BATMAN
ELITE MEMBER
- Joined
- Mar 31, 2007
- Messages
- 29,895
- Reaction score
- -28
- Country
- Location
چین قونصل خانہ حملہ: چابہار اور یورپ کا کیا تعلق ہے؟
پاکستان میں چین کے قونصل خانہ پر حملہ ایک بہت بڑی خبر ہے، معمولی بات نہیں۔ اگر اس حملے میں اندرونی گروہ ملوث ہے، تو یہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاروں کیلئے بری خبر ہے اور اگر اس حملے میں بیرونی ملک ملوث ہونے کے شواہد ہیں، تو چینی حکومت یہ شواہد جاننا چاہے گی۔
بلوچستان لبریشن آرمی ’’بی ایل اے‘‘ دہشت گرد تنظیم کا پاکستان نے پچھلے چار سالوں میں تقریباً صفایا کردیا تھا. اس تنظیم کے کچھ لوگ پڑوسی ممالک بھاگ گئے تھے اور وہاں پر بھی انہوں نے اپنے آپ کوغیر محفوظ سمجھا اور پاکستان کے لمبے ہاتھوں سے ڈر کر یورپ بھاگ گئے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق یہ ایک یا دو کمانڈرز بھارت میں ہو سکتے ہیں۔ البتہ اس بات کی مکمل تصدیق باقی ہے۔
قیادت کے فرار ہونے کے بعد تنظیم چھوٹے موٹے دھماکے کر کے خبروں میں رہنے کی ناکام کوششیں کرتی رہی ہے، لیکن تنظیم سے کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا. نہ ہی اس تنظیم کو بلوچ اور باقی پاکستانی عوام کی طرف سے کوئی پذیرائی ملی ہے۔
اسی لئے پاکستانی قانون نافذ کرنے والے حلقوں میں یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ اب اچانک سے اس تنظیم کی طرف سے چین جیسے بڑے ملک کے سفارتی مشن پر حملہ کرنا انتہائی تشویشناک بات ہے۔
تیس کے قریب چینی اور دوسرا عملہ قونصل خانہ کی عمارت میں موجود تھا، اگر یہ دہشت گرد گھس جاتے تو بہت بڑا سانحہ رونما ہو سکتا تھا. یہاں پر ہدف دو درجن سے زائد چینی اہلکاروں کا قتل تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو سفارتی دنیا میں ہلچل مچ جاتی۔ پاکستانی سیکورٹی اداروں نے ایک بار پھر دشمن کی بڑی کارروائی ناکام بنا دی. اس بات کا اعتراف خود چینی وزارت خارجہ نے کیا ہے اور شہید ہونے والے پاکستانیوں کے اہل خانہ سے تعزیت بھی کی ہے۔
چین قونصل خانے پر حملہ دو باتوں کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا. ایک، بھارت وایران کا چابہار منصوبہ؛ اور دوسرا پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے خلاف کام کرنے والوں باغیوں کی انسانی ہمدردی کے بنیاد پر مغرب میں پناہ گاہیں۔
چین قونصل خانے پر حملے سے ایک دن پہلے اس کالم نگار نے ٹویٹر پر یہ بات پوسٹ کی تھی کہ چین کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں کہ گوادر اور سی پیک منصوبہ پاکستان میں سیکیورٹی حالات کی وجہ سے چل نہیں سکتا. بھارتی اور ایرانی حکام چین کو کافی عرصے سے چابہار بندرگاہ پروجیکٹ میں شامل ہوجانے کی دعوت دے رہے ہیں. نئی دلی اور تہران چین سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی شمولیت بھی قبول ہے۔ بلکہ ایرانی حکام نے کئی مرتبہ اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو چابہار منصوبے میں شمولیت کی یہ کہہ کر دعوت دی ہے کہ سی پیک مشکل ہے لیکن چابہار پہلے بن جائے گا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ ۲۰۱۵ کی چابہار افتتاحی تقریب میں پاکستان مدعو نہیں تھا۔
بھارتی اور ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان لمبے عرصے کے لئے غیر مستحکم رہیں گے اور گوادر میں طویل مدت شرمایہ کاری کرنا چین کیلیئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے. پچھلے مہینوں میں بھارت اور چین کے تعلقات بہت خوشگوار ہوئے ہیں. نئی دلی اور کابل افغانستان میں بھی ملکر کام کر رہے ہیں۔ نیز چین نے اس پر پاکستان سے بھی بات کی ہے۔ سی پیک سے متعلق بھارتی اور ایرانی حکام یہ باتیں 'آن دی ریکارڈ' کرتے آ رہے ہیں. یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کے دعوتوں کے باوجود بھارت اور ایران ابھی تک سی پیک پروجیکٹ میں باقاعدہ شمولیت اختیار نہیں کر رہے۔
چین قونصل خانہ کراچی پر حملہ اس بیانیہ کو تقویت دیتا ہے کہ پاکستان گوادراور سی پیک جیسے منصوبوں کیلئے پرامن نہیں۔
اب تک کراچی میں دہشت گردی کا زیادہ تر تعلق اس دہشت گردی کے اڈے سے تھا جو بہارت چابہار بندرگاہ سے چلا رہا تھا اور اس میں اس کے مقامی پراکسی گروہ مدد کر رہے تھے. یہ کام، جو بھارتی اور ایرانی خفیہ ایجنسیاں مشترکہ طور پر کر رہیں تھیں، کا مقصد کراچی اور گوادر کو غیر مستحکم کرنا تھا. لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کوششیں جاری تھیں اور یہ دو غیر ملکی ایجنسیاں پاکستانی شیعہ اور سنی مسلمانوں کے علاوہ دیگر مسلمان فرقوں پر حملوں کی تیاریاں کر رہے تھے، مثلا بریلوی، دیوبندی، آغا خانی میمن اور داودی بوہرہ۔ بھارتی کمانڈر کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد اس سلسلے میں 2016 سے لے کر آج تک گرفتاریاں ہزاروں میں جا چکی ہیں۔ افسوس کے ساتھ اس بیرونی دہشت گردی کے ساتھ تعاون کرنے والے پاکستانی نام سیکیورٹی اداروں کے پاس ہیں۔ عزیر بلوچ ایک مثال ہے۔ کراچی کی ایک لسانی تنظیم جو فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث تھی، دوسرا مثال ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث کچھ لوگوں کو چند مغربی ممالک نے انسانی بنیادوں پر پناہ دی ہوئی ہے اور انھیں پیسے اور چندہ اکٹھے کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ میں انسانی بنیادوں پر پناہ دینا اعلی ظرفی ہے۔ لیکن اگر اس حق کو کچھ لوگ غلط استعمال کر رہے ہیں، اسکی نشاندہی ہونی چاہیئے۔
بی ایل اے دہشت گرد تنظیم کا سربراہ برطانیہ میں موجود ہے. سوئٹزرلینڈ نے اچھا کام کیا جب براہمداغ بگٹی کو انسانی بنیادوں پر پناہ دینے سے گزشتہ سال انکار کر دیا. لیکن اسکو ابھی تک سوئٹزرلینڈ سے بے دخل نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان کے حوالے کیا گیا جہاں وہ کئی معصوم پاکستانی بلوچوں کے قتل میں ملوث ہے. لیکن سننے میں آ رہا ہے کہ سوئزرلینڈ براہمداغ کو بے دخل کرنے جا رہا ہے۔ پاکستان کی ان یورپی ممالک کے ساتھ پچھلے چار سالوں سے اس موضوع پر بات چیت ہو رہی ہے. اسلام آباد میں امید کی جا رہی ہے کہ یورپی ممالک ان دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کریں گے۔
کیا چینی سفارتی مشن پر حملے میں امریکہ بھی ملوث ہوسکتا ہے؟
امریکا کے بارے میں ہمارے ہاں بہت کہا جاتا ہے اور یقینا امریکا میں چین کی ابھرتی ہوئی طاقت پر تشویش ہے۔ لیکن امریکا اور چین کے درمیان تلخی کے باوجود اعلی سطحی مکالمہ اور بات چیت موجود ہے۔ یہ دو ممالک جتنے دور نظر آتے ہیں، اتنے ہی قریب بھی ہیں۔ کراچی کے حملے کے فوراً بعد امریکا نے شدید مذمت کی اور پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چینی اہلکاروں کی جانیں بچانے پر سراہا اور وعدہ کیا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے. اس بات میں قوی گنجائش ہے کہ امریکا براہ راست ملوث نہیں ہوسکتا. امریکا اس وقت پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی افغانستان میں امریکا کی آمد کے بعد شروع ہوئی اور پاکستانی تجزیہ کاروں کو شبہ رہا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کسی کونے میں اس پاکستان مخالف دہشت گردی کو اگر خود شروع نہیں کیا گیا تو کم از کم بھارت کو اور پاکستان مخالف افغان عناصر کو کام کرنے کا موقع ضرور دیا گیا. لیکن یہ بات دس سالوں سے زیادہ پرانی ہے. خود امریکا میں حالات بدل چکے ہیں.
موجودہ ٹرمپ انتظامیہ کو اتنا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اب وہ دوسرے ملکوں میں جمھوریت اور آزادی جیسے منصوبوں کو زبردستی نافذ کرنے کی باتیں نہیں کرتی بلکہ باہمی مفاد کی بات کرتی ہے اور ٹرمپ نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ امریکا کو کوئی غرض نہیں کہ آپ کے ملک میں کونسا سیاسی نظام ہے، وہ آپکا مسئلہ ہے. اس لئے اسوقت امریکا کا پاکستان میں دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہونے کا امکان بہت کم ہے، البتہ امریکا کے میڈیا اور سیاست میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی باتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت کی بات کرتے ہیں. ان لوگوں کو مؤثر انداز میں جواب دیا جاسکتا ہے، اس میں کچھ ہماری کوتاہی بھی ہے کہ امریکہ جیسے اہم ملک میں جہاں ہمارے بہت دوست ہیں وہاں ہمنے اپنے تعلقات اور اثر ورسوخ کم رکھا ہوا ہے. یہ ایک الگ بحث ہے۔
یہ تھے چینی قونصل خانے پر حملے کے دو اہم پہلو۔
آخر میں یاد رکھنے والی ایک اہم بات۔ اور وہ یہ کہ بلوچستان کے لوگوں نے ان تنظیموں کو پچھلے دس سالوں میں مکمل طور پر رد کیا ہے اور انھے کوئی پذیرائی نہیں ملی، جسکی وجہ سے تنظیم کے اراکین کو یورپ یا پڑوسی ممالک بھاگنا پڑا. اسی لئے یہ لوگ بڑے پیمانے پر خطرہ نہیں بن سکتے، لیکن یہ بات خرور ہے کہ یہ لوگ موقع کے تلاش میں ہیں۔ اسوقت سب سے بڑا مقصد ہے چین کو سمجھانا کہ پاکستان آپکی سرمایہ کاری کیلئے محفوظ نہیں۔ یہ ہے اصل گیم اور اس گیم کے ممکنہ کھلاڑی۔ [#]
پاکستان میں چین کے قونصل خانہ پر حملہ ایک بہت بڑی خبر ہے، معمولی بات نہیں۔ اگر اس حملے میں اندرونی گروہ ملوث ہے، تو یہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاروں کیلئے بری خبر ہے اور اگر اس حملے میں بیرونی ملک ملوث ہونے کے شواہد ہیں، تو چینی حکومت یہ شواہد جاننا چاہے گی۔
بلوچستان لبریشن آرمی ’’بی ایل اے‘‘ دہشت گرد تنظیم کا پاکستان نے پچھلے چار سالوں میں تقریباً صفایا کردیا تھا. اس تنظیم کے کچھ لوگ پڑوسی ممالک بھاگ گئے تھے اور وہاں پر بھی انہوں نے اپنے آپ کوغیر محفوظ سمجھا اور پاکستان کے لمبے ہاتھوں سے ڈر کر یورپ بھاگ گئے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق یہ ایک یا دو کمانڈرز بھارت میں ہو سکتے ہیں۔ البتہ اس بات کی مکمل تصدیق باقی ہے۔
قیادت کے فرار ہونے کے بعد تنظیم چھوٹے موٹے دھماکے کر کے خبروں میں رہنے کی ناکام کوششیں کرتی رہی ہے، لیکن تنظیم سے کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا. نہ ہی اس تنظیم کو بلوچ اور باقی پاکستانی عوام کی طرف سے کوئی پذیرائی ملی ہے۔
اسی لئے پاکستانی قانون نافذ کرنے والے حلقوں میں یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ اب اچانک سے اس تنظیم کی طرف سے چین جیسے بڑے ملک کے سفارتی مشن پر حملہ کرنا انتہائی تشویشناک بات ہے۔
تیس کے قریب چینی اور دوسرا عملہ قونصل خانہ کی عمارت میں موجود تھا، اگر یہ دہشت گرد گھس جاتے تو بہت بڑا سانحہ رونما ہو سکتا تھا. یہاں پر ہدف دو درجن سے زائد چینی اہلکاروں کا قتل تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو سفارتی دنیا میں ہلچل مچ جاتی۔ پاکستانی سیکورٹی اداروں نے ایک بار پھر دشمن کی بڑی کارروائی ناکام بنا دی. اس بات کا اعتراف خود چینی وزارت خارجہ نے کیا ہے اور شہید ہونے والے پاکستانیوں کے اہل خانہ سے تعزیت بھی کی ہے۔
چین قونصل خانے پر حملہ دو باتوں کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا. ایک، بھارت وایران کا چابہار منصوبہ؛ اور دوسرا پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے خلاف کام کرنے والوں باغیوں کی انسانی ہمدردی کے بنیاد پر مغرب میں پناہ گاہیں۔
چین قونصل خانے پر حملے سے ایک دن پہلے اس کالم نگار نے ٹویٹر پر یہ بات پوسٹ کی تھی کہ چین کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں کہ گوادر اور سی پیک منصوبہ پاکستان میں سیکیورٹی حالات کی وجہ سے چل نہیں سکتا. بھارتی اور ایرانی حکام چین کو کافی عرصے سے چابہار بندرگاہ پروجیکٹ میں شامل ہوجانے کی دعوت دے رہے ہیں. نئی دلی اور تہران چین سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی شمولیت بھی قبول ہے۔ بلکہ ایرانی حکام نے کئی مرتبہ اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو چابہار منصوبے میں شمولیت کی یہ کہہ کر دعوت دی ہے کہ سی پیک مشکل ہے لیکن چابہار پہلے بن جائے گا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ ۲۰۱۵ کی چابہار افتتاحی تقریب میں پاکستان مدعو نہیں تھا۔
بھارتی اور ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان لمبے عرصے کے لئے غیر مستحکم رہیں گے اور گوادر میں طویل مدت شرمایہ کاری کرنا چین کیلیئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے. پچھلے مہینوں میں بھارت اور چین کے تعلقات بہت خوشگوار ہوئے ہیں. نئی دلی اور کابل افغانستان میں بھی ملکر کام کر رہے ہیں۔ نیز چین نے اس پر پاکستان سے بھی بات کی ہے۔ سی پیک سے متعلق بھارتی اور ایرانی حکام یہ باتیں 'آن دی ریکارڈ' کرتے آ رہے ہیں. یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کے دعوتوں کے باوجود بھارت اور ایران ابھی تک سی پیک پروجیکٹ میں باقاعدہ شمولیت اختیار نہیں کر رہے۔
چین قونصل خانہ کراچی پر حملہ اس بیانیہ کو تقویت دیتا ہے کہ پاکستان گوادراور سی پیک جیسے منصوبوں کیلئے پرامن نہیں۔
اب تک کراچی میں دہشت گردی کا زیادہ تر تعلق اس دہشت گردی کے اڈے سے تھا جو بہارت چابہار بندرگاہ سے چلا رہا تھا اور اس میں اس کے مقامی پراکسی گروہ مدد کر رہے تھے. یہ کام، جو بھارتی اور ایرانی خفیہ ایجنسیاں مشترکہ طور پر کر رہیں تھیں، کا مقصد کراچی اور گوادر کو غیر مستحکم کرنا تھا. لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کوششیں جاری تھیں اور یہ دو غیر ملکی ایجنسیاں پاکستانی شیعہ اور سنی مسلمانوں کے علاوہ دیگر مسلمان فرقوں پر حملوں کی تیاریاں کر رہے تھے، مثلا بریلوی، دیوبندی، آغا خانی میمن اور داودی بوہرہ۔ بھارتی کمانڈر کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد اس سلسلے میں 2016 سے لے کر آج تک گرفتاریاں ہزاروں میں جا چکی ہیں۔ افسوس کے ساتھ اس بیرونی دہشت گردی کے ساتھ تعاون کرنے والے پاکستانی نام سیکیورٹی اداروں کے پاس ہیں۔ عزیر بلوچ ایک مثال ہے۔ کراچی کی ایک لسانی تنظیم جو فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث تھی، دوسرا مثال ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث کچھ لوگوں کو چند مغربی ممالک نے انسانی بنیادوں پر پناہ دی ہوئی ہے اور انھیں پیسے اور چندہ اکٹھے کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ میں انسانی بنیادوں پر پناہ دینا اعلی ظرفی ہے۔ لیکن اگر اس حق کو کچھ لوگ غلط استعمال کر رہے ہیں، اسکی نشاندہی ہونی چاہیئے۔
بی ایل اے دہشت گرد تنظیم کا سربراہ برطانیہ میں موجود ہے. سوئٹزرلینڈ نے اچھا کام کیا جب براہمداغ بگٹی کو انسانی بنیادوں پر پناہ دینے سے گزشتہ سال انکار کر دیا. لیکن اسکو ابھی تک سوئٹزرلینڈ سے بے دخل نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان کے حوالے کیا گیا جہاں وہ کئی معصوم پاکستانی بلوچوں کے قتل میں ملوث ہے. لیکن سننے میں آ رہا ہے کہ سوئزرلینڈ براہمداغ کو بے دخل کرنے جا رہا ہے۔ پاکستان کی ان یورپی ممالک کے ساتھ پچھلے چار سالوں سے اس موضوع پر بات چیت ہو رہی ہے. اسلام آباد میں امید کی جا رہی ہے کہ یورپی ممالک ان دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کریں گے۔
کیا چینی سفارتی مشن پر حملے میں امریکہ بھی ملوث ہوسکتا ہے؟
امریکا کے بارے میں ہمارے ہاں بہت کہا جاتا ہے اور یقینا امریکا میں چین کی ابھرتی ہوئی طاقت پر تشویش ہے۔ لیکن امریکا اور چین کے درمیان تلخی کے باوجود اعلی سطحی مکالمہ اور بات چیت موجود ہے۔ یہ دو ممالک جتنے دور نظر آتے ہیں، اتنے ہی قریب بھی ہیں۔ کراچی کے حملے کے فوراً بعد امریکا نے شدید مذمت کی اور پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چینی اہلکاروں کی جانیں بچانے پر سراہا اور وعدہ کیا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے. اس بات میں قوی گنجائش ہے کہ امریکا براہ راست ملوث نہیں ہوسکتا. امریکا اس وقت پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی افغانستان میں امریکا کی آمد کے بعد شروع ہوئی اور پاکستانی تجزیہ کاروں کو شبہ رہا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کسی کونے میں اس پاکستان مخالف دہشت گردی کو اگر خود شروع نہیں کیا گیا تو کم از کم بھارت کو اور پاکستان مخالف افغان عناصر کو کام کرنے کا موقع ضرور دیا گیا. لیکن یہ بات دس سالوں سے زیادہ پرانی ہے. خود امریکا میں حالات بدل چکے ہیں.
موجودہ ٹرمپ انتظامیہ کو اتنا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اب وہ دوسرے ملکوں میں جمھوریت اور آزادی جیسے منصوبوں کو زبردستی نافذ کرنے کی باتیں نہیں کرتی بلکہ باہمی مفاد کی بات کرتی ہے اور ٹرمپ نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ امریکا کو کوئی غرض نہیں کہ آپ کے ملک میں کونسا سیاسی نظام ہے، وہ آپکا مسئلہ ہے. اس لئے اسوقت امریکا کا پاکستان میں دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہونے کا امکان بہت کم ہے، البتہ امریکا کے میڈیا اور سیاست میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی باتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت کی بات کرتے ہیں. ان لوگوں کو مؤثر انداز میں جواب دیا جاسکتا ہے، اس میں کچھ ہماری کوتاہی بھی ہے کہ امریکہ جیسے اہم ملک میں جہاں ہمارے بہت دوست ہیں وہاں ہمنے اپنے تعلقات اور اثر ورسوخ کم رکھا ہوا ہے. یہ ایک الگ بحث ہے۔
یہ تھے چینی قونصل خانے پر حملے کے دو اہم پہلو۔
آخر میں یاد رکھنے والی ایک اہم بات۔ اور وہ یہ کہ بلوچستان کے لوگوں نے ان تنظیموں کو پچھلے دس سالوں میں مکمل طور پر رد کیا ہے اور انھے کوئی پذیرائی نہیں ملی، جسکی وجہ سے تنظیم کے اراکین کو یورپ یا پڑوسی ممالک بھاگنا پڑا. اسی لئے یہ لوگ بڑے پیمانے پر خطرہ نہیں بن سکتے، لیکن یہ بات خرور ہے کہ یہ لوگ موقع کے تلاش میں ہیں۔ اسوقت سب سے بڑا مقصد ہے چین کو سمجھانا کہ پاکستان آپکی سرمایہ کاری کیلئے محفوظ نہیں۔ یہ ہے اصل گیم اور اس گیم کے ممکنہ کھلاڑی۔ [#]