What's new

NAB references against Sharif family: Robert Radley wishes to change statement

Quote

پاناما جے آئی ٹی کے چاروں بڑے نتائج بے بنیاد اور جعلی تھے اور یہ شدید دبائو میں آ کر دیئے گئے تھے۔ رڈلی نے کیلیبری فانٹ کے 2006ء میں استعمال کے حوالے سے چار اہم شواہد میں سے ایک کو زمین بوس کر دیا جبکہ باقی تین شواہد پہلے ہی غلط یا پھر توڑ مروڑ کر پیش کیے ہوئے ثابت ہو چکے ہیں۔ مریم نواز اور حسین نواز نے سپریم کورٹ میں اور جے آئی ٹی میں ایک ٹرسٹ ڈیڈ پیش کی تھی جو کیلیبری فانٹ میں ٹائپ کی ہوئی تھی، اس دستاویز پر 2006ء میں دستخط کیے گئے تھے۔ جے آئی ٹی نے ایک ماہر کے دعوے کی بنیاد پر یہ اپنی آخری رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ چونکہ کیلیبری فانٹ کمرشل سطح پر 2007ء میں دستیاب ہوا تھا اسلئے یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ جرح کے دوران رڈلی نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ کیلیبری فانٹ 2006ء میں حتیٰ کہ 2005ء میں بھی ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا لیکن صرف آئی ٹی ماہرین ہی اسے ڈائون لوڈ کرتے تھے۔ رپورٹس کے مطابق، جب رڈلی سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے 2005ء میں یہی فانٹ ڈائون لوڈ کیا تھا تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ جب یہ پوچھا گیا آیا وہ آئی ٹی ماہر تھے تو جواب نفی میں دیا۔ دی نیوز نے 13؍ جولائی 2017ء کو جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر اپنی تفصیلی تحقیقات شائع کی تھیں کہ جے آئی ٹی کی جانب سے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے دوران حاصل کی جانے والی تمام چاروں غیر ملکی دستاویزات / رپورٹس اور بڑی کامیابی اور ’’اہم شواہد‘‘ کے طور پر پیش کیا جانے والا رپورٹ کا پہلا صفحہ، سب غلط ہیں اور جے آئی ٹی کی غلط فہمی پر مبنی ہیں اور انہیں کسی بھی طرح شواہد نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے نتائج میں، 13؍ جولائی کو دی نیوز نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ ’’جے آئی ٹی رپورٹ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکی حکام سے پوچھے گئے سوالات بڑی چالاکی کے ساتھ مرتب کیے گئے تھے تاکہ معاملے کی پوری منظر کشی کی بجائے صرف مخصوص جواب حاصل کیے جا سکیں، منتخب گواہوں کے بیانات لیے گئے اور اہم گواہوں کو نظرانداز کر دیا گیا اور پہلے سے طے شدہ سوچ کے ساتھ رپورٹ مرتب کی گئی۔‘‘ پاناما جے آئی ٹی کی جانب سے حاصل کیے جانے والے چار اہم شواہد اور جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے پہلے صفحے پر لکھا ہے کہ: ’’تحقیقات کا اختصار‘‘: تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی کی جانب سے مندرجہ ذیل اہم ترین دستاویزی شواہد حاصل کیے گئے: (اول) برٹش ورجن آئی لینڈ میں فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے بی وی آئی کمپنیز میں مریم نواز کے بینیفشل اونر ہونے کی تصدیق، کمپنیوں کے نام یہ ہٰں: نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ، نیسکول لمیٹڈ (والیم نمبر پانچ)۔ (دوم) جبل علی فری زون اتھارٹی (جافزا) کی جانب سے میاں نواز شریف کے ایف زیڈ ای کیپیٹل میں چیئرمین ہونے کی تصدیق (والیم نمبر 6 اور 9)۔ (سوم) متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کی جانب سے اس بات کی تصدیق کہ مدعا علیہان نے مشکوک انداز سے اثاثوں کی خرید و فروخت کی، یہ معاہدے فاضل عدالت میں جمع کرائے جا چکے ہیں (والیم نمبر تین)، اور (چہارم) فارنسک ایکسپرٹ کی رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی (والیم نمبر پانچ)۔ ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلیبری فانٹ کے حوالے سے دی نیوز نے رپورٹ دی تھی کہ تمام مستند وسائل کے تحت دیکھا جائے تو کیلیبری فانٹ 2004ء میں ڈیزائن کیا گیا تھا اور یہ 2004-05ء میں ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا اور کمرشل سطح پر اسے جنوری 2007ء میں جاری کیاگیا۔ ایک ایسے ماہر، جو بنیادی طور پر پی ٹی آئی کا سیاسی کارکن تھا، کی متعصبانہ رائے میں بھی فیصلہ کن الفاظ استعمال نہیں کیے گئے اور کہا گیا کہ اس بات کا غالب امکان نہیں کہ یہ فانٹ نوٹری تصدیق کرنے والی کمپنی نے 2006ء میں استعمال کیا ہو۔ دی نیوز نے بتایا تھا کہ اگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ کیلیبری فانٹ صرف 2007ء میں ایجاد کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا تو اس سے ثابت ہوجاتا کہ دستاویزات جعلی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ فانٹ 2004ء میں ڈائون لوڈ کیلئے دستیاب تھا تو یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ 2006ء کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے؟ دی نیوز نے اپنی 13؍ جولائی کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا تھا کہ جے آئی ٹی کے ارکان پر شدید بیرونی دبائو ہے۔ دی نیوز کی رپورٹ میں تھا کہ یہ بات انتہائی اہم اور قابل ذکر ہے کہ برطانوی کمپنی فریمین باکس نے 2006ء میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی جسے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ برطانوی کمپنی ’’کوئیسٹ سولیسیٹرز‘‘ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کارکن کی ملکیت ہے اور جے آئی ٹی نے اس کی خدمات حاصل کیں، جے آئی ٹی نے اسے خط لکھ کر سوال کیا کہ آیا فری مین باکس 2006ء میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی۔ تاہم، جے آئی ٹی نے اس بات کا اپنی حتمی رپورٹ میں بالکل ذکر نہیں کیا۔ فری مین باکس کا جواب بنیادی اور اہم شواہد میں شامل تھا لیکن جے آئی ٹی ارکان نے اس بات کو خفیہ دبائو کی وجہ سے چھپایا۔ جے آئی ٹی کی دیگر تین اہم کامیابیوں میں سے ایک مریم نواز کی ملکیتی کمپنیوں کے حوالے سے تصدیق تھی۔ پاناما جے آئی ٹی کا اختتام فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی آف برٹش ورجن آئی لینڈ کی تصدیق کی بنیاد پر تحریر کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی سے خصوصی طور پر یہ نہیں پوچھا کہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونرشپ کس کے پاس ہے تاکہ سپریم کورٹ کو گمراہ کیا جا سکے۔ جے آئی ٹی نے ایجنسی سے صرف آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا پوچھا، اسے کوئی جواب نہیں ملا اور اس کی بجائے جے آئی ٹی سے پوچھا گیا کہ وہ میوچوئل لیگل اسسٹنس کے تحت ان افراد کے بارے میں غلط اقدامات کے ثبوت پیش کریں جن کے نام اس نے اپنی درخواست میں دیئے ہیں۔
Un-Quote
WT

