What's new

Pakistan Tourism: Information Desk

Pakistan is the sixth-largest producer of dates in the world, with Sindh being the leading date-producing province. Sindh contributes around 59% of the country's total date production, amounting to approximately 360,000 tons annually. This production takes place across an area of about 289,855 hectares.
Khairpur and Sukkur are the primary districts within Sindh known for their significant date production. These districts benefit from the most suitable climate and soil conditions, producing nearly 80% to 85% of the province's dates. In addition to Khairpur and Sukkur, several other areas contribute to the remaining 15% of Sindh's date production, And for this reason, Khairpur is also known as "The City of Dates"

1731424539650.jpeg
 
.
شنگریلا جھیل پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک دلکش اور مشہور جھیل ہے، جو سکردو شہر سے محض بیس منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ اس جھیل کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگانے کے لیے اس کے کنارے ایک نہایت خوبصورت ہوٹل اور سیاحتی ریزورٹ تعمیر کیا گیا ہے، جو سیاحوں کے لیے ایک بہترین قیام گاہ ہے۔ شنگریلا ریزورٹ 1983 میں قائم کیا گیا تھا اور یہ سکردو بلتستان کا پہلا سیاحتی ریزورٹ تھا۔
شنگریلا جھیل کا صاف شفاف پانی، دلکش مناظر، اور خوشگوار موسم سیاحوں کے لیے ایک منفرد تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ اس جھیل کے ارد گرد پھیلے برفیلے پہاڑ، سرسبز وادیاں، اور قدرت کے حسین مناظر جنت کا سا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں کا سکون اور فطری حسن ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اور جھیل کے کنارے بنے ریزورٹ میں قیام کرنا ایک یادگار تجربہ ہوتا ہے۔
سیاحوں کے لیے یہاں بوٹنگ کی سہولت بھی موجود ہے، جہاں خواتین اور بچے جھیل کے پانی میں سیر کا مزہ لیتے ہیں۔ شنگریلا جھیل پر موجود جہاز کے ماڈل کو دیکھ کر سیاح اس کے ساتھ تصاویر بناتے ہیں، جو اس جگہ کی ایک خاص پہچان بن چکی ہے۔
شنگریلا ریزورٹ کی بنیاد مرحوم بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمد اسلم خان نے رکھی تھی، جو شمالی سکاؤٹس کے پہلے کمانڈر تھے اور 1948 میں شمالی علاقہ جات کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس ریزورٹ کا نام جیمز ہلٹن کی کتاب "لوسٹ ہورائزن" سے متاثر ہو کر رکھا گیا، جس میں شنگریلا کو "زمین پر جنت" کہا گیا تھا۔ کتاب میں ایک فرضی کہانی بیان کی گئی تھی، جس میں ایک ہوائی جہاز دریا کے کنارے گر کر تباہ ہو جاتا ہے، اور بچ جانے والے مسافر ایک خوبصورت جگہ پہنچ جاتے ہیں جسے شنگریلا کہا جاتا ہے۔
شنگریلا جھیل اور ریزورٹ نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے، بلکہ یہ سیاحت کو فروغ دینے اور ملک کے لیے بھاری زرِ مبادلہ کمانے کا بھی ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔

1731426863681.jpeg
1731426870703.jpeg
1731426815589.jpeg
1731426833094.jpeg
 
.
The first snowfall of the winter season has beautifully blanketed the upper regions of Swat.
Transforming areas such as Ashu, Matiltan, Kalam, and Gabral into breathtaking winter wonderlands.
Meanwhile, the plains of Swat are experiencing continuous rainfall, adding to the region's charm during this picturesque season.
#Swat
1731502922073.jpeg
 
.
Nanga Parbat, standing at 8,126 meters, is the second highest mountain in Pakistan after K2 and the ninth highest in the world. It is also the third most dangerous mountain in the world. Located in the Diamer District of Gilgit-Baltistan in the western Himalayas,
The name "Nanga Parbat" means "Naked Mountain." Known as the "Killer Mountain" due to its extreme danger, it has claimed over 100 climbers' lives. Despite its danger, the surrounding valley is incredibly beautiful, attracting thousands of visitors each year who come to enjoy its stunning landscapes.

1731582714691.jpeg
 
.
کاک سر :
کاک سر دراصل کمراٹ سے چترال سر لاسپور جاتے ہوئے تھالو پاس کے راستے میں آنے والے ایک ہہت بڑی جھیل کا نام ہے۔ کمراٹ کے بلند و بالا برفپوش پہاڑوں میں واقع اس جھیل کے بارے میں بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اتنی بڑی جھیل ہے کہ چترال جاتے ہوئے آدھ دن جھیل کے کنارے سفر کرنا پڑتا ہے۔ تھالو پاس کوہستان دیر کے علاقے کمراٹ کو چترال کے علاقے سر لاسپور سے ملانے والے صدیوں قدیم پہاڑی راستے کا نام ہے۔ بزرگوں کے مطابق ماضی میں جب بھی دونوں طرف آباد داردی اقوام پر کوئی مشکل وقت آیا ہے تو اس پاس کے ذریعے مقامی لوگوں نے ایک دوسرے کے ہاں پناہ لی ہیں۔ مقامی سفید ریشوں کے مطابق 1804 میں دیر خاص کھونے کے بعد دیر کوہستان میں آباد داردی قبائل کا آس پاس موجود دوسرے داردی اقوام کے ساتھ انہیں پہاڑی راستوں کے ذریعے رابطہ ہوتا تھا۔ باڈگوئی پاس، بٹلو پاس اور دارال چومر پاس وغیرہ سوات جانے کے لئے استعمال ہوتے تھے جبکہ تھالو پاس، کاشکین پاس اور گوو پاس چترال جانے کے لئے مستعمل تھے۔ تھالو پاس، کاشکین پاس کمراٹ ویلی میں واقع ہے جبکہ گوو پاس ڈوگدرہ کے علاقوں کو چترال سے ملاتا ہے۔
تھالو پاس سے چترال جانے کے لیے سب سے پہلے کمراٹ آنا ہوگا۔ کمراٹ ویلی کے علاقے دو جنگا تک فور بائی فور گاڑی آرام سے آ سکتی ہے۔ دو جنگا سے آگے آخری چراگاہ شازور بانال تک چار سے پانچ گھنٹوں کا پیدل ٹریک ہے۔ شازور بانال تک راستے میں کئی خوبصورت اور دلنشیں علاقے جیسے ایز گلو بانال، چھاروٹ بانال اور گھورشئی بانال وغیرہ آتے ہیں۔ یہ کمراٹ کا گمنام لیکن قدرتی حسن سے مالامال علاقہ ہے۔ شازور بانال سے آگے ڈھائی دو گھنٹوں کے بعد شازور جھیل آتا ہے۔ جھیل سے تقریبا دو گھنٹوں کے سخت چھڑائی کے بعد تھالو پاس آتا ہے۔ یہاں سے آگے چترال جاتے ہوئے راستے میں تین بڑے جھیلیں اور ایک بڑا گلیشئر آتا ہے ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے پہلی جھیل کا نام تھالو سر، دوسری کا نام کول سر اور تیسری کا نام زیگی چھٹ ہے جبکہ گلیشئر کا نام تھالو گلیشئر ہے۔ ان تین جھیلوں اور گلیشئر کو کراس کرنے کے بعد کاک سر آتا ہے۔ دو کلومیٹر تک لمبی اس جھیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوکش اس حصے کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ کمراٹ کے علاقے دوجنگا سے کاک سر تک تقریبا 13 سے پندرہ گھنٹوں کا پیدل راستہ ہے۔ شازور جھیل تک عام ہموار راستہ ہے جس میں چھڑائی، اترائی بہت کم ہے البتہ شازور جھیل سے آگے کاک سر تک راستہ پتھریلا اور سخت ہے۔ کاک سے آگے پھر چترال کے علاقے شروع ہوتے ہیں۔ راستے میں چترال کی مشہور جھیل بشقار گول جھیل سے ہوتے ہوئے آپ چترال کے علاقے سر لاسپور پہنچ سکتے ہیں۔ مقامی بزرگوں کے مطابق کمراٹ دو جنگا سے سر لاسپور چترال تک تقریبا تین سے چار دن لگتے ہیں۔ راستے میں مقامی چرواہوں کےعلاوہ کوئی انسانی آبادی نہیں ہے۔ لہذا ٹریک پر نکلنے سے پہلے مقامی گائڈ، کھانے پینے کے چیزیں، رات گزارنے کے لیے کیمپ اور موسم کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
پہاڑوں کا سفر:

1731587141257.jpeg
1731587149269.jpeg
1731587156380.jpeg
1731587166041.jpeg
1731587171355.jpeg
 
.
لکشمی چوک: قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد ۔۔۔۔
تاریخی عمارات کی طرح لاہور کے بعض خاص چوک اور بازار بھی اہمیت کے حامل ہیں لیکن لکشمی چوک کی رونق کو تو سبھی سراہتے ہیں۔ یہ چوک ریلوے سٹیشن سے آنے والی میکلوڈ روڈ، شملہ پہاڑی سے آنے والی ایبٹ روڈ اور نسبت روڈ کے درمیان میں واقع ہے۔ لکشمی چوک کا نام لکشمی بلڈنگ کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ یہ بلڈنگ 1935ء کو ہندوستان کی ایک مشہور کمپنی، لکشمی انشورنس کمپنی نے خریدی۔ اس کمپنی نے لاہور میں ایک اور عمارت مال روڈ پر لکشمی کے نام سے تعمیر کی۔ اس طرح کی ایک عمارت لکشمی بلڈنگ کے نام سے کراچی میں بھی موجود ہے۔
لکشمی چوک (جسے 2016 ء میں مولانا ظفر علی خان چوک کا نام دے دیا گیا) اردگرد کی آبادیوں گوالمنڈی، قلعہ گوجر سنگھ، فلیمنگ روڈ اور بیڈن روڈ سے 5 فٹ نشیب میں ہے لہٰذا ان آبادیوں کا تمام گندا پانی اس طرف ہی آتا تھا۔ چنانچہ 1935ء میں ہی ایک انگریز انجینئر مسٹر ہاول نے لکشمی چوک سے شام نگر (چوبرجی) میں واقع گندے انجن (پمپنگ سٹیشن) تک زیر زمین سیوریج بچھایا تا کہ اس سے ملحقہ علاقوں تک کا پانی کھیتوں میں دینے کے علاوہ سپردِ راوی کیا جاسکے۔ ان دنوں شام نگر کے پیچھے کھیت ہوتے تھے جو دریائے راوی تک تھے۔ اسی علاقہ میں مغلیہ دور میں اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء نے ایک بہت بڑا باغ بنوایا تھا جس کا دروازہ چوبرجی تھا۔
قیامِ پاکستان سے قبل اس چوک میں لکشمی بلڈنگ کے علاوہ چوک کے اردگرد مزید عمارات بھی تھیں جن میں گیتابھون، برسٹل ہوٹل، ویسٹ انڈین ہوٹل, مانسرور ہوٹل اور کچھ فلمی دفاتر شامل تھے جبکہ سینماؤں میں کیپٹل، نشاط، اوڈین، پیلس، رٹز، پربھارت (صنوبر یا ایمپائر) اور جسونت (قیصر ، مون لائٹ) شامل تھے۔ مسلمانوں کا ایک ہوٹل کنگ سرکل ہوتا تھا جہاں فلمی اداکار یا تکنیک کار بیٹھتے تھے اور وہ تانگوں یا گاڑی کے ذریعے سٹوڈیوز جاتے تھے۔ 1940ء سے قبل یہ ایک بے رونق چوک تھا جبکہ رائل پارک ایک کھلا میدان تھا جہاں ٹیلے اور اکھاڑے تھے۔
1935ء میں جب ہندوستان میں جارج پنجم کی سلور جوبلی منائی گئی تو اس میدان میں ایک بڑی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ یہاں رائل سرکس نے بھی ڈیرہ لگایا تو اس میدان کو رائل پارک کہا جانے لگا۔ رائل پارک میں بعدازاں کچھ لوگوں نے عمارات بھی تعمیر کرلیں۔ صرف 6، 7 عمارتیں مسلمانوں کی تھیں۔
رائل پارک میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف مائیکل آرٹسٹ کی دکان تھی۔ اس کے ساتھ بی آر چوپڑا جرنلسٹ (جو بھارت کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار بنے) کا اوکے پریس تھا۔ رائل پارک میں عمارتوں کی تعمیر 1940ء اور 1945ء کے درمیان مکمل ہوچکی تھی۔ اس وقت رائل پارک میں صرف دو فلمساز ادارے، ایک میاں رفیع اختر اور دوسرا اے کے جان کا بلال پروڈکشن تھا۔
آزاد بھی ایک آرٹسٹ تھے جو فلمی پوسٹر بنایا کرتے تھے۔ انہوں نے میو سکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) سے فارغ ہو کر سب سے پہلا پوسٹر فلم ''پہلے آپ‘‘ کا تیار کیا تھا۔ وہ اپنے کیریئر کی تلاش میں بمبئی تک بھی گئے اور شہرت حاصل کی لیکن ان کی شخصیت کو چار چاند قیام پاکستان کے بعد لگے۔ یہاں انہوں نے ہر دوسری فلم کا پوسٹر ڈیزائن کیا۔ ان کے علاوہ موجد، اختر، منظور اور ایس خان بھی پوسٹر کی تیاری میں خاصی محنت کرتے تھے۔
ان دنوں لکشمی چوک میں سرِ شام رونق بحال ہو جاتی تھی۔ اس چوک کے ریستورانوں میں گپ شپ لگانے کے لئے فنکار جمع ہو جاتے تھے۔ جن میں پران، رضا میر، سریش، اوم پرکاش، سلیم رضا، ایم اسماعیل، امرناتھ، ایم اجمل، ڈاکٹر نارنگ، مجنوں، آئی ایس جوہر، عزیز کاشمیری، قتیل شفائی، ظہیر کاشمیری، ڈی این مدھوک، جے کے نند، ایم جے رانا، اشرف خان، احسان بی اے، قمر اجنالوی اور بابا جی اے چشتی قابل ذکر ہیں۔ یہ لوگ حیدر اور اشرف پان فروشوں کے مستقل گاہک تھے۔ ولی صاحب کی پران سے یہیں ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے اپنی فلم یملا جٹ میں انہیں بطور ولن کاسٹ کیا تھا۔
1947ء میں لکشمی چوک کی رونق عارضی طور پر اجڑی لیکن جب یہاں دوبارہ فلمی کاروبار شروع ہوا تو رونق پھر بحال ہوگئی ۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں کے کنگ سرکل ہوٹل میں سبھی فلمی شخصیات بیٹھتی رہی ہیں جن میں خصوصاً سیف الدین سیف ، قتیل شفائی ، آغا طالش ، شہزاد احمد ، ریاض شاہد، خلیل قیصر ، یزدانی جالندھری ، طفیل ہوشیار پوری ، ظہیر کاشمیری ، عزیز میرٹھی اور بہت سے دوسری شخصیات کا یہ مستقل ٹھکانہ تھا ۔ لکشمی بلڈنگ میں سہراب سائیکل کا دفتر تھا جہاں شاعر شہزاد احمد مینجر کے طور پر کام کرتے تھے اور شام کو چھٹی ہوتے ہی کنگ سرکل میں آ جاتے تھے۔ اِسی بلڈنگ میں مشہور فلمساز اداروں کے دفاتر تھے جن میں ایور ریڈی پکچرز ، شباب پکچرز اور رنگیلا پروڈکشن نمایاں رہے ۔
زاہد عکاسی کی کتاب ` میرے زمانے کا لاہور ` سے اقتباس۔
ترتیب و اضافہ: آفتاب خان ۔
1731589259860.jpeg
 
.
سات بہنیں
سات سرنگوں کی سر زمین
کالا چٹا پہاڑ اٹک
نا صرف تاریخی اور اپنی نوعیت میں واحد بلکہ اک پراسرار حسن کی مالک یہ وادی جس کا موسم بھی بڑا خوشگوار ہے
ایسا علاقہ جسے آپ فورٹ منرو بھی کہہ سکتے ہی
صوبہ پنجاب پاکستان کے آخری ضلع اٹک کی جغرافیائی حدود میں واقع کالا چٹا پہاڑی سلسلے کی سات سرنگوں کی تعمیر ایک عجوبہ سے کم نہیں یہ ریلوے انجینئروں کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت اہم وجہ یہ ہے کہ وہ Guiness Book of the World Record کا حصہ بن چکی ہیں اور سات کے عددی شمار کی وجہ سے انہیں Seven Sisters Tunnels کہا جاتا ہے
یہ جڑواں سرنگیں ریلوے اور ملک و قوم کا تاریخی ورثہ بھی ہیں
کالا چٹا پہاڑی سلسلہ جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں یہ ریلوے سرنگیں انہی پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں یہ سات سرنگیں 5 کلو میٹر کے فاصلے پر پھیلی ہوئی ہیں جس میں سرنگوں کی مجموعی لمبائی 9046 فٹ یا تقریباً 3 کلو میٹر ہے دنیا میں کہیں بھی اتنے کم فاصلے پر ریلوے کی مسلسل سات سرنگیں نہیں ہیں اور اسی وجہ سے سرنگوں کی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا یہ ٹنل بالترتیب 892 فٹ،1180 فٹ، 855 فٹ ،1776فٹ،1131فٹ،1616فٹ لمبے ہیں جبکہ ساتویں سرنگ کی لمبائی1596 فٹ ہے ان کی تعمیر کا آغاز1896ءمیں ہوا اور یہ 1898ءمیں مکمل ہوئیں
ساتویں سرنگ میں پانی کے قدرتی چشمے مسلسل رواں ہیں اور پانی کنارے کے ساتھ بہتا ہوا باہر کی جانب آتا ہے پھر ریل کی پٹڑی کے ساتھ بنی ہوئی نالی کے زریعے سرنگ سے باہر نکلتا ہے۔چوتھی سرنگ انجینئرنگ کا کمال ہے یہ واحد سرنگ ہے جو سیدھی ہونے کے بجائے گھومتی ہوئی بنائی گئی ہے 1897ء میں پہاڑ کے دونوں جانب سے کھدائی کا آغاز کیا گیا اور پھر مہارت سے دونوں سرے بیچ میں آکر ایک دوسرے سے جوڑ دیئے گئے اس بل کھاتی سرنگ میں اگر پیدل چلیں تو اگلا سرا نظر نہیں آتا
ریل کی پٹڑی کے بیچ میں کھڑے ہو کر اگر شمال کی جانب نظر دوڑائیں تو تین سرنگیں ایک سیدھ میں نظر آتی ہیں
اس علاقے میں نایاب نسل کی جنگلی تتلیوں کے سفیدی مائل پروں پر کالے دھبے شاید کالے چٹے پہاڑ کی نمائندگی کرتے ہیں ہزاروں کی تعداد یہ تتلیاں قطار اندر قطار ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ اڑتی ہوئی جب سرنگ میں سے گزرتی ہیں تو اک جادوٸی منظر پیش کرتی ہیں
پھلاہی اور جنگلی زیتون کے ان جنگلات میں جنگلی حیات بھی خوب پھل پھول رہی ہے ہرن،اڑیال، گیدڑ، بھیڑیئے،لومڑ،سور تیتر،چکور اور فاختاﺅں کی صدائیں گونجتی ہیں۔سائبریا سے آنے والے مہاجر پرندوں میں Wood Peigon ،ہریل طوطے،تلیر،مرغابی،کونجیں اور بگلوں کی قطاریں نظر آتی ہیں
پہلی اور دوسری سرنگ کے درمیان بچھی ہوئی ریل کی پٹڑی پر شکردرہ پل تعمیر کیا گیا ہے جس کے نیچے سے اطراف کے پہاڑوں سے ندی نالوں کی صورت میں بہہ کر آنے والا پانی گزرتا ہے شکردرہ نامی گاﺅں کے قریب ندی کی گزرگاہ پر بندھ باندھ کر پانی کو روک لیا گیا اس طرح ڈیم کی صورت اختیار کر چکا ہے اور حسین ترین نظارہ بن چکا ہے اس سے پہلے نندنا براج بھی دیدنی حیثیت کا حامل ہے
نندنا ندی کے پل سے نیچے گزرنے والی صاف و شفاف پانی کی ندی ’’نندنا‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے ندی پل کے نیچے سے ایک چکر کاٹ کر گزرتی ہے اور بہاؤ کی تیزی سُر بکھیرتی سنائی دیتی ہیں
ریلوے کی سات سرنگوں کی خوبصورت مالا مسافروں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے
”سرنگوں کے اس پار جھلار کا ریلوے اسٹیشن ’سن1880‘ اپنے وجود کی تاریخ کی تختی عمارت نے اپنے گلے میں لٹکاۓ کھڑا ہے
کالے چٹے پہاڑ کی یہ عجوبہ سرنگیں سات جڑواں بہنوں کی مانند ہیں جنہوں نے وادی کے ابدی حسن کو چار چاند لگا رکھے ہیں یہاں جنگلی حیات ہمیشہ اپنے جوبن پر رہی ہے پہاڑوں کے بیچوں بیچ ندی بہتی ہے
پہاڑ اور جنگل خوبصورت مناظر پیش کرتے ہیں اور یہاں کے نظارے آپ کو پریوں کے کوہ کاف کے نظارے لگیں گے
ضرورت اس امر کی ہے حکومت اپنی توجہ اس طرف کرے سیاحت کو یہاں فروغ دینے کے لیے یہاں سہولیات قاٸم کرے یہاں کی انتظامیہ اور مقامی لوگ بھی اس پراسرار جادوٸی افسانوی وادی کو دنیا سیاحت کے سامنے لاۓ اور اس علاقے کی خوبصورتی کو ساری دنیا کے سامنے لاۓ۔

