What's new

Iqtibasat


دنیا میں اس سے بڑا اور کوئی عذاب نہیں کہ انسان وہ بننے کی کوشش میں مبتلا رہے جو کہ وہ نہیں ہے۔ گو اس خواہش اور اس آرزو کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہم لوگ کوشش کرکے اور زور لگا کے اپنے مقصد کو پہنچ ہی جاتے ہیں اور بالآخر وہ نظر آنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کہ نہیں ہوتے۔ اپنے آپ کو پہچانو اور خود کو جانو اور دیکھو کہ تم اصل میں کیا ہو۔ اپنی فطرت اور اپنی اصل کے مطابق رہنا ہی اس دنیا میں جنت ہے۔
(اشفاق احمد۔ زاویہ ۳، علم فہم اور ہوش سے اقتباس)

1.jpg
 
خواب
خواب تو وہ ہوتے ہیں جن سے خوشی اور امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھی گئی ان خوشیوں کا نام ہے جو حقیقت میں نہیں ہوتیں۔ خواب تو امید ہوتے ہیں، اچھے وقت کی، اچھے مستقبل کی، اچھی زندگی کی، خواب محبت سے عبارت ہوتے ہیں۔
(نمرہ احمد کے ناول ’’میرے خواب میرے جگنو‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
حلال حرام
یاد رکھو! ابھی مغرب والے یہاں تک نہیں پہنچے ۔۔۔۔۔۔ جب ہم سور کا گوشت نہیں کھاتے تو وہ حیران ہوتے ہیں۔ جب ہم بکرے پر تکبیریں پڑھ کر اسے حلال کرتے ہیں تو وہ تعجب سے دیکھتے ہیں۔ جب ہم عورت سے زنا نہیں کرتے، نکاح پڑھ کر اسے اپنے لئے حلال بناتے ہیں تو وہ سمجھ نہیں سکتے ۔۔۔۔۔ بھائی میرے کیسے سمجھیں، حرام حلال کا تصور انسانی نہیں ہے اس لئے ۔۔۔۔ اس میں بھید ہے، گہرا بھید ’’جین میوٹیشن‘‘ کا ۔۔۔۔۔۔ حرام حلال کی حد سب سے پہلے بہشت میں لگائی تھی اللہ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
عشق​

ہر وقت خدا کے احسانات یاد کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے، یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے نوازا، تجھ سے محبت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں تو کتنا حقیر ہے۔ سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا۔ کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الٰہی بخش بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری ضروریات پوری کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری بہتری سوچتا ہے، تجھے اہمیت دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس محبت کے ساتھ یہ بھی سوچتا رہے گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر تجھے خدا سے عشق ہوجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(’’عشق کا عین‘‘ از علیم الحق حقی سے اقتباس)

3.jpg
 
زندگی کی تلخیاں
زندگی کی تلخیاں آدمی کی زندگی میں وہ ہی حیثیت رکھتی ہیں جو سونے چاندی کو تپانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ تپانے کا عمل جس طرح سونے چاندی کو نکھارتا ہے اسی طرح تلخ تجربات آدمی کی اصلاح کرتے ہیں اور انسانوں میں چمک پیدا کردیتے ہیں، ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔
(صائمہ اکرم چوہدری کے ناولٹ ’’میں ہوں ناں‘‘ سے اقتباس)

3.jpg

حق
میں نے انسان کو شہر بساتے اور حق مانگتے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ جان لو صاحبو! جب کبھی سڑک بنتی ہے اس کے دائیں بائیں کا حق ہوتا ہے، جو مکان شہروں میں بنتے ہیں باپ کے مرتے ہی وارثوں کا حق بن جاتے ہیں۔ میرے ساتھ چلو اور چل کر دیکھو، جب سے انسان نے جنگل چھوڑا ہے اس نے کتنے حق ایجاد کرلئے ہیں۔ رعایا اپنا حق مانگتی ہے، حکومت کو اپنے حقوق پیارے ہیں، شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے حق مانگتی ہے، استاد شاگرد سے اور شاگرد استاد سے اپنا حق مانگتا ہے۔

اصلی حق کا تصور اب انسان کے پاس نہیں رہا، کچھ مانگنا ہے تو اصلی حق مانگو ۔۔۔۔۔۔ جب محبت ملے گی تو پھر سب حق خوشی سے ادا ہوں گے، محبت کے بغیر ہر حق ایسے ملے گا جیسے مرنے کے بعد کفن ملتا ہے۔

(بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ سے اقتباس)
 
مایوسی و ناامیدی
بھلا روز ازل کیا ہوا تھا، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پر مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کرسکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پر تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دوچار ہوا تو ابلیس اللہ کی رحمت سے ناامید ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے، وہ بھی جنت سے نکالے گئے لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے، یہی تو ساری بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابلیس نے دعویٰ کررکھا ہے میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا، ناامید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغوا ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے۔
(’’ابن آدم، سامان وجود‘‘ از بانو قدسیہ سے اقتباس)

3.jpg

پاکیزہ سیرت
جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا۔ جنگ کے دوران اس شہر کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد و نواح میں گھوم رہا تھا، راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے، دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے۔ انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا۔ ’’بیت المال کس طرف ہے؟‘‘ آزاد کشمیر میں خزانے کو بیت المال ہی کہا جاتا ہے۔

میں نے پوچھا۔ ’’بیت المال میں تمہارا کیا کام؟‘‘

بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ’’میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جارہے ہیں۔‘‘

ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھالیا تاکہ انہیں بیت المال لے جائیں۔

آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا۔ مجھے تو چاہئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں۔
(قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ سے اقتباس)
 
آزمائش​

ہمیں خدا پر صرف اس وقت پیار آتا ہے جب وہ ہمیں مالی طور پر آسودہ کردے اور اگر ایسا نہ ہو تو ہم اسے طاقتور ہی نہیں سمجھتے۔ ہم نماز کے دوران اللہ اکبر کہتے ہیں، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور نماز ختم کرتے ہی ہم روپے کو بڑا سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ خدا مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ خدا تو ہر ایک سے محبت کرتا ہے اس لئے تو اس نے مجھے آزمائشوں میں ڈالا، اور وہ اپنے انہی بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’زندگی گلزار ہے‘‘ سے اقتباس)
3.jpg


پیاسا سمندر
“آدمی کتنا پیاسا ہے ، اور کس طرح اسکی پیاس بڑھتی رہتی ہے ، اور کس طرح وہ خوارج میں اپنے لئے تسکین اور آسودگی تلاش کرتا ہے ، مگر کیا کبھی بھی اسے تسکین نصیب ہوتی ہے ؟ کبھی آسودگی ملتی ہے ؟ ، مگر وہ بالکل کسی سمندر ہی کی موج در موج آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ، کبھی چٹانوں کو کاٹتا ہے ، کبھی پہاڑوں میں رخنے کر کے انکے پرخچے اڑا دیتا ہے ، اپنی بے چینی کی وجہ وہ خود ہے ، اور اپنی تسکین کا سامان بھی اپنے دامن میں رکھتا ہے ، مگر وہ دوسروں کی پیاس تو بجھا دیتا ہے ، خود اپنی پیاس بجھانے کا سلیقہ نہیں رکھتا ۔ ۔۔ ۔ تم اسے پیاسا سمندر کہہ سکتی ہو بے بی ۔ ۔ ۔ ۔ جو پانی ہی پانی رکھنے کے باوجود بھی ازل سے پیاسا ہے ۔ ۔۔ ۔ اور اس وقت تک پیاسا رہے گا جب تک کہ اسے اپنا عرفان نہ ہو جائے ، لیکن اس میں ہزارہاں سال لگیں گے ۔ ۔ ۔۔ ابھی تو بچوں کی طرح گھٹنوں چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو چاند میں جانے کی باتیں کر رہا ہے ، اسکی ذہنیت اور سوجھ بوجھ اس بچے سے زیادہ نہیں ہے جو ماں کی گود میں چاند کے لئے ہمکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
وہ مصنوعی سیارے اڑا کر اس طرح خوش ہوتا ہے جیسے بچے صابون کے بلبلے اڑا کر مسرور ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور ایک دوسرے سے شرط بدلتے ہیں کہ دیکھیں کس کا بُلبلا دیر تک فنا نہیں ہوتا ، اور پھر ایسے شیخیاں بگھارتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو ، مگر بے بی ۔ ۔۔ ۔ چاند کا سفر آدمیت کی معراج نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ چاند کی باتیں تو ایسی ہی ہیں جیسے کوئی اپنے اصل کام سے اکتا جائے اور بیٹھ کر گنگنانا شروع کردے ۔ ۔ ۔۔

