What's new

Chiniot Shish Mahal

ghazi52

PDF THINK TANK: ANALYST
Joined
Mar 21, 2007
Messages
101,815
Reaction score
106
Country
Pakistan
Location
United States
Chiniot Shish Mahal

چنیوٹ شہر کے عین وسط میں واقع پہاڑوں کی اوٹ اور قبرستان سے ملحقہ علاقے میں موجود میناروں سے نکلنے والی روشنیاں جہاں پورے علاقے کو جگ مگ کر دیتی ہیں وہیں قوالی کے ساتھ بجنے والے ساز بھی فضاء میں محبت بھرنے سے پیچھے نہیں رہتے۔ یہ روشنی محلہ مسکین پورہ میں موجود حضرت احمد ماہی المعروف سائیں سکھ کے ساڑھے دس کنال پر پھیلے مزار میں لگے برقی قمقموں کی ہوتی ہے۔جب یہ روشنی محل کی دیواروں میں نسب شیشے پر منعکس ہوتی ہے تو عمارت کے اندرونی حصے میں انعکاس کی وجہ سے بلوری چمک پیدا ہوتی ہے جو مزار کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔حضرت احمد ماہی المعروف سائیں سکھ چنیوٹ کے معروف شیخ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کی پیدائش 1914ء جبکہ وفات 1987ء میں ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ سائیں سکھ نے اپنی ذاتی زمین پر دربار کی تعمیر 1925ء میں شروع کرواتے ہوئے اسے اپنی زندگی میں ہی مکمل کروا لیا تھا اور مریدین سے کہا تھا کہ 'تیسی کانڈی چلتی رہے گی'۔
سائیں سُکھ کے حکم کے مطابق دربار میں مرمت اور سجاوٹ کا کام سارا سال چلتا ہے
مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ اُن کے الفاظ کی ہی برکت ہے کہ ان کی وفات سے اب تک یہاں کوئی نہ کوئی ترقیاتی کام ہوتا رہتا ہے۔اس وقت یہاں ایک دلکش منیار تعمیر کروایا جا رہا ہے جس پر انتظامیہ کے مطابق اب تک کروڑوں روپے لاگت آ چُکی ہے۔
اس مزار پر چاند کی ہر چودہویں رات کو محفل کا انعقاد کیا جاتا ہے، لنگر تقسیم ہوتا ہے اور قوالی کی محفل بھی منعقد ہوتی ہے۔دربار پر سال میں دو عرسوں کا اہتمام ہوتا ہے، پہلا عرس جو کہ بڑا عرس کہلاتا ہے چھ اگست جبکہ دوسرا دو دسمبر کو منعقد کیا جاتا ہے۔دربار کی انتظامیہ کے مطابقٍ بڑا عرس سائیں سکھ کی بیوی عائشہ بی بی کی تاریخ وفات پر ہوتا ہے کیونکہ یہ عرس سائیں نے پہلی بار اپنی زندگی میں چھ اگست انیس صد چوراسی کو خود کروایا تھا۔دوسرا عرس ان کی اپنی وفات دو دسمبر 1987ء کے بعد شروع ہوا جس میں شرکت کے لیے اندرونِ اور بیرون مُلک میں مقیم شیخ خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد چینوٹ آتی ہے۔دربار کے گدی نشین باؤ بشیر احمد بتاتے ہیں کہ 'سائیں جی نے اپنی زندگی میں اس دربار کی تعمیر کے لیے کسی سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا تھا۔ انھوں نے اپنا گھر بنانے کی بجائے یہ دربار بنایا'۔
مزار کی تعیمر پر اب تک اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں
گورنمنٹ اسلامیہ کالج چنیوٹ کے پروفیسر شہزادہ شیخ کا کہنا ہے کہ وہ پورے پاکستان کے درباروں، مزاروں اور تاریخی مقامات کی سیر کر چُکے ہیں لیکن تعمیر کا کام جتنی نفاست سے سائیں سُکھ کے دربار پر ہوا ہے شاید ہی کسی دوسری جگہ ہوا ہو۔کراچی کے رہائشی نصیر احمد اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ چنیوٹ میں سیر کے لیے آئے ہوئے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے صوبہ سندھ میں بے شمار مزاروں کی سیر کی ہے لیکن یہاں شیشے کا کام جس انداز میں کیا گیا ہے انتہائی قابل دید ہے اور روشنی پڑنے پر جو نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے اُس کا کوئی جواب نہیں۔فیصل آباد کے رہائشی شیخ عالمگیر نثار کا کہنا ہے کہ سائیں سکھ ان کے چچا ہیں ان کے مزار کی تعیمر پر اب تک اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔"مزار کی تعمیر کے لیے ہم کسی سے چندہ نہیں لیتے۔ یہ کام خاندان کے تمام لوگ مل کر کروا رہے ہیں اور اس کا نام شیش محل اس لیے رکھا گیا تھا کیونکہ سائیں جی کہا کرتے تھے کہ اُن کی زندگی شیشے کی ماند ہے۔ انسان کو شیشے جیسا ہی ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے اندر جھانکے تو اُسے اپنا آپ نظر آئے۔"
دربار میں شیشے کا کام نہایت نفاست سے کیا گیا ہے
اُن کا مزید کہنا تھا کہ دربار کے ہر حصے کا نقشہ لاہور اور کراچی کے مشہور ماہرینِ تعمیرات سے تیار کروایا جاتا ہے تاکہ یہ اپنی طرز کا ایک منفرد دربار ہو۔شیش محل کی تعمیر میں مصروف مستری ابراہیم کا کہنا ہے اُن کے دادا اور والد بھی اپنے وقتوں میں اس مزار کی تعمیر کا کام سر انجام دے چُکے ہیں۔"مزاروں کی خاص انداز میں تعمیر ایک مہارت ہے جو ہمارے خاندان میں پشتوں سے چلی آ رہے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مزار دیگر تمام مزاروں سے منفرد ہے۔

56659782_2513759448669524_3066782055808368640_n.jpg




56837270_2513759515336184_3919925859745529856_n.jpg




56723881_2513759652002837_6758599011302637568_n.jpg
 

Latest posts

Back
Top Bottom