What's new

Stupid & Funny from Around the World :Continued

IMG-20200330-WA0014.jpg
 
IMG-20200330-WA0190.jpg
IMG-20200330-WA0260.jpg
IMG-20200330-WA0200.jpg
IMG_20200330_213913.jpg




۔



چکر نا آئیں تو پوسٹ واپس.

‏عون چوہدری کی بیوی فلمسٹار نور جوکہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی مریدنی تھی، عمران نیازی جو کہ عون چوہدری کے دوست ہیں، عون چوہدری کی بیوی فلمسٹار نور نے ہی عمران نیازی کو بشریٰ بی بی سے متعارف کروایا۔ اور پھر عمران نیازی نے بشریٰ بی بی کی خاور مانیکا سے طلاق کروا کر شادی کر لی۔ اسی دوران عون چوہدری کو بشریٰ بی بی کی بیٹی کی سہیلی پسند آ گئی، عون چوہدری نے فلمسٹار نور کو طلاق دے کر بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی بیٹی کی کلاس فیلو اور سہیلی کے ساتھ شادی کر لی۔ جس فلمسٹار نور کو عون چوہدری نے طلاق دی اس نور کے ساتھ زلفی بخاری نے شادی کر لی۔ پھر بشریٰ بی بی عرف پنکی کی فرمائش پر عون چوہدری نے بشری بی بی کی بیٹی کی کلاس فیلو کو طلاق دے دی جس کی شادی بشریٰ بی بی کے سابق خاوند خاور مانیکا نے شادی کر لی جو تاحال قائم ہے۔ عون چوہدری ایک بار پھر چھڑا ہو گیا مگر اس دوران زلفی بخاری کا دل بشریٰ بی بی کی بیٹی پر آگیا اور اس نے فلمسٹار نور کو طلاق دیکر پنکی پیرنی کی بیٹی سے شادی کر لی یوں زلفی بخاری بیک وقت خاور مانیکا اور خاتون اول کا داماد بن گیا اور عمران نیازی کا دوست زلفی بخاری عمران نیازی کا سوتیلا داماد بن گیا۔ زلفی بخاری نے جس فلمسٹار نور کو طلاق دی اس کے ساتھ پھر عون چوہدری نے شادی کر لی۔
تاحال تبدیلی یہاں تک ہی پہنچی ہے۔


منقول.



۔




دوستو دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی، اس جنگ کے دوران دنیا کی تین بڑی طاقتوں کے درمیان سہ فریقی مذاکرات شروع ہوے، موجودہ روس میں ہونے والے اس مزاکرات میں سوویت یونین کے اسٹالن ، برطانوی وزیر اعظم چرچل ، اور امریکی صدر روزویلٹ شریک تھے، مزاکرات کے دوران امریکی صدر روزویلٹ نے کاغذ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر کچھ لکھا اور چرچل کے حوالے کردیا،

چرچل نے پڑھنے کے بعد اس کاغذ کے ٹکرے کو سیگریٹ کے زریعہ جلا کرایش ٹرے میں پھنک دیا اور جواب میں ایک اور کاغذ کے ٹکرے پر کچھ تحریر کر کے روزویلٹ کے حوالے کردیا ، روز ویلٹ نے وہ جواب پڑھا اور کاغذ کے ٹکرے کو ایش ٹرے میں ویسے ھی پھنک دیا، کیوں کے روز ویلٹ سموکنگ نہیں کرتا تھا اس لیےوہ اس ٹکرے کو جلا نا سکا،
جیسے ہی یہ سب مذاکرات کی میز سے اٹھے سوویت انٹلیجنس سروس کے کارندوں نے جا کر اس کاغذ کو تحویل میں لے لیا جو جل نا پایا تھا، جب سویت ایجنسیوں نے چرچل کے لکھے کاغذ کو پڑھا تو اس پر کوڈ ورڈ میں یہ جملہ لکھا ہوا تھا،
"ڈرنے کی ضرورت نہیں کسی بھی صورت میں پرانا عقاب گھونسلے سے نہیں اڑ سکتا"


سوویت انٹلیجنس سروس نے ان الفاظ کا تجزیہ شروع کر دیا اور آخر کار نتیجہ نکالا گیا کے یہ ہمارے کسی بوڑھے شخص کو قتل کرنے کے بارے میں بات ھو رہی تھی، اور وہ بوڑھا کوئی اور نہیں ہمارا صدر اسٹالن ھی ہے،

