What's new

Urdu & Hindi Poetry

90230923_1788575447960235_6068957925060116480_n.jpg
 
تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا

وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا

نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا

تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرہء نا تمام کس کا تھا

گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا

ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
 
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر
............................................

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

فیض احمد فیض

.........................................................
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

فیض احمد فیض

.............................................................

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

راحتؔ اندوری

........................................................

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

فراق گورکھپوری
.................................................................
 
March 22, 1982, Death anniversary of Ehsan Danish

شاعر مزدور احسان دانش

اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو ،عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو اور معیارِ ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ،ہر جگہ اس لافانی ادیب کے افکار کا پر تو دکھائی دیتا ہے۔تفہیم ادب کا کوئی بھی عکس ہو اس کے خدو خال دل و نگاہ کو مسخر کر لیتے ہیں۔ احسان دانش ؒ ایک دبستانِ علم و ادب کا نام ہے وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں-

احسان دانش کو اردو ادب میں ایک انتہائی معتبر بزرگ انشا پردازی اور شاعر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی انشا پردازی کے بڑے دل کش نمونے ملتے ہیں وہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر کے استعمال میں بھی الفاظ کے انتخاب میں بے مثال قرینہ رکھتے تھے۔ان کی نثر میں بھی شعریت محسوس ہوتی ہے۔ وہ ایک مزدور شاعرکے طور پر جانے جاتے ہیں ۔وہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے لگے تھے۔’’جہان دانش‘‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے جو محض ایک سوانح ہی نہیں بل کہ اس پورے عہد کی دل چسپ اور حقیقت سے لبریز ہے جو ہمیں ایک تاریخی کتاب سے بڑھ کر ناول لگی ہے ۔احسان دانش کی آپ بیتی ’’جہان دانش‘‘ ۱۹۷۳ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔احسان دانش جب اپنے سمت ماضی کا دریچہ کھولتے ہیں تو ان کے سامنے حادثات کے سینکڑوں آئینے وا ہوتے نظر آتے ہیںْ ’’جہان دانش‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں-

’’ ہر چند کہ آپ بیتی لکھنا آسان کام نہیں ،اس کے لیے تندرست تصور ،جیالہ حافظہ اور تازہ دم قوتِ تخلیق درکار ہے ۔جو ہر شخص کا حصہ نہیں ،آپ بیتی لکھنے والا انسان ،ناول نویس یا افسانہ نگار کی طرح ادب تخلیق نہیں کرتا بل کہ ان کے جادۂ فکر سے ہٹ کر گزری ہوئی صداقتوں کو عصر حاضر میں اس طرح رفو کرتا ہے کہ سیون دکھائی نہیں دیتی۔‘‘

دانش میں خوف مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز
میں جانتا ہوں موت ہے سنت حضورؐ کی


Photo Courtesy : Rashid Ashraf


 
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق

تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے

بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا

اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا

اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً

اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

جان کر سوتا تجھے وہ قصد پا بوسی مرا

اور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے

تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو از راہ لحاظ

حال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے

جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا

سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف

وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق

وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

آج تک نظروں میں ہے وہ صحبت راز و نیاز

اپنا جانا یاد ہے تیرا بلانا یاد ہے

میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی

ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے

دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے

جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ

مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے

شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا

اور مرا وہ چھیڑنا وہ گدگدانا یاد ہے

باوجود ادعائے اتقا حسرتؔ مجھے

آج تک عہد ہوس کا وہ فسانا یاد ہے



حسرتؔ موہانی
 
اے دوست نہ پوچھ مجھ سے کیا ہے

بے تابیٔ عشق کا فسانہ

انسان کی زندگی ہے فانی

اور دل کی تڑپ ہے جاودانہ

مآخذ:
  • Kulliyat-e- Sufi Tabassum

نہ جانے کٹ گیا کس بے خودی کے عالم میں

وہ ایک لمحہ گزرتے جسے زمانہ لگے

وہ ذوق و شوق محبت کی واردات نہ پوچھ

جو آج خود بھی سنوں میں تو اک فسانہ لگے
 
Sufi Tabassum

84409592_2750645301682572_8790807734237790208_n.jpg


Sufi Tabassum was not only a professor par excellence at Government College Lahore (now GCU), but an academic institution in himself. Like his other contemporaries like Professor Arnold & Patras Bokhari at GC Lahore, he raised a generation of students who redefined the world of Urdu and Punjabi Literature.

