To my qadyani friends what you think about it?
Your leader said about us that anyone who is not qadyani is kafir.
So according to him i am kaafir.
میں ایک خلاصہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ یاد رہے کہ کہ یہ صرف اس گفتگو کا خلاصہ ہے
کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں۔ خدا کی پناہ۔ اسی لیے اٹارنی جنرل نے اس کارروائی کو خفیہ قرار دے دیا کہ یہ گفتگو اگر سامنے آ گئی تو ملک میں طوفان کھڑا ہو جائے گا۔
اس کارروائی کے دوران مرزا ناصر نے تسلیم کیا کہ ان کے نزدیک ہر وہ شخص کافر ہے جو مرزا غلام احمد کی نبوت کو نہیں مانتا۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کیا مرزا کی نبوت کا منکر کافر ہے۔ جواب آیا: ’’ منکر کو کیسے کہیں کہ وہ مانتا ہے‘‘۔ مرزا نے بات گھمانے کی کوشش کی تو اٹارنی جنرل نے بہ صرار سوال کیا کیا مرزا کا منکر کافر ہے۔ جواب آیا: ’’جی کافر،گنہ گار اور قابل مواخذہ ‘‘۔
اٹارنی جنرل نے کلمۃ الفصل کا حوالہ دے کر سوال کیا کہ کیا آپ کا یہی عقیدہ ہے کہ بھلے کوئی حضرت محمد ﷺ کو مانتا ہو لیکن مرزا کو نہیں مانتا تو کافر ہے۔ جواب آیا جی ہاں کافر ہے۔
اٹارنی جنرل نے مرزا محمود کی انوار خلافت کا حوالہ دے کر پوچھا کہ کیا یہی آپ کا عقیدہ ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ جواب آ یا جی ہاں۔ اٹارنی جنرل نے پھر پوچھا، یعنی احمدیوں کے علاوہ سب کافر، جواب آیا جی ہاں دائرہ اسلام سے خارج۔
سوال پوچھا گیا کیا آپ غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھتے ہیں۔ جواب آیا نہیں۔ سوال ہوا کیا غیر احمدی بچے کا جنازہ بھی نہیں پڑھتے۔ جواب آیا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کیا یہ درست ہے کہ انوار خلافت میں آپ کے والد نے صفحہ 93 پر لکھا ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں غیر احمدیوں کے بچے کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھی جا سکتی؟ تو میں کہتا ہوں پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا۔ مرزا ناصر نے اس کی تائید کی۔
سوال کیا گیا قائد اعظم کی نماز جنازہ قادیانی وزیر نے کیوں نہ پڑھی۔ جواب آیا قائد اعظم کے سامنے بدایونی نے ہمارے خلاف فتوی دیا اور وہ خاموش رہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا ہم قائد اعظم کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ جواب آیا آ پ سمجھتے ہوں گے۔
سوال ہوا تم نے کبھی کسی امام کے پیچھے کسی غیر احمدی کا جنازی پڑھا۔ جواب آیا معلوم نہیں۔
سوال ہوا کیا مرزا بشیر نے کہا کہ غیر احمدیوں سے رشتہ حرام ہے۔ جواب آ یا جی ہاں۔
سوال ہوا نائجیریا میں آپ نے کلمہ لکھا ہوا ہے جس میں محمد کی جگہ احمد لکھا ہے۔ جواب آیا غلط فہمی ہوئی ہے۔
سوال ہوا اگر اسمبلی یہ کہہ دے کہ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو آپ کو اعتراض نہ ہوگا۔جواب آیا نہ ہوگا، مگر یہ وضاحت کر دیں کہ ہم دائرہ اسلام سے خارج ہو کر بھی ملت اسلامیہ کا حصہ ہوں گے
سوال ہوا کسی کو آپ نے کافر کہا اور کسی نے آپ کو کافر کہا، کیا اسمبلی غور کر سکتی ہے کہ آپ کی بات درست ہے کہ نہیں۔ جواب آیا کر سکتی ہے۔
سوال ہوا روحانی خزائن اور اربعین میں مرزا نے لکھا ہے کہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی، میں شریعت والا نبی ہوں۔ جواب آیا جی وہ تو میں نے دیکھا ہے۔
سوال ہوا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد کی فضیلت (نعوذ باللہ) حضرت محمد ﷺ سے بڑھ کر ہے، اس فضیلت کے اشعار مرزا کو سنائے گئے۔ اس نے کہا جزاک اللہ۔ جواب آیا ثبوت کیا ہے؟ غلام غوث ہزاروی صاحب نے البدر کا شمارہ پیش کر دیا۔ مرزا ناصر خاموش ہوگیا۔
سوال ہوا جس نے مرزا کو دیکھا نہیں، نام نہیں سنا، اگر وہ مرزا کو نبی نہ مانے تو کیا وہ بھی کافر۔ جواب آیا محدود معنوں میں وہ بھی کافر۔
اٹارنی جنرل نے کہا مرزا نے روحانی خزائن میں صفحہ ایک سو تین ج تیرہ میں لکھا کہ میں خود خدا ہوں۔ جواب آیا یہ تو کشف ہے۔
سوال ہوا سارے غیر احمدی جن پر اتمام حجت ہو چکا ہے، کافر ہیں۔ جواب آیا کہہ تو دیا ہے اور کتنی دفعہ کہلوائیں گے۔
مرزا نے دوران سماعت دعوی کیا چودہ سو سالوں میں سینکڑوں انبیاء آئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا وہ کون کون سے تو جواب آیا مجھے کیا معلوم۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مرزا محمود انوار خلافت میں صفحہ 62 پر لکھتے ہیں، ’’میری گردن کے دونوں طرف تلوار رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں آ ئے گا تو میں اسے کہوں گا تو جھوٹا ہے کذاب ہے۔ آپ کے بعد نبی آ سکتے ہیں اور ضرور آ سکتے ہیں‘‘ تو مرزا ناصر نے کہا حوالے درست ہیں، یہ امکان کی بات ہے۔
اٹارنی جنرل یحیی بختیار صاحب نے سوال کیا کہ مرزا بشیر نے25 اکتوبر 1920ء کے الفضل میں لکھا کہ مسلمانوں یعنی غیر احمدیوں سے رشتہ حرام ہے۔ مرزا ناصر نے جواب دیا کہ جو چیز فساد پیدا کرتی ہے، وہ ناجائز اور حرام ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید وضاحت کے لیے سوال کیا کہ مسلمانوں سے رشتہ باعث فساد ناجائز اور حرام ہے؟ جواب آیا جی بالکل۔
سوال ہوا جو مرزا کو نہیں مانتا؟ جواب آیا وہ اللہ رسول کو نہیں مانتا۔ سوال ہوا جو اللہ رسول کو نہیں مانتا؟ جواب آیا وہ ملت اسلامیہ سے خارج، دائرہ اسلام سے خارج ہے، مسلمان نہیں ہے۔ سوال ہوا خدا اور رسول کا منکر کافر تو اس کا مطلب ہوا مرز ا کا منکر بھی کافر؟ جواب ملا جی بالکل مرزا کا منکر بھی ایسے ہے۔
اس پر شرکاء نے قہقہہ لگایا تو مرزا ناصر نے کہا آپ کیوں قہقہے لگاتے ہیں، میں نے بتا دیا کہ ایسے ہے۔
سوال ہوا کلمۃ الفصل میں صفحہ 110 پر لکھا ہے کہ ہر وہ شخص جو موسی ؑ کو مانتا ہے لیکن عیسی ؑ کو نہیں مانتا۔ یا عیسی ؑ کو مانتا ہے لیکن محمد ﷺ کو نہیں مانتا۔ یا محمد ﷺ کو مانتا ہے لیکن مرزا کو نہیں مانتا، وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ تو کیا سارے کے سارے غیر احمدی کافر ہیں۔ جواب آیا جی ہاں! جن پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور نہیں مانے، وہ کافر ہیں۔
یحی بختیار نے پھر یہی سوال کیا کہ کیا سارے غیر احمدی جن پر اتمام حجت ہو چکا ہے، کافر ہیں تو جواب آیا کہہ تو دیا ہے کتنی دفعہ کہلوائیں گے۔
سوال ہوا کہ مرزا نے اپنی کتاب ایک غلطی کا ازالہ میں صفحہ 6 پر لکھا ’’میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے اوپر نازل ہوتی ہے، وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسی ؑ اور حضرت عیسی ؑ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اپنا کلام نازل کیا تھا ‘‘۔ جواب آیا عبارت کی تصدیق کرتا ہوں، یہ صحیح ہے۔
یحیی بختیار نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ مسلمانوں کے بارہ مہینوں یعنی محرم، صفر، ربیع الاول وغیرہ کی طرح آپ نے اپنے الگ مہینے بھی قائم کیے ہوئے ہیں (جو یہ ہیں: صلح، تبلیغ، امان، شہادت، ہجرت، احسان، وفا، ظہور، تبوک، اخاء، نبوت، اور فتح تو مرزا ناصر نے جواب دیا کہ افغانستان میں ایک کیلنڈر رائج ہے تو ہمارا بھی دل چاہا کہ ایک کیلنڈر شروع کریں تو ان مہینوں کے نام رکھ دیے، ورنہ ہمارا علیحدہ کوئی کیلنڈر نہیں۔
سوال ہوا کیا مرزا کا کلام قرآن مجید کی طرح اللہ کا کلام ہے۔ جواب آیا دونوں کا سرچشمہ ایک ہے۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کیا دونوں کا لیول (سطح) بھی ایک ہے؟ جواب آیا ہاں ایک ہے۔
اٹارنی جنرل نے پوچھا مرزا محمود نے الفضل 25 اپریل1915ء میں لکھا ہے کہ حدیث تو بیس راویوں کے پھیر سے ہمیں ملی، جبکہ الہام براہ راست ملا تو الہام مقدم ہے۔ مرزا کے منہ سے ہم نے جو باتیں سنیں، وہ احادیث و روایات سے زیادہ معتبر ہیں۔
مرزا ناصر نے کہا یہاں جو گھنڈی ہے وہ دیکھیں۔ یہاں راویوں کی بات آ جاتی ہے۔ تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ احادیث تو بیسیوں راویوں کے پھیر سے ملیں اور الہام مرزا صاحب کو براہ راست ملے، اس لیے مرزا صاحب کے الہام احادیث سے مقدم ہیں، جواب ملا جی ہاں۔
اٹارنی جنرل نے اب کے سوال کیا کہ مرزا صاحب! حدیث خواہ وہ سو گنا بھی صحیح ہو۔ امام بخاری کی ہو یا کسی اور کی، وہ مرزا کے کلام سے اوپر نہیں۔ مرزا غلام احمد کا کلام احادیث پر مقدم ہے۔ اس پر مرزا ناصر بولے کہ یہ مطلب تو آ ٹھویں کا بچہ بھی نہیں لے سکتا۔ حالانکہ وہ یہ بات پہلے تسلیم کر چکے تھے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں بے وقوف ہوں، موٹے دماغ کا ہوں، مگر آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ آپ کے عقائد سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
سوال ہوا کہ احمدیت اور سچا اسلام کے صفحہ0 1 پر لکھا ہے ’’ہمارا ایمان ہے کہ جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے، مستقبل میں بھی نبیوں کی جانشینی جاری رہے گی، کیونکہ سلسلہ نبوت کے مستقل اختتام کو عقل رد کرتی ہے یعنی تسلیم نہیں کرتی‘‘۔ مرزا ناصر نے اس کی تردید یا تائید نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ دیکھ کر بتاؤں گا۔
اس پر آگے جا کر اٹارنی جنرل نے انہیں یاد دلایا کہ جب مرزا غلام احمد کہتے ہیں کہ نبوت میں ایک کھڑکی کھلی ہے تو آپ ہی کی جماعت کے آٹھ نو آدمیوں نے مرزا کی دیکھا دیکھی نبوت کا دعوی کر دیا جن میں ایک چراغ دین جمونی بھی ہے۔
