What's new

DEFENCE NEWS EVENTS IN URDU

Should Pak Leaders go on foreign tours after Islamabad blasts?

  • No, General Kiyani must stay in Pakistan

    Votes: 0 0.0%
  • No, the President must stay in Pakistan and handle the matters at home

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    1
  • Poll closed .
India, Pakistan resume Kashmir trade after 60 years
Tuesday, 21 Oct, 2008 | 01:18 PM PST |

Kashmiri fruit dealers drive towards the Line of control, Kashmir's de facto border in Baramulla, about 55 kilometers north of Srinagar on Monday, Oct. 20, 2008. – AP

ISALAMABAD: India and Pakistan began trading between their respective parts of Kashmir for the first time in six decades on Tuesday, raising hopes of a drop in tension in the disputed Himalayan region.
A convoy of 13 trucks carrying mostly apples set off on a historic trip to Azad Kashmir from occupied Kashmir, with 14 trucks with Pakistani goods making the journey in the opposite direction.
‘It is a historic day which will surely help the economy of both parts of Kashmir,’ said occupied Kashmir’s Governor N.N. Vohra, as he flagged off the convoy from Salamabad, 12 kilometres (seven miles) from the heavily militarised Line of Control.
‘I hope it will herald peace in the region,’ he said.
Villagers here cheered and waved at the truck drivers as they steered their vehicles out of a warehouse, as traditional drum-beaters entertained the crowd.
The crossing is the first time that vehicles will be allowed to cross Aman Setu or Peace Bridge on the LoC since India and Pakistan fought a war over the region in 1947.
Security was tight for the trade opening, with even the fruit subject to stringent security checks.
‘The items were scanned in x-ray machines here before allowing the truckers to take them across,’ a police officer Faisal Qayoom said.
The opening of the trade route has been a key demand of Kashmiri separatists.
Kashmiri truckers said they were delighted about the resumption of trade.
‘I am very happy to be part of this historic moment,’ said Ghulam Hassan Baba, a driver from Srinagar.
‘It is a big leap forward,’ said Mubeen Shah, head of the traders’ federation in occupied Kashmir.
Separatists, however, say India still needs to acknowledge that Kashmir is disputed, and be prepared to address the underlying issue of the future of the region
 
. .
افغان وزیر خارجہ جو کہ آج کل پاکستان کے دورے پر ہین انہون نے کل صدرآصف علی زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔ انھون نے وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک کسی کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہین کرنے دے گا ۔اس موقعہ پر انھون نے کسی بھی بھارتی فوجی کی افغانستان مین موجودگی سے انکار کیا۔ انھون نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ طالبان کے خلاف جنگ مین اپنی زمہ داری نبھائے۔
دہشتگردی کی جنگ مین جہان پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیان دی وہان سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان ہی اٹھا رہا ہے۔ آج پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدین انتہائی غیر محفوظ ہین۔
افغانستان مین اس وقت دس ہزار بھارتی فوجی موجود ہین جو تقریبا ۲ ڈویزن سے زیادہ فوج بنتی ہے جن کی تصویرین میڈیا پر آ چکی ہین۔
افغانستان اور بھارت کے تعلقات پاکستان کے لئے آزادی سے لے کر اب تک وجہ تشویش رہے ہین۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدا مین شمولیت پر مخالفت کی۔ اور پھر کبھی پشتونستان کے نام پر سول کپرون مین فوجی بھیج کر چڑھائی کی کوشش کی تو کبھی بلوچستان مین دہشتگردون کو منظم کرنے مین بھارت کی مدد کی۔ افغان خفیہ ادارے خاد نے بھارتی ایجنسیون کی مدد سے سینکرون دہشتگردی کی کاوایان پاکستان مین کین۔ افغان جہاد مین ان سب باتون کے باوجود پاکستان نے افغانون کی نا صرف مدد کی بلکہ جہاد کے ختم ہونے کے بعد بھی ہر موقع پر افغانستان کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے۔لیکن ان تمام باتون کے باوجود افغانون نے بھارت کی طرف جھکاو جاری رکھا جس کے نتیجے مین پاکستان نے طالبان کی آمد کے بعد طالبان حکومت کی مدد کرنا ملکی مفاد مین ضروری سمجھا۔ ۹۱۱ کے بعد طالبان مجرم قرار پائے اور شمالی اتحاد جو دس فیصد سے بھی کم افغانستان پر قابض تھا امریکی مدد سے افغانستان پر قابض ہوگیا۔ شمالی اتحاد کو طالبان کے زمانے مین بھارتی حمایت حاصل تھی اس ہی لئے حکومت آتے ہی انھون نے پاکستان کی قربانیان پس پشت ڈالتے ہوئے بھارت کو اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دے دی۔
آج افغانستان مین بھارت کے ۱۲ کونسلیٹ موجود ہین جو پاکستان مین دہشتگردی پیھلانے مین ملوس ہین۔ پچھلے دنون مختلف اخبارت مین اور خود بھارتی انتیلیجنس ایجنسیون کی ویب سائٹس مین چھپنے والی خبرون کے مطابق را نے بیت اللہ محسود گروپ سے مضبوط روابط بنا لئے ہین اور پاکستان مین جاری انتہا پسندی کے پیچھے بھارتی ہاتھ اب ڈھکا چھپا نہین۔ اسی طرح بھارت کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم تامل ٹایگرز کے ذریئے بلوچ انتحا پسندون کو تربیت دی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ افغانستان مین اور افغانستان سے ہو رہا ہے۔
 
.