Calibri font was available in 2005: UK forensic expert
February 23, 2018

By:Samaa Web Desk
Published in Pakistan

Be the first to comment!
calibri-640x377.jpg


ISLAMABAD: A key witness in the supplementary reference case filed against former prime minister Nawaz Sharif said on Friday that the Calibri font was in existence in 2005 but was available in limited quantity.

This was revealed by UK forensic expert Robert Radley who told the court during a hearing of the supplementary reference in the Avenfield case against Nawaz Sharif.

The proceedings were carried out at the Pakistan High Commission in London from where it was live streamed to the court.

Investigation Director Amjad Majeed and representatives of former prime minister Nawaz Sharif were present at the high commission.

Radley observed in his findings, which were included in the JIT report, that he “identified the type font used to produce both certified declarations as ‘Calibri’. However, [the font] was not commercially available before Jan 31, 2007 and as such, neither of the [documents] is correctly dated and [appear] to have been created at some later point in time.”

During the hearing, Radley claimed that the dates on pages two and three of the declaration of offshore companies Nelson and Nescol were changed.

Robert Radley, who is head of his firm Radley Forensic Document Laboratory, told the court that he had examined the possible change in dates on both documents.

He said that the font used in both trust deeds of the two companies was the Calibri font. He however, stated that it was not available for commercial use before January 31, 2007.

Radley further informed the court that four stapler holes were found in the documents which implied that the corner piece had been opened.

He said that 2004 had been changed into 2006 and that a ‘6’ had been replaced with a ‘4’. Further in his testimony, Radley claimed that the document could not be prepared commercially before January 31, 2007.

The defence counsel then questioned Radley over the availability of the font in Windows Vista and if Vista was released in three different versions. Radley obliged.

When asked, Radley confirmed that the first proper edition of the operating system was released on January 31, 2007. He said that the pre-launch beta version of Vista was also released for IT experts in April 2005.

He was then asked by the defence counsel as to whether the font was present in the pre-launch version of 2005 to which he replied in the affirmative but said that it was limited to only developers and IT experts.

He further added that testing was being conducted on a very limited level hence it was not possible that thousands of people could have access to it.

The court also recorded the statement of another witness, solicitor Akhtar Raja, through the video link.

The hearing of the case was adjourned till March 2, 2018.

https://www.samaa.tv/pakistan/2018/02/calibri-font-was-available-in-2005-uk-forensic-expert/
Oh jahil baboon leagiyo parh to letey us ney tumhari mitti paleed kar di hy :D
@PakSword @Farah Sohail
WT dude the case observing by international media and relevant departments as well, it was available but in limited circle, what if the law firm of Nswaja group was using it by their IT department? The whole case goes in holes if not proven properly.
 
.
WT dude the case observing by international media and relevant departments as well, it was available but in limited circle, what if the law firm of Nswaja group was using it by their IT department? The whole case goes in holes if not proven properly.
Simple to clear all of that all we need is carbon dating and comparison of the number 1 of Nawaz Sharif,s documents with the number 1 of beta version(which according to Lucas De Groot doesnot match :D )
 
.
Simple to clear all of that all we need is carbon dating and comparison of the number 1 of Nawaz Sharif,s documents with the number 1 of beta version(which according to Lucas De Groot doesnot match :D )

That is exactly what I was thinking. Checking the age of the ink or paper used for the document is probably more reliable since we know people can be bought to say whatever is needed. And even if the font was available it does not mean the document has not been faked.
 
.
ایون اپارٹمنٹس ریفرنس، نیب کی ٹیم کا گواہ سے ایک دن پہلے علیحدگی میں ملنے کا انکشاف

news-1519470548-8569.jpg

اسلام آباد،لندن(ویب ڈیسک) نیب کی ٹیم کا ایون اپارٹمنٹس ریفرنس کے اسٹار گواہ رابرٹ ریڈلے سےان کی شہاد ت سے ایک روز قبل علیحدگی میں ملاقات کاانکشاف ہواہے جوبرطانوی قانون کے مطابق غیرقانونی ہے۔رابرٹ ریڈلے نے اعتراف کیاکہ اس نےدوسرے گواہ اخترریاض کے ہمراہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹرس ردار مظفرعباسی، ڈائریکٹر انویسٹی گیشن امجد نذیراولکھ اور ایک دوسرے عہدیدار کے ساتھ بدھ کوملاقات کی تھی اور بیان اور جرح کے حوالے سے نکات پرتبادلہ خیال کیاتھا۔

روزنامہ جنگ کے مطابق انگلینڈ ویلز کے قانون میں واضح ہے کہ فورنزک ایکسپرٹ کسی پراسیکیوٹر سے سیکھنے کیلئے ملاقات نہیں کرسکتا، قانون کے مطابق فورنزک ایکسپرٹ عدالت کے سامنے پیش ہونے اوروہاں پرسوالوں کاجواب دینے کاپابند ہوتا ہے کیونکہ اس سے شواہد میں ردوبدل ہوسکتا ہے اور پراسیکیوٹر کے ساتھ ملاقات غیرقانونی ہے۔ودودمشتاق نے رابرٹ ریڈلے کی ویب سائٹ کا وزٹ کیا جس سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر سے کام کررہا ہے اور اس کیلئے اس نے کمرہ مختص کیا ہے جب کہ رابرٹ ریڈلے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ خواد 2005 سے مائیکروسافٹ ونڈو سٹا بیٹا 2005سے استعمال کررہے ہیں، وہ اسے ڈائن لوڈ کرتے ہیں اور آئی ٹی ماہرین کے ساتھ ساتھ عام صارفین بھی کی درخواست پر چھ فونٹ ڈاؤن لوڈکیلئے دستیاب ہے۔

رپورٹ کے مطابق انہوں نے مزید تصدیق کی کہ مریم نواز اورحسین نواز کے 2006 میں دستخط کردہ ٹرسٹ ڈیڈ صفحے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے اسے پڑھا اور نہ ہی مکمل ٹرسٹ دیکھی اور نہ ہی وہ اس کی جزئیات سے آگاہ ہیں۔ریڈلے نے کہا کہ کیلبری جنوری 2007 سے قبل کاروباری مقاصد کیلئے دستیاب نہیں تھی، ٹرسٹ ڈیڈ فروری 2006 میں تیار ہوئی اسلئے یہ جعلی ہے۔ ونڈوووسٹا کا پہلی ایڈیشن 31 جنوری 2007ء کوجاری کیاگیا اور اس سے پہلے اس کا کمرشل استعمال نہیں تھا۔

ونڈووسٹا کا پہلا ایڈیشن آئی ٹی ماہرین کیلئے 2005ء میں جاری کیاگیا، شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کیلبری فونٹ عام لوگ بھی استعمال کرتے تھے، اور یہ ڈاؤن لوڈ بھی کیاجاسکتاتھا۔رابرٹ ریڈلے نے یہ تصدیق بھی کی کہ وہ آئی ٹی ایکسپرٹ ہیں نہ ہی کمپیوٹر کے ماہر ہیں۔میں نے اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی کیلئے یہ نہیں لکھاکہ 2005میں فونٹ 6 مختلف اقسام میں دستیاب تھا، اپنی ویب سائٹ پر انہوں نے ذکر کیا ہے کہ لیبارٹری میں کئے گئے تمام کام پر نظرثانی کی جاتی تھی تاکہ اس کی درستگی اورقابل اعتماد ہونے کو یقینی بنایاجائے۔

رپورٹ کے مطابق ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس کی ویڈیو لنک سے پاکستان ہائی کمیشن میں سماعت کے بعد اس کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے مبصر بیرسٹر امجد ملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں یہ رپورٹس بنائی تو جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے لئے گئی تھیں اور اب نیب میں کیوں استعمال ہورہی ہیں تو میں آپ کو ایک چھوٹی سی بات بتاتا ہوں کہ ریڈلی نے یہ کہا کہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ میری رپورٹس کورٹ میں استعمال ہوگی،اُس کو یہ پتہ ہی نہیں، ریڈلی نے کہا مجھے صرف اس وکیل نے ہائر کیا ہے، ایسے نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کے آرڈرتھے، جے آئی ٹی تھی، پیپرا رول کمپرو مائز کئے۔ آپ کم از کم اس گواہ کو بتائیں تو سہی کہ یہ رپورٹ کورٹ میں جانی ہے، جس کے رزلٹ میں وزیراعظم متاثر ہوسکتا ہے یا کل کو نیب کا ریفرنس ہوسکتا ہے یا کرمنل کارروائی ہوسکتی ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/24-Feb-2018/737514
 
.
Back
Top Bottom