying fowl.from the looks of things goining, there is no clear direction,on top of it JIT, is giving a very hard ball to 3 judges to play with now, not much space to manouver...... they uncovered additional facts, that were supposed to be buried........... supreme court is in state of dilima now......... nowhere to run for them either. they r n a mess created by them....... which is turning out of control now. no 115 sevice now?????//
 
SC ordered FIA Poice to arrest SECP Chairman! He went to IHC and they grant him pre-arrest bail

I think SC instructions were to launch for and it was launched furthermore bail is not superseeding the instruction of SC as bail is a routine process but LHC issuing orders to link disqualification with NAB reference will put a bar on SC which isnof possible ...
 
I think SC instructions were to launch for and it was launched furthermore bail is not superseeding the instruction of SC as bail is a routine process but LHC issuing orders to link disqualification with NAB reference will put a bar on SC which isnof possible ...
he got TRANSIT BAIL
which is a laughable bail
 
Wellcome brother ... I am sure most of our regular posters on this thread are against corruption ... Probably some of them might be PTI supporter as well but I can guarantee that if we see even some slight proof of the evidence of corruption IK we will protest again him in similar manner ...

Even now I have taken no stance on his cases of bani gala purchase and neither should we ... Only justice should prevail

You also need to include generals and judges in the list as well.
 
TRANSIT BAIL
PROCEDURE

This is explained in section 86 of Cr.PC. Transit means in journey and in the course of transportation from one place to another. For example an offence is committed in Islamabad but offender is arrested in Karachi, he can be shifted to Islamabad where case is pending against him for more than 24 hours, he will be produced before the superintendent of police or magistrate of the area where the arrest is made. This SP or magistrate can give transit remand. Transit remand will enable the police to shift the person in custody from the place of arrest to the place where he is to be investigated. Duration for transit remand can be for 1 to 7
this is a bail. where a person is not arrested because he has to travel from 1 court house to another.:cheesy::cheesy::cheesy::cheesy::cheesy:
 
just see how important this is for pakistan. as i already said this is the last chance for pakistan and if we miss it then RIP pakistan. listen what the great scholars says about pakistan's current situation
 
Kal sharif family ke lawyers arguments dein ge.. Is se kafi hadd tak judges ke mood ka pata chal jayega... Waisy disqualification ki mujhe itni fikr nahi hain..we need one more judge.. But acha hota if all 3 judges disqualify him.. Lekin advocate ur pakora judge ka mood aisa lag nahi raha.. Esp advocate ke ye remarks ke hum kis hadd tak jaa saktay hain? Aur doosri baat ye ke dastawezat Pakistan kaisy aayein? Kiya qanooni tareeqay se aayein? In baaton se advocate ke iraaday kuch theek nahi lag rahay.. Pakora judge ke bhi..

Lekin InshaAllah disqualify tu NS phir bhi hojayeg?. InshaAllah Justice Ijazul Ahsan will disqualify him
 
Kal sharif family ke lawyers arguments dein ge.. Is se kafi hadd tak judges ke mood ka pata chal jayega... Waisy disqualification ki mujhe itni fikr nahi hain..we need one more judge.. But acha hota if all 3 judges disqualify him.. Lekin advocate ur pakora judge ka mood aisa lag nahi raha.. Esp advocate ke ye remarks ke hum kis hadd tak jaa saktay hain? Aur doosri baat ye ke dastawezat Pakistan kaisy aayein? Kiya qanooni tareeqay se aayein? In baaton se advocate ke iraaday kuch theek nahi lag rahay.. Pakora judge ke bhi..

Lekin InshaAllah disqualify tu NS phir bhi hojayeg?. InshaAllah Justice Ijazul Ahsan will disqualify him

It will be ALL THREE judges - inshaALLAH

Don't worry.
 
Idiot judges asking NB whether JTI obtained letters lawfully, why don't you ask the JIT. YOU made that commission up not NB!
 
Status
Not open for further replies.

Latest posts

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom