The most powerful sentence in the whole detailed decision, a way out to every criminal. IMO consequently this is abolishing of courts and judicial system in itself
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ کسی ایک جج کے خلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کو تضادات کا حامل قرار دیا ہے
29 جنوری 2022
اپ ڈیٹ کی گئی 30 جنوری 2022
،تصویر کا ذریعہASAD ALI TOOR
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط اور تضادات کا حامل ہے۔
گذشتہ روز پاکستان میں نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف نہیں، تاہم وہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں عدالت نے جسٹس فائض عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا۔
اس کیس کا تعلق جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثہ جات سے ہے تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ حکام نے غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے فیصلہ تحریر کیا۔
جج جواب دہ نہیں تو وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جواب دہ ہوں؟
ادھر فروغ نسیم نے عدالتی اعتراض کہ یہ ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے جمع کیا گیا، اس کے بجائے یہ سوال اٹھایا کہ کیا سرینا عیسیٰ نے یہ وضاحت دی کہ پیسے کہاں سے آئے؟ ان کا موقف تھا کہ ‘صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ میرا تعلق امیرخاندان سے ہے، ایف بی آر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سرینا عیسیٰ اپنے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہیں۔‘
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا جج اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کا جواب دہ نہیں تو کیا یہ معیار دیگر سرکاری ملازمین کیلئے بھی ہوگا؟ ‘اگر جج جواب دہ نہیں تو مثلاً میں اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جواب دہ ہوں؟‘
عدالت نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا اور اب نو ماہ دو دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی کا اضافی نوٹ
جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے (سابق) چیئرمین بیرسٹر شہزاد اکبر اور وزیرِ قانون فروغ نسیم کی غیر قانونی ہدایات پر ٹیکس حکام نے سرینا عیسیٰ کے مقدمے میں ٹیکس سے متعلق رازداری کے حق کو بھی واشگاف طور پر پامال کیا ہے۔ اضافی نوٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ شہزاد اکبر اور فروغ نسیم سرینا عیسیٰ کے خلاف مقدمے میں ٹیکس سے متعلق رازداری کے قانون کو توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
وزیر قانون اور چیئرمین اے آر یو کی آئین اور قانون کی خلاف ورزی کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس یحیٰ آفریدی نے لکھا کہ اس عدالت کی جانب سے ان افراد کے اقدامات کو متفقہ طور پر غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود ان کو عہدے پر برقرار رکھنا متحرم وزیر اعظم کے ان خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کو واضح کرتا ہے۔
’سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات میں مداخلت کی‘
اس نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایف بی آر کی طرف سے موصول ہونے والی ٹیکس کی رپورٹ کو بھیج کر یہ ہدایات دینا کہ اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے دراصل اس کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت ہے۔ جسٹس آفریدی کے مطابق کونسل حاصل ہونے والی ایسی معلومات پر از خود غور کر سکتی ہے کہ اس میں جج کے کردار پر تحقیق ہونی چائیے یا نہیں۔ ٹیکس حکام کی رپورٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات دینے سے یہ عدالت خود ’فیصلہ کنندہ‘ کے بجائے ’شکایت کنندہ‘ بن جاتی ہے۔
ٹیکس حکام کو جج کی اہلیہ اور ان کے بچوں کے خلاف تحقیقات کے لیے دی جانے والی ہدایات سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ تاہم ٹیکس حکام کو اس آرڈیننس کے تحت کسی بھی جج کے خلاف آزادانہ طور پر تحقیقات کا حق حاصل ہے نہ کہ حکام بالا کی ہدایات کی روشنی میں۔ ہدایات پر کی جانے والی تحقیقات قابل تعزیر جرم کے ذمرے میں آتی ہے۔ اور اس مقدمے میں خلاف قانون ہدایات دینے جیسے سنگین نتائج کا خمیازہ بیرسٹر شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور ان ٹیکس حکام کو بھگتنا ہو گا جو ایسی غیرقانونی ہدایات پر عمل پیرا ہوئے ہیں۔
اضافی نوٹ کے مطابق کونسل کو خود درخواست گزار جج یا کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کے مطابق درخواست گزار جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) یا کسی بھی جج کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت میں درخواست گزار بن جائے۔ اضافی نوٹ کے مطابق سرینا عیسیٰ، ان کی بیٹی اور بیٹے کے خلاف اس عدالت کے فیصلے کو واپس لیا جاتا ہے۔ اور اس کی بنیاد پر دی جانے والی ہدایات، ہونے والی کارروائی اور اس بنیاد پر تیار کی جانے والی رپورٹس کا سرینا عیسی اور ان کے بچوں کے حقوق اور ذمہ داریوں پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔
تفصیلی فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ واضح الفاظ سے سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کےجج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں، کوئی بھی چاہے وہ اس عدالت کاجج کیوں نہ ہو اسے قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ اور جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے جب کہ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن قانون کے مطابق ہونا چاہیے، کھلی عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے، ججز بڑوں بڑوں کےخلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہےکہ سرینا عیسیٰ سے بیان میں معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیاگیا، آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہرخاص وعام کابنیادی حق ہے لہٰذا صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، قانون کےمطابق فیصلوں سےہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔
،تصویر کا ذریعہSUPREME COURT OF PAKISTAN
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کی اہلیہ کے آزادانہ ٹیکس معاملات میں انھیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں جب کہ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بھیجا جاسکتا۔ فیصلے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی پرایف بی آرکے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہو گی، ایسا بھی ممکن تھا، چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہو جاتے، جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کےحق میں بھی آ سکتی تھی، برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے، ایسا بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر رپورٹ تسلیم نہ کرتی۔
یہ بھی پڑھیے
Ù¾Ø§Ú©Ø³ØªØ§Ù Ú©Û Ø³Ù¾Ø±ÛÙ Ú©Ùرٹ Ú©Û Ø¯Ø³ رکÙÛ Ùارجر بÛÙÚ ÙÛ ÚÚ¾ Úار Ú©Û ØªÙاسب Ø³Û Ø³Ø±ÛÙا عÛØ³Û Ú©Û ØÙ ÙÛÚº تÙصÛÙÛ ÙÛصÙÛ Ø³ÙاÛØ§Ø Ø¬Ø³ ÙÛÚº جسٹس ÛØÛ Ø¢ÙرÛØ¯Û ÙÛ Ø§Ø¶Ø§ÙÛ ÙÙÙ¹ ÙÛÚº Ùکھا Ú©Û Ø´Ûزاد اکبر اÙر ÙرÙغ ÙسÛ٠سرÛÙا عÛسÛÙ° Ú©Û Ø®Ùا٠ÙÙدÙÛ...
www.bbc.com