جانتی ہو آدمیت کی معراج کیا ہے ؟ ۔ ۔۔ ۔ آدمی کی معراج یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ہی مسائل حل کر لے ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اسنے مصنوعی سیارہ فضا میں پھینکنے کے بجائے سرطان کا کامیاب علاج دریافت کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ اب اسکے قدم اس راہ کی طرف اٹھ گئے ہیں جسکی انتہا اسکی معراج ہو گی ، اگر اسنے چاند تک پہنچنے کی اسکیم بنانے کی بجائے زمین کے ہنگامے کا پرامن طور پر فرو کرنے کا کوئی ذریعہ دریافت کر لیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ اب یہ پیاسا نہیں رہے گا ، بلکھ خود کو بھی سیراب کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہو چکی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ہزارہا سال چاہیں اس کے لئے شمی ہزار سال۔‘‘​
(ابن صفی کے ناول ’’پیاسا سمندر‘‘ سے اقتباس)
 
ناامیدی اور مایوسی
رونے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ نم آنکھیں، نرم دل ہونے کی نشانی ہیں اور دلوں کو نرم ہی رہنا چاہئے۔ اگر دل سخت ہوجائیں تو پھر ان میں پیار و محبت کا بیج نہیں بویا جاسکتا اور اگر دلوں میں محبت ناپید ہوجائے تو پھر انسان کی سمت بدلنے لگتی ہے۔ محبت وہ واحد طاقت ہے جو انسان کے قدم مضبوطی سے جمادیتی ہے اور وہ گمراہ نہیں ہوتا۔

بس ان آنسوؤں کے پیچھے ناامیدی اور مایوسی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ناامیدی ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ اللہ سے ہمیشہ بھلائی اور اچھے وقت کی آس رکھنی چاہئے۔ وہ اپنے بندوں کو اسی چیز سے نوازتا ہے جو وہ اللہ سے توقع کرتے ہیں۔

(فاطمہ عنبریں کے ناول ’’رستہ بھول نہ جانا‘‘ سے اقتباس)​

3.jpg
 
وجہ
پھر کوئی پوچھ بیٹھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں۔۔۔؟
شادی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جوانی جہان گردی اور فیلڈ سروس کی نذر ہوگئی۔ ادھیڑ عمر کا ہوا تو پھر خیال چھوڑ دیا۔ دراصل محبت فقط نوعمروں کے لیے ہے۔ اس عمر میں ہر چیز خوامخواہ رنگین معلوم ہوتی ہے۔ ہر جذبے میں بے ساختگی ہوتی ہے اور بلا کا خلوص۔ محبوب ایک دفعہ مسکرا دے تو ہفتے مہینے خوشی خوشی گزر جاتے ہیں اور یقین ہو جاتا ہے کہ امتحان میں ضرور کامیابی ہوگی، مالی حالت بہتر ہو جائے گی ، دوست دشمن سب مہربان ہو جائیں گے اور محبوب کی بے رخی سے سب تہس نہس ہو جائے گا۔ آئرلینڈ کی وہ جھلمل جھلمل کرتی ندیاں ، وہ لہلہاتے کھیت ، شاداب کنج گھنے جنگل مجھے اب تک یاد ہیں۔ اگرچہ ان لڑکیوں کے نام اور چہرے یاد نہیں جو ان دنوں میرے ساتھ ہوا کرتیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتاتھا کہ کب بادل آئے تھے اور کب بوندیں تھم گئیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد اتنی جلدی چاند کیسے نکل آیا۔۔۔ذرا دیر پہلے گھپ اندھیرا تھا، دفعتاً یہ روشنی کہاں سے آگئی۔ وہ جگمگاتی صبحیں۔۔۔۔وہ رنگین شامیں ۔۔۔۔وہ مستی کے شب و روز۔۔۔۔محبت کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دکھاوا ہے۔ اگرچہ میں شادی کے قضیے سے بالکل مبرا ہوں اور تم لڑکوں کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنی کمر پر زین نہ کسوانا لیکن اگر خدانخواستہ کبھی پھنسنے لگو تو جذبات کے دھارے میں مت بہہ جانا۔ ایسا چہرہ چننا جس کی کشش اور دلربائی دیرپا ہو۔ شاید تم نہیں جانتے کہ گزرتے ہوئے ایام چہروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اورمحض دس پندہ سال کا وفقہ چہروں میں کیسی کیسی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔
(شفیق الرحمن کی کتاب دجلہ سے اقتباس)

