حامد میر کا مورچے میں بیٹھے فوجی سے انتہائی احکمانا سوال ......
مورچے میں بیٹھے فوجی کا ......... انتہائی دلخراش جواب ...................
حامد میر نے مورچے میں ...بیٹھے فوجی سے کہا: تم کتنا کما لیتے ہو؟ اس نے حیرت سےمجھے دیکھا اور بولا : صاحب کیا میں یہاں ہتھیار تھامے کمائی کرنے بیٹھاھوں؟
سنو ! میرا دادا سپاہی تھا اور دشمن سے لڑتا ھوا مارا گیا۔ میرا باپ
بھی سپاہی تھا اور ایک دن اس کی بھی لاش گھر آ گئی ۔ اب میں نے یہ مورچہ
سنبھال لیا ھے ۔ ایک دن کوئی گولی اس مورچے کو میرے خون سے سرخ کرے گی اور پھر میرا بیٹا یہاں آ کر میری جگہ سنبھال لے گا ۔ صاحب! ھم وطن کے لیے سر کٹانے آتے ھیں دھندہ کرنے نہیں ۔ دھندا کرنے والے تو ووٹ کی بھیک مانگا کرتے ھیں ۔ ۔ ان سے پہلے یہ کام ان کے باپ دادا کرتے تھے اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی یہی کرے گی۔ ۔ ۔ ھم نے کام بانٹ رکھا ھے ۔ وہ تخت پر بیٹھتے ہیں اور ھم مورچے میں ۔ یہ نسلوں کے سودے ھیں ۔ ۔سپاہی دم لینے کو رکا اور پھر کچھ سوچ کر تلخی سے مسکراتے ھوئے کہنے لگا: صاحب نیچے ھو کر بیٹھو کہیں میرے نام کی کوئی گولی تمہیں اپنا شکار نہ سمجھ لے ۔ ابھی تو تم نے جا کر یہ بھی سوچنا ھے کہ شہید کون ھوتا ھے۔ ۔ ۔
سوچنے کا ٹھیکہ جو لے رکھا ھے تم لوگوں نے۔ ۔ ھماری تین نسلیں مورچوں میں ماری گئی ھیں اور تم مہنگی گاڑیوں والے آج تک یہی نہیں سوچ سکے کہ شہید کون ھوتا ھے....)ayaz shah)