انہوں نے اس کوڈ کا مطلب سمجھنے کے لیے مذہبی کتاب بائبل، ،مغرب کے مشھور مصنف شیکسپیئر سمیت مختلف لوگوں کی کتابوں سے بھی مدد لی کے آخر اس جملے کا مطلب کیا ھو سکتا ہے،
یہ بات تو روسیوں پر وازضح ھو گئی تھی یہ سویت صدر کو قتل سے مطلق بات چیت ہے اور اس جملے میں پرانا عقاب اسٹالن ہے ، اور گھوںسلا سویت یونین ہے۔


احتیاطی تدابیر شروع کر دی گئیں، صدر کے گارڈ کو تبدیل کیا گیا، خفیہ ایجنٹ بڑھا دئے گئے، اور اس کے علاوہ تمام ضروری سامان اور گولہ بارود کے ذخائر کی حفاظت کا بھی دوبارہ نیے سرے سے بندوبست کیا گیا،

مزاکرات ختم ھو گے تمام رہنما خاموشی سے اپنے ممالک کی طرف روانہ ہوگئے لیکن کچھ نا ہوا،

ان مزاکرات کے کے کئی سال بعد ایک سوویت یونین سے تعلق رکھنے والا مترجم جو مزاکرات میں شریک تھا اور اس سارے قصے کو جانتا تھا اتفاق سے چرچل کو کسی تقریب میں ملا اور باتوں باتوں میں چرچل سے اس کے لکھے مبہم اور خطرناک جملے کا مطلب پوچھ بیٹھا جس پر قہقہ لگاتے ہوے چرچل نے جواب دیا بھائی اس دن جب مزاکرات ھو رہے تھے روزویلٹ نے مجھے ایک پرچی دی جس پر لکھا تھا کے مسٹر چرچل ، آپ کی پتلون کی زپ کھلی ہے مہربانی کر کے بند کر لیں" میں نے وہ پرچی پڑھی اور پھر ایش ٹرے میں جلا دی اور دوسری پرچی پر میں نے جواب لکھا کے بھائی ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ پرانا عقاب ہے اپنے گھونسلے سے اڑ نہیں سکے گا!"

نتیجہ:
دوستو اپنے آپ کو سیاسی اور مذہبی تجزیوں میں بہت زیادہ غرق نہ کیا کریں اور ان سازشوں کے تانے بانے نا بنا کریں کیوں کے جو نظر آتا ہے اکثر ویسا بلکل بھی نہیں ہوتا جیسا اپ فرض کے کے بیٹھ جاتے ہیں ،
یاد رکھیں خاموشی ایک نعمت ہے ، اور کسی پر بلاوجہ صرف تصویر کا ایک رخ دیکھ کر یا میڈیا پروپگنڈہ کے زیر اثر ھو کر الزام لگانا انتہائی قابل مذمت عمل ہے،


.




"وبا کے دنوں میں اپڈیٹ ہوئے سافٹ وئیر"

پاکستان میں کرونا وائرس بعد میں پھیلا، انتشار پہلے ہی پھیل گیا تھا۔ انتشار کی وجہ معرفت کے وہ درجے ہیں جو ہم جیسے ملامتی صوفیوں پر تقسیم ہند سے بھی پہلے کے مہربان ہیں۔ ہم سامنے کی دیوار کا نوشتہ پڑھ سکیں نہ پڑھ سکیں، ستاروں سے آگے کی دنیا پلک جھپکتے میں تاڑ کے آجاتے ہیں۔

دنیا برسوں کا کشٹ اٹھاکر موبائل فون ایجاد کرتی ہے، ہم بیٹھے بٹھائے اُس کی بیٹری میں جاسوسی آلات کی موجودگی کا انکشاف کر دیتے ہیں۔ لوگ علمی مشقتوں کے بعد معذوریوں پر قابو پانے کے لیے پولیو ویکسین تخلیق کرتے ہیں، ہم بغیر کسی تکلف کے اس میں مردانہ کمزوری کے جرثومے دریافت کرلیتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ معذوری بھی ہمارے خلاف گھناؤنی سازش ہوتی ہے اور معذوری کا علاج بھی ہمارے ہی خلاف عالم گیر سازش ہوتی ہے۔

کرونا وائرس نے جس دن جنم لیا اس دن ہم پر یہ کشف ہوا کہ یہ عذابِ الہیٰ ہے۔ وائرس کے نتیجے میں خانہ خدا میں بجا طور پر طواف روکنے کا فیصلہ ہوا تو ہمیں الہام ہوا کہ یہ اسلام کے خلاف سازش ہے۔ وائرس جب براستہ تفتان پاکستان میں داخل ہوا تو اشارے ملے کہ اس سازش میں ایران بھی شامل ہے۔ جب ماہرین نے بتایا کہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے لوگوں کو فاصلہ رکھنا ہوگا تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ مسلمانوں کے بے مثال اتحاد اور اتفاق کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ جب بتایا گیا کہ اس صورتِ حال میں عوامی اجتماعات جان لیوا ہوسکتے ہیں تو حتمی نتیجہ نکال کے ہم نے سامنے رکھ دیا کہ دیکھا، بلی آگئی نا تھیلے سے باہر۔

یہ سارا میلہ ہماری جائے نماز چوری کرنے کے لیے ہی تو سجایا گیا تھا۔ چنانچہ ہم نے طے کرلیا کہ جس نے جو تدبیر اختیار کرنی ہے کرتا پھرے، بس مسجد کی طرف کوئی بے وضو آنکھ سے نہ دیکھے، کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جو شخص باوضو ہو، حاجی اور نمازی ہو وائرس اسے کچھ نہیں کہتا۔ میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا۔

اس پوری صورتِ حال میں ریاست نے بڑے بڑے دماغوں کا سافٹ ویئر بدلنے کا بروقت فیصلہ کیا۔ جس کسی نے بھی احتیاطی تدابیر کو چیلنج کرکے 'توکل' اختیار کرنے کی تلقین کی، تھانے والے انہیں چلہ کشی کے لیے کوہِ قاف لے گئے۔

اقتدار کی غلام گردشوں میں ترانہ نامی ایک کردار کا نام ملتا ہے جو جنرل نیازی کی محرمِ راز تھیں۔ وہی، جو ایوانِ صدر میں داخل ہو رہی تھیں تو ترانہ تھیں، واپس نکلیں تو قومی ترانہ تھیں۔ پولیس کے ہاتھ لگنے والے یہ برگزیدہ لوگ بھی جب تھانے لے جائے گئے تو خدائی فوجدار تھے، واپس لائے گئے تو خدائی خدمت گار تھے۔ کل تک ٹخنے سے ٹخنہ ملانے پر مصر تھے اب 12 پتھر دور رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔ گہے خندم گہے گریم، گہے افتم گہے خیزم۔

کرونا وائرس جیسی خصوصیات رکھنے والی ہستیاں
ریاست کے ساتھ ساتھ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے کا ایک منصوبہ قدرت نے بھی تشکیل دیا۔ ایک صاحب عمرہ کرکے مردان پہنچے، دعا سلام، حال احوال اور مبارکیاں ابھی چل رہی تھیں کہ چل بسے۔ حق مغفرت کرے۔ ڈاکٹروں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ مرحوم اپنے ساتھ کرونا بھی لے کر آئے تھے۔ پھر جتنے لوگ ان سے ملنے کے لیے آتے گئے ہیں وہ کرونا کا تبرک ساتھ لیتے گئے ہیں۔ اِس بات کو جھٹلایا جاسکتا تھا، مگر مرحوم کے حلقے کے 46 میں سے 39 افراد میں اب تک کرونا کی تشخیص ہوچکی ہے۔

صرف پانچ دن بعد اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو کی ایک مسجد میں تبلیغی جماعت کے دس سے زائد افراد پائے گئے۔ بظاہر وہ اسلام پھیلا رہے تھے، مگر ان کو لیبارٹری سے گزارا گیا تو علم ہوا کہ انہوں نے محلے میں اسلام کم کرونا زیادہ پھیلا دیا ہے۔ پرسوں رات وبا سے بچاؤ کے لیے ملک بھر میں رات گئے اذانیں ہوئیں۔ کسی زمانے میں ایسی اذانوں کا اہتمام ذوالفقار علی بھٹو کو نیست ونابود کرنے کے لیے ہوا تھا۔ پشاور میں پرسوں رات ایک صاحب نے بلا ٹالنے کے لیے اپنے گھر کی چھت پر اذان دی، صبح وہ خود بھی کرونا کا شکار ملے۔ رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے۔

قدرت نے اس پورے الٹ پھیر میں لوگوں کو تین واضح اشارے دیے۔ پہلا، کرونا ہم پاکستانیوں کی طرح تفریق اور امتیاز پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ بلاتمیز رنگ ونسل اور بلاتفریق مذہب ومسلک کسی پر بھی مہربان ہوجاتا ہے۔ دوسرا، کرونا اگر سعودیہ کے مقدس مقامات اور ایران کی زیارات میں داخل ہوسکتا ہے تو ہماری تمہاری مسجدوں میں تو جوتوں سمیت داخل ہوسکتا ہے۔ تیسرا، بندہ بشر بے وضو ہو تو اس کی جان لیتا ہے، وضو میں ہو تو بھی جان ہی لیتا ہے۔ آمین زور سے کہو یا آہستہ کہو اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے مگر تم غور نہیں کرتے۔

