What's new

Skardu Gilgit Baltistan protests 2023

Imran Khan

PDF VETERAN
Joined
Oct 18, 2007
Messages
68,815
Reaction score
5
Country
Pakistan
Location
Pakistan
why no media coverage for our brotehrs and sisters of GB - skardu ? our stupid media is busy in watch /tape / models stupid issue but people of paksitan protesting in -20 temperature no one take notice .





FlpX8wtakAEMKRn
 
Last edited:
. . . . .
dude....

the wheat is subsidized and provided from local and imported stocks. the issue is that $ rate is rising and it is becoming increasingly difficult to provide subsidized wheat. food shortage and inflation are nationwide issues. and they also dont want to pay any taxes (the revenue authority bill protest), that can be used to subsidize said stuff, or to carry out development.

electricity supply should be ensured though. but then, even industrial cities arent getting gas or electricity. so its a nationwide issue.
 
.
Just let those stupid people to go home and start offering Fajr ki Namaz, this is how Army personnel become so successful and none of their Haram khori is caught.
 
.
dude....

the wheat is subsidized and provided from local and imported stocks. the issue is that $ rate is rising and it is becoming increasingly difficult to provide subsidized wheat. food shortage and inflation are nationwide issues. and they also dont want to pay any taxes (the revenue authority bill protest), that can be used to subsidize said stuff, or to carry out development.

electricity supply should be ensured though. but then, even industrial cities arent getting gas or electricity. so its a nationwide issue.
they want to pay taxes but first give them rights of full province . how can gov impose federal / provincial taxes on a administrative territory ?
 
.
they want to pay taxes but first give them rights of full province . how can gov impose federal / provincial taxes on a administrative territory ?
it has its own assembly. they can decide which taxes to impose. besides this, all the rest are nationwide issues. and not local or specific to GB. sindh, south punjab and balochistan have faced the worst floods of at least my lifetime, crops have been wiped out, homes destroyed, millions affected. i think all of this will affect the govt's capability to provide subsidies a little bit.

they want to pay taxes but first give them rights of full province . how can gov impose federal / provincial taxes on a administrative territory ?
its just the MWM (with only 1 seat) trying to capitalize the situation and drum up some political support till next elections.
 
Last edited:
.
There are also protests in Gwqdar with complete media blackout.
 
.
it has its own assembly. they can decide which taxes to impose.


its just the MWM (with only 1 seat) trying to capitalize the situation and drum up some political support till next elections.
نہ وہ مکمل آزاد اسمبلی ہے نا ہی گلگت بلتستان ابھی تک مکمل صوبہ ہے ۔عبوری صوبے کی عبوری اسمبلی کو کوئی حق نہیں ٹیکس لینے کا ۔

پہلے صوبہ پھر ٹیکس بالکل سیدھی بات ہے سر ۔


گلگت بلتستان مستقل صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟​

20/02/2022 اسرارالدین اسرار rights, India, Politics, kashmir, constitution, pakistan, karachi










665 Views


israr-uddin-israr-300x200.jpg

جی ہاں یہ سوال بجا ہے کہ عبوری کیوں گلگت بلتستان پاکستان مستقل صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟ سوچنے والوں نے یقناً اس پر تفصیلی غور و خوض کے بعد ہی صوبہ کے ساتھ عبوری کا لاحقہ لگا دیا ہو گا تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں گلگت بلتستان کے مقامی لوگ گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی یہاں کے باسیوں کے ساتھ ہاتھ ہونے کی صورت لوگوں میں پائی جانے والی محرومیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔
2009 میں تمام پاکستانیوں کو بتایا گیا تھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بن چکا ہے۔ عام آدمی نظام حکومت کی موشگافیوں سے واقف نہیں اس لئے درجنوں پاکستانی دوست اب ہم سے روز استفسار کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو تو بہت پہلے صوبہ بنایا گیا تھا اب دوبارہ یہ عبوری صوبے کی کیا کہانی چل رہی ہے؟ ایسے دوستوں کو سمجھانے کے لئے ہمیں پھر کہانی شروع سے دہرانی پڑتی ہے۔

