What's new

Iqtibasat

Rhyme ? What do u mean ?i t wasnt supposed to rhyme. They are excerpts abt a muslims relationship with Allah.
Acha trolling na karo yahan, u wont get it cuz its difficult urdu.
did I mix up with his other thread about urdu poetry... lolz
 
محبت کی آگ
میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اور بھسم ہوتے دیکھاہے۔ پھر ان کی راکھ کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھاہے۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپمحبت کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہر وقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ رکھتےہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورد، آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام نجویز نہیں کیا جاسکا۔
 
محبت کی آگ
میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اور بھسم ہوتے دیکھاہے۔ پھر ان کی راکھ کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھاہے۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپمحبت کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہر وقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ رکھتےہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورد، آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام نجویز نہیں کیا جاسکا۔

download (1).jpg
 
انسان کی فطرت میں قدرت نے امید اور آس کی ڈور سے ہمیشہ بندھے رہنے کا ایک عجیب سا انتظام کررکھا ہے۔ ایک ڈور ٹوٹتی ہے تو وہ دوسری تھام لیتا ہے ۔۔۔۔۔ دوسری ٹوٹتی ہے تو تیسری ۔۔۔۔۔ یوں یہ سلسلہ اس کی سانس کی ڈور ٹوٹنے تک چلتا ہی رہتا ہے۔ شاید قدرت نے انسان کی طبیعت میں یہ آس اور امید کا سلسلہ نہ رکھا ہوتا تو وہ پہلی ناامیدی پر ہی ختم ہوجاتا، مایوسی سے مرجاتا۔

(ہاشم ندیم کے ناول ’’خدا اور محبت‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
کوئی کتنا بھی گناہ گار کیوں نہ ہو، اللہ اس کے لئے دعا کا راستہ کبھی بند نہیں کرتا، وہ اپنے بندے کو نوازنے سے نہیں رکتا۔ جو اللہ اپنے بجائے کسی دوسرے کو خدا بنا کر پوجنے والے پر بھی اپنی رحمتیں بند نہیں کرتا، وہ اپنے نام لیوا کے لئے دعا اور توبہ کا راستہ کیسے بند کرسکتا ہے؟ اسی لئے اپنی چھوٹی بڑی غلطیوں پر اپنے رب سے توبہ کرتے رہو، دعا کا ہاتھ نہ چھوڑو۔

(آمنہ ریاض کے ناول ’’ستارہ شام‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
کوئی کتنا بھی گناہ گار کیوں نہ ہو، اللہ اس کے لئے دعا کا راستہ کبھی بند نہیں کرتا، وہ اپنے بندے کو نوازنے سے نہیں رکتا۔ جو اللہ اپنے بجائے کسی دوسرے کو خدا بنا کر پوجنے والے پر بھی اپنی رحمتیں بند نہیں کرتا، وہ اپنے نام لیوا کے لئے دعا اور توبہ کا راستہ کیسے بند کرسکتا ہے؟ اسی لئے اپنی چھوٹی بڑی غلطیوں پر اپنے رب سے توبہ کرتے رہو، دعا کا ہاتھ نہ چھوڑو۔

(آمنہ ریاض کے ناول ’’ستارہ شام‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
Thank u for this ,so cool

@IrbiS do check this when u are back.

2hs6yhz.jpg
 
کوئی شخص ایسا نظر آجائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک اپنا گھر بناتے وقت دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔

قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھالیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھادیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہوگیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔

یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔

مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ’’برادر ان اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔

مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجادیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمربند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راؤنڈ میں ایک تگڑا سا tug of war تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کر لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگے کے چرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہوجاتا۔

(’’آب گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)
 
ہر شخص کی زندگی میں ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب وہ تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے راز کھلنے والے ہوتے ہیں اور اس وقت جب وہ خوف کے کوہ طور تلے کھڑا کپکپا رہا ہوتا ہے تو اللہ اسے بچالیتا ہے۔ یہ اللہ کا احسان ہے اور اسے اپنا ایک ایک احسان یاد ہے، ہم بھول جاتے ہیں، وہ نہیں بھولتا۔ تم اپنے حل ہوئے مسئلوں کے لئے اس کا شکر ادا کیا کرو جو ساری زندگی تمہارے مسئلے حل کرتا آیا ہے، وہ آگے بھی کردے گا۔ تم وہی کرو جو وہ کہتا ہے، پھر وہ وہی کرے گا جو تم کہتے ہو۔

(نمرہ احمد کے ناول ’’جنت کے پتے‘‘ سے اقتباس)
 