پاک افغان منی جر گہ آج اسلام آباد مین ہو رہا ہے جس مین سرحد پار سے پختون قبائلی سرداراور پاکستانی پختون عمائدین حصہ لے رہے ہین۔ افغان وفد کی قیادت نسلی طور تاجک سابق وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ کر رہے ہین جبکہ پاکستان کے وفد کی قیادت گورنر سرحد اویس احمد غنی کر رہے ہین۔ پاکستانی وفد مین اسفند یار ولی، افراسیاب خٹک،مولانا شیرخان شیرانی، سردار یعقوب اور جی جی جمال شامل ہین۔ جرگے مین طالبان کے ساتھ مزاکرات پر غور اور کابل جرگے کے فیصلون پر عمل درامد کا جائزا لیا جائے گا۔ طالبان کی غیر موجودگی مین ایسے جرگے کیا معنی رکھتے ہین یہ ایک عجیب مگر اپنے اندر خود جواب رکھنے والا سوال ہے۔
طالبان کے ساتھ کوئی بھی پالیسی جاننے سے پہلے پختون معاشرا اور طالبان کے آنے کے بعد کی تبدیلیون کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
طالبان کے آنے سے پہلے پختون قبائیل مین قبائیلی ملک یا سردار طاقت کا منبہ تھے اور عوام کی نمائندگی کرتے تھے یہ ملک عموماً بڑے خاندانون سے ہوتے اور مظبوط پس منظر رکھتے۔ مگر طالبان کے آتے ہی طاقت کا منبہ کمانڈر بن گئے۔ یہ کمانڈر اپنی قابلیت کی بنیاد پر آگے آتے اور آگے آنے کے لئے کسی بڑے قبیلے یا خاندان کے محتاج نہ ہوتے۔ یہ ہی اجہ ہے کہ افغان اور پاکستانی حکومتون کی جانب سے قبایئل سے کئے جرگے اور معاحدے بے فائدا رہے کیونکہ طالبان پر ملکون کا نہین بلکہ کمانڈرون کا کنٹرول ہے۔

دوسری اہم بات جو کوئی بھی پالیسی بنانے سے پہلے یاد رکھنا ضروری ہے وہ ہے پختون طریقہ معاشرت۔۔۔۔
پختون ولی یا پختون طریقہ حیات ہزارون سال پرانا طرزمعاشرت ہے جس مین بدلہ لینا غیرت کا تقاضہ اور پناہ مانگنے والے کو پناہ دینا اور اس کی حفاظت کے لئے سب کچھ قربان کر دینا شرافت اور غیرت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ پختون قوم بدلہ لینے والون کو قابل عزت سمجھتے ہین اور اس کی تقریم اور عزت کرتے ہین۔

افغان جہاد مین بین العقوامی طور پرسوچے سمجھے طریقے سے پشتونون کے اندر جہادی ذہنیت اور شدت پسندی کو فروغ دیا گیا اور انتہا پسندی کے زریعے سو ویت یونین کو شکست دی گئی۔ طالبان تحریک کے مقبول ہونے کی ایک وجہ مجاہدین کمانڈرون کی اس نظریے سے دوری بھی تھی جس کا پرچار افغان جہاد کے زمانے مین کیا گیا۔

جب طالبان نے افغانستان مین کنٹرول سمبھالا تو جہان افغانستان مین ملکون یا سردارون کی سیاست کمزور ہوئی وہان اس کا اثر پاکستان مین بھی پڑا۔
طالبان چونکہ پشتون تحریک تھی یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی قبضے کے بعد پشتونون کو حدف کا نشانہ بنایا گیا اور جہان طالبان کا نقصان ہوا وہان سینکرون پشتون بھی مظالم کا نشانہ بنے۔ پاکستان کے پختونون کا افغان پختونون کی مدد کرنا ایک فطرتی بات تھی کیونکہ یہ قبایئل سرحد کے آر پار ریتے ہین ۔۔ امریکی کاروائی سے بچ کر طالبان اور یہ معصومپشتونجن کا قصور طالبان کی طرح پشتون ہونا تھا پاکستان مین پناہ لینے آئے اور امریکہ مخالف کاوائیون(بدلہ) کے لئے پاکستانی سر زمین استعمال کرنے لگے ۔ ان کا حال دیکھ کر پاکستانی پختون بھی غضب مین آ گئے اور پناہ کے علاوہ ان کی مدد بھی کرنے لگے۔ جس پر نیٹو اور حکومت افغانستان نے خوب شور و غوغا کیا جس کے نتیجے مین ۲۰۰۳ مین پاکستان کو طالبان کے حمائتیون کے خلاف اوپریشن شروع کرنا پرا۔۔۔۔۔۔ اور یون پاکستانی طالبان نے جنم لیا۔۔۔۔۔۔