یعنی یکم نومبر 1947 سے قبل گلگت بلتستان مہاراجہ کشمیر کے زیر حکمرانی ریاست کشمیر کا ایک صوبہ تھا۔ جس کا آخری گورنر گھنسارا سنگھ تھا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد گلگت شہر سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر دور بونجی کے مقام پر تعینات ریاست کشمیر کی ریگولر آرمی یعنی کشمیر انفنٹری اور گلگت شہر میں تعینات انگریز کمانڈنٹ میجر براون کی قیادت میں مقامی پیرا ملٹی فورس یعنی گلگت سکاوٹس نے مہاراجہ کشمیری کی حکومت کے خلاف یکم نومبر 1947 میں علم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجے میں گلگت میں تعینات آخری کشمیری ڈوگرا گورنر گھنسارا سنگھ کو جب گرفتار کر کے قیدی بنا دیا گیا تو مقامی انقلابی کونسل نے گلگت کے مقامی راجہ کی سربراہی میں اپنی ایک عبوری حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن صرف 16 دنوں کے اندر اندر پاکستان کی حکومت نے سردار عالم نامی اپنا نمائندہ یہاں بھیجا جس نے بحیثیت پولیٹیکل ایجنٹ چارج سنبھالتے ہی مقامی حکومت کو معزول کر دیا، مقامی حکومت کے سربراہ کو سول سپلائی افسر کی نوکری پر لگا دیا اور گلگت بلتستان کو صوبہ سرحد کی ایک ایجینسی کے طور پر انتظام چلانے لگا۔
1949 میں معاہدہ کراچی (جو کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان ہوا تھا) کے بعد گلگت بلتستان کو صوبہ سرحد سے الگ کر کے نئی وجود میں آنے والی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے سپرد کیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک گلگت بلتستان وفاق کے زیر انتظام ایک انتظامی یونٹ کے طور پر چلایا جاتا رہا ہے۔ ان ستتر سالوں کے دوران جی بی میں کئی انتظامی اصلاحات متعارف کرائے گئے جن میں انیس سو ستر کی دہائی میں گلگت بلتستان سے ایف سی آر کے نظام کا خاتمہ اور مشاورتی کونسل کا قیام، اسی کی دہائی میں مقامی حکومتوں کا قیام، نوے کی دہائی میں قانون ساز کونسل کا قیام اور پہلی دفعہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات اور سن دو ہزار کے بعد جی بی اسمبلی اور کونسل کا قیام شامل ہیں۔

مذکورہ تمام ادوار میں یہاں کا سیاسی و انتظامی نظم و نسق چلانے کے لئے وفاق کی طرف سے عارضی انتظامی آرڈرز جاری کیے جاتے رہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران مقامی لوگوں نے آئینی حقوق اور گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے اور آئینی حقوق کے مطالبات کے ساتھ سیاسی تحریکیں چلائیں لیکن نہ تو صوبہ بنایا جا سکا اور نہ ہی آئینی حقوق کا قضیہ حل ہوسکا، تاہم یہاں کا نظم نسق چلانے کے لئے وفاق کی طرف سے مختلف ادوار میں ایل ایف اوز اور گورننس آرڈرز کا اجراء کیا جاتا رہے۔
جس کی بنیادی وجہ اس علاقہ کا مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کے ساتھ متنازعہ حیثیت تھی۔ موجودہ وقت میں گلگت بلتستان میں انتظامی و سیاسی طور پر کم و بیش ایک صوبے کا ڈھانچہ تو موجود ہے مگر یہ سب آئین پاکستان میں درج نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک غیر آئینی صوبہ ہونے کے ساتھ محض ایک انتظامی یونٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ستر سالوں میں گلگت بلتستان میں انتظامی طور پر کچھ تبدیلیاں رونما ضرور ہوئی ہیں لیکن اس علاقہ کی سیاسی حیثیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔
اس لئے گلگت بلتستان پارلیمنٹ آف پاکستان اور دیگر آئینی اداروں میں نمائندگی نہیں رکھتا اور نہ تو یہ پاکستان کے عدالتی نظام کے دائرہ میں شامل ہے۔ گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی حیثیت واضح طور پر یہ ہے کہ یہ علاقہ تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے اور اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی قراردادوں کی روشنی میں عارضی طور پر پاکستان کا ایک عبوری وفاقی انتظامی یونٹ ہے۔

اب آج کل اس انتظامی یونٹ کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کی بات چل رہی ہے۔ عبوری کا لفظ اس کی سیاسی و متنازعہ حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ گویا اصل کہانی ہی عبوری کے لفظ میں چھپی ہوئی ہے۔
ماضی کی انتظامی و سیاسی اصلاحات کی طرح آنے والا پیکیج بھی عارضی ہی ہو گا مگر ماضی کی نسبت اس دفعہ اس پیکج میں نیاء یہ ہے کہ اس علاقہ کو آئین پاکستان میں چند تبدیلیوں کی مدد سے قومی اسمبلی، سینٹ اور دیگر قومی پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی دینے کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ اختیار اس علاقہ تک بڑھایا جائے گا۔ جس پر ان دنوں زور و شور سے مشاورت جاری ہے۔ اگر آئین پاکستان میں تجویز کردہ ترامیم قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہوجاتی ہیں تو یہ علاقہ وفاقی انتظامی یونٹ کی بجائے آئندہ عبوری آئینی صوبہ کے نام سے لکھا اور پکارا جائے گا۔