اگلا سوال تھا مرزا غلام احمد کو کس کس زبان میں وحی آتی رہی۔ جواب آیا عربی، اردو، بعض دفعہ انگلش، پنجابی، فارسی۔
سوال ہوا مرزا غلام احمد نے کہا ہے (بحوالہ تحفہ گولڑویہ ص67 ۔روحانی خزائن صفحہ 153۔ج 21) کہ حضور نبی رحمت ﷺ کے معجزات تین ہزار اور مرزا کے معجزات کئی لاکھ ہیں (نعوذ باللہ)۔ جواب آیا مرزا صاحب کے معجزات بھی تو حضور ہی کے ہوتے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آ پ لوگوں کے نزدیک مرزا قادیانی اور حضور علیہ السلام میں کوئی فرق نہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر پوری امت محمدیہ آپ لوگوں سے نالاں ہے کہ نعوذ باللہ آپ لوگوں نے مرزا کو آ نحضرت ﷺ کے ہم پلہ بنا دیا۔
اگلا سوال تھا جنہوں نے مرزا کو دیکھا کیا آپ ان کو صحابی سمجھتے ہیں۔ مرزا ناصر نے کہا ایک رنگ میں وہ بھی صحابی ہیں۔
یہاں مولانا ظفر انصاری بولے اور بتایا کہ مرزا نے اپنی کتاب (’’خطبہ الہامیہ‘‘ مندرجہ روحانی خزائن ص258.259 ج16) میں لکھا ہے کہ ’’من دخل فی جماعتی دخل فی اصحاب سید المرسلین‘‘ ۔کہ جو میری جماعت میں ڈاخل ہوا وہ سید المرسلین کے صحابہ میں شامل ہو گیا۔ اس کے جواب میں مرزا ناصر نے کہا جو کچھ ملا، وہ حضور کا فیض تھا۔
مولانا انصاری نے ترجمے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’جو میری جماعت میں داخل ہو گیا وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی جماعت میں داخل ہو گیا‘‘۔ تو مرزا ناصر نے کہا کہ ٹھیک ہے، ہم انہیں بھی صحابی مانتے ہیں جنہوں نے مرزا صاحب کا فیض پایا۔
مولانا انصاری نے سوال کیا آپ کے ہاں ام المؤمنین کسے کہا جاتا ہے۔ جواب آیا ہمارے ہاں جو ازواج مطہرات کی خادمہ ہیں اور مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کے ماننے والوں کی ماں ہیں۔
سوال ہوا کیا مسجد اقصی جہاں سے حضور ﷺ کو معراج پر لے جایا گیا، یہ قادیان کی کسی مسجد کا نام ہے جواب آیا مسجد اقصی قادیان میں بھی ہے۔
مولانا انصاری نے در ثمین اردو صفحہ 54 سے یہ شعر پڑھا
’’یہ پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہیں
یہی ہیں پنج تن جس پر بنا ہے‘‘
شعر سنا کر انہوں نے مرزا ناصر نے سوال کیا کہ آ پ کے نزدیک پنج تن سے کیا مراد ہے۔ جواب آیا یہ وہ افراد ہیں جن کے بارے میں مرزا غلام احمد کو الہام ہوا تھا کہ ان کی نسل اور ان کے خاندان کی نسل آئندہ ان پانچ افراد سے چلے گی۔
مولانا انصاری نے سوال کیا کہ قرآن پاک میں بیت اللہ شریف کے لیے کہا گیا ہے من دخلہ کان امنا۔ یہ آیت تو مسجد حرام کے لیے ہے جبکہ مرزا نے یہی آیت قادیان کی اپنی عبادت گاہ کے لیے قرار دی ہوئی ہے۔ جواب آیا حضور ﷺ صرف مکہ مکرمہ کے لیے نہیں تھے۔
مولانا نے سوال کیا کہ مرزا نے آئینہ کمالات مندرجہ روحانی خزائن ج 5 صفحہ 352 پر لکھا ہے کہ قادیان میں حاضری نفلی حج سے زیادہ ثواب ہے۔ جواب آیا فرض حج کے بعد نفلی حج ہوتا ہے۔ احمدیوں کو ایسا کرنا چاہیے۔ قادیان آنا چاہیے۔ اچھی بات ہے۔آ کر اللہ رسول کی باتیں سنے گا۔ ویسے مولانا مودودی نے بھی کہا ہے کہ حج کے کچھ فوائد حاصل نہیں ہو رہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا مودودی صاحب نے یہ بھی کہا کہ حج کے فوائد حاصل نہیں ہو رہے تو مکہ جانے کے بجائے اب منصورہ آ جاؤ، وہاں حج ہو جاؤ۔ مرزامحمود تو کہتے ہیں یہاں قادیان میں سالانہ جلسہ حج کی طرح ہوگا۔
یہ ایک طویل روداد ہے جو کالم کی تنگنائے میں نہیں سموئی جا سکتی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست نے جو فیصلہ کیا وہ کھڑے کھڑے نہیں کر دیا۔ ان کو سن کر کیا اور اسی بات کا اظہار بھٹو صاحب نے اپنی تقریر میں بھی کیا کہ مجھے سیاسی شہرت مقصود ہوتی تو میں کھڑے کھڑے یہ فیصلہ کر دیتا لیکن ہم نے یہ فیصلہ اسلامی اور جمہوری اصولوں کے تحت کیا۔
قادیانیوں کے حقوق کے حوالے سے بھی بات بہت واضح ہے۔ ان کو غیر مسلم قرار دینے کی جو قرارداد اسمبلی میں پیش کی گئی، خود اس میں ان کے حقوق کے تحفظ کی بات موجود ہے۔ اس کا آ خری پیراگراف پڑھ لیجیے، اس میں لکھا ہے:
’’اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہیے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار انہیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمان نہیں، اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تا کہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کے لیے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں‘‘
ان کے حقوق کی بات اٹارنی جنرل نے بھی کی اور خود بھٹو صاحب نے بھی۔ اقلیتوں کے حقوق کی بات دستور پاکستان میں بھی کی گئی ہے۔
خلط مبحث سے اجتناب کرنا چاہیے۔ قادیانیوں پر کہیں ظلم ہوتا ہے تو اس کی مذمت ہونی چاہیے اور کھل کر ہونی چاہیے۔ ان کے حقوق کہیں پامال ہوتے ہیں تو ریاست کا فرض ہے ان کی داد رسی کرے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمدردی میں انہیں مسلمان تسلیم کر لیا جائے۔ اسی طرح وہ غیر مسلم ہیں اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے حقوق سلب ہو گئے۔ انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو نبی رحمت ﷺ نے اقلیتوں کے لیے طے کر رکھے ہیں۔
اگر وہ خود کو غیر مسلم مان لیں توان حقوق کی دستیابی کا معاملہ مزید آسان ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کا مسئلہ سمجھیے۔ ایک صاحب کے پیچھے نماز تک پڑھ لینے کے بعد اگر اسے معلوم ہو کہ وہ تو مسلمان نہیں قادیانی تھا تو پھر معاملہ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں پر جبرا یہ مسلط نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ختم نبوت کے منکرین کو مسلمان تسلیم کر لیں۔ قادیانی بطور اقلیت دستور میں طے کردہ حدود و قیود کو تسلیم کر لیں تو معاملہ بہت آسان ہو جائے۔ بصورت دیگر یہ بات تو طے ہے کہ اسلام پر قادیانیوں کا دعوی ناقص ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ نہ کل قبول کیا گیا نہ آج قبول کیا جائے گا اور نہ ہی آئندہ اس کی
گنجائش ہوگی
https://daleel.pk/2018/09/07/84619/amp?__twitter_impression=true