اب اگر حالات اور پختون روایات کو سامنے رکھتے ہوئے صورتحال پر نظر ڈالین تویہ بات سمجھ آ جائے گی کہ جب ان طالبان کے خلاف کا روائی ہوتی ہے تو ایک طالب کی موت یا کسی ایک عام آدمی کی غلطی سے کاروائی کے نتیجے مین موت دس نئے طالبان کو جنم دیتی ہے۔ ایک ایسا معاشرا جہان بدلہ عزت کی نشانی اور اور فرض سمجھا جائے وہان طاقت کا استعمال سوائے مثلے کو برھانے کے کوئی فائدا نہین دے
سکتا
۔دوسری طرف ایک ایسا جرگہ جس مین طالبان کے علاوہ سب موجود ہون کیا طالبان کو کنٹرول کرنے مین مدد گار ہو گا۔ خاص طور پر جب پختون مخالف سابق افغان وزیر عبداللہ عبداللہ افغان وفد کی قیادت کر رہے ہون کیا یہ بزات خود ایک مضحکہ خیز بات نہ ہو گی۔
lost Identity: ????? ???? ??? ??? ????? ???? ??? ???? ????? ????۔
 
.

کہیں یہ بھارت کی جنگ تو نہیں۔۔‘‘ کالم ‘ زبیر احمد ظہیر

پارلیمنٹ کے بند کمرہ اجلاس کی سرگوشیوں سے کیا تبدیلی آئے گی ؟یہ سوال زبان زد عام ہے ۔عوام پارلیمنٹ سے اس جنگ کے انجام کی توقع لگائے ہوئے ہیں ۔عوام کی یہی توقع آج خطے کی زمینی حقیقت ہے ۔ایران ،روس اورچین تک خطے کا کوئی ملک امریکہ کے افغان قبضے کو طول دینے کا حامی نہیں ۔ پاکستان اس جنگ سے نکلنے کی جتنی کوشش کرتا ہے مزید الجھ جاتا ہے ۔ اس وقت خطے میں بھارت واحد ملک ہے جو امریکا کی اس جنگ کا سب سے بڑا حامی ہے۔ پاؤں اکھڑ جانے کے بعدامریکا کو سہارا دینے کے پس پردہ بھارت کیا مقاصدہیں۔یہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی تک جانا ہوگا۔ 1947میں تقسیم کے ساتھ ہی بھارت نے دفاعی سامان پر ڈاکہ ڈالااورپاک فوج مفلوج ہوگئی ، اس کی قلیل افرادی قوت لٹے پٹے قافلوں کو سمیٹنے میں جت گئی، بھارت نے 20لاکھ مہاجرین کو مار کرڈیڑھ کروڑمہاجرین کو لوٹا،20لاکھ اموات نے نومولودپاکستان کو سوگوار بنادیا یہ سوگوار پاکستان تنکا تنکا جوڑنے میں مصروف تھا۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی ۔اس حالت میں بھارت نے پاکستان کے جتنے علاقوںاور خطے کی دیگر ریاستوں پر قبضہ کیا ۔ اجتماعی مزاحمت ہوئی نہ ہم انہیںفوجی کمک بھیج سکے ۔
14اگست 1947کو پاکستان کی آزادی کے بعد کشمیرکا الحاق پاکستان سے ہونا تھا ۔ڈوگرا مہاراجہ نے ٹال مٹول شروع کردی اوردو ماہ تک ڈوگرا فواج کے مظالم میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔پونچھ ،راولاکوٹ ،دھیر کوٹ، میرپور سمیت دیگر علاقوں کے سابقہ فوجیوں نے ڈوگر ا کے خلاف مزاحمت کی منصوبہ بندی کرلی ،80ہزار تربیت یافتہ فوجی جمع ہوگے ۔اسلحہ اور کمک کے لیے سرحد کے قبائل سے مدد مانگ لی۔ 22اکتوبر کو پونچھ کی جانب سے پیش قدمی کرتے کرتے یہ مزاحمت مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگئی، 24اکتوبر کو انہوں نے سرینگر کی بجلی کاٹ دی، مہاراجہ نے خطرے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے بھارت سے مدد مانگ لی اور 26اکتوبر کو انڈیا بھاگ کر جان بچائی اور کشمیرکا سودا کرلیا۔ اگلے دن27 اکتوبر1947کوبھارت نے کشمیر میں فوج اتاردی۔آزاد علاقوں نے اپنی حکومت بنا لی اورتب سے مقبوضہ کشمیر آزاد نہ ہو سکا۔قبائلیوں نے اس وقت جنگ لڑی، جب پاک فوج جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، قبائلیوں سے کشمیری خوف کھاتے تھے، زبان دونوں کی مختلف تھی ۔ بھوک کے مارے کچے اخروٹ کو کچافروٹ سمجھ کر چباتے تو زہریلے چھلکوں سے ان کے ہونٹ پھٹ جاتے تھے ،عوامی تعاون کے اس منظر نامے کے ساتھ قبائلیوں نے کشمیر آزاد کروایا۔