دنیا میں جہاں کہیں عقل مندوں کو کوئی نشانی نظر آئی وہ زیادہ بحث میں نہیں پڑے۔ دنیا جہاں سے کنارہ کیا اور پردے گرا کر چپ چاپ گھر میں بیٹھ گئے۔ پورے عرب دنیا کی اذانوں تک میں التجائیہ کلمات کا اضافہ ہوگیا کہ خدارا گھر پر نماز پڑھ لیجیے۔ کعبے کے متولیوں نے بھی چار چراغ بجھا کر حرم کے آٹھوں دروازے بند کر دیے۔

یہاں کا معاملہ دیکھیے کہ شہر کے وہ سارے فقیہ جن پر گمان کیا جاتا ہے کہ وہ حالات کا درک رکھتے ہیں، سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ جس وقت مصر کی جامعۃ الازہر سے باجماعت نماز کو ترک کرنے کا فتویٰ جاری ہوا، عین اسی وقت ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ نماز تو نماز ہم جمعے کی نماز بھی بدستور جاری رکھیں گے۔

فرمایا، جن کو نزلہ، زکام، کھانسی، بخار ہو وہ مسجد نہ آئیں۔ بات یہ ہے کہ صوبائی وزیر سعید غنی جیسے لوگوں کو نزلہ، زکام، کھانسی، بخار کچھ بھی نہیں ہے، مگر کرونا ہے۔ تو ایسے لوگ مسجد آجائیں کیا؟

پھر فرمایا، جمعے کی نماز میں طویل خطبہ نہیں دیں گے، بس پانچ منٹ میں دوچار باتیں کرکے مختصر سی نماز پڑھائیں گے اور 20 منٹ میں دری سمیٹ لیں گے۔ تو کیا مشاورت کے دوران کرونا نے لکھ کر دے دیا ہے کہ 20 منٹ تک میں جہاں ہوں گا وہیں سانس روکے کھڑا رہوں گا؟

مزید فرمایا، فرض نماز مسجد میں پڑھیں، سنتیں اور نوافل گھر جاکر ادا کریں۔ اب کرونا نے یہ یقین دہانی کس کو کرادی ہے کہ وہ فرض نماز پڑھنے والوں کا تو احترام کرے گا اور سنتیں ادا کرنے والے نمازیوں کے آگے سے گزرے گا؟ مجھے تو طالب علمی کے دور میں اپنے ہاسٹل کا سرائیکی چوکیدار یاد آگیا جو فون مانگتے ہوئے کہتا تھا، بس یہیں قریب میں ہی ایک بندے کو کال کرنی ہے۔ اس کے خیال میں فون کال کا معاملہ بھی مسافر بس جیسا تھا۔ ناظم آباد تک 20 روپے بنیں گے اور مظفر گڑھ تک 1200 لگیں گے۔

کینیڈا میں ایک سے زائد شادی پر پابندی عائد ہوئی تو پوری مسلم دنیا مطمئن تھی۔ واحد پاکستانی مسلمان تھے جنہیں فکر لاحق ہوگئی کہ ایک اسلامی فریضے پر پابندی کیوں لگی؟ بہت مشکل سے انہیں سمجھانا پڑا کہ بابا شادی پر پابندی نہیں لگی، ایک سے زائد شادی پر پابندی لگی ہے۔

اسی طرح اب جب باجماعت نماز کا مسئلہ پیدا ہوا ہے تو ہم ایک بار پھر رہنمائی کے قدیم دبستان کھول کے بیٹھ گئے ہیں۔ لگتا ہے مصر و حجاز کے علما کو خدا نے اس دبستان سے بالکل محروم رکھا ہوا ہے۔ اب کون ہے جو انہیں یہ سمجھا سکے کہ مرشد طبی ماہرین نماز ترک کرنے کا نہیں کہہ رہے، باجماعت نماز ترک کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ مسئلہ تو باجماعت نماز سے بھی نہیں ہے، مسئلہ سارا لوگوں کے اکٹھ سے ہے۔ پورے فسانے میں جس کا ذکر تک نہیں ہے، بھلا وہی بات کیوں ناگوار گزر گئی ہے؟

اپنے کہے میں مسلسل الجھے رہنے کے بعد ہم اسی بات پر آنے لگے ہیں جو پتے کی بات تھی۔ وقت مگر اس بات پر گواہ بن گیا ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں عقل کا احترام کیا تھا اور نہ ہی قدرت کے اشارے سمجھے تھے۔ انسانی جان بھی کسی مرحلے پر پیش نظر نہیں تھی۔ صرف طاقت کا اصرار تھا جس نے بالآخر ہمیں اپنی انا کے سارے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا تھا۔ ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق !

فرنودعالم
انڈی پنڈنٹ اردو، اسلام آباد



.


 
Back
Top Bottom