ہماری خوشیوں کی سب سے بڑی دشمن یہی ’’اندر‘‘ کی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے۔ ہم جسے ’’کوئی‘‘ کہہ کو خود کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل یہ ’’کوئی‘‘ ہمارے اندر کنڈلی مار کر بیٹھا ہوا خوف ہوتا ہے۔ اردگرد کے انسانوں کا خوف، اپنے سے برتر انسانوں کا خوف، اپنے سے کمتر انسانوں کا خوف، ناکامی کے بوجھ سے خائف لرزتے دل کا خوف، آنکھوں کی اوٹ سے جھانکتے تاسف کا خوف، طعنوں کا خوف، ہمدردی کی آڑ میں رگِ جاں کو آری کی طرح کاٹتے فقروں کا خوف، واہ واہ سمیٹ کر ایک اونچی مسند پر پہنچ نہ پانے کا خوف اور کبھی کبھی اس مسند پر پہنچ کر عزت و ستائش کے مہین لبادے میں لپٹی اس ’’واہ واہ‘‘ کے گر کر چکنا چور ہوجانے کا خوف، پابندیوں سے جکڑے اس معاشرے کا خوف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں، اس معاشرے کا خوف۔ کوئی ایسا نہ کہہ دے، کوئی ویسا نہ کہہ دے، کوئی دیکھ نہ لے، کسی کو پتا چل گیا تو؟ میرے دل کو بھی ایسے ہی خوف لاحق رہا کرتے تھے تب ہی میرا’’اندر‘‘ میری بڑبڑاہٹ کو دبا کر ’’سب اچھا ہے‘‘ کی گردان کرنے پرمجبور کردیتا تھا۔

(تنزیلہ ریاض کے ناول ’’من شر ما خلق‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
تعلق تو چھتری ہے، ہر جسمانی، ذہنی، جذباتی غم کے آگے اندھا شیشہ بن کر ڈھال کا کام دیتی ہے۔ بے روزگاری، بیماری، غریبی، تنہائی، سارے غموں پر تعلق کا ہی پھایا رکھا جاتا ہے، دوستی، رشتہ داری، بہن بھائی، نانا، دادا ۔۔۔۔۔۔۔ غرضیکہ ہر دکھ کی گھڑی میں کندھے پر رکھا ہوا ہمدرد ہاتھ، آنکھ میں جھلملاتی شفقت، ایک میٹھا بول، مسکراتا چہرہ بلڈ ٹرانسفیوشن، اسپرو کی گولی بن سکتے ہیں۔ اسی لئے محبت اندوہ ربا کہلاتی ہے۔ انسان اسی لئے کبھی خدا نہیں بن سکتا کہ اس کی ضرورت دوئی ہے، حتیٰ کہ اگر اسے دوسرا نہ ملے تو وہ خدا کو اپنی دوئی کا حصہ بنالیتا ہے۔ انسان کی تنہائی قیامت خیز ہے۔ جونہی اس خلا کو بھرنے والا کوئی آجاتا ہے، انسان اپنی جنت میں پہنچ جاتا ہے اور اپنے آپ کو مکمل سمجھنے لگتا ہے۔ ساتھ نہ ہو تو زندگی آزاد دوزخ ہے۔
 
بہت سے دکھ ہماری قسمت میں لکھے ہوتے ہیں، وہ ہمیں ملنے ہوتے ہیں۔ بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ چاہے ہمیں جتنی بھی ناگوار لگیں مگر ہمیں انہیں قبول کرنا پڑتا ہے۔ انسان ہر وقت خود پر ترس کھاتا رہے، اپنی زندگی میں آنے والے دکھوں کے بارے میں سوچتا رہے تو وہ دکھ اس پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر اس کی زندگی میں خوشیاں آتی بھی ہیں تو وہ انہیں دیکھ نہیں پاتا۔

(فرحت اشتیاق کے ناول ’’میرے ہمدم میرے دوست‘‘ سے اقتباس)

2.jpg
 
چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں، انسان بھی نہیں رکھتے، اہم ہوتے ہیں رشتے۔ جب ہم سے چیزیں چھین لی جائیں تو دل ڈوب ڈوب کے ابھرتا ہے۔ مگر جب رشتے کھو جائیں تو دل ایسا ڈوبتا ہے کہ ابھر نہیں سکتا، سانس تک رک جاتی ہے، پھر زندگی میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

(نمرہ احمد کے ناول ’’پارس‘‘ سے اقتباس)
3.jpg
 
فراڈ اور مکار
جو مرد کسی عورت سے یہ کہتا ہے کہ وہ اس کے لئے اپنے آپ کو بدل دے گا، اس سے بڑھ کر فراڈ اور مکار کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ جو شخص اپنے مذہب کے لئے اپنی پارسائی برقرار نہیں رکھ سکتا، جو شخص اپنے خاندان کی عزت اور نام کے لئے اپنی آوارگی پر قابو نہیں پاسکتا، جو اپنے ماں باپ کے پڑھائے ہوئے تمام سبق بھول کر پستی کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے، جو خود اپنی نظروں میں اپنا احترام اور عزت باقی رکھنے کی پرواہ کئے بغیر عیاشی کرتا ہے، وہ کسی عورت کے لئے خود کو کیا بدلے گا۔
(عمیرہ احمد)
 
Back
Top Bottom