آزاد کشمیر کے آزاد ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کی ناممکن سوچ ممکن بنی۔یہ سوچ پختہ ہوتے ہوتے 1989 میں مسلح جدوجہد میں بدل گئی۔یہ جنگ چند ہاتھوں سے ہوتی ہوئی خانہ جنگی میں ڈھل گئی۔ بھارت مجبور ہوتا گیا ۔ تحریک تیز ہوتی گئی ۔یہ جنگ برف باری کے باجود12ماہ تک پھیلتی گئی۔ بارڈر سیکورٹی سے بلیک کیٹ کمانڈوز تک سب ناکام ہوگئے،تو بھارت نے چھوٹی سی ریاست میںبڑی فوج جھونک دی ۔ایک دوسال کی مزاحمت دس سال تک طویل ہوگئی۔ فوج بڑھتے بڑھتے بھارت کی کل فعال دس لاکھ میں سے ساڑھے سات لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ 1971کی پاک بھارت جنگ پندرہ دن نہ چل سکی، بھارت نے گنتی شروع کردی، 15 ہفتوں پندرہ سال تک، اس مزاحمت نے دبنے ختم ہونے کانام نہ لیا۔
مسلح جدوجہد کے چندسال میں کشمیر کی آزادی صاف نظرآنے لگی۔کشمیر کی آزادی تسلیم کرلی گئی توبھارت کی 29علیحدگی پسند ریاستوں کوتقویت ملے گی۔ بھارت ایک کے بعد ایک کو آزادی دیتے دیتے ٹکروں میں بٹ جائے گا،یہ خو ف جب بھارت کو لاحق ہوا تب متحدہ بھارت کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی اور کشمیر کی آزادی کو بھارت کی تباہی سمجھا جانے لگا ۔ تب بھارت نے کشمیر کی جاری تحریک کی سائنسی اور نفسیاتی وجوہ تلاش کیں، معلوم ہوا کہ تحریک کو آزاد کشمیر کی آزادی سے مہمیز ملی ۔بھارت نے آزاد کشمیر کی آزادی کی بنیاد نکالی تو اس پر قبائلیوں کی بے لوث قربانی منکشف ہوئی ۔اسے معلوم ہوا۔24اکتوبر1947 کوسری نگرسے مہاراجہ کو بھگانے والے کشمیریوں کے ساتھ آفریدی ،محسود ،وزیر اور سواتی قبائل کی تعداد نو سوتھی۔ آزاد کشمیر کی آزادی کے لیے استعمال ہونے والا سارا اسلحہ باڑہ اور درہ کا تھا۔بھارت نے سترہ سالہ تحریک میں کئی ایک ایسے موڑ دیکھے جن کے اورمقبوضہ کشمیرکی آزادی کے درمیان ایک کمک کا فاصلہ تھا ۔یہ کمک کشمیریوں کو جب 1947 میں ملی کچھ حصہ آزاد ہوگیا ۔آج قبائلیوں کی ماضی کی ویسی کمک ہمیشہ کے لیے ناممکن بنادی گئی ہے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ 2004سے جوں ہی بھارتی فوج کوکشمیرمیں سکھ ملتا ہے ۔قبائلی علاقوں کی شامت آجاتی ہے ۔پندرہ سال میںبھارت جب تک کشمیر کے مسئلے کو پاکستان کی سازش قرار دیتا رہا۔ امریکہ سمیت کسی نے کان نہیں دھرے ،یہ آزادی کی تحریک تھی، کوئی اسے بھارت کی سلامتی کا مفروضہ مانتا بھی کیسے ۔بھارت نے اسے دہشت گردی بتایا اور اسے بھارت پر قبضے کا منصوبہ گنوانا شروع کردیا۔ اس نے اسے طالبان اور القاعدہ کا منصوبہ باور کرایا۔ اس نے اس منصوبے کو کشمیرکی تحریک سے جوڑا اور یہ مضبوط کہانی امریکا کے کان میں انڈیل دی اور اس سے مددمانگ لی ۔امریکا نے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کی طرح اس منصوبے کا جائزہ لیا تو اسے بھارت کی ساری آبادی مظلوم نظر آ نے لگی ۔اس کی مظلوموں کی داد رسی کی رگ پھڑکی اوراس نے بھارت کوچین کے مقابلے میںخطے کا مقامی ایجنٹ بھرتی کرلیا ۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ بھارت امریکا کو افغانستان لے کر آیا ،جتنا یہ مشکل ہے اتنا ہی زیادہ یہ کہنا آسان ہے کہ بھارت امریکا کی واپسی میںرکاوٹ ہے ۔آج جب سب اتحادی امریکا کا ساتھ چھوڑنے کو ہیں یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنی فوج افغانستان بھیجنے کو تیار ہے۔ یہ رسک چغلی کھارہا ہے کہ کے افغانستان میںبھارتی مقاصد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکا لڑنے توالقاعدہ اور طالبان سے آیا تھا۔ مگرآج چھ سال بعد اس کی ساری جنگ قبائلی علاقوں میںدھنس گئی ہے ،قبائلی اب کبھی کشمیر یوں کو کمک دینے کے قابل نہیں رہے۔


امریکا کی جنگ قبائلیوں تک کیسے پہنچی اوراس میں بھارت کا کیامفادہے۔ امریکا نے 2001میں افغانستان پر حملہ کیا ،طالبان نے گوریلا جنگ شروع کردی ۔آج یہ دنیاکی سب سے بڑی اور خو فنا ک جنگ ہے اگر کوئی تعلق ہوتا توتحریک آزادی کشمیر 2001 ء میں امریکی حملے کے بعد فورا ختم ہوجاتی مگر وہ چلتی رہی کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ بھارت کو یہ محنت ناکام ہوتی نظر آئی ۔اس نے افغانستان میں اپنا کام بڑھادیا جو کام پہلے شمالی اتحاد تک محدود تھا اس نے پورے افغانستان میں پھیلادیا ۔بھارت کی نظریں ڈیورنڈ لائن پر تھیں یہ وہ سرحد ہے جو بھارت سے تین جنگوں کے دوران خالی رہی۔ پاکستان 2001تک دنیاکا واحد خوش نصیب ملک تھا جس نے تین جنگیں لڑیں اور اس کی سب سے بڑی 2ہزار5سو کلومیڑ طویل سرحد خالی رہی۔پاک فوج نے بے خطر ننگی پیٹھ کے ساتھ سارا زور بھارتی سرحدوں پر لگایا اور اپنے سے دس گنابڑی فوج کے حملے پسپا کردیے۔ بھارت کے لیے یہ ڈیورنڈ لائن2001 تک 53سال خطر ہ بنی رہی۔

بھارت نے افغانستان میں سرمایہ کاری کی،تعمیراتی کام سنبھالے،سڑکوں کے ٹھیکے لیے اوراپنے جاسوس مزدور انجینئربنا کر بھیج دیے ۔آج بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جس نے افغانستان جیسے بنجر ملک میں سترہ قونصل خانے کھول رکھے ہیں۔ افغانستان میںاتنی تعداد میں امریکا کی فوجی چھاؤنیاں نہیں جس کی اصل جنگ ہے امریکا نے فوجی اڈے بھی اتحادیوں میں بانٹ رکھے ہیں مگر بھارت کے سترہ قونصل خانے ہیں۔عام حالات میں بھارت جیسا غریب العوام ملک اتنی فضول خرچی برداشت نہیں کرسکتا ۔بھارت کے تعلقات تو شمالی اتحاد سے رہے مگر قونصل خانے وہ ڈیورنڈ لائن کے قریب کھولتا رہا ۔امریکا کی جنگ جسے افغانستان میں پھیلنا تھا وہ ڈیورنڈ لائن عبور کرکے قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئی ۔53کی پر امن یہ طویل سرحد 53دنوںمیں پر خطر بن گئی ۔آج یہاں ہمارا فوجی پہرا ایک لاکھ سے متجاوز ہے مگرفوجی مصروفیت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے
بھارت کومعلوم ہے امریکا افغانستا ن سے جس دن نکل گیا ۔پاکستان کی طویل مغربی سرحد پھر خالی ہوجائے گئی اور پاکستان فوجی مصروفیت سے آزاد ہوجائے گا۔یوںپاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی پوزیشن میں آجائے گا۔ 2001سے 2004تک طالبان حکومت کے خاتمے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر کمزور نہیں ہوئی جس نے ثابت کردیا کہ کشمیر کی تحریک کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔یہ بھارت کا جھوٹ تھا۔ پاکستان نے 2004 میں نظریں بدل لیں، تحریک کمزور ہوئی ختم نہیں ہوئی۔ کشمیریوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھائے پاکستان کوچار سال ہونے کو ہیں مگرتحریک چل رہی ہے، جھڑپیں جاری ہیں ۔بھارت آج بھی اس وہم میں مبتلاء ہے کہ کشمیر کی آزادی سے بھارتی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس لیے 1947 میں جن قبائلیوںنے کشمیریوں کی مدد کی تھی بھارت نے آج ان ہی قبائلیوں پر مسلط جنگ کو طول دینا شروع کردیا ہے۔
آج جب قبائلی علاقوں سے طالبان کی آڑ اور بہروپ میں بھارتی مداخلت کے کھلے ثبوت ملتے ہیں ہم ان کا ذکرانتہائی رازداری سے دبے لفظوں میں پارلیمنٹ کے بند کمروں میں کرتے ہیں اور اعلانیہ اسے اپنی جنگ کہتے ہیں۔ بھارت ڈنکے کی چوٹ پر افغانستان میں امریکا کو آخری لمحوں میں فوجی کمک دینے کو بے تاب ہے۔ آج سات سال بعد پارلیمنٹ کی قرار داد آئی ہے مگر یہ ہمیں آج بھی سمجھ نہیں آیا کہ یہ جنگ اس خطے میں فوائد کے لحاظ سے کہیں امریکا سے زیادہ بھارت کی تو نہیں۔کل جب 30سال بعد امریکا کی سرکاری دستاویزات سامنے آئیں گئی ۔اس وقت دنیا کی سپر طاقت چین ہو گئی ۔امریکا سرکاری رازوں سے پردہ اٹھائے گا اورچین کو ڈرانے کے لیے بھارت کو ماضی کی القاعدہ امریکا خطرناک جنگ کا ہیرو بنائے گا تو لکھا ہوا گا کہ’’ را’’نے کشمیر سے افغانستان تک جہادی نیٹ ورک کے خلاف سب سے پہلے خفیہ معلومات امریکا کو دیںجس سے پاکستا ن کو تعاون پر مجبور کیا جا سکااس کے بدلے میں جب بھارت نے فائدہ اٹھانا شروع کیا،تب پاکستان اسے اپنی جنگ سمجھنے کی غلط فہمی میں اتنا مبتلاء تھا کہ اس وقت ’’را‘‘ کے مقابل آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے جیسی سرگرمیاں جاری تھیں۔ ان دستاویزات میں لکھا ہوگا جس وقت بھارت امریکا ایٹمی معاہدہ ہوا اور امریکی آرمی چیف نے سیاچن کا دورہ بھی کرلیاتھا ۔بھارتی ائر چیف نے افغانستان کا دورہ کرلیا تھا۔تب 30سال قبل اس وقت پاکستان بندہ کمرہ اجلاسوں کی سرگوشیوں اور پارلیمانی کمیٹیوں میں مصروف تھا۔
 
. . . . . .
پاکستان میںخودکفیل امریکی جاسوسی نظام

زبیر احمد ظہیر

کیاامر یکی فضائی حملے رک پائیں گے ؟ساری سفا ر تی کو ششوں اور سرکا ری احتجاج سے لے کر صدر زرداری اورصدربش ملاقات تک مزید فضا ئی حملے نہ ہونے کی ٹھوس ضمانت نہیں مل سکی ، لہٰذاعام قبائلی بدستور امریکی دہشت گردی کی زد میں ہے۔بظاہریہ فضا ئی حملے عسکریت کے خلا ف کے انتہائی قدم ہیں، مگر ان سے عا م لو گ ،خو ا تین اور بچے زیادہ جاں بحق ہورہے ہیں۔اس نا قص امریکی انٹیلی جنس پرعام شہریوں کی مسلسل امو ا ت سے بڑی کوئی دلیل نہیں ۔ امر یکا نے قبا ئلی علا قو ں میں مقا می مخبر وں کا تعا ون حا صل کرلیا ہے، اور ہماری انٹیلی جنس پر اپنا ا نحصا ر کم کر دیا ہے ،اس بات کی تصد یق اس سے ہو تی ہے کہ متعدد بار پا کستا نی انٹیلی جنس نے امریکہ کومعلومات فر اہم کیں ، مگر ا س نے کا رروائی نہ کی اوراتنی تا خیر کر د ی کہ عسکر یت پسندوں کو نکلنے کا مو قع مل گیاپاکستان کو مسلسل لاعلم رکھ کر میزائل حملے اس بات کا کھلا ثبوت ہیںکہ امریکا نے پاکستانی اداروں پر اپنا انحصار ختم کر دیا ہے۔اورا س نے اپنا جاسوسی نظام خود کفیل بنا لیا ہے ،امریکا کی قبائلی علاقوں میں جاسوسی کی دیوار جن پتھروں پر کھڑی ہے وہ اس کے مقامی ایجنٹ ہیں۔

قبائلی علاقوں اور افغانستان میں امریکی جنگ کا دارومدار جن ایجنٹوں پر ہے، ان کا انٹیلی جنس معیار کتنا بلند ہے ؟یہ جاننے کے لیے ماہر سراغ رسان ہونا ضروری نہیں،عام آدمی بھی بچوں بوڑھوں اور خواتین کی مسلسل اموات سے ناقص انٹیلی جنس کا بخوبی اندازہ لگا سکتاہے ۔ کرائے کے ایسے مقا می بھیدی با لعمو م غیر تر بیت یا فتہ ہو تے ہیں، یہ کم علمی کی و جہ سے جا نچ پڑ تا ل کی زحمت نہیں اٹھا تے اورمعلو ما ت جوں کی توں آگے بڑ ھا د یتے ہیں، امر یکی ان کی تصد یق کیے بغیربٹن د با دیتے ہیں۔ قبا ئلی علا قو ں میں صد یوں پر ا نی ر نجشیں چلی آر ہی ہیں، اس لیے مقا می مخبروں کو ذا تی مخالفت سے الگ نہیں کیاجا سکتا۔ بیشترفضائی حملو ں میں مختلف لو گو ں کی بجا ئے عا م طور پر ایک ہی خا ند ان اور ایک ہی گھر کے افر ا د نشا نہ بنے ہیںجس سے انتقام کو رد نہیںکیا جاسکتا ۔یہ رنجش اور اس کے ذریعے دشمنی نکالنے کا معا ملہ صرف قبائلی علاقوں تک محدوود نہیں