Sufi Tabassum is also one rare author who has admirers at every age group. Pakistani children still grow up fondly memorizing his Tot Batot, Cheen Choo Chacha, and Paanch Choohay. At the same time, Sufi Tabassum was a poet with youthful heart, as his ghazals inject reader with vigor and delight, rather than sorrowful tone very common in Urdu ghazals poets. (RIP)




صوفی تبسم

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی

دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی

اک لحظہ بہے آنسو اک لحظہ ہنسی آئی

سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی

اس موسم گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے

ساتھ ابر بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی

ہر درد محبت سے الجھا ہے غم ہستی

کیا کیا ہمیں یاد آیا جب بھی تری آئی

چرکے وہ دیے دل کو محرومیٔ قسمت نے

اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

یہ بزم محبت ہے اس بزم محبت میں

دیوانے بھی شیدائی فرزانے بھی شیدائی
 
Death anniversary of Masroor Anwar 1st April 1996

Masroor Anwar was born on 6 April 1996 in the cemetery of Allama Iqbal town, the famous poet of Pakistan. Masroor Anwar was the real name of Anwar Ali and he was the real name of Anwar Ali. He was born in shimla, after the establishment of Pakistan. He took a job in the pti after the matric, but then the hobby of poetry brought him to radio Pakistan where he was the staff artist service. Started giving up on radio Pakistan with the connivance of actor Ibrahim Exquisite, the film writer and Director Iqbal Shahzad, who offered him to write the songs of film bnjạrn. After the success of this film, Masroor Anwar made the film mischief and infamous. The song was written by Waheed Murad, pervaiz malik and Sohail Vijayan, with whom they had the opportunity to write the songs of diamond and stone, armaan, Ehsan and doraha, and they moved to lahore where they had done Nisar Bazmi.

In Music, he created an everlasting song for the movies. His films are one of the millions in the millions of the world, nag mini, identity, ṣạʿqہ,'s, fire, Anjuman, candle and covenant, ạny̰lạ, priceless and rays. Also wrote the stories and dialogue of several films and also directed a few films. His such a movie is counted in the masterpiece of Pakistan. One more identity of Masroor anwar is the national songs of him. Sohni ullah Keep your feet on your feet, I will sacrifice my life, the soil of the country, may be the witness of my beloved country and we all the waves, Pakistan are included in such memorable national songs. Masroor Anwar Got 7 NIGAR AWARDS. The Government of Pakistan gave him the presidential medal of performance after his death.

انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

تحریر و تحقیق:
عقیل عباس جعفری



91503496_2869310406482727_6497603649840087040_n.png
 
Another rare photo of Allama Dr. Muhammad Iqbal " The Spiritual Father of Pakistan"
Courtesy : Munib Iqbal

ڈُھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
‎آپ ہی گویا مسافر ، آپ ہی منزل ہوں میں


 
Death anniversary of Farooq Rokhri (right)

Sardar Umer Farooq known as Farooq Rokhri and "Baba-e-Thall", born in Rokhri, Mianwali on May 29, 1929. He was a poet and songwriter also served in Pakistan railway. He won several awards for his poetry Khawaja Farid award, Almansoor award, Sanwal Award etc.

His poetry sung by many renowned singer like Attaullah Khan Esakhelvi, Ghulam Ali, Masood Malik and many more.

He died on April 6, 2008 at Rokhri, Mianwali.

کٹ تو گیا ھے ، کیسے کٹا یہ نہ پوچھیے ؟؟
یارو !! سفر حیات کا آسان تو نہ تھا

دِل کے معاملات سے ، انجان تو نہ تھا
اِسی گھر کا فرد تھا ، کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کے دَم سے رونقیں ، شہروں میں جا بسے
ورنہ ھمارا گاؤں ، یوں ویران تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اُسے ، نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا مجھے ، نادان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ھے ، کیسے کٹا یہ نہ پوچھیے ؟؟
یارو !! سفر حیات کا آسان تو نہ تھا
رسماً ھی آ کے پُوچھتا ، فاروق حالِ دل
کچھ اِس میں اُس کی ذات کا ، نقصان تو نہ تھا۔


 

Latest posts

Back
Top Bottom