اسلام آباد میں گاڑی کی ٹکر سے 40 سالہ شخص کی ہلاکت: 69 لاکھ دیت کی ادائیگی کے بعد ملزمہ کی ضمانت منظور
مضمون کی تفصیل
- مصنف, شہزاد ملک
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
- 15 دسمبر 2022
اپ ڈیٹ کی گئی 4 گھنٹے قبل
،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA
اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا کی عدالت نے وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ڈی 12 میں کم عمر لڑکی کی ڈرائیونگ کے دوران 40 سالہ شخص کی ہلاکت کے کیس میں فریقین کے مابین راضی نامہ ہو جانے کے بعد ملزمہ کی ضمانت منظور کر لی ہے۔
یاد رہے کہ یہ واقعہ اسلام آباد کے ایک متمول علاقے میں بارہ دسمبر کو پیش آیا تھا جس میں ایک 40 سالہ شخص کی موت ہوئی۔
عدالت سے جاری ہونے والے فیصلے کے مطابق ملزمہ اور مدعی مقدمہ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ اور لواحقین کے درمیان راضی نامہ ہو گیا جس کے عوض لڑکی کے گھر والوں نے لواحقین کو 69 لاکھ روپے بطور دیت ادا کر دیے ہیں۔
عدالت میں پیش کیے گئے دستاویزات کے مطابق دیت کی رقم میں سے 9 لاکھ کیش اور 60 لاکھ ڈرافٹ کے ذریعے ادا کیے جس کے بعد مرحوم کی بیوہ نے عدالت کے سامنے کیس واپس لینے کا بیان دیا۔
اس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق درخواست گزار نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ اپنے 40 سالہ ملازم سلطان سکندر کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 میں زیر تعمیر مکان کی نگرانی کر رہی تھیں کہ اچانک خطرناک انداز میں چلائی جانے والی ایک گاڑی نے ان کے ملازم کو کچل دیا۔
اس ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 یعنی قتل بس سبب اور دفعہ 279 یعنی غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
درخواست کے مطابق گاڑی ایک نوجوان لڑکی چلا رہی تھی جس کے ہمراہ ایک شخص موجود تھا جو موقع سے فرار ہو گئے۔ اس شخص کے بارے میں، درخواست گزار کے مطابق، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کا ملازم تھا۔
درخواست کے مطابق گاڑی چلانے والی لڑکی لائسنس کے بغیر ایک ممنوعہ جگہ پر ڈرائیونگ سیکھ رہی تھی۔
،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA
’ملزمہ کے والد فوج میں کرنل کے رینک پر ہیں‘
درخواست میں بتایا گیا تھا کہ اس واقعے کے فورا بعد ہلاک ہونے والے شخص سلطان سکندر کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں موجود ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔
تھانہ گولڑہ کی حدود میں درج مقدمے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر سب انسپکٹر جاوید سلطان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اہل محلہ اور عینی شاہدین کے مطابق ڈرائیونگ سیکھنے والی لڑکی کی عمر 14-15 سال کے درمیان ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے پولیس کے پاس لڑکی کی عمر سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آئے۔
تفتیشی افسر کے مطابق ملزمہ کے والد فوج میں کرنل کے رینک پر ہیں اور وہ کوئٹہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ واقعے کہ ملزمہ کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپے مارے جا رہے ہیں لیکن اس واقعہ کے بعد ان کے گھر پر کوئی نہیں ہے۔
تفتیشی افسر کے مطابق جس روز یہ وقوعہ رونما ہوا، اس دن ملزمہ کے گھر سے کچھ افراد ہسپتال آئے لیکن اس کے بعد سے گھر پر تالا لگا ہوا ہے۔
Twitter پوسٹ نظرانداز کریں
ویڈیو کیپشن, تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں غصے اور ملک کے عدالتی نظام سے مایوسی کا اظہار نمایاں تھا، وہیں ایسی آوازیں بھی تھیں جو سوال اٹھا رہی تھیں کہ پاکستان میں کم عمری میں بنا ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے کی روایت کیوں ہے؟
ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ ’گلی محلوں میں ڈرائیونگ کون سے ملک میں سکھائی جاتی ہے؟‘
تاہم پاکستان میں کسی کم عمر کا گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نظر آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ یہ رواج کیوں کر عام ہے اور اس میں پولیس یا والدین میں سے کون زیادہ قصور وار ہے؟
’زیرو ٹالرنس‘
،تصویر کا ذریعہISLAMABAD POLICE
اسلام آباد پولیس کے سربراہ اکبر ناصر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈر ایج ڈرائیونگ سے متعلق پولیس کو زیرو ٹالرنس کا حکم دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ پولیس افسران کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اگر کوئی بھی کم عمر ڈرائیونگ کرتا ہوا پکڑا جائے تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے والد اور جس نے بھی چلانے کے لیے گاڑی دی ہے، ان کو بھی ذمہ دار گردانتے ہوئے ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ روکنے کی ذمہ داری صرف ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی نہیں بلکہ تھانوں اور مختلف ناکوں پر تعینات پولیس اہلکار بھی اس غیر قانونی اقدام کو روکنے اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہیں۔
متعلقہ عنوانات
Ù¾Ø§Ú©Ø³ØªØ§Ù Ú©Û Ø¯Ø§Ø±Ø§ÙØÚ©ÙÙت اسÙا٠آباد ÙÛÚº ÙائسÙس Ú©Û Ø¨ØºÛر گاÚÛ ÚÙاÙÛ ÙاÙÛ Ú©Ù Ø¹Ùر ÙÚÚ©Û Ú©Û ÛاتھÙÚº اÛÚ© شخص Ú©Û ÙÙت Ú©Û Ø¨Ø¹Ø¯ Ù¾ÙÙÛس Ú©Û Ùطاب٠شÛر بھر ÙÛÚº Ù¾ÙÙÛس Ú©Ù ÛداÛت Ú©Û Ú¯Ø¦Û ÛÛ Ú©Û Ú©Ù Ø¹Ùر گاÚÛ ÚÙاÙÛ ÙاÙÛ Ú©Û Ø®ÙاÙ...
www.bbc.com