اس وقت ملک میں طا لبا ن اور القا عد ہ کے نا م پر گر فتا ر کر ا نے کی دھمکیا ں دینا عام سی بات بن گئی ہے، کسی کو خوف زدہ کرنے کے لیے یہ دھمکی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے اب یہ دھمکی ہر گلی محلے کی چھوٹی لڑائیوں کا حصہ بن گئی ہے اور تو اور مذہبی افراد کو تھانے دار معمولی تنازعوں میں طالبان کے نام پر فٹ کر انے کی دھمکی دے کر پیسے بٹورلیتے ہیں۔اس عذاب میں پھنسنے کے لیے مذہبی ہونا ضروری نہیں اس لیے یہ رسک کوئی نہیں لے سکتا۔ یہ وبا ء پورے ملک میں کسی موذی مرض کی طرح پھیل گئی ہے۔جب پر امن شہروں کی صورت حال یہ ہو تو جنگ زدہ اور صدیوں پرانی رنجشوں کے جنگل میں انتقامی صورت حال سے قبائلی علاقوں کوکیسے الگ کیا جا سکتا ،لہٰذا مقامی ایجنٹوں کی معلومات ذاتی مخالفت کے شک سے خالی نہیں ۔قبائلی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے رہتے ہیں۔ان علاقوں میں تو بطور خاص یہ وبا ء طاعون کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں، جب امریکا یا فورسز کارروائی کر کے چلی جاتی ہیں تو پھر بدلہ ان سے لیا جاتا ہے ،جن پر مخبری کا شک گزرے۔ایسے لوگوں کی معلومات پر کارروئی کر نا اتنی بڑی بے وقوفی ہے ،جس کا امریکابار بار ارتکاب کر تا جارہاہے اور ایسی بدنامی کا بیج کاشت کر تا جا رہا ہے، جس کی فصل بر سوں امریکی دشمنی اگاتی رہے گے۔

امریکا کی قبائلی علاقوں پر گہری نظر تھی ،بر طانیہ کی ماضی میں قبائلیوں سے شکست اسے یاد ہے ۔ امریکاکو روس دور کی پاکستان کی دور اندیشی اور اپنی غلطی بھی یاد تھی، جب پاکستان نے امریکا کو مجاہدین سے براہ راست ڈیل کی رسائی نہ دے کر اس کے ہاتھ پاوں باندھ دیے تھے۔ اس بار امریکا نے ایسا نہیں ہونے دیا، خودترقیاتی فنڈ دیے ،سڑکیں بناکر دیں ، اوراس بہانے قبائلیوں میںجگہ بنالی ۔، مزاحمت کم کرنے کے لیے جرائم پیشہ عناصر سے مدد لی اوراپنا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ جس سے قبائلیوں میں باہمی تصادم ہوا اوران کی طاقت تقسیم ہو گئی ۔حکومت نے امن معاہدے کیے اورجانی ومالی نقصان سے بچنے کی کوشش کی۔ امریکا نے فضائی حملے شروع کردیے اوریوں جلتی پر تیل کے اس چھڑکاؤ نے امن معاہدے ختم کر وادیے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے میزائل حملوں کوعملا بچوں کا کھیل بنا دیاہے ،جب مرضی آئی میزائل داغ دیے۔امریکا نے اب جس تواتر سے حملے شروع کردیے ہیں۔اتنے حملے مشرف کے آٹھ سالہ دور میں نہیںہوئے ،معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کو اقتدار اعلی جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ میں بکھر اہوا قطعی پسند نہیں اسے تو ایک آمر چاہیے جو یک جنبش قلم امریکہ کی مان لے ۔آج پاکستان میں جمہوری حکومت دن بدن کمزور ہورہی ہے اس کی وجہ اپوزیشن ہے نہ فوج بلکہ امریکہ ہے