لیکن لفظ عبوری کی وجہ سے اس کی خصوصی متنازعہ حیثیت بحال رہے گی۔ پارلیمنٹ آف پاکستان سے آئین پاکستان میں چند ترامیم کے بعد اس کو عبوری صوبہ بنائے جانے کے باوجود اس کی خصوصی حیثیت میں فرق نہیں آئے گا۔ خصوصی حیثیت میں تب تبدیلی آئے گی جب پاکستان اور بھارت ادھر ہم ادھر تم کے تحت اپنے اپنے زیر انتظام کشمیر کو مستقل اپنا حصہ بنائیں گے اور تنازعہ کشمیر حل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے دونوں ممالک مستقل سرحدات کا تعین کریں گے۔ جو کہ فی الحال ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اس لئے گلگت بلتستان میں جو بھی اصلاحات متعارف ہوں گی وہ عبوری و عارضی طور پر ہوں گی مستقل نہیں ہوں گی ۔
 
. .
they want to pay taxes but first give them rights of full province . how can gov impose federal / provincial taxes on a administrative territory ?

The other proper provinces are not doing much better either. Ever since plans for construction of a dam were announced, these protests have increased.

Curiously you did not label the protest as Mullah trying to grab attention and power.
 
.
نہ وہ مکمل آزاد اسمبلی ہے نا ہی گلگت بلتستان ابھی تک مکمل صوبہ ہے ۔عبوری صوبے کی عبوری اسمبلی کو کوئی حق نہیں ٹیکس لینے کا ۔

پہلے صوبہ پھر ٹیکس بالکل سیدھی بات ہے سر ۔



گلگت بلتستان مستقل صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟​

20/02/2022 اسرارالدین اسرار rights, India, Politics, kashmir, constitution, pakistan, karachi










665 Views


israr-uddin-israr-300x200.jpg

جی ہاں یہ سوال بجا ہے کہ عبوری کیوں گلگت بلتستان پاکستان مستقل صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟ سوچنے والوں نے یقناً اس پر تفصیلی غور و خوض کے بعد ہی صوبہ کے ساتھ عبوری کا لاحقہ لگا دیا ہو گا تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں گلگت بلتستان کے مقامی لوگ گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی یہاں کے باسیوں کے ساتھ ہاتھ ہونے کی صورت لوگوں میں پائی جانے والی محرومیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔
2009 میں تمام پاکستانیوں کو بتایا گیا تھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بن چکا ہے۔ عام آدمی نظام حکومت کی موشگافیوں سے واقف نہیں اس لئے درجنوں پاکستانی دوست اب ہم سے روز استفسار کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو تو بہت پہلے صوبہ بنایا گیا تھا اب دوبارہ یہ عبوری صوبے کی کیا کہانی چل رہی ہے؟ ایسے دوستوں کو سمجھانے کے لئے ہمیں پھر کہانی شروع سے دہرانی پڑتی ہے۔

یعنی یکم نومبر 1947 سے قبل گلگت بلتستان مہاراجہ کشمیر کے زیر حکمرانی ریاست کشمیر کا ایک صوبہ تھا۔ جس کا آخری گورنر گھنسارا سنگھ تھا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد گلگت شہر سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر دور بونجی کے مقام پر تعینات ریاست کشمیر کی ریگولر آرمی یعنی کشمیر انفنٹری اور گلگت شہر میں تعینات انگریز کمانڈنٹ میجر براون کی قیادت میں مقامی پیرا ملٹی فورس یعنی گلگت سکاوٹس نے مہاراجہ کشمیری کی حکومت کے خلاف یکم نومبر 1947 میں علم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجے میں گلگت میں تعینات آخری کشمیری ڈوگرا گورنر گھنسارا سنگھ کو جب گرفتار کر کے قیدی بنا دیا گیا تو مقامی انقلابی کونسل نے گلگت کے مقامی راجہ کی سربراہی میں اپنی ایک عبوری حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن صرف 16 دنوں کے اندر اندر پاکستان کی حکومت نے سردار عالم نامی اپنا نمائندہ یہاں بھیجا جس نے بحیثیت پولیٹیکل ایجنٹ چارج سنبھالتے ہی مقامی حکومت کو معزول کر دیا، مقامی حکومت کے سربراہ کو سول سپلائی افسر کی نوکری پر لگا دیا اور گلگت بلتستان کو صوبہ سرحد کی ایک ایجینسی کے طور پر انتظام چلانے لگا۔
1949 میں معاہدہ کراچی (جو کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان ہوا تھا) کے بعد گلگت بلتستان کو صوبہ سرحد سے الگ کر کے نئی وجود میں آنے والی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے سپرد کیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک گلگت بلتستان وفاق کے زیر انتظام ایک انتظامی یونٹ کے طور پر چلایا جاتا رہا ہے۔ ان ستتر سالوں کے دوران جی بی میں کئی انتظامی اصلاحات متعارف کرائے گئے جن میں انیس سو ستر کی دہائی میں گلگت بلتستان سے ایف سی آر کے نظام کا خاتمہ اور مشاورتی کونسل کا قیام، اسی کی دہائی میں مقامی حکومتوں کا قیام، نوے کی دہائی میں قانون ساز کونسل کا قیام اور پہلی دفعہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات اور سن دو ہزار کے بعد جی بی اسمبلی اور کونسل کا قیام شامل ہیں۔

مذکورہ تمام ادوار میں یہاں کا سیاسی و انتظامی نظم و نسق چلانے کے لئے وفاق کی طرف سے عارضی انتظامی آرڈرز جاری کیے جاتے رہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران مقامی لوگوں نے آئینی حقوق اور گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے اور آئینی حقوق کے مطالبات کے ساتھ سیاسی تحریکیں چلائیں لیکن نہ تو صوبہ بنایا جا سکا اور نہ ہی آئینی حقوق کا قضیہ حل ہوسکا، تاہم یہاں کا نظم نسق چلانے کے لئے وفاق کی طرف سے مختلف ادوار میں ایل ایف اوز اور گورننس آرڈرز کا اجراء کیا جاتا رہے۔
جس کی بنیادی وجہ اس علاقہ کا مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کے ساتھ متنازعہ حیثیت تھی۔ موجودہ وقت میں گلگت بلتستان میں انتظامی و سیاسی طور پر کم و بیش ایک صوبے کا ڈھانچہ تو موجود ہے مگر یہ سب آئین پاکستان میں درج نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک غیر آئینی صوبہ ہونے کے ساتھ محض ایک انتظامی یونٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ستر سالوں میں گلگت بلتستان میں انتظامی طور پر کچھ تبدیلیاں رونما ضرور ہوئی ہیں لیکن اس علاقہ کی سیاسی حیثیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔
اس لئے گلگت بلتستان پارلیمنٹ آف پاکستان اور دیگر آئینی اداروں میں نمائندگی نہیں رکھتا اور نہ تو یہ پاکستان کے عدالتی نظام کے دائرہ میں شامل ہے۔ گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی حیثیت واضح طور پر یہ ہے کہ یہ علاقہ تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے اور اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی قراردادوں کی روشنی میں عارضی طور پر پاکستان کا ایک عبوری وفاقی انتظامی یونٹ ہے۔

اب آج کل اس انتظامی یونٹ کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کی بات چل رہی ہے۔ عبوری کا لفظ اس کی سیاسی و متنازعہ حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ گویا اصل کہانی ہی عبوری کے لفظ میں چھپی ہوئی ہے۔
ماضی کی انتظامی و سیاسی اصلاحات کی طرح آنے والا پیکیج بھی عارضی ہی ہو گا مگر ماضی کی نسبت اس دفعہ اس پیکج میں نیاء یہ ہے کہ اس علاقہ کو آئین پاکستان میں چند تبدیلیوں کی مدد سے قومی اسمبلی، سینٹ اور دیگر قومی پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی دینے کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ اختیار اس علاقہ تک بڑھایا جائے گا۔ جس پر ان دنوں زور و شور سے مشاورت جاری ہے۔ اگر آئین پاکستان میں تجویز کردہ ترامیم قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہوجاتی ہیں تو یہ علاقہ وفاقی انتظامی یونٹ کی بجائے آئندہ عبوری آئینی صوبہ کے نام سے لکھا اور پکارا جائے گا۔

لیکن لفظ عبوری کی وجہ سے اس کی خصوصی متنازعہ حیثیت بحال رہے گی۔ پارلیمنٹ آف پاکستان سے آئین پاکستان میں چند ترامیم کے بعد اس کو عبوری صوبہ بنائے جانے کے باوجود اس کی خصوصی حیثیت میں فرق نہیں آئے گا۔ خصوصی حیثیت میں تب تبدیلی آئے گی جب پاکستان اور بھارت ادھر ہم ادھر تم کے تحت اپنے اپنے زیر انتظام کشمیر کو مستقل اپنا حصہ بنائیں گے اور تنازعہ کشمیر حل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے دونوں ممالک مستقل سرحدات کا تعین کریں گے۔ جو کہ فی الحال ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اس لئے گلگت بلتستان میں جو بھی اصلاحات متعارف ہوں گی وہ عبوری و عارضی طور پر ہوں گی مستقل نہیں ہوں گی ۔
the thing is: no money= no subsidy and no development
 
.
What will they do when power is entirely cut off over unavailability of crude/coal?
 
.
Back
Top Bottom