محبت دوڑ نہیں ہوتی، طوفان نہیں ہوتی، سکون ہوتی ہے۔ دریا نہیں ہوتی، جھیل ہوتی ہے۔ دوپہر نہیں ہوتی، بھور سمے ہوتی ہے۔ آگ نہیں ہوتی، اجلا ہوتی ہے۔ اب میں تجھے کیا بتاؤں کہ کیا ہوتی ہے۔ وہ بتانے کی چیز نہیں، بیتنے کی چیز ہے۔ سمجھنے کی چیز نہیں، جاننے کی چیز ہے۔
(ممتاز مفتی کی کتاب ’’سمے کا بندھن‘‘ کے افسانے ’’عینی اور عفریت‘‘ سے اقتباس)
3.jpg
 
متبرک تحفہ

ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھارہی ہے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جاپکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا شر انگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا۔ ’’حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں۔‘‘ گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ ’’جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں۔‘‘

ہم نے بستہ کھولا تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کردیا۔

میں نے بڑھیا سے کہا۔ ’’بی بی، لوتمہارا کام ہوگیا۔ اب خوش رہو۔‘‘

بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبردار سے پوچھا۔ ’’کیا سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟‘‘

نمبردار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آگیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بوڑھے بھی آبدیدہ ہوگئے۔

یہ سولہ آنے واحد ’’رشوت‘‘ ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کردیا۔

(شہاب نامہ سے اقتباس ۔ از قدرت اللہ شہاب)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سادہ دل
ہم بہت ترقی یافتہ نہیں ہیں۔ بہت پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں۔ دھوکہ دہی، رشوت زنی، قتل و غارت اور بہت سی برائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ ہمارے ہاں ظلم کھلے عام کیا جاتا ہے اور مظلوم بھی ہم ہی ہوتے ہیں۔ ہم پسماندہ بھی ہیں اور پست ذہن کے بھی۔ لیکن اس کے باوجود جہان سکندر! ہم دل کے برے نہیں ہیں۔ ہمارے دل بہت سادا، بہت معصوم اور بے حد پیارے ہوتے ہیں۔
(نمرہ احمد کے ناول ’’جنت کے پتے‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
پانسہ
زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب آپ اپنا سارا دماغ، ساری طاقت، ساری ترکیبیں اور ساری صلاحیتیں صرف کرچکے ہوتے ہیں اور پانسہ پھینک چکے ہوتے ہیں۔ اس وقت سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور آپ کچھ نہیں کرسکتے۔
(’’بابا صاحبا‘‘ از اشفاق احمد سے اقتباس)

3.jpg

 
عزت نفس
ہمارے مسئلے اور ہماری پریشانیاں بھی راز ہی ہوتی ہیں۔ ان کا دوسروں کے سامنے اشتہار نہیں لگاتے! جو انسان اپنے آنسو دوسروں سے صاف کرواتا ہے وہ خود کو بے عزت کردیتا ہے اور جو اپنے آنسو خود پونچھتا ہے وہ پہلے سے بھی مضبوط بن جاتا ہے۔
(نمرہ احمد کے ناول ’’جنت کے پتے‘‘ سے اقتباس)
7.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوش گمان
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں درندگی، بے ایمانی، سفاکی، بدعنوانی اور حیوانیت عام ہے۔ ہم جس کی مدد کرتے ہیں وہی بری طرح ہمارا استحصال کرتا ہے۔ ہم جسے تربیت پرواز دیتے ہیں، وہ اڑتے ہوئے ہمیں ہی اپنے پنجوں میں جھپٹ لیتے ہیں۔ ایسے میں بندہ خوش گمان کیسے رہ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
(صائمہ اکرم چوہدری کے ناولٹ ’’بات عمر بھر کی ہے‘‘ سے اقتباس)

3.jpg

 
بڑے سالوں کی بات ہے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’دعا کریں مجھے کام مل جائے۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’تم یقین سے کہتے ہو تمہیں کام کی تلاش ہے؟‘‘

