What's new

بھیڑیا ----- آپ بیتی

Imran Khan

PDF VETERAN
Joined
Oct 18, 2007
Messages
68,815
Reaction score
5
Country
Pakistan
Location
Pakistan
مارچ کا وسط اور رات کا پچھلا پہر تھا میں تاروں کی روشنی میں جال (سٹو) سے مچھلیاں پکڑ رہا تھا جب مجھے افسر اعلیٰ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کا پیغام ملا ”صبح ان سے دفتر میں ملوں“۔ صبح سویرے میں ان کے سامنے پیش ہو گیا۔
حکم ہوا ” مجھے بھیڑیئے کے دو پلے چاہیں“۔
” بھیڑیے تو رہ نہیں گئے“
” تم کو اس سے کیا ؟ “ پھر کچھ توقف کے بعد ” نر مادہ ہوں“۔
اس زمانے میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے افسر بلکہ معمولی اہلکار بھی اثر رسوخ رکھنے والے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ناجائز شکار کروایا کرتے تھے۔ مہتمم اعلیٰ سے یہ تو نہ ہو سکا کہ بگڑے ہوئے امیر زادہ سے کہتے بھیڑیا پالا نہیں جا سکتا۔ اس میں جینیاتی طور پر انفرادیت اور آزادی ہوتی ہے۔ الٹا مجھے رعب سے کہنے لگے: ” بہت جلدی لے کر آؤ۔

“میں چور شکاری تھا۔ حکم حاکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا شام کو حاکم علی والے اٹھاسی چک (یزمان) چلا گیا۔ اپنے دوست سے تیز رفتار اونٹ لیا اور چولستان کی راہ لی۔

حاکم علی والے اٹھاسی ۸۸ سے تقریباً ۳۵ میل دور دریائے گھاگھرا کا خشک پاٹ ہے ۔ دریا کے چوڑے پاٹ کے شمال میں ریت کے ٹیلوں کا ۲۰ میل لمبا شرقی غربی سلسلہ ہے۔ ٹیلوں کے شمال میں اتنی ہی لمبی ڈار ہے۔ یہ چار سے سات میل چوڑی ہے۔ اردگرد کے ٹیلوں سے نیچی ہے۔ یہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔جس وجہ سے ہریالی ہے گھاس کی مختلف قسمیں جن میں کترن، سواکلی ، جھاڑو والی گھاس اور سر کنڈے نمایاں تھیں۔ ان کے علاوہ باقی گھاسوں کے نام میں نہیں جانتا۔ لانا ، گوگل،جنڈ، کیکر، روھیڑا کے درخت بھی کثرت سے تھے۔ ہریالی کی وجہ سے چرنے والے جانور ادھر کا رخ کرتے تھے۔ ان میں چیتل، چنکارہ اور نیل گائے عام تھی۔ چرواہے بھیڑیں بھی لے آتے تھے اور نیم پالتو چولستانی گائے بھی کبھی کبھی نظر آجاتی تھی۔ جہاں چرنے والے جانور ہوتے ہیں وہاں گوشت خور جانور آجاتے ہیں۔ میں نے یہاں بھیڑیے، سیاہ گوش، لگڑ بگڑ دیکھے تھے۔ اس لیے پلوں کی تلاش میں اسی طرف کا رخ کیا۔ اس علاقے میں چھوٹی اینٹ کے قدیم کنویں تھے۔ اکثر خشک ہو گئے تھے۔ بہت سوں میں گہرائی میں پانی نظر آتا تھا۔ یہ بد مزہ اور بدبودار ہوتا تھا۔ سوائے چند کے سب کی اندرونی دیواریں کہیں کہیں سے گر گئیں تھیں۔ جانور یہاں پانی پیتے تھے بھیڑیئے ان ٹھندے گہرے کنوؤں میں چھپے رہتے۔

یہیں سے میں نے اپنی تلاش کا آغاز کیا۔ میں نے دس دن میں اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا، کوئی غار، کوئی گہرائی یاکوئی کھوایسی نہ تھی جو میں نے نہ دیکھی ہو۔ مجھے نہ تو کوئی بھیڑیا ملا نہ اس کی موجودگی کا نشان۔ یہ علاقہ پالتو جانوروں کی وجہ سے گھاس چرنے والے جانوروں کا ہدف تھا ۔ نیل گائے اونچی گھاس چرتی ہے۔غذا کی کمیابی کی وجہ سے دور مشرق میں ہٹ گئی تھی۔ حساس طبیعت چتیل ختم ہو گیا تھا۔ سخت جان چنکارہ کہیں کہیں نظر آتا تھا۔ بھیڑیا ہر نوں کے گلے کے ساتھ رہتاہے۔ گلے قدرتی مسائل کے علاوہ با افراط آتشیں ہتھیاروں کی وجہ سے ختم ہو گئے تھے۔ جیپوں کے ذریعے حاملہ ہرنیوں کو مارنے کے رواج کی وجہ سے ہرنوں کی تمام اقسام کم ہو گئیں تھیں یا نایاب ہو گئیں تھیں۔ چاندکی دسویں رات کو اپنے ٹھکانے سے گھر کی طرف چل دیا۔

میرے پاس پانی کی مشک ، پیتل کا پیالہ، پرندے اور خرگوش پکڑنے کی کڑکیوں کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔ یہ سب چیزیں میں نے پاکھڑے پر باندھ دیں اور اونٹ کے ساتھ آہستہ آہستہ پیدل جنگل سے باہر نکلنے لگا۔میں جوں ہی سبزہ زار سے باہر نکلا۔ بھیڑے کی ابھرتی گرتی آوازسنائی دی، میں رک گیا۔ تھوڑی دیر میں نے سمت اور فاصلے کا تعین کیا اور پھر ادھر چل پڑا۔ آواز ایک اونچے ریت کے ٹیلے سے آرہی تھی۔ میں اونٹ کی گھنٹی پکڑ کر ٹیلے پر چڑھ گیا۔ میرے سامنے ۶۰ فٹ کے فاصلے پر ایک بھیڑیا پیٹ زمین کے ساتھ لگا کر بیٹھا تھا۔ گیارہ تاریخ کے چاند کی روشنی میں چار کالے پلّے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ چولستان کے بھیڑیئے انسانوں اور اونٹوں سے بالکل نہیں گبھراتے یا ڈرتے۔ میں نے آہستہ آہستہ درمیانی فاصلہ کم کرنا شروع کر دیا۔ صرف پچیس فٹ پر جا کر رک گیا۔ قریب سے دیکھنے پر پتہ چلا بھیڑیا نر نہیں مادہ ہے۔ میں نے اس خوش و خرم خاندان کو توڑنے کا اردہ ترک کر دیا۔ کسی بگڑے ہوئے امیر زادے کی احمقانہ خواہش کی تکمیل میری ذمہ داری نہ تھی۔

میرے فیصلے کو بہاول پور چڑیا گھر میں مقید سورچ کی روشنی سے محروم منہج زدہ بھیڑوں اور ان کی خلا میں گھورتی ہوئی اداس آنکھوں نے بھی تقویت دی۔ میں پلّوں کی آپس کی چھیڑ خانی سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ مادہ اٹھی اور بھٹ کی طرف جانے لگے۔ وہ بڑی مشکل سے چل رہی تھی پلّے فوراً اس کے پیچھے غائب ہو گئے۔ میں اپنے ٹھکانے پر لوٹ آیا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ مادہ کو کیا ہے۔ میں دوسرے دن دو بجے بھٹ پر گیا۔ مادہ آدھی بھٹ کے اندر اور آدھی باہر تھی۔ بری طرح ہانپ رہی تھی۔ اس کے منہ سے پانی نہیں نکل رہا تھا میں نے سوچا یہ شام تک یا رات کے پہلے پہر تک مر جائے گی ۔ اس کے پانچ ہفتے کے پلّوں کا کیا بنے گا۔ میں نے قریب ہی کیکر کے پتے کھاتے ہوئے اونٹ پر سے مشک اتاری، پیالہ لیا اور مادہ کے قریب چلا گیا۔ پیالہ مادہ کے بہت قریب رکھا اوراس میں پانی ڈال دیا۔ اس تمام عرصہ میں مادہ کی پیلی بے خوف آنکھیں مجھے دیکھتی رہیں۔ وہ بے حس و حرکت لیٹی تھی۔ میں نے پیالہ اور قریب کر دیا۔ اس نے مجھ پر سے نظر ہٹائے بغیر پانی پینا شروع کر دیا۔ میں نے کئی مرتبہ پیالے میں پانی ڈالا بالآخر اس نے پانی پینا چھوڑ دیا۔ میں نے شام تک وقفہ وقفہ سے اسے کئی مرتبہ پانی پلایا۔ شام کو میرے پھندوں میں چند جنگلی فاختائیں اور ایک خرگوش پھنس گیا۔ خرگوش میں نے زخمی مادہ بھیڑے کو کھلا دیا اوروہ زخمی بہت تھی۔ اس کے دائیں شانے سے نیچے کی طرف پنجے کے اوپر والے جوڑ تک گہرا زخم تھا۔ ہڈی صاف نظر آرہی تھی۔ گردن بائیں طرف وسط سے لے کر چوتھی پسلی تک گھاؤ تھا پچھلی دائیں ٹانگ پر دو انچ قطر کا زخم تھا۔ لگتا تھا کسی سور سے اُلجھی ہے۔ جنگل میں ایسا جانور شکار نہیں کر سکتا۔ فاقوں سے مر جاتا ہے ۔

میں تیرہ دن کچھ نہ کچھ مادہ کو کھانے کے لیے ڈالتا رہا۔اس عرصہ میں مجھے یہ بھی پتا چلا ایک بھڑیا دو کلو سے زیادہ ایک وقت میں گوشت نہیں کھاتا۔ تیرہ دن بعد جب ثریا آسمان کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی ماں بھٹ سے دور صحرا میں کھو گئی اور صبح کے قریب واپس آئی۔د و دن بعد پلّوں کے لیے کنڈ یلا چوہا مارلائی۔ اسی صبح میں گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔ سوا سال بعد چولستان میں شدید بارش ہوئی۔ میں نے بھٹ سے دو سو فٹ دور برابر والے ٹیلے پر رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ شام خوبصورت تھی۔ قرمزی اودے خاکستری کلابی بادل مون سون کی ہوا کے دوش پر شمال کی طرف سفر کر رہے تھے۔ مجھے عجیب سا احساس ہوا۔ میں نے بھٹ کے جنوب مشرق کی طرف دیکھا چار بھیڑیے نظر آئے یہ ترچھی قطار میں تقریباً بیس فٹ کے فاصلے پر کھڑے محوّیت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ ان سے دس فٹ کے فاصلے پر ان کی ماں کھڑی تھی۔ اس کے زخموں کے نشانوں پر کافی حد تک بال آگئے تھے۔ وہ بھی مجھے متجسس انداز میں دیکھ رہی تھی۔ یہ وہی پلّے تھے جو میرے بوٹوں پر دانٹ آزمائی کیا کرتے تھے اور اونٹ سے ڈر کر بھٹ میں غائب ہو جاتے تھے۔ جب میں دانت صاف کر کے مسواک پھینکتا اس سے کھیلنا شروع کر دیتے ۔ سفید سینے والا اب بھی ویسا ہی موٹا تھا۔ سرخی مائل بھورا پہلے کی طرح اب بھی سب سے اونچا تھا کانوں کے درمیان زیادہ فاصلے والا ویسے ہی شرمیلا تھا۔ چھوٹو قطار میں سب سے آگے تھا۔ وہ مجھے پہلے سے زیادہ صحت مند لگا حالانکہ وہ ماں کا دودھ کم پیتا تھا۔ جب اندھرا چھانے لگا بھیڑئے چلے گئے یا یوں کہیے غائب ہو گئے تو مجھے سونے سے پہلے مہتمم اعلیٰ کا مایوس مصنوعی غصہ سے بھرا چہرا یاد آیا جب میں نے اسے کہا تھا: ”جناب پورے بہاول پور ڈویژن میں کوئی بھیڑیا نہیں ہے“۔

تاریخ اشاعت: 2019-04-​
 
Last edited:
Brother, this is very heartbreaking. Our national assets are being looted and plundered, and no one cares. This despicable slaughter of innocent wildlife, is inviting God's wrath, and we are oblivious.
this is how things work in our country ,sadly :cry:
 

Back
Top Bottom