1731592660897.jpeg
1731592626477.jpeg
1731592637020.jpeg
1731592642779.jpeg
1731592649496.jpeg
1731592655176.jpeg
1731592666653.jpeg
1731592672212.jpeg
 

Attachments

  • 1731592649578.png
    1731592649578.png
    698.6 KB · Views: 5
  • 1731592649465.jpeg
    1731592649465.jpeg
    73.9 KB · Views: 6
.
*اٹک خورد: اٹک پل کی تاریخ، 1947 سے پہلے*
اٹک خورد کا علاقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی پہچان *اٹک پل* ہے، جو برطانوی راج کے دور میں دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ پل 1883 میں مکمل ہوا اور اسے ہندوستانی ریلوے کے اہم راستوں میں شامل کیا گیا۔ اس کا تعمیراتی ڈھانچہ اُس زمانے کی انجینئرنگ کا ایک شاندار نمونہ تھا، جسے ریلوے اور سڑک دونوں کے لیے استعمال کیا گیا۔
*اٹک پل* کی تعمیر برطانوی انجینئرنگ کی عکاسی کرتی ہے، جو نہ صرف عسکری مقاصد کے لیے اہم تھا بلکہ برطانوی سلطنت کے اقتصادی اور نقل و حمل کے نظام کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ پل کی تعمیر میں خاص خیال رکھا گیا کہ یہ پل ایک مضبوط دفاعی لائن بھی ہو، کیونکہ یہ علاقہ برطانوی اور افغان افواج کے درمیان جنگوں کا مرکز رہا تھا۔
اٹک پل کو 1947 سے پہلے اہم عسکری اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ پل برصغیر کے شمالی اور مغربی حصوں کو آپس میں جوڑنے کا اہم ذریعہ تھا، اور پاکستان کی آزادی سے پہلے اسے برطانوی راج کے تحت افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی راستے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
پل کے اطراف میں اٹک قلعہ اور دریائے سندھ کے خوبصورت مناظر اس تاریخی مقام کو ایک منفرد حیثیت دیتے ہیں۔ آج بھی اٹک پل نہ صرف ایک تاریخی ورثہ ہے بلکہ پاکستان کی ریلوے اور سڑکوں کے لیے ایک اہم رابطے کا ذریعہ ہے۔
---
*کیا آپ نے اٹک پل دیکھا ہے یا اس کی تاریخ کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں؟*
اپنے خیالات کمنٹس میں شیئر کریں اور اس تاریخی ورثے کی خوبصورتی کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

1731657324378.jpeg
1731657330258.jpeg
1731657338805.jpeg
 
.
Back
Top Bottom