پاکستان کے 17 مقامات جنھیں زندگی میں ایک بار ضرور دیکھیں
فیصل ظفر
اگر آپ اس برس کہیں گھومنے پھرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو بیرون ملک جانے سے پہلے اپنے ملک میں سفر کریں اور نئی چیزوں کا تجربہ کرکے دیکھیں۔
اس سلسلے میں آپ کی مدد کے لیے ہم نے ایک فہرست مرتب کی ہے جہاں آپ جان سکیں گے کہ آپ کو پاکستان کے کن مقامات میں گھومنے سے ایک ناقابل فراموش تجربے کو زندگی کا حصہ بنا سکتے ہیں۔
اس فہرست کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں کے گرد گھومتی ہے۔
سیف الملوک جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
ضلع مانسہرہ کی سب سے مشہور اور خوبصورت جھیل سیف الملوک ہے، جس کا نام یہاں مشہور ایک افسانوی داستان، قصہ سیف الملوک کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ قصہ ایک فارسی شہزادے اور ایک پری کی محبت کی داستان ہے۔ جھیل سیف الملوک وادیٔ کاغان کے شمالی حصے میں واقع ہے، یہ سطح سمندر سے تقریبا 3244 میٹر بلندی پر واقع ہے۔
ملکہ پربت، اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے ہیں خاص طور پر جب ناران سے جھیل سیف الملوک تک چودہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے اس پر پہلی نظر پڑتی ہے تو ایک جادو سا ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے جنت زمین پر اتار دی ہے۔
اور اگر آپ موسم سرما میں جاکر اس جھیل کو دیکھیں گے تو آپ کو بالکل انوکھا تجربہ ہوگا کیونکہ گرمیوں کے مقابلے میں اس موسم میں وہاں لوگ نہ ہونے برابر ہوتے ہیں جبکہ ایک منفرد طرز کی خوبصورتی دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
لولوسر جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
لولوسر جھیل مانسہرہ سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور واقع ہے، ناران چلاس روڈ پر 3353 میٹر بلندی پر واقع لولوسر جھیل ناران کے قصبے سے ایک گھنٹے کی مسافت پر وادیٔ کاغان اور کوہستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس جھیل پر ہر سال روس سے آنے والے پرندے اور سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔
لولوسر دراصل اونچی پہاڑیوں اور جھیل کے مجموعے کا نام ہے، ناران آنے والے سیاح لولوسر جھیل دیکھنے ضرور آتے ہیں اور غضب ناک دریائے کنہار میں پانی کا بڑا ذریعہ لولوسر جھیل ہی ہے۔ جھیل کا پانی شیشے کی طرح صاف ہے اور لولوسر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں کا عکس جب جھیل کے صاف پانی میں نظر آتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے۔
دودی پت سر جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
دودی پت سر جھیل وادیٔ کاغان کے انتہائی شمال میں 4175 میٹر بلند پر واقع ہے اور یہاں ناران کے علاقے جل کھاڈ (Jalkhad) سے چار گھنٹے کا سفر کر کے پہنچا جاسکتا ہے، مقامی زبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں۔ لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیلا ہے، درحقیقت اس سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں کا پانی میں جھلکنے والا عکس اسے دور سے ایسا دکھاتا ہے جیسے دودھ کی نہر اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے اس کا نام بھی رکھا گیا۔
یہ علاقہ اپنے جادوئی منظر سیاحوں کو اپنے خیمے یہاں لگا کر قدرتی خوبصورتی اور تنہائی سے لطف اندوز ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، جھیل دودی پتسر بند شکل میں خوبصورت برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی انتہائی مشکل اور دشوارگذار کام ہے۔ اس جھیل تک رسائی کے لیے کم از کم سات سے بارہ گھنٹے تک انتہائی مشکل اور دشوار گذار گھاٹیوں میں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہے، جھیل کے اطراف میں چرا گاہیں اور ہرا پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
پائے جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
پائے جھیل وادیٔ کاغان میں شوگران کے قریب پائے کے سر سبز میدانوں میں واقع ہے۔ اس کی بلندی تقریباً 9500 فٹ ہے۔ اس کے اردگرد مکڑا کی چوٹی، ملکۂ پربت، موسیٰ دا مصلیٰ اور کشمیر کے پہاڑ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ جگہ پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
شندور جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
پولو گراؤنڈ کے ساتھ شندور جھیل تخلیق فطرت کا عظیم شاہکار لگتی ہے۔ اس کی لمبائی تین میل اور چوڑائی ایک میل ہے۔ اس جھیل میں نایاب پرندے بستے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھیل کے پانی کا ظاہری اخراج نہیں ہوتا یعنی پانی جھیل میں ٹھہرا دکھائی دیتا ہے مگر ماہرین کے مطابق پانی زیر زمین راستہ بنا کر سولاسپور اور لنگر میں جانکلتا ہے۔
کچورا جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
کچورا جھیل صاف پانی کی جھیل ہے جس کی گہرائی تقریباً 70 میٹر ہے، دریائے سندھ اس کے قریب ہی قدرے گہرائی میں بہتا ہے، گرمیوں میں دن کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بہت نیچے گر جاتا ہے ۔
سدپارہ جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دو تین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے۔
سدپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سات دروازے اس کی وجہ یہ ایک دیومالائی کہانی ہے، جو یہ ہے کہ جس جگہ یہ جھیل ہے وہاں صدیوں پہلے ایک گاؤں ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن اس گاؤں میں کوئی بزرگ فقیر کے بھیس میں لوگوں کو آزمانے کے لیے آئے۔ انہوں نے بستی والوں سے کھانے پینے کی چیزیں مانگی، سوائے ایک بڑھیا کے کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ اس بزرگ نے بستی والوں سے ناراض ہو کر انہیں بد دعا دی لیکن ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کی کہ نیک بڑھیا جس نے ان کی مدد کی تھی، اسے کچھ نقصان نہ پہنچے۔ دعا قبول ہوئی اور راتوں رات گاؤں الٹ گیا اور اس کی جگہ پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانی ایک بڑی جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ البتہ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جس جگہ نیک دل بڑھیا کا گھر تھا وہاں پانی اس سے دور رہا، یوں یہ جزیرہ آج بھی سلامت ہے۔
شیوسر جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
شیوسر جھیل گلگت بلتستان کے دیوسائی قومی پارک میں واقع ہے، یہ جھیل سطح مرتفع تبت کے سر سبز میدان میں 4142 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 203 کلو میٹر، چوڑائی 1.8 کلو میٹر اور اوسطاً گہرائی 40 میٹر ہے۔ یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے، گہرے نیلے پانی، برف پوش پہاڑیوں، سرسبز گھاس اور رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ یہ منفرد جھیل خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ شیوسر جھیل کے گرد چکر لگانے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں جس سے اس کے طول و عرض کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پھنڈر جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
غذر کے سر کا موتیوں جڑا تاج سمجھے جانے والی وادی پھنڈر میں واقع یہ جھیل خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، یہ جھیل 44 میٹر گہرائی ہے جس میں ارگرد کے نظاروں کا عکس بالکل واضح نظر آتا ہے۔
عطا آباد جھیل
فوٹو بشکریہ سید مہدی بخاری
عطا آباد جھیل میٹھے پانی کے سب سے بڑے ذخیروں میں سے ہے۔ 22 کلومیٹر طویل، اور 220 فٹ گہری اس جھیل کا پانی قراقرم کی برفوں اور گلیشئیرز سے پگھل کر جنم لینے والے دریائے ہنزہ کے رک جانے کی وجہ سے ایک تنگ سے پہاڑی درے میں آ کر ٹھہر گیا ہے۔ جھیل کے سبز رنگے پانی، تنگ درے میں بہتی تیز ہواؤں کے اشارے پر پانی کی سطح پر نہایت دلکش انداز میں لہریں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔
اس جھیل کے وقوع پذیر ہونے سے قراقرم ہائی وے کا 18 کلومیٹر سے زائد حصہ پانی کی نذر ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ذرائع آمد و رفت ساکت ہو گئے ہیں۔ اب واحد طریقہ کشتی کے ذریعے اس جھیل کو پار کر کے حسینی گاؤں تک پہنچا جاسکتا ہے۔