وادی بروغل و کرومبر جھیل: آنکھ محوِ حُسنِ تماشا ہے ابھی
واپس مڑتے جھیل پر آخری نگاہ ڈالی۔ وہی حسرت بھری نگاہ جس سے انسان اس نگینے کو دیکھتا ہے جس کو وہ ہمیشہ کیلئے نہ پاسکتا ہو
سید مہدی بخاریشائع دن پہلے
’جانان! پہاڑوں پر ڈھلتی دھوپ ہوں، جھیل پر بہتی ہوا ہوں، میں گڈریے کی صدا ہوں، بہت دور جا چکا ہوں۔ اب آواز مجھے نہ دو۔‘ (ایک واخی گیت کا ترجمہ)
نیلی جھیل پر پہلے پہر کی ٹھنڈی دھوپ اُتر آئی تھی۔ میں ہلکے بخار و تھکن میں مبتلا جھیل کنارے اُگی گھاس و جنگلی پھولوں کے بیچ آنکھیں موندے بے سُدھ پڑا دھوپ کی تمازت کو اپنے جسم میں جذب کرتا رہا۔ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ پہاڑوں پر بُلندی پر واقع جھیلوں پر ٹھٹھرتی صبحوں اور کپکپاتی شاموں کے موسم کا آغاز ہوچکا تھا۔
ستمبر تبدیلی کا مہینہ۔ خزاں کی آمد کا پیام دیتی تیز ہواؤں کی رُت۔ میرا پورٹر سیف اللہ قریب آ کر بولا، ’صاحب، چائے دوسری بار بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ چائے پیو گے تو طبیعت فریش ہوجائے گا۔ تم کو سردی لگ گیا ہے۔ میں پھر سے گرم کرکے لاتا ہوں صاحب،‘ اوندھے پڑے میں نے اسے ’ہوں‘ میں جواب دیا۔
کرومبر جھیل کا دیدار ہوا—سید مہدی بخاری
جھیل کنارے دھوپ کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو روشنی کی کرنیں نیلے پانیوں پر رقص کرتے آنکھوں کو چُندھیانے لگیں۔ میں اُٹھ بیٹھا۔ سامنے حدِ نگاہ تک نیلگوں پانی ہی پانی تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بولا ’صاحب چائے۔‘
کرومبر جھیل کنارے اور فطرت کا حُسن — سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل اور تاروں بھری رات—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل کا فضائی نظارہ—سید مہدی بخاری
گاڑی لواڑی ٹنل میں داخل ہوئی تو رات سفر میں بیت چکی تھی۔ اُفق پر روشنی پھوٹ رہی تھی۔ لواڑی ٹنل خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کو ضلع چترال سے ملاتی ہے۔ یہ پاکستان کی 10 کلومیٹر طویل سب سے لمبی سرنگ ہے۔ چترال کے باسی پاکستان کے دیگر علاقوں کا رخ کرنے کے لیے لواڑی پاس کا ہی استعمال کرتے تھے۔
کرومبر وادی کا درشن—سید مہدی بخاری
یہ تنگ درہ موسمِ سرما کے 5 ماہ برف کی وجہ سے آمد و رفت کے لیے معطل رہتا جس بنا پر مقامی آبادی شدید مشکلات کا شکار رہتی۔ چترال کا زمینی رابطہ ملک سے منقطع ہوجایا کرتا اور کھانے پینے کی اشیا کی رسد براستہ افغانستان ہوا کرتی۔ بھٹو صاحب نے 70ء کی دہائی میں لواڑی ٹنل منصوبے کا اعلان کیا مگر 3 دہائیوں تک اس منصوبے پر کام کا آغاز نہ ہو پایا، پھر پرویز مشرف صاحب نے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
گاڑی لواڑی ٹنل میں بھاگتی رہی۔ سرنگ سے باہر نکلنے تک صبح پھیل رہی تھی۔ دروش کے آتے آتے دھوپ پہاڑوں پر اُتر آئی تھی۔ وادی آدھی سائے میں تھی اور آدھی دھوپ میں۔ دروش بازار میں بریک لگی تو ایک پختون بچہ ہاتھ میں کیتلی و کپ اٹھائے میری گاڑی کے شیشے کے قریب آکر نیلی آنکھیں پھیلاتے، کیتلی چھنکاتے ہوئے بولا، ’صاحب چائے‘۔
کرومبر جھیل کا بلندی سے نظارہ—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل اور ملکی وے کہکشاں—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل کنارے—سید مہدی بخاری
میں نیلی جھیل کنارے بت بنا بیٹھا رہا۔ سیف اللہ کے ہاتھ کی گرم چائے میرے دکھتے گلے کو راحت پہنچا رہی تھی۔ جھیل کا پانی قدرے ساکت ہونے لگا۔ وادی میں بہتی ہوا رُک چکی تھی۔ جھیل کو گھیرے ہوئے برف پوش پہاڑوں کا عکس پانیوں پر جھلکنے لگا تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بیٹھا اور بولا ’صاحب! ابھی آپ کا طبیعت اچھا لگ رہا ہے، فوٹوگرافی نہیں کرو گے کیا؟‘ میں نے اسے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’تم چاہتے ہو کہ گوتم کی روح اینسل ایڈمز سے ملاقات کرے (یعنی مناظر پر دھیان لگانا چھوڑ کر کیمرے میں مشغول ہوجاؤں)؟‘ پورٹر کو جواب سمجھ نہ پڑا تو وہ بس مسکرا دیا۔ خیر میں نے کیمرا تھاما اور جب جھیل کنارے اترنے لگا تو سیف اللہ کی آواز آئی ’صاحب آپ کی واپسی تک گرم چائے تیار رکھوں گا۔‘
دروش گزرا۔ دریائے چترال کی ہم سفری میں مسافر چلتا رہا۔ چترال کے آتے آتے ترچ میر کی چوٹی پر ٹھہری برف دھوپ سے چمک رہی تھی۔ اسی برف کا پانی بہتا ہوا دریائے چترال میں شامل ہوکر میرے قریب سے بہہ رہا تھا۔ ہاتھ گاڑی کے اسٹئیرنگ پر اور آنکھ ترچ میر کی چوٹی پر ٹکی رہی۔ شہر میں داخل ہوا تو شہر بیدار ہوچکا تھا۔
کرومبر جھیل کا نظارہ—سید مہدی بخاری
لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر اُمڈ آیا تھا۔ ہر طرف اپنے دفاتر و دکانوں کو جاتے لوگ، اسکول جاتے بچے اور کالج جاتے نوجوان نظر آئے۔ گاڑی چترال کی شاہی مسجد کی جانب مُڑگئی۔ وہی ایک سجدہ جو ہزار سجدوں سے آدمی کو نجات دیتا ہے۔ شاہی مسجد سابقہ مہتر چترال شجاع الملک نے تعمیر کروائی۔ اس کا طرزِ تعمیر سنہری مسجد پشاور سے ملتا ہے۔ سفید ٹھنڈے سنگِ مرمر پر گرم پیشانی مَس ہوئی تو روح تک تاثیر آنے لگی۔
چترال کی شاہی مسجد—سید مہدی بخاری
شاہی مسجد اور قرب و جوار—سید مہدی بخاری
...
By....
سید مہدی بخاری