پاکستان نے امریکا کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟پاکستان کے سیکورٹی حکام نے امریکا کی جانب بڑھتی گولیاں اپنے سینے پر کھا کر یہ جنگ لڑی،کندھوں سے کندھے ملا کر ڈنکے کی چوٹ پر امریکا کا ساتھ دیا۔ایک ہزار فوجیوں کی قربانی دی ،ایک لاکھ بیس ہزارفوجی امریکا کے تحفظ کے لیے افغان سر حد پرلگادیے۔امریکی حملوں میں اپنے سیکڑوںشہریوں کی مظلومانہ موت پر خاموشی اختیار کر لی ،فوجی آپریشن کے دوران اپنے ہزاروں شہریوں کی اموات قبول کرلیں، قر بانی سے لے کر بدنامی تک اس ساری محنت پر امریکا اس وقت پانی پھیر دیتا ہے،جب افغانستان سے اندھیرے میں تیر چلا تاہے، ا نہیں لا علم رکھ کر ا مر یکا جب فضا ئی حملے کر تاہے ،تو یہ لا علمی کے حملے قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپوں کی موجودگی کی چغلی کھا تے ہیں ،جن کی چغلی قبائلیوں کے خون بہنے پرمنتج ہوتی ہے۔امریکا فضاء سے جاسوسی کی لاکھ کوشش کرلے ،جب تک ہدف کاتعین زمین سے نہیں ہوتا ،جاسوس طیاروںاورسیٹلائیٹ کی تصاویر کی اہمیت اندازے اورتخمینے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔

ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے مسائل ہماری طر ح ہیں۔ امریکا اس پر حملوں کی آئے روز دھمکیا ں دیتا ہے اور ہمارے اوپر آئے روز حملے کر تاہے۔ایران میں بارہ سال پہلے ایک بم دھماکہ ہوا تھا، ایران نے اس کی تفتیش میں بال کی کھال نکال دی، جس کا اثر بارہ سال رہا۔ گزشتہ دنوں جو بم دھماکہ ایران میں ہوا یہ بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ایک ہمار ملک ہے،جہاں ہر نیا بم پہلے دھماکے سے بھاری ہوتا ہے۔آخر کیا وجہ ہے؟ ایران امریکا کو دھمکیاں دے اوراسرائیل پرتڑیاں جمائے۔ امریکا ایران سے زیادہ سے دور بھی نہیں،عراق کی سرحدیں ایران سے متصل ہیں اوراندر خفیہ علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہے، مگر مجال ہے کہ امریکا ایران کا بال تک بیکا کرسکے۔جب ایرانی صدر امریکا کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاںکسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لیے ایران میں در اندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز یہ ہے کہ اس کی قوم ڈالروں کی لالچ میں مخبری جیسی غلاظت میں ہاتھ نہیں ڈبوتی، ایک پاکستان ہے کہ جس پتھر کو اٹھائیں ڈالروں میں بکا لگتاہے۔ اگر ہم امریکی میزائل حملے نہیں روک سکتے، توان غداروں کو تو لگام دے سکتے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے آئے روز جاسوسوں کو مارے جانے کی خبریں آتی ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائیلوں کو بغل میںچھپے دشمن کا ادراک ہے۔

امریکا کے پاس جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی ہے ،یہ فضا سے مچھر کے پر گن سکتی ہے۔مان لیا ،مگریہ ٹیکنالوجی ہے کو ئی دیو جن قسم کی مخلوق ہر گز نہیں۔ امریکا کے پاس ان عسکریت پسندوں کی تصاویر ہیں،نہ ان کی آواز ہے ۔امریکی حملے آواز یا سیٹلائٹ کی تصاویر کی مددسے ہوتے ہیں۔اگر یہ مان لیا جائے تواسامہ بن لادن پر ایسے کتنے حملے ہوئے ہیں ؟اور کتنے کامیاب ہوئے
ہم نیٹو افواج کی سپلائی بند نہیں بند کرسکتے اور ہم مخبری کے جال کوبھی پھلانگ نہیں سکتے تو امریکی صدراتی انتخاب ہونے تک قبائلی علاقوں میں کفن دفن کا انتظام کم از کمحکومت اپنے ذمے لے،اگر ہم زندگی نہ دے سکیں، یہ ہمارے بس میں نہیںرہا تو آخر ی مذہبی رسومات کا حق تونہ چھنا جا ئے، جو حکومت اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کی ضمانت نہ دے سکے وہ ان سے اپنے مطالبات بھی نہیں منوا سکتی۔

روس کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکاکو مجاہدین تک رسائی نہ دے کر جس دور اندیشی کا مظاہر ہ کیا تھا، آج اسی دور اندیشی کو امریکا نے ہمارے اورپرالٹ دیا ہے، روس کے خلاف جنگ کاکنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہماری مجبوری تھا ،وہ پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی ،اس بار امریکا نے ابتداء ہی سے ماضی کی غلطی نہیں دہرائی اورافغانستان اور قبائلی علاقوںمیں براہ راست اپنے حامی پیدا کیے اور مخبروں کا جال بچھا لیا، لہٰذا آج اس جنگ کا کنٹرول امریکا کے پاس ہے ،وہی اسے طول دے سکتاہے اورمختصر کر سکتاہے۔ہم ویسے تماشائی ہیں جسے روس کے خلاف جنگ میںامریکہ تھا۔
 
. . . . .

Country Latest Posts

Back
Top Bottom