کہنے لگا۔ ’’حد کرتے ہو، پچھلے دو سال سے بیکار ہوں، اگر مجھے کام کی تلاش نہ ہوگی تو کسے ہوگی؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’اچھا اگر تمہیں کام مل جائے اور اگر معاوضہ نہ ملے تو پھر؟‘‘

وہ حیران ہوکر میری طرف دیکھنے لگا تو میں نے کہا۔ ’’اچھا اگر تمہیں کام مل جائے اور کام کرنے کی تنخواہ نہ ملے پھر؟‘‘

گھبرا کر کہنے لگا۔ ’’مجھے ایسا کام نہیں چاہئے جیسا کہ تم کہہ رہے ہو، مجھے نوکری والا کام چاہئے، ایسا کام جس کے دام ملیں۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’اچھا! اگر تم کو تنخواہ ملتی رہے اور کام نہ کرنا پڑے پھر؟‘‘

کہنے لگا۔ ’’سبحان اللہ، ایسا ہوجائے تو اور کیا چاہئے۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’پھر تمہیں کام کی تلاش نہیں، تنخواہ اور معاوضے کی تلاش ہے۔‘‘

اسی طرح ہم خدا کے ساتھ کرتے ہیں، بظاہر عبادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باطن کسی اور شے کا طلب گار ہوتا ہے۔

(اشفاق احمد از ’’بابا صاحبا‘‘ سے اقتباس)​
3.jpg
 
مثبت رخ
پتہ نہیں کیوں میرے دل میں جنت کی آرزو کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ اگر اللہ جنت دے دے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کی آرزو کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ دوزخ کا ڈر میں شدت سے محسوس کرتا ہوں لیکن دوزخ سے بچنے کے لئے ثواب کمانے کی آرزو نہیں رکھتا۔ مجھے اس آرزع سے دوکانداری کی بو آتی ہے۔ میرے ذہن میں نیکی، عادت، اذیت، وحشت، امکان ثواب سے بے تعلق چیز ہے۔ بے مقصد، بے نیاز۔ مجھے یہ آرزو بھی نہیں کہ اللہ والا بن جاؤں یا بزرگی مل جائے یا مست ہوجاؤں۔ مجھے مراتب کی طلب نہیں۔ میری دانست میں عام انسان بذات خود ایک عظیم مرتبہ ہے۔ مجھے صرف ایک آرزو ہے کہ میرا رخ مثبت رہے۔ انسانوں کی طرف، اللہ کی طرف۔
(ممتاز مفتی کی کتاب ’’لبیک‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
کریلے
امی جی نے کریلے بہت شوق سے خریدے تھے۔ زیبا باجی نے بکتے جھکتے کاٹے تھے۔ امی جی نے عبادت کی طرح خاموشی اور لگن سے پکائے تھے، پر زیبا باجی خفا ہوگئی تھیں۔ اتنی زیادہ کہ کمرے سے باہر نہ نکل رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ابا جی کو اس مقدمے کی پیروی کرنا ہی ہوگی۔ میں یہی سوچتی ہوئی ان کے کمرے کی طرف چل پڑی اور دروازے پر ہی جیسے میرے قدم ٹھہر سے گئے۔ امی جی رورہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں۔

’’مجھے سہیل بہت یاد آتا ہے جی۔ وہ پچھلی بار فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی گھر آسکتا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے اسے سرپرائز دینے کا کتنا شوق ہے۔ جانے کب میرا بیٹا گھر آجائے۔ اسے کریلے بہت پسند ہے نا جی، اسی لئے روز پکا لیتی ہوں۔ سوچیں بھلا کیا سوچے گا میرا بیٹا کہ ماں نے اس کی پسند کے کریلے تک نہ بنا کر رکھے۔ یہ لڑکیاں تو سمجھتی نہیں، آپ تو سمجھتے ہیں نا میری بات۔‘‘ اب امی جی یقیناً اپنی غلافی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ ابا جی کو تائید میں دیکھ رہی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اپنے نیلے سوتی دوپٹے سے اپنی آنکھیں بھی بے دردی سے صاف کرتی جارہی ہوں گی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ماں کے آنسو میری آنکھوں میں رہنے آگئے تھے۔
(ڈاکٹر نگہت نسیم کے مضمون ’’کریلے‘‘ سے اقتباس)
